Sunday, December 15, 2024

Zakhmon ki Dastaan

یہ میرے والد کی داستان حیات ہے۔ ہم زمیندار لوگ ہیں۔ میرے دادا نے کافی زمین چھوڑی تھی جس کا تنہا وارث میرا باپ بنا کیونکہ دادا کی صرف ایک ہی اولاد نرینہ تھی۔ باقی اولادیں جو لونڈیوں باندیوں سے ہوئیں ، اس کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملا۔ میرے والد کی شادی دادا جان نے پندرہ سال کی عمر میں کر دی تھی۔ اس وقت وہ صاحب شادی کے مفہوم سے بھی نا آشنا تھے۔ میری والدہ میرے والد سے عمر میں تقریبا دس سال بڑی تھیں۔ جب میرے بابا جان جیون ساتھی کے تصور سے آگاہ ہوئے تو والدہ ڈھلتی عمر کے کنارے پہنچ چکی تھیں۔ ہم دو بھائی اور ایک بہن تھے ، دولت کی کوئی کمی نہ تھی۔ لہٰذا ہماری پرورش بہت ناز و نعم سے ہو رہی تھی۔ گھر بھی بظاہر پُر سکون نظر آتا تھا۔ میری والدہ شریف الطبع خاتون تھیں۔ انہوں نے کبھی والد صاحب سے جھگڑا نہ کیا اور نہ ہی ان کی غیر معقول قسم کی سر گرمیوں پر روک ٹوک رکھی۔ یہ وجہ تھی کہ دونوں کا وقت اچھا گزر رہا تھا۔ امی جان کی قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بابا جان نے دوسری شادی بھی نہ کی، یہاں تک کہ ہم تینوں بچے جوان ہو گئے۔ ان دنوں میں اٹھارہ سال کی اور میرا بڑا بھائی ہیں سال کا تھا جب یہ واقعہ ہوا۔ ہمارے گائوں سے کچھ میل دور ایک قبیلہ آباد تھا۔ ہم ان لوگوں کو زیادہ نہیں جانتے تھے، بس انہوں نے ہمارا اور ہم نے ان کا نام ہی سن کر رکھا تھا۔ اس قبیلے میں ایک شادی ہوئی تو میرے بابا جان کو دعوت ملی۔ یہ دعوت انہوں نے بابا جان کو اس لئے بھجوادی تھی کہ وہ علاقے معزز لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ چونکہ قبیلے والے بابا جان کو ایک باعزت شخصیت گردانتے تھے۔ انہوں نے بڑی آئو بھگت کی اور نکاح کے وقت کچھ آدمیوں کے ہمراہ ان کو بھی اندر کمرے میں بھیج دیا کہ آپ دلہن سے کچھ ان کو میں کہ نے میوں کے ہمراہان کو بھی اندر کمرے میں بھیج دیا کہ آپ واہن ہے نکاح کا عندیہ لیں۔ نیز مولوی صاحب نے بھی کہا کہ آپ چونکہ بزرگ ہیں اس لئے آپ لڑکی سے پوچھیں کہ تم کو فلاں کے لڑکے کے ساتھ رشتہ منظور ہے یا نہیں۔

جب میرے بابا جان نے اس دلہن جنداں سے پوچھا کہ تجھ کو فلاں ابن فلاں کے ساتھ یہ نکاح منظور ہے تو لڑکی نے صاف انکار کر دیا کہ مجھ کو ہر گز یہ شخص بطور شوہر منظور نہیں ہے۔ میرے ساتھ زبردستی ہورہی ہے۔ یہ سنتے ہی وہاں برادری میں شور مچ گیا۔ لڑکی کے باپ اور بھائیوں نے کلہاڑیاں سونت لیں کہ آج ہم اس کے ٹکڑے کر ڈالیں گے۔ اس نے بھری برادری میں ہماری عزت خاک میں ملادی ہے۔ اس دن اگر بابا جان بطور معزز مہمان موجود نه ہوتے تو یقیناً وہ دلہن اسی وقت قتل ہو جاتی مگر قبیلے والے مہمان کی بات کا احترام کرنے پر مجبور تھے۔ بابا جان نے کہا کہ دیکھو بھائیو ! یا تو تم مجھ کو اس شادی میں مدعو نہ کرتے اور اب اگر تم نے مجھے اس قدر عزت بخشی ہے تو میری رائے کا احترام بھی تم پر لازم ہے۔ تم لڑکی کو قتل نہیں کروگے۔ میں اس لڑکی کی جان کی امان چاہتا ہوں، باقی جو شرط تم رکھو وہ مجھے منظور ہے۔ کچھ مردوں نے شور مچایا کہ نہیں، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہم ایسی عورت کی زندگی کی امان نہیں دے سکتے جو اس قدر بے حیا ہے۔ اس کا قتل کیا جانا ہی ٹھیک ہے تا کہ آئندہ کبھی کوئی عورت اس قسم کی جرات دوبارہ نہ کر سکے۔ لڑکے تا کہ کر والے خاص طور پر اس بات پر مصر تھے کہ دلہن جنداں کے بھائی اس کو فوراً قتل کر کے خود تھانے میں پیش ہو جائیں۔ دلہن کے باپ نے کہا غیرت مند کے لئے پھانسی کا پھندا شجاعت کا نشان ہوتا ہے۔ کم از کم برادری اور قبیلے والے تو ایسے مردوں پر فخر کرتے ہیں۔ باقی قانون کیا کہتا ہے ، اس کی ہم کو پروا نہیں۔ بڑا ہنگامہ ہوا، بابا جان کسی صورت لڑکی کے قتل کئے جانے پر آمادہ نہ تھے۔ وہ اس دروازے کی چوکھٹ پر سے ہٹتے ہیں نہ تھے۔ بابا جان کے اصرار اور سمجھانے پر بالآخر جنداں کے باپ اور بھائیوں نے کلہاڑیاں نیچے کر لیں لیکن انہوں نے لڑکی کو اپنے گھر رکھنے سے انکار کر دیا۔ بابا جان نے لڑکی کی جان بخشی کے عوض اپنے پلے سے تاوان کی رقم جو انہوں نے برادری کے مشورے سے طے کی ادا کر دی اور جندال کو اپنے گھر لے آئے۔ جنداں بڑی خوبصورت تھی۔ وہ اندھیرے کمرے میں بیٹھتی تو اس کا چہرہ ایسا چمکتا تھا کہ جیسے تاریکی میں دیے کی لو۔ جب وہ بابا جان کے ساتھ گھر آئی تو اس کو دیکھ کر ہم سب کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ میری بہن اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی کہ گھر میں اس کی ہم عمر آئی تھی۔ مگر ماں کا رنگ جنداں پر نظر پڑتے ہی سنولا گیا اور وہ دل پر ہاتھ رکھ کر جہاں کھڑی تھیں وہیں بیٹھ گئیں۔ مردہ آواز میں اتنا پوچھا کہ یہ کون چھو کری ہے ؟ بابا جان نے جواب دیا شہزادی ! رنج نہ کر یہ تو دو دن کی مہمان ہے۔ آج یہاں رہے گی۔ صبح ہوتے ہی چلی جائے گی۔ لیکن صبح ہوتے ہی بابا جان نے اس سولہ سال کی روپ متی سے نکاح کر لیا اور میری ماں ان کے دل سے ایسے اتر گئیں جیسے کوئی اپنے تن سے میلے کپڑے اتار کر پرے پھینک دیتا ہے۔ بابا جان اگر ذرا ہوش مندی سے کام لیتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ وہ جنداں کو اس کے مقام پر رکھتے اور جو مقام اس گھر میں میری ماں کا تھا، انہیں اسی پر رہنے دیتے۔ مگر جنداں کے حسن کا فسوں ایسا تھا کہ وہ سر چڑھ کر بولنے لگا۔ بابا جان کو سوائے اس کے کوئی اور نظر ہی نہ آتا تھا۔ جیسا وہ کہتی تھی وہ آنکھ بند کر کے مان لیتے تھے۔ اب گھر کی مہارانی میری ماں نہیں بلکہ جنداں تھی اور میری ماں کی حیثیت اس کے سامنے نوکرانیوں جیسی ہو گئی۔

ماں اس اہانت کو برداشت نہ کر سکیں اور بیمار ہو کر پلنگ سے لگ گئیں۔ ان کی حالت دن بدن بگڑتی ہی جارہی تھی اور بابا جان کو ذرا بھی اس بات کی پروانہ تھی کہ اس کے بچوں کی ماں جیتی ہے کہ مرتی ہے۔ ماں گھل گھل کر ہماری آنکھوں کے سامنے ختم ہو رہی تھیں اور بابا جان انہیں ڈاکٹر دکھانے کے بھی روادار نہ تھے جیسے وہ خود یہی چاہتے ہوں کہ یہ جلدی ہی اپنی آگ میں جل کر ختم ہو جائے۔ اس پر جنداں تھی کہ پائوں زمین پر نہ رکھتی تھی۔ ہم سب کو بھی وہ اپنانو کر اور غلام ہی سمجھتی تھی۔ ہم جو ناز و نعم سے پہلے تھے وہ ہم سے اپنے جوتے تک اٹھوانے لگی تھی اور ایسے چھوٹے موٹے اور گھٹیا کام کرنے کو کہتی تھی جیسے وہ ہماری حیثیت کو گھٹانے کا تہیہ کر چکی ہو۔ اگر ہم اس کا حکم نہ مانتے تو بابا جان ہم کو برا بھلا کہتے اور مارنے تک سے گریز نہ کرتے۔ ہمارا جیب خرچ انہوں نے بند کر دیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ تمہیں جس چیز کی ضرورت ہو ، جو کچھ مانگنا ہو اپنی چھوٹی ماں سے مانگو۔ تمہارا جیب خرچ بھی وہی تم کو دے گی۔ برداشت کی حد ہو چکی تھی۔ ہمارے نانا، ماموں اور چا بھی نہ تھے کہ ہم ان کے یہاں بھاگ جاتے۔ رہنا نہیں تھا اور بے عزتی نہ سہی جاتی تھی۔ ماں مردہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی بستر پر سک رہی تھی۔ وہ میرے والد کے ماموں کی بیٹی تھیں اور باپ کی طرف سے ترکہ میں بہت کچھ لائی تھیں۔ اس کے باوجود میرے بے وفا باپ کے ہاتھوں اب کوڑی کوڑی کو محتاج ہو چکی تھیں۔ ماں کے تمام زیورات جنداں کے قبضے میں تھے۔ میرے معصوم بہن جب ماں کی ایسی لو حالت دیکھتی تھی تو رورو کر دیوانی سی ہو جاتی تھی۔ میرا بھائی قاسم غصے کا بہت تیز تھا۔ بے شک وہ بابا جان کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا تھا لیکن اس کو باپ کی اس بڑھاپے کی شادی کا بہت صدمہ تھا۔ وہ مجھ کو کہتا تھا کہ آئمہ ! میں اب مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ میں جنداں کو جان سے مار ڈالوں گا۔ یہ ڈائن ہے جس نے ہماری خوشیوں کو نگل لیا ہے اور میں اس کو تسلی دیتی کہ صبر کرو۔ بابا جان کی زندگی کتنے روز کی ہے ؟ اس کے بعد ہم جنداں کو دیکھ لیں گے۔ ایک دن بابا جان زمینوں کا حساب دیکھنے جارہے تھے کہ انہوں نے ہم دونوں کو بھی اپنے ساتھ لیا اور کھیتوں پر آگئے۔ ہماری زمین گائوں میں تھی اور گھر تیس چالیس میل کے فاصلے پر تھا۔ بابا جان نے کہا کہ فصلوں کا حساب کتاب کرنا ہے اور مزارعوں میں ان کا حصہ تقسیم کرنا ہے۔ لہٰذا چند دن یہاں رہنا ہو گا۔ ایک دن گزارا، میں بڑے بھائی قاسم کی بے چینی کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ مجھ کو سخت مضطرب نظر آتا تھا جیسے کسی نے شیر کو پنجرے میں بند کر دیا ہو۔ وہ یہاں بابا جان کی پابندیوں کے ساتھ ٹھہر نا نہیں چاہتا تھا۔ شام سے کچھ پہلے وہ کہنے لگا۔ میرے پیٹ میں شدید درد ہو رہا ہے ، میں واپس جانا چاہتا ہوں تا کہ علاج کر اسکوں۔ اس کا اضطراب اور پریشانی دیکھ کر بابا جان نے قاسم بھائی کو جانے کی اجازت دے دی۔ مگر تاکید کر دی کہ طبیعت ٹھیک ہو جائے تو فوراً واپس لوٹ آنا۔ قاسم چلا گیا۔ میرے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ خوفناک ارادے سے گھر لوٹ گیا ہے۔ رات کو جہاں جنداں سوتی تھی آج وہاں میری بہن سکینہ سورہی تھی۔ یہ جندال کا بستر تھا، اس کا کمرہ تھا مگر بستر پر جنداں نہیں بلکہ سکینہ تھی۔ جنداں نے اس روز میری بہن سے کہا کہ سکینہ تیرا بابا زمینوں پر گیا ہے۔ بڑی خوابگاہ میں مجھ کو اکیلے سونے سے ڈر لگتا ہے ، تم آج میرے ساتھ آ کر سو جائو۔

میری والدہ کے پاس ان کی خدمت گار سوتی تھی۔ لہٰذا میری بہن سوتیلی ماں کے کہنے پر اس کے کمرے میں سونے چلی گئی۔ نہ جانے قاسم کے دل میں نفرت کی آگ کب سے بھڑک رہی تھی ، آج اس کو موقع مل گیا۔ یہ رات ڈیڑھ بجے کا وقت تھا۔ ہمارے گائوں میں بجلی نہیں تھی، گھر میں مکمل اندھیر تھا۔ وہ باڑے کی دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوا۔ اس نے سیدھا جنداں کے کمرے کا رخ کیا اور اندھیرے میں کلہاڑی تول کر اس پر وار کر دیا۔ بہن سکینہ بے چاری سسکی بھی لے نہ سکی۔ میرا بھائی قاسم اس کو سوتیلی ماں سمجھ کر کلہاڑی سے ٹکڑے کر کے چلتا بنا۔ سویرے نوکر ہانپتا کانپتا ہوا آیا۔ بابا جان کو اس نے صورت حال بتلائی۔ ہر طرف اس واقعہ کی دھوم مچ گئی کہ بھائی نے بہن کو قتل کر دیا ہے۔ گائوں میں جب کوئی باپ یا بھائی اپنی بیٹی یا بہن کو قتل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آوارہ اور بد چلن تھی۔ حالانکہ بات اتنی تھی کہ جب سکینہ جنداں کے پلنگ پر سوگئی تو جنداں کا ڈر پھر بھی دور نہ ہوا۔ شاید چھٹی حس آج اس کی رہنمائی کر رہی تھی یا اللہ کو اس کی زندگی منظور تھی اور سکینہ کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ جنداں وہاں سے اٹھ کر خواب گاہ سے متصل کمرے میں جا سوئی کیونکہ وہ کمرہ زیادہ محفوظ تھا۔ شاید قاسم اس کے بعد کہیں ایسی جگہ روپوش ہو جاتا کہ پولیس اس کو گرفتار نہ کر سکتی۔ ہم زمیندار لوگوں کے بہت سے ٹھکانے ہوتے ہیں۔ روپے پیسے کی برکتوں سے ایسے معاملات د بالئے جاتے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد لوگ بھول بھال جاتے ہیں کہ کچھ ہوا تھا۔ لیکن قاسم کو یہ اس لئے گوارا نہ ہوا کہ اس طرح اس کی مرحومہ بہن پر انگلیاں اٹھائی جاتیں اور اس کو آوارہ اور بد چلن کہا جاتا جبکہ وہ بے گناہ اور معصوم تھی۔ پس وہ خود ہی تھانے حاضر ہو گیا۔ اس نے اقرار جرم کر لیا کہ وہ اپنی سوتیلی ماں جنداں کو مار نا چاہتا تھا لیکن دھوکے سے بہن پر وار ہو گیا اور وہ ماری گئی۔ شاید قدرت کو یہی منظور تھا۔ بھائی کو پھانسی کی سزا ہو گئی۔ ماں صدمے کو برداشت نہ کر سکیں اور ذہنی توازن کھو بیٹھیں۔ بعد میں ان کا انتقال ہو گیا۔ والد صاحب بھی اس کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے۔ ان کے مرتے ہی جنداں ہمارا گھر چھوڑ کر چلی گئی اور میں بد بخت یہ سارے صدمات سہنے کے لئے اکیلی ہی رہ گئی۔

Latest Posts

Related POSTS