ایک دن کالج سے لوٹی ، امی نے بتایا کہ تمہارے چچا کے بیٹے ، یوسف کی شادی کا دعوت نامہ آیا ہے۔ تم اپنی تیاری کر لو ، بدھ کو جانا ہے۔ مجھے شادیوں میں جانا پسند نہیں تھا لیکن جس کی شادی تھی ان کے والد کی ابو کے ساتھ کچھ خفگی چل رہی تھی۔ جب وہ بیٹے کی شادی کا کارڈ لے کر آئے اور والد سے کہا کہ میں پچھلی رنجش بھلا دینا چاہتا ہوں، اس لئے دعوت نامہ دینے خود آیا ہوں تبھی والد صاحب نے ان کو گلے سے لگا لیا اور ان کی خوشی میں شریک ہونے کا وعدہ بھی کر لیا۔ اب وجہ رنجش بھی بتاتی چلوں کہ چچا حمزہ جو میرے والد کے پھو پھی زاد تھے ، اپنے صاحب زادے یوسف کے لئے میرا رشتہ مانگ رہے تھے۔ امی نے کہہ دیا کہ ابھی فریال پڑھ رہی ہے۔ ہمیں اپنی بیٹی کی شادی کی اس قدر جلدی نہیں ہے۔ یہ کالج کی تعلیم مکمل کرلے گی تب رشتہ کے بارے سوچیں گے ۔ امی کا جواب یوسف کی والدہ کو کھل گیا۔ انہوں نے بیٹے کی بات آنا فانا کہیں اور ٹھہرا دی، حالانکہ لڑکا اس جلد بازی پر راضی نہیں تھا۔ وہ مجھ ہی سے شادی کا آرزو مند تھا۔ دراصل یوسف نے مجھے کسی تقریب میں دیکھ کر پسند کر لیا تھا۔ انہی نے اپنے والدین کو ہمارے گھر رشتہ کا پیغام دے کر بھیجا تھا۔ حمزہ چچا، چونکہ دوسرے شہر میں رہتے تھے، یوں بھی میں رشتہ داروں کے گھر آتی جاتی نہیں تھی، تبھی اکثر کزنز کا مجھ سے آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ چچا حمزہ سے قریبی رشتہ ہونے کے سبب والد صاحب بھی رنجش کو بھلادینا چاہتے تھے کیونکہ زندگی بھر کے سنجوگ تو قسمت سے ہوتے ہیں، پھر پہلے سے موجود رشتے میں قطع رحمی کیوں ؟ ابو نے امی کو بھی سمجھایا کہ ہم سب کو ان کے گھر کی خوشی میں جانا چاہیے ، دونوں لڑکیوں کو بھی لے چلو ، ورنہ حمزہ بھائی محسوس کریں گے ، یوں ہم شادی پر جانے کو تیار ہو گئے۔ ہم بہنیں پہلی بار ان کے گھر جارہی تھیں ۔ چونکہ بارات پنڈی سے سیال کوٹ جانی تھی، لہٰذا تیل مہندی کی رسم سے دو چار روز پہلے ہم چچا حمزہ کے گھر چلے گئے اب ہمیں ولیمہ تک یہاں ہی رکنا تھا۔ تیل مہندی والے دن رسم کر کے ہم جب فارغ ہوئے تو سب سونے کی تیاری کرنے لگے۔
ہم لڑکیوں کو نیند نہیں آرہی تھی ، دوسرے شہر بارات جانے کی وجہ سے گھر میں مہمان زیاد ہ تھے۔ ان میں کچھ دلہن کی طرف کے لوگ بھی تھے ، لہذارات میں جس کو جہاں جگہ ملی، پڑ کر سو گئے۔ کسی کو اچھا بستر ملا کسی کو ہلکا، کسی کے حصے میں پلنگ و مسہری تو کسی کو فرش پر بچھونا ڈال کر سونا پڑا۔ فرش پر سونے والوں میں ہم چار سہیلیاں بھی شامل تھیں جو آپس میں کزنز تھیں۔ سردیوں کے دن تھے۔ فرش پر گدے اور کمبل یا رضائی کی ضرورت تھی مگر بد قسمتی سے ہم لڑکیوں کو ایک موٹی دری ملی ۔ نیند کہاں آنی تھی۔ جہاں تین چار لڑکیاں اکٹھی ہو جائیں باتیں شروع ہو جاتی ہیں ۔ اچانک چچی جان کی آنکھ کھل گئی، انہوں نے کہا۔ ارے لڑکیوں ! تم لوگ ابھی تک جاگ رہی ہو ؟ ہم ان کے ٹوکنے پر سوتی بن گئیں۔کچھ دیر بعد انعم اور نمرا کو تو نیند نے آلیا۔ میری بہن کو بھی کمبل کا ایک کنارہ آڑھا تر چھا نصیب ہو گیا ، وہ سو گئی مگر میں تقریباً کمبل سے باہر تھی۔ سردی بڑھ گئی تھی، نیند کیونکر آتی ؟ ٹھنڈ اتنی کہ جس دری پر ہم سوئے تھے ، اس میں سے بھی فرش کی ٹھنڈک جسم کے پار ہو رہی تھی۔ میری ٹانگوں پر کمبل کا صرف ایک کو نادھرا تھا، باقی بدن باہر تھا۔ بھلا ایسے میں کوئی کیسے سو سکتا ہے جبکہ فرش سے بھی ٹھنڈک ہڈیوں کے آر پار ہو رہی ہو۔ سب ہی گہری نیند سو رہے تھے ، کس کو جگاتی ؟ اجنبی گھر اور اجنبی لوگ۔ ظاہر ہے جب ایسے رشتہ داروں کے گھر جانا ہو جہاں مہمان زیادہ ہوں تو اجنبیت محسوس ہوتی ہی ہے۔ اب سردی سے بچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ میں صحن میں پڑی بستروں والی پیٹی سے کوئی کمبل یا گرم شال نکال کر لے آؤں کیونکہ چچی جان نے سونے سے قبل کہہ دیا تھا کہ اگر اوڑھنے بچھانے کو کچھ چاہیے ہو تو صحن میں رکھی پیٹی سے نکال لینا، اس میں کمبل پڑے ہوئے ہیں۔مرتا کیا نہ کرتا، ہمت کر کے صحن میں نکلی مگر یہاں ہر طرف اندھیرا نظر آیا۔ شاید بجلی چلی گئی تھی، اب تو مجھے ڈر لگنے لگا۔ اسی گومگو کی کیفیت میں تھی، اندھیرے کی وجہ سے باہر جانے کو ہمت نہ ہو پارہی تھی۔ اللہ کا نام لے کر چند قدم آگے بڑھائے اور پیٹی تک پہنچی ہی تھی کہ ایک کالی بلی جو شاید پیٹی پر بیٹھی استراحت فرمارہی تھی کودکر میرے پیروں کے پاس آ رہی اور پھر یہ جا وہ جا… اف میرے خدا ! میری روح کانپ گئی۔ مجھے لگا جیسے کوئی بھوت کا بچہ تھا، جو شرارت کے انداز میں مجھ پر کودا تھا۔ میرے منہ منہ سے ہلکی سے چیخ نکل گئی۔ میں تاروں سے مدھم روشنی کو زاد راہ بنا کر اسی کمرے کی طرف لپکی جہاں سے نکلی تھی۔ جب در پر پہنچی تب بھی پتا نہ چلا کہ میں ! س کمرے کی بجائے ساتھ والے کمرے کے دروازے پر آچکی ہوں۔ کمرے میں بیٹری سے چلنے والی ایمر جنسی لائٹ آن تھی۔ بے دھڑک اس کمرے میں چلی گئی۔
اندر قدم رکھا تو احساس ہوا کہ کسی اور کمرے میں آچکی ہوں۔ ملکی روشنی میں کوئی پلنگ پر نیم دراز تھا۔ شاید اسے بھی اس وقت نیند نہ آرہی تھی۔ مجھے اپنے کمرے میں دیکھا تو وہ اٹھ بیٹھا۔ سمجھا کہ اس کے گھر کی کوئی خاتون کسی شے کو اٹھانے آئی ہو گی۔ اس نے ایمر جنسی لائٹ میری طرف کی تو میرا چہرہ نظر آگیا۔ پوچھنے لگا کہ کسی شے کی ضرورت ہے کیا ؟ اب میں بھی اس کا چہرہ دیکھ سکتی تھی۔ وہ ایک خوبرو نوجوان تھا۔ اسے پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ معلوم نہ تھا کون ہے اور کیا نام ہے اس کا کا؟ ؟ ؟ نہیں کسی شے کی ضرورت نہیں ہے۔ غلطی سے اس کمرے میں آگئی۔ یہ کہتے ہوئے ہیں واپس پلٹی ۔ سنو فریال ! اس خوبصورت نوجوان نے جب میرا نام پکارا تو میں دم بخود رہ گئی۔ آپ میرا نام جانتے ہیں ؟ ہاں ، لیکن تم نے مجھے پہچانا نہیں شاید۔ میں یوسف ہوں تمہارا وہی کزن جس کی شادی میں تم آئی ہو۔ تم کو اس وقت کیا چاہیے ؟ مجھے بتاؤ۔ وہ، جی۔ میں ہکلانے لگی۔ سردی بہت ہے نا ! ٹھنڈ سے نیند نہیں آرہی تھی کمبل چاہیے تھا۔ ایسا کرو، تم یہاں میرے کمرے میں سو جاؤ۔ میں کہیں اور جا کر سو جاتا ہوں۔ آدھی رات کو آپ کہاں جائیں گے ؟ میری فکر نہ کرو، او پر مردانے میں بہت جگہ ہے۔ ابھی لائٹ آجائے گی تو ہیٹر چلا لوں گا۔ واقعی سردی بہت ہے۔ ابھی میں کوئی جواب نہ دے پائی تھی کہ وہ باہر جانے کو پیر میں سلیپر ڈالنے لگا۔ میں اسے روکنا چاہتی تھی اور خود باہر جانا چاہتی تھی لیکن وہ دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ دولہا صاحب آپ تکلیف نہ کریں، مگر وہ یہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا۔ ارے بھئی ، اس میں تکلیف کی کیا بات ہے۔ تم تو اس گھر میں ہماری مہمان ہو۔ اور مہمان کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ آپ اپنے کمرے میں سوئیے، بس مجھے اوڑھنے کو کوئی گرم شال وغیرہ ہے تو دے دیں مگر اس نے میری ایک نہ سنی اور یہ کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا کہ آپ میرے پلنگ پر کمبل میں سو جائیے۔ میں اوپر جارہا ہوں۔ شادی والے گھر میں ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اب میرے لئے اس کے سوا کیا چارہ تھا کہ میں اس کے بستر پر سو جاؤں کیونکہ جس کمرے میں لڑکیاں اور میں سورہے تھے ، اس کے کھلے دروازے کو بھی کسی نے بند کر کے اندر سے کنڈی لگادی تھی شاید کسی کو سردی لگی ہو گی ، اس نے اٹھ کر دروازہ بند کر دیا تھا۔ میں یوسف کی اس مہربانی پرحیران کمبل میں گھس گئی کیونکہ مجھے نیند اور سردی نے اب تقریباً حواس باختہ کر دیا تھا۔ابھی مجھے بستر میں لیے چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ وہ پھر آگیا۔ میں نے دروزہ بھیٹر دیا تھا، اس نے ہاتھ رکھا تو وہ کھل گیا۔ وہ بولا۔ معاف کرنا کزن ! جب میری آنکھ کھل جائے تو دوبارہ آسانی سے نیند نہیں آتی۔ تم ایسا کرو تکیہ کے پاس میرا مو بائل فون پڑا ہے ، مجھے اٹھادو۔ بس اب دوبارہ آکر تم کو تکلیف نہیں دوں گا۔ تم آرام سے سو جانا۔ چاہو تو کمرے کو اندر سے بند کر لو۔ ابھی وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ دروازہ باہر سے بند کرنے کی آواز آئی۔ کسی نے دروازے کی کنڈی لگا کہ ہم دونوں کو ایک ہی کمرے میں مقفل کر دیا تھا۔
ہم دونوں ہکا بکا کھڑے تھے اور یہ بات سمجھ نہ پائے تھے کہ کس نے اور کیوں دروازہ بند کیا ہے ؟ اس وقت بجلی آ گئی، صحن روشن ہو گیا اور پھر جس نے ہمیں بند کیا تھا اس نے شور مچادیا۔ میرا آدھی رات کو دولہا کے کمرے میں جانا محض اتفاق ہی تھا مگر باہر جس نے دیکھا تھا، اس نے کچھ اور سمجھا۔ اس کے ذہن نے کوئی ایسی کہانی گھڑی تھی، جس کا سد باب ممکن نہ تھا اور واقعی ایسا ہی تھا۔ بارات میں آئی ہوئی دلہن کی سوتیلی خالہ نے مجھے صحن میں آتے اور پھر یوسف کے کمرے میں جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ معلوم نہیں وہ پہلے سے صحن میں تھی، واش روم گئی تھی یا میرے تعاقب میں کمرے سے باہر نکلی تھی۔ در اصل دلہن کی یہ خالہ اپنی بھانجی کے رشتے پر قطعی خوش نہ تھی بلکہ وہ اس لڑکی کے ساتھ اپنے بیٹے کارشتہ چاہتی تھی۔ اس خاتون نے دو چار عورتوں کو اکٹھا کے کر کے وہاں ایسا شور ڈالا کہ امی ابو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ جو عورتیں باہر اکٹھا ہو گئی تھیں ، انہوں نے خود کنڈی کھولی اور اندر آئیں۔ میں تو ابھی تک یوسف کے بستر پر کمبل اوڑھے پڑی تھی اور وہ دروازے کے پاس حیران و پریشان کھڑے تھے۔ بس اتنا ہی عورتوں نے دیکھا مگر میری تو یہ حالت کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں، میں بالکل بے گناہ اور اتنی بڑی تہمت شادی والے مہمانوں سے بھرے گھر میں مجھ پر لگ گئی تھی۔ ادھر ہر ایک اور سب سے زیادہ تو اس کے ماں باپ ہی اسے لعنت ملامت کر رہے تھے۔ پہلے تو اس نے کوشش کی کہ ایسا بس اتفاقیہ ہوا ہے۔ جب کوئی بھی اس کی بات ماننے بلکہ بات سنے کو تیار نہ ہوا تو وہ بے بس ہو گیا۔ اسے اپنے سے زیادہ میرا غم تھا کہ میں اس کی بے وقوفی یا ہمدردی کی بھینٹ چڑھی اور بے موت ماری گئی تھی۔ جب حالات سوتیلی خالہ نے اور بگاڑنے کی کوشش کی تو غصے میں آکر یوسف نے اعلان کر دیا کہ ٹھیک ہے ، جو تم لوگ سمجھ رہے ہو ، ویسا ہی سہی۔ اب یہ شادی نہیں ہو گی اور اگر میری شادی اب ہو گی تو فریال سے ہی ہو گی ، جس کو گی بے قصور خالہ نے بد نام کیا ہے۔ جبکہ کنڈی بھی انہوں نے لگائی اور دروازہ بھی ، جو کھلا ہوا تھا، انہوں نے ہی بند کیا ہے۔ جب خالہ ایسی ہے تو اس خاندان کے اور لوگ کیسے ہوں گے ۔ اگر اصل بات بھی ہو تو شرفا اس طرح بازار نہیں لگاتے ، جیسا انہوں نے کیا ہے۔ ہمیں کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہنے دیا ہے۔ امی ابو نے مجھ سے پوچھا، لیکن اس وقت میرے اوسان ایسے خطا تھے کہ زبان سے ایک لفظ نہیں نکلتا تھا، بس روئے جاتی تھی۔ میں کیسے ان کو بتائی کہ میں تو بس کمبل لینے گئی تھی۔ یہ بد نامی میری قسمت میں لکھی تھی، مجھے مل گئی۔ میری غلطی بس اتنی تھی کہ جب سردی لگی تھی تو گھر کی کسی عورت یالڑ کی کو جگادیتی۔ کیا خبر تھی کہ بجلی چلی جائے گی۔ کیا خبر تھی کہ صحن میں بھی اندھیرا ہو گیا۔ بستروں والی بیٹی تو صحن میں سامنے ہی نظر آرہی تھی جو برآمدے میں رکھی گئی تھی۔ سوچا کہ اس کو کھول کر رضائی گدا، و غیر ہ جو پڑا ہو گا اٹھالوں گی۔ اس وقت کسی کو کیا جگانا، سبھی تو تھکے ہوئے، گہری نیند سورہے تھے۔ خبر نہ تھی کہ بس ایک ہی عورت دلہن کی خالہ میری بدنامی کی صورت جاگ رہی ہے۔ خالہ بھی وہ، جس کا ذہن شیطانی اور دیدے اس قدر تیز تھے کہ اندھیرے میں بھی دیکھ سکتی تھی اور دور کی کوڑی لا سکتی تھی۔ وہ تو سمجھی ہو گی کہ دلہا کو بد نام کر رہی ہے۔ مجھے بھلاوہ کیا جانتی تھی مگر میری قسمت دو کوڑی کی کر دینے والی یہ نہ سمجھ سکی کہ عزت دینے والا بھی وہی میرا خالق ہے ، جو ذلت دینے والا ہے۔ اس کی ذات سب سے بڑی اور ہر شے کا وہی علیم ہے۔ اس انجام یہ ہوا کہ یوسف کی بارات سیالکوٹ نہ گئی اور چچا جان نے ابو جان سے صلاح و مشورہ کر کے نے پھر میری بگڑی تقدیر کو اس طرح بنادیا کہ مجھ پر افسوس کرنے والے ، ہننے والے ، سب ہی دم بہ خود رہ گئے۔ ہر بری شے کا بھی ایک انجام ہوتا ہے، جیسے ہر اچھے عمل کا ایک انجام ہوتا ہے۔ بس وہ ذات کریم ایسی منصف ہے ، جو نیتوں کو دیکھتی ہے اور دلوں کا حال بھی اس کو معلوم ہوتا ہے جو کسی کو معلوم نہیں ہوتا، س میرا رشتہ یوسف کے لئے مانگ لیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو گلے لگالیا اور دنیا کی باتوں کی پروانہ کی، کیونکہ یہ دانا بزرگ اس کم ظرف خالہ کے اوچھے وار کو سمجھ گئے تھے۔ اس طرح میرے مقسوم میں یوسف کی شریک حیات ہونا لکھا تھا اور مقسوم کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے۔