Thursday, October 10, 2024

Zaalim Kon

ریحانہ خالہ میری والدہ کی دور کی رشتہ دار تھیں ان کی شادی اپنے ایک رشتہ دار سے ہو گئی جن کا نام سلیم احمد تھا۔ اچھا کما لیتے تھے۔ ریحانہ خالہ کے والدین وراثت میں ایک مکان چھوڑ گئے تھے اور یہ مکان ریحانہ کو مل گیا تھا۔ سلیم احمد کرائے کے گھر میں قیام پذیر تھے مکان کا قبضہ حاصل کرتے ہی وہ اس میں شفٹ ہو گئے۔ سلیم احمد کو ترقی کرنے خبط تھا – وہ ہر وقت بیوی سے کہا کرتے تھے اگر میرے پاس پاس کچھ  سرمایہ ہوتا تو میں اپنے کاروبار کو بڑھا سکتا تھا اس طرح ہم بہت خوشحال ہو جاتے ۔ ریحانہ ان کو قناعت اور صبر کی تلقین کرتی تھیں۔ اللہ تعالی نے ان کو اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔ جب شادی کو چھ برس گزر گئے تو سلیم احمد نے ریحانہ سے کہا کہ اللہ نے اولاد سے نہیں نوازا تو کیوں نہ مکان بیچ دیں ہمارے بعد نجانے کس کے قبضے میں چلا جائے۔ جو زندگی ہے دولت کے مزے تو لیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مکان کی رقم سے کاروبار کو وسعت دیں  گھر بھی دوبارہ مل جائے گا۔ریحانہ خالہ نے کہاذاتی گھر ایک نعمت اور پر سکون ٹھکانہ ہوتا ہے۔ ایک گھر بنانے میں عمریں لگ جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ اولاد کی تمنا کریں جو انسان کی زندگی کی اصل خوشی ہوتی ہے۔ اولاد تو ہو نہیں سکتی۔ سلیم احمد مایوسی سے جواب دیتے تب ریحانہ خالہ کا دل بجھ کر رہ جاتا کیونکہ ان کو اپنے شوہر سے بہت محبت تھی اور وہ خود کو بانجھ اور مجرم سمجھتی تھیں۔ اپنے اس احساس سے نجات پانے کی خاطر انہوں نے شوہر سے اصرار کر نا شروع کر دیا کہ وہ اور شادی کر لیں۔

دن رات کان کھاتیں بالآخر اپنے جیون ساتھی کو دوسری شادی پر مجبور کر دیا۔ شوہر کو خوش دیکھنے کی خاطر اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی۔ خود رشتہ داروں میں لڑکی تلاش کی۔ اپنے ہاتھوں سے شوہر کو دولہا بنا کر سہرا باندھا۔ جو زیور پاس تھا اور قیمتی جوڑے سب نئی نویلی دلہن کی نذر کر دیئے۔ اس طرح قربانی کی انوکھی مثال قائم کرنے کے شوق میں اپنی قسمت پھوڑ لی۔ سوچاتھا سوتن کو سکھ دوں گی بڑی بن کر رہوں گی اور حسن سلوک سے اس کو رام کر لوں گی مگر سوتن پھر سوتن ہوتی ہے۔ ریحانہ خالہ کے لاکھ حسن سلوک نے بھی اس عورت کو رام نہ کیا اور ریحانہ خالہ کی گھر میں موجودگی اسے کھلنے لگی وہ چاہتی تھی کہ کسی شوہر کی پہلی بیوی گھر سے چلی جائے اور وہ بلا شرکت غیرے اس گھر کی مالکہ بن جائے۔ شادی سے قبل سلیم کہا کرتے تھے۔ اے بیوی تم میری دوسری شادی کرانے پر مصر ہو لیکن اگر اس عورت سے بھی اولاد نہ ہو سکی تب کیا کرو گی۔ ریحانہ جواب دیتی تھی ، ضرور اللہ تعالی ہم پر رحم کرے گا اور ہم اولاد کی خوشی دیکھیں گے۔ میں نے منت مانی ہے کہ اللہ تعالی اگر آپ کو بیٹا دے گا تو میں یہ مکان آپ کے نام کر دوں گی اور اس کا وارث ہمارا بیٹا ہو گا۔ اللہ تعالی نے ریحانہ کی سنی، سوتن کی کوکھ سے سلیم احمد کا وارث پہلا بیٹا ہو گیا تو سلیم نے ریحانہ کو منت یاد دلائی انہوں نے خوشی خوشی اپنا مکان شوہر کے نام کر دیا۔ سلیم کے دل میں تو عرصہ سے یہی آرزو تھی کہ کسی طرح یہ مکان ان کے نام لگے۔ وہ اسے بیچ کر کاروبار میں روپیہ ڈالیں اور امیر آدمی ہو جائیں پھر سارا کنبہ عیش کرے گا  کار بنگلہ ہو گا۔ مزے آجائیں گے۔

ایک انسان ایسے ہی خواب دیکھتا ہے۔ انہوں نے ایک روز چپکے سے مکان بیچ دیا اور کرائے کے مکان میں آ گئے ریحانہ کو اس بات کا قلق ہوا مگر وہ اس وجہ سے خاموش ہو گئیں کہ اللہ نے اس گھر کا چراغ تو دے دیا ہے کوئی بات نہیں گھر پھر بن جائے گا۔ خاوند کو اگر کاروبار وسیع کرنے کا ارمان ہے تو یہ بھی پورا کرلے۔ کیا خبر اللہ تعالی برکت دے دے اور دولت ہونے کا خواب پورا ہو جائے۔ بیٹا ہوا سو تن کا مزاج آسمان سے باتیں کرنے لگا ، اب تو گھر بھی ریحانہ سے اینٹھ لیا تھا پھر کس بات کا لحاظ باقی رہا۔ وہ اولاد والی تھی اس کا پلڑا بھاری تھا، اسے نکالنے کے درپے ہو گئی۔

ریحانہ چپ چاپ گیلی لکڑی کی طرح سلگنے لگی۔ سوتن کی زیادتی برداشت کرتے کرتے بیمار پڑ گئی۔ اب کبھی کبھی سلیم احمد کا ضمیر اسے ملامت کرتا ایک نظر التفات بیچاری ریحانہ پر ڈالتا تو سو تن جل اٹھتی وہ جھگڑتی گھر کے برتن توڑتی اور ایک ہنگامہ اٹھا دیتی تھی مجبورا اسے دوسری بیوی کی پاسداری کرنی پڑتی اور ریحانہ سے ہمدردی سے گریز کرنے لگا۔  ایک روز جبکہ سلیم احمد گھر پر نہ تھا۔ اس کی دوسری بیوی نے ریحانہ سے بہت جھگڑا کیا اور برتن اٹھا اٹھا کر اس پر پھینکنے لگی۔ اس صورت حال سے گھبرا کر ریحانہ خالہ ہمارے گھر چلی آئیں کیونکہ ان کا ہمارے سوا کوئی نہ تھا۔ جب سلیم احمد گھر آئے نئی نویلی دلہن نے خوب ریحانہ خالہ کے خلاف باتیں کر کے ان کے کان بھرے اور واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ مجھے رکھو یا پھر پہلی بیوی کے ساتھ رہو۔ میں تو میکے چلی۔ سلیم احمد کو اپنے بیٹے سے بہت پیار تھا لہٰذا وہ اس دھمکی کو چپ چاپ سہہ گئے اور ریحانہ کو تلاش کرنے کی بھی زحمت نہ کی کہ کہاں چلی گئی ہے۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے دور آبادی میں ایک مکان خرید لیا اور کرایہ کا گھر چھوڑ کر چلے گئے کسی کو نہ بتایا کہ کہاں گھر لیاہے۔

دو ماہ بعد خالہ ریحانہ نے گھر جانے کی خواہش کی امی اور بھائی ان کے ساتھ گئے مگر پڑوسیوں نے بتایا کہ وہ مکان چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور جاتے ہوئے اپنے گھر کا پتہ بھی بتا کر نہیں گئے۔ یہ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے۔ اب خالہ ریحانہ کہاں جاتیں ؟ اس وقت کو کوسنے لیں جب گھر سے قدم نکالا تھا۔ شوہر کی بے التفاتی کا دکھ ان کو کھانے لگا۔ ہمارے مکان سے متصل ایک کو ٹھری تھی جس میں ایک چار پائی جتنی جگہ تھی خالہ نے اس میں رہنا قبول کر لیا اور کوئی چارہ نہ تھا۔  محلے والوں کو ان کے حالات کا علم تھا وہ ان کی ہر ممکن مدد کرتے تھے اور ان کی بچیاں بھی قرآن پاک پڑھنے ان کے پاس آیا کرتی تھیں یوں وہ زندگی کے دن گزارنے لگیں۔ چودہ برس انہوں نے صبر شکر سے گزار دیئے اور کسی کو شکایت کا موقع نہ دیا۔ ایک دن ہم اسلام آباد گئے تو اچانک سلیم احمد بھائی مل گئے۔ انہوں نے بتا یا کار و بار خوب چل نکلا تو وہ اب اسلام آبادمیں شفٹ ہو گئے ہیں اور یہاں اپنا بنگلہ لیا ہے۔ وہ کافی امیر ہو گئے تھے۔ بھائی نے ریحانہ خالہ کے بارے میں دریافت کیا تو بولے کہ ان کی وفات ہو چکی ہے۔ یہ جواب سن کر ابو اور بھائی تو سکتے میں آگئے گھر آکر خالہ کو بتا یاوہ بھی غمزدہ ہو گئیں پھر بولیں اگر انہوں نے مجھے مرا ہوا سمجھ لیا ہے تو یہی سہی۔ شاید کہ ان کی خوشی میرے مر جانے میں ہے۔ والدہ اور والد صاحب نے بہت کہا کہ ہم آپ کو سلیم احمد کے گھر لئے چلتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کیسے نہیں رکھتا۔ مگر ریحانہ خالہ نے جانے سے انکار کر دیا بولیں میں یہاں عزت سے زندگی کے دن گزار رہی ہوں۔ بس یہیں ٹھیک ہوں۔ میری غیرت اب ان کے ٹکڑوں پر پلنا گوارا نہ کرے گی۔

والد صاحب اور بھائی اسلام آباد سلیم صاحب کو سمجھانے گئے کہ تمہاری بیوی ہمارے گھر میں آکر لے جائے وہ بھی لے جانے پر راضی نہ ہوئے بولے۔ دوسری بیوی کو یہ بات گوارا نہیں ہو گی وہ روٹھ کر چلی جائے گی تو میرے چار بچے در بدر ہو جائیں گے اب میں نے ریحانہ کی جدائی سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ میری پر سکون زندگی میں طوفان نہ لائے تو احسان مند رہوں گا۔ ریحانہ بی بی سے ہم کو کوئی تکلیف نہ تھی وہ اپنی ذات کا خرچہ خود اٹھاتی تھیں۔ قسمت کا لکھا سمجھ کر ہم نے ان کو رہنے دیا۔ وہ بچیوں کو سپارہ پڑھاتیں محنت مشقت سے روزی کماتی تھیں۔ ایک دن کسی نے بتایا کہ سلیم احمد فوت ہو گئے ہیں۔ ریحانہ خالہ سے والدہ نے ذکر کیا تو بہت غم کیا یہاں تک کہ ذہن پر ایسا ثر ہوا بیٹھے بیٹھے اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگیں۔ اب ان کا ذہنی توازن کچھ ٹھیک نہ رہا تھا۔ کہتی تھیں وہ چلے گئے۔ اکیلے ہی۔ مجھے بھی ان کے پاس جانا ہے۔ یہاں رہ کر کیا کروں گی۔ رہ ایک روز اچانک گھر سے نکل پڑیں۔ اپنے لئے گلی کی نکڑ تک سبزی لینے گئی تھیں واپس نہ لوٹیں۔ بہت تلاش کیا نہ ملیں۔ گمشدگی کے تین ماہ بعد ایک دن بازار میں سڑک پر بھیک مانگتی نظر آئیں۔ ان کی حالت دیکھ کر صدمہ ہوا۔ ہم نے پکڑ کر گاڑی میں بٹھایا۔ گھر لا کر امی نے نہلا یاد ھلایا۔ صاف کپڑے پہنائے۔ کچھ روز بعد اپنے حواسوں میں آگئیں تو بتایا کہ مجھے کچھ لوگ پکڑ کر لے گئے تھے ، نیند کی دوا کھلا کر سلا دیتے تھے۔ پھر سڑک پر بھیک منگوانے لگے نگرانی کرتے تھے شام کو بھیک کی رقم سمیٹ لیتے تھے۔ یہ گروہ ہے جس کا کام ہی ہم جیسے لاچار لوگوں سے بھیک منگوانا ہے۔ میری طرح اور لوگ بھی ان کے چنگل میں پھنسے ہیں ان کو نشہ کی دوا کھلاتے ہیں۔ ہم ان کا بہت خیال رکھنے لگے ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہ رہی  تھی۔ نشے کی عادی ہو گئی تھیں اور کبھی کبھی بہکی بہکی باتیں کرتی تھیں اور یادداشت کھو جاتی تھی تو پہچانتی نہ تھیں۔ ایک روز ذراسی غفلت سے دروازہ کھلا رہ گیا تو نکل گئیں اور غائب ہو گئیں۔ بہت تلاش کیا مزاروں، مسجدوں چرسیوں کے اڈوں پر دیکھا نہ ملیں۔ وہ دن اور آج کا دن … ڈھونڈتے رہے مگر ریحانہ کا سراغ نہیں ملا۔ خدا جانے کہاں ہیں۔ جہاں ہوں اللہ ان کی حفاظت کرے زندہ ہیں تو ان پر زندگی کے دن آسان کر دے اگر اس جہان میں نہیں رہیں تو خداوند کریم ان کی مغفرت کرے۔ آج تک یہ بات سمجھ نہ سکی کہ ریحانہ خالہ نے خود پر ظلم ڈھایا یا ان کے شوہر نے ان پر ستم کئے یا پھر وہ قسمت ہی ایسی لے کر آئی تھیں۔

Latest Posts

Related POSTS