سعد بھائی ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ سب ان کو بھائی جان کہتے ۔ جب ان کی شادی ہوئی اور ثریا ان کی دلہن بن کر آئی تو وہ محلے بھر کی بھا بھی مشہور ہو گئی۔ ثریا بھابھی یوں تو بہت اچھی اور اخلاق والی تھیں لیکن کچھ کاہل سی تھیں۔ گھر کے کام کاج کو ایک بڑا معرکہ سمجھتی تھیں۔ سعد بھائی نے ایک جز وقتی ملازمہ رکھ دی، جو کافی کام نمٹا جاتی تھی۔ بھابھی پھر بھی ، ہائے ہائے کرتیں کہ یا اللہ اس گھر میں کام کرتے کرتے مری جاتی ہوں۔ میکے میں امی اور بہنیں سارا کام کرتی تھیں، میں تو ہل کر پانی بھی نہ پیتی تھی۔ سعد بھائی نرم خو اور اعلی ظرف قسم کے انسان تھے۔ وہ آفس سے تھکے ہارے آتے تو بیوی کی آہ و زاری سن اپنے کام خود کر لیتے، اس پر یہ جگت بھابھی اور بھی سر چڑھ گئیں۔ شادی کے دو سال بعد اللہ تعالی نے انہیں یکے بعد دو بچوں سے نواز دیا تو بچوں کی پرورش ان کی مشکل ترین ذمہ داری بن گئی۔ ان کی دیکھ بھال سے وہ گھبرا اٹھیں اور گھر تو ایک طرف، خود اپنے سراپا سے بے نیاز نظر آنے لگیں۔ کبھی بیٹا بیمار ، تو کبھی بیٹی کو بخار ہے۔ تمام وقت ان سے بچوں کے چھوٹے موٹے کام ہی ختم نہ ہو پاتے تھے۔ کسی کے گھر آنا جانا ملنا ملانا سب ختم کر دیا، بس بچوں کی ہو کر رہ گئیں تھیں۔ ان ہی دنوں سعد بھائی کے چھوٹے بھائی بھابی کار حادثے میں انتقال کر گئے۔ صرف ایک ننھا بچہ معجزانہ طور پر بچ گیا۔ سچ ہے ، جسے اللہ رکھے ، اسے کون چکھے۔ اس خوش نصیب بچے کی بد نصیبی کہ ماں باپ دونوں کا سایہ نہ رہا۔ قریبی عزیز سعد بھائی ہی تھے ، جو اس کے وارث تھے۔ وہ یتیم بھتیجے کو گھر لے آئے اور بیوی کی گود میں دے کر کہا۔ اللہ تعالی نے اب تین نعمتیں ہم کو سونپ دی ہیں۔ اس یتیم بچے کو بھی ہم نے پالنا ہے۔ تم اس کا خیال ایک ماں کی طرح کرنا اور اس کو ممتا کی کمی محسوس نہ ہونے دینا۔ مجھے امید ہے کہ میرے یتیم بھتیجے کی پرورش بھی اسی طرح پیار سے کرو گی جس طرح اپنے بچوں کی کر رہی ہو۔ ثریا بھابھی سے تو اپنے بچے ٹھیک طرح نہ سنبھلتے تھے، وہ دیور کا بچہ کیسے پالتیں۔ چلا کر بچے کو پیچھے کر دیا کہ وہ شوہر کے ہاتھوں سے گرتے گرتے بچا۔ نہیں سعد، یہ مجھ سے نہ ہو گا۔ میں نہیں پال سکتی کسی دوسرے کا بچہ ، راتوں کو اٹھنا اور جاگنا کوئی آسان کام ہے۔ میں تو پاگل ہو جاؤں گی۔ سعد بھائی کو بیوی سے یوں ٹکے سے جواب کی امید ہر گز نہ تھی۔ وہ بیوی کا منہ تکنے لگے ، سمجھایا کہ یہ پرایا نہیں میرا اپنا خون ہے مگر ثریا کسی صورت بھی بچے کو گود لینے پر راضی نہ ہوئی۔ چونکہ خاندان بھر میں بچے کو پالنے والا کوئی نہ تھا لہذا سعد صاحب کو اپنا ننھا بھتیجا لاوارث بچوں کے ایک ادارے کے سپرد کرنا پڑا۔ ایسا کرتے ہوئے ان کو بہت دکھ بھی ہوا کیونکہ تایا کے ہوتے بچہ لاوارث نہیں ہوتا، مگر مجبوری تھی، حالانکہ انہوں نے کئی دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی ذکر کیا تھا مگر اس طفل معصوم کو کوئی بھی لینے کو آمادہ نہ ہوا۔
تین ماہ گزر گئے ، عید سر پر آگئی۔ ثریا بھابھی نے بڑے ذوق شوق اور پیار سے اپنے بچوں کے کپڑے سلوائے اور ان کے لئے خریداری کی۔ ایسا کرتے ہوئے ان کو ذرا بھی دیور کے بچے کا خیال نہ آیا۔ آج اگر اس کے ماں باپ زندہ ہوتے تو اس پھول بدن کے لئے بھی خوبصورت لباس کا اہتمام کیا جاتا۔ اپنے بچوں کو نئے لباس میں دیکھ کر سعد بھائی کو اس بات کا بہت ملال ہوا کہ وہ اپنے گھر میں اپنا یتیم بھتیجا نہیں لا سکتے۔ عید کے روز بھابھی نے اپنے بچوں کو نہلا دھلا کر تیار کیا، نئے کپڑے، جوتے پہنائے اور پھر ان کو ساتھ لے کر اپنے میکے عید ملنے چلی گئیں۔ وہاں وہ باتوں میں ایسی مشغول ہوئیں کہ بچوں سے توجہ ہٹ گئی اور چار سال کا بیٹا چھت پر چلا گیا۔ وہاں وہ ایک چھوٹی سی دیوار پر چڑھ گیا اور توازن برقرار نہ رکھ سکنے کے باعث بلندی سے نیچے گر گیا۔ بھابھی جو تھوڑی دیر پہلے اپنے معصوم لخت جگر کو بنا سنوار کر عید ملنے آئی تھیں اس کی ننھی سی لاش پر گری دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ وہ خون میں لتھڑا ہوا تھا۔ بلندی سے گرتے ہی اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ کئی ماہ تک ثریا بھابھی اس صدمے سے نڈھال رہیں۔ کھانا پینا چھوٹ گیا، سوکھ کر کانٹا ہو گئیں۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے اور روتے روتے آنکھوں کے سوتے بھی خشک ہو گئے۔ پاس پڑوس کی عورتیں دلجوئی کو آتیں ، ماں اور بہنیں ان کو مشیت ایزدی پر صبر تلقین کرتیں، مگر یہ کسی بت کی مانند خاموش بیٹھی خلاؤں میں گھورتی رہتی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ زخم مندمل ہونے لگا۔ میاں نے بھی بہت سمجھایا کہ خدا کی یہی مرضی تھی۔ صبر کرو۔ اللہ تعالی ان بچوں کا نعم البدل مزید اولاد کی صورت دیں گے۔ خدا خدا کر کے صبر آیا تو دو لقمہ کھانے لگیں۔ سارے دن میں ایک دو بار چند گھونٹ پانی کے بھی حلق میں اترنے لگے۔ دل نے غم کو بھلایا تو نہیں مگر اپنے اندر جذب کر لیا ۔ اب یہ لبریز جام کی طرح چھلکتا نہ تھا، مگر دل میں درد ہوتا رہتا تھا۔
ایک دن صبح صبح وہ اٹھ گئیں۔ سوچا بہت دنوں سے فیصل کے غم میں ڈوبی ہوں اور جو میری بچی زندہ سلامت ہے ، اس سے غفلت برت رہی ہوں۔ وہ بیچاری سارا دن سہمی سہمی ادھر ادھر پھرتی رہتی ہے۔ اسے نہلانے دھلانے کا خیال بھی کئی دنوں بعد آتا ہے۔ صورت اس کی یتیم بچوں کے جیسی ہو گئی ہے۔ انہوں نے ماریہ کی طرف دیکھا۔ بچی کتنی میلی ہو رہی ہے ، اس کی طرف دھیان ہی نہیں۔ یہ سوچ کر بھابھی نے ماریہ کو نہلا دھلا کر کپڑے پہنائے اور جوتے پہنانے لگیں۔ ابھی ایک پاؤں میں جوتا پہنا کر دوسرے میں بچی نے پاؤں ڈالا ہی تھا کہ وہ رونے لگی۔ وہ پاؤں جوتے میں ڈالنے لگتیں تو بچی خوف سے رونے لگتی اور جھٹکے سے پاؤں باہر نکال لیتی۔ بھابھی کو تبھی غصہ آگیا کہ یہ کیا تماشہ کر رہی ہے۔ اسے ڈانٹ کر پاؤں پکڑا اور زبردستی گھسیٹ کر جوتا پہنایا اور اسے وہیں چیختا چلاتا چھوڑ کر ، اس کا ربن اور کنگا لینے کمرے میں چلی گئیں۔ جب ماریہ کی چیخیں بلند ہو گئیں تو وہ باہر بھاگئیں کہ دیکھوں آخر بات کیا ہے، جو اتنا بلک کر رو رہی ہے۔ دیکھا کہ زمین پر گری زور زور سے ٹانگیں چلا رہی ہے۔ اب بھی بھابھی کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات ہے اور ان کی بیٹی کسی تکلیف میں مبتلا ہے ، مگر ماریہ کے چہرے سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ شدید تکلیف میں ہے، جس کو براشت کرنا اس کے بس سے باہر ہے۔ ڈاکٹر تک پہنچتے بچی ہلکان ہو گئی۔ اس کی ٹانگ نیلی پڑ گئی۔ وہ بے ہوش تھی۔ ڈاکٹر نے ٹیبل پر لٹایا، ہلایا جلایا اور جوتے اتارے تو پتا چلا کہ جوتے کے اندر کالا بچھو تھا جس نے ماریہ کو تین چار بار ڈنگ مارا مگر ثریا بھابھی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ ڈاکٹر نے جو تا جھٹکا تو بچھو فرش پر گر گیا، یہ انتہائی زہریلا تھا، جس کا زہر ماریہ کے بدن میں پھیل چکا تھا۔ وہ جانبر نہ ہو سکی۔ یوں بھابھی بیچاری کی ہری بھری گود اجڑ گئی۔ وہ نیم پاگل سی ہو گئیں ، حواس کھو بیٹھیں۔ یکے بعد دیگرے دو جان لیوا حادثوں نے ان سے زندگی کی ہر خوشی چھین لی۔ سبھی کہتے تھے اس بے چاری پر یہ افتاد کیونکر ٹوٹی؟ مگر اس سوال کا جواب کس کے پاس تھا، اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں وہی جانے۔ سعد بھائی نے بیوی کی دلجوئی میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی مگر وہ اس المیہ کے بعد نارمل نہ ہو سکیں۔ ہر وقت اپنے گڈے اور گڑیا کو یاد کرتی تھیں، ان سے باتیں کرتی تھیں جیسے وہ زندہ ہوں اور ان کے سامنے بیٹھے ہوں۔ ان کے کپڑے دھو دھو کر استری کر کے رکھتی تھیں۔ ان کے کھانے کے برتن، کھلونے، ان کی ہر شے سنبھالی ہوئی تھی۔ جب سوتیں تو اپنے ایک جانب گڑیا اور دوسری جانب گڈا لٹا لیتیں اور جب تک آنکھ نہ لگ جاتی ان کو بھینچ بھینچ کر پیار کرتیں اور ان سے باتیں کرتیں۔ ماہر نفسیات سے بہت علاج کروایا مگر ان کے دل کا زخم ہرا ہی رہا۔ اپنے طور پر اک روز سعد بھائی یتیم خانے سے اپنا بھتیجا بھی لے کر آئے کہ شاید اس بچے سے دل بہل جائے اور ان کی پیاسی ممتا کو سکون مل جائے مگر اسے دیکھ کر وہ اور زیادہ رونے، چلانے لگیں، جیسے کسی نے ان کے دل کے زخم کو چھیل دیا ہو۔ ان کو اپنے بچے اور زیادہ شدت سے یاد آنے لگے۔ یہ بدنصیب بچہ ان کے غم کا مداوا نہ بن سکا اور سعد بھائی یہ سوچ کر بچے کو واپس لے گئے کہ کہیں انہیں دورہ پڑ جائے تو اس بچے کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ کیا خبر ان کو اب یہ خیال آتا ہو کہ اس بچے کو میں نے دھتکارا تھا، گھر میں نہیں رہنے دیا تھا تو اسی کارن میرے بچے بھی میرے پاس نہیں رہے۔ انسان اپنے حواس کھو دے تو کچھ بعید نہیں کہ وہ کیا حرکت کر بیٹھے کیونکہ بھابھی کا دماغی توازن تو صحیح رہا نہیں تھا۔ اللہ تعالی اس حاثے کے بعد اولاد دے دیتا تو شاید سنبھل جاتیں۔ اللہ کی مرضی کہ پھر اولاد کی خوشی بھی نہ ملی۔ آج تک بھابھی کھوئی کھوئی رہتی ہیں۔ دوسروں کے بچوں کو تکتی ہیں تو خود سے باتیں کرنے لگتی ہیں اور ہر وقت ایک گڑیا اور ایک گڈا اپنے پاس رکھتی ہیں۔