Friday, September 20, 2024

Zalim Baahi

پھوپھی بتول عمر رسیدہ تھیں۔ اُن کا ایک بیٹا ملازمت کے سلسلے میں وطن سے دُور تھا اور بیٹیاں بیاہی جا چکی تھیں، تبھی پھوپھی تنہائی سے گھبرائی ہوئی روح کی طرح پھرا کرتی تھیں۔ اس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ محلے کی بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینی شروع کر دی، یوں ان کے گھر میں رونق ہو گئی۔ سارا دن بچیاں ان کے گرد جمع رہتیں۔ سلطانہ بھی ان ہی میں سے ایک تھی۔ وہ میری پھپھو کے گھر کے پاس ہی رہتی تھی۔ وہ میری ہم عمر تھی۔ ہمارا گھر اگلے محلے میں تھا۔ وہ ہمارے گھر بھی آیا کرتی تھی۔ اس کی شوخ و چنچل باتیں اور ادائیں اُسے تمام لڑکیوں سے منفرد کرتیں۔ پھوپھی اُسے زیادہ ہنسنے سے منع کرتیں تو وہ اداس ہو جاتی۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا۔ گھر میں تو کوئی نہیں ہوتا کہ جس سے ہنسوں ، بولوں۔ چھوٹے بھائی اسکول چلے جاتے ہیں اور بڑی بہن دادی اماں کے پاس ہوتی ہیں۔ میرے اماں اور باوا کو آپس میں جھگڑنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ کہتے کہتے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تبھی مجھ کو اس کے ساتھ ہمدردی ہو گئی۔ میری ہمدردی پا کر اس کا حوصلہ بڑھا اور ہمارے گھر آنے لگی۔ ہم خوب باتیں کرتے ، وہ اپنے گھر کی ساری باتیں مجھے بتاتی۔ وہ اپنے گھر کی دوسری بیٹی تھی، جس کی کسی کو ضرورت نہ تھی۔ وہ کہاں جاتی ہے، کیا کرتی ہے، کسی کو اس سے سروکار نہ تھا۔ اکثر وہ تمام دن میری پھوپھی کے پاس رہتی، ان کے گھر کا سب کام کرتی۔ وہ بھی اس لڑکی سے بیٹیوں جیسا پیار کرتیں۔ سلطانہ کو بنائو سنگھار کا بہت شوق تھا اور یہ سب کچھ اس پر جچتا بھی تھا۔ اس کی بڑی بڑی کالی آنکھیں اس کے گورے چہرے پر نمایاں تھیں۔ جب ان میں کاجل لگاتی تو وہ اور بھی دلکش لگتی تھیں ، تب پھوپھی اُسے ٹوکتیں کہ لڑکی ، آنکھوں میں یہ بھر بھر کر کاجل نہ لگایا کر، کسی کی نظر لگ جائے گی، نہیں تو کوئی آسیب عاشق ہو جائے گا۔ پھوپھی کی بات پر وہ ہنستی ہنستی دوہری ہو جاتی۔ کیا خبر تھی کہ ایک دن پھپھو کی بات واقعی سچ ثابت ہو جائے گی- سلطانہ کا باپ گزر اوقات کے واسطے کوئی کام نہ کرتا تھا۔ بظاہر وہ سگریٹ پیتا تھا لیکن اس میں کچھ ملا کر پیتا، اسی بات پر بیوی کا اس سے جھگڑا رہتا، تبھی سلطانہ کی ماں چڑچڑی ہو گئی تھی۔ اسے بچوں میں کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ بیٹوں سے تو پیار کرتی تھی مگر بیٹیاں اُسے بُری لگتیں۔ امی ابو کے ساتھ میں دوماہ کے لئے ماموں کے گھر لاہور چلی گئی۔ واپس آئی تو سب سے پہلے سلطانہ سے ملنے کی کوشش کی۔ پھوپھی نے بتایا کہ اب یہاں بہت کم وقت گزارتی ہے ، وہ اب کافی بدل گئی ہے۔ دودن بعد وہ مجھے ملی، واقعی کافی بدل گئی تھی۔ اچھی بات یہ تھی کہ بڑی خوش نظر آرہی تھی۔ میں نے وجہ پوچھی تو بولی۔ نعمت بی بی میرے ابو بہت اچھے ہو گئے ہیں، میرے لئے نئے نئے کپڑے چوڑیاں، جیولری لاتے ہیں، اب ڈانٹتے بھی نہیں۔ مجھ کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی۔ اب روزانہ وہ مجھے اپنے ابو کے بارے میں بتایا کرتی۔ پہلے جو آدم بیزار بلکہ اولاد بیزار انسان تھے ، اب اس کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے۔

ایک دن پھپھو کے گھر جاتے ہوئے وہ مجھے گلی میں ملی تو ایک ہاتھ میں شاپر تھا جس میں چیزیں بھری ہوئی تھیں اور دوسرے ہاتھ میں چوڑیوں کا پیکٹ۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے ابا کا کچھ سامان لینے گئی تو محسن نے اسے یہ چوڑیاں دی ہیں۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ محسن کون ہے ؟ اس سوال پر ایک عجیب سارنگ اُسے کے چہرے پر پھیل گیا۔ کہنے لگی۔ جس دکان سے ابا کا سودا لینے جاتی ہوں، وہ وہاں بیٹھا ہوتا ہے۔ وہ مجھے اچھا لگتا ہے۔ سلطانہ عمر کے اُسی دور میں تھی جب ہر کوئی اپنی بیٹیوں کے لئے حدود مقرر کر دیتا ہے۔ میں نے بھی دوپٹے کی جگہ چادر لے لی تھی۔ پھوپھی کا گھر نزدیک ترین تھا، ان کے گھر بھی جانا ہوتا تو ابو اکیلے جانے نہ دیتے تھے لیکن سلطانہ ابھی تک ویسے ہی بلاروک ٹوک پھر رہی تھی۔ بھائی اس کے بڑے ہو رہے تھے۔ اگر چہ وہ اس سے چھوٹے تھے پھر بھی اس پر پابندیاں لگانے کی کوشش کرتے تو وہ آزاد پنچھی ان کی قید میں گرفتار ہونا پسند نہ کرتی۔ باپ سے بھائیوں کی شکایت کرتی تو انکل، بیٹی کی پشت پناہی کرتے۔ بات دراصل یہ تھی کہ محسن چوری چھپے چرس کی فروخت کرتا تھا اور سلطانہ کا والد اس کا شریک کار تھا۔ وہ خود بھی نشہ کرتا تھا، پس اسی غرض کی خاطر وہ بیٹی کے ذریعہ اپنی مطلوبہ چیز منگواتا تھا اور اسے دکان پر بھیج دیتا تھا۔ خود نہیں جاتا تھا کہ کسی کو سن گن ہو گئی تو کہیں کوئی پولیس کو مخبری نہ کر دے۔ شروع میں وہ رقم دے کر حسب ضرورت مال خرید تا تھا، بعد میں اُدھار پر لینے لگا۔ اس طرح اپنے مقصد کے لئے اس نے بیٹی کو دائو پر لگا دیا۔ جوانی میں سلطانہ اور بھی خوبصورت ہو گئی تھی مگر محسن سے دوستی اس کے حسن پر ایک دھبہ تھی۔ بتاتی چلوں کہ جس دکان سے سلطانہ سودا لینے جاتی تھی وہ میرے جیٹھ کی تھی اور محسن اسی وجہ سے وہاں بیٹھا ہوتا کہ وہ میرے جیٹھ کی بیوی کا دورکا رشتہ دار ہوتا تھا اور اس کا گھر دکان کے برابر میں تھا۔ ایک طرح سے وہ ان کا ہمسایہ بھی تھا۔ ایک روز محسن نے اپنی ماں کے ذریعہ انکل صادق کے گھر سلطانہ کے لئے شادی کا پیغام بھجوایا تو وہ خوش ہو گئے کہ محسن کے قرض دار تھے ، اس طرح قرض سے جان چھوٹ رہی تھی اور سلطانہ بھی خوش تھی کہ محسن کو پسند کرتی تھی لیکن اس کی ماں اور بھائی خوش نہ تھے ، وہ اس رشتے کے سخت مخالف تھے۔ وہ محسن کو ٹھیک آدمی نہیں سمجھتے تھے مگر باپ تو راضی تھا اور سلطانہ باپ کی محبت میں سرشار ہر وقت ان کی تابعداری میں لگی رہتی۔ ماں اس کو کہتی۔ بے وقوف باپ تیرے ساتھ نہیں ، صرف اپنے نشے کے ساتھ مخلص ہے ، دوڑ دوڑ کر اس کے کام نہ کیا کر۔ قرض سے جان چھڑانے کی خاطر تجھ کو اندھے کنوئیں میں دھکا دے رہا ہے مگر سلطانہ اپنے والد کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہ تھی۔ میری اس سے ملاقات ہوتی تو اس کے منہ پر ایک ہی نام تھا اور وہ تھا محسن کا۔ پھپھو اور میں نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ نہ سمجھی۔ میں پاس ہو کر اگلی کلاس میں چلی گئی۔ بڑی کلاس میں پڑھائی زیادہ ہو گئی تھی۔ اب مجھے وقت کم ملتا تھا، پھپھو کے گھر بھی کم جا پاتی۔ کچھ عرصے بعد پھپھو کا انتقال ہو گیا تو میرا سلطانہ سے رابطہ بھی کم ہو گیا، پھر میں اعلیٰ تعلیم کے لئے دوسرے شہر آگئی، اپنے لوگوں سے رابطہ نہ رہا۔ بس چھٹیوں میں جانا ہوتا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے ملازمت مل گئی۔ وہ بھی شہر سے باہر تھی۔ تقریباً دس سال بعد اپنے شہر واپس آئی ، تب جب والدین نے مجھے پیا گھر بھیجنے کی تیاری مکمل کر لی تھی۔ شادی کا پیغام تمام ہوا تو کچھ رشتہ دار خواتین مجھے ملنے آئیں، ان ہی میں سلطانہ بھی تھی۔ مجھے اسے دیکھ کر خوشی ہوئی۔ وہ میری جیٹھانی کے خاندان میں، میرے ساتھ والے گھر میں بیاہی ہوئی تھی۔ مجھے پتا چلا کہ محسن نے اسے اچھا نہیں رکھا ہوا۔ وہ اچھا آدمی نہیں ، وہ اپنی بیوی کا حسن اور جوانی کیش کرانا چاہتا ہے ، جس کے لئے اسے بڑی بڑی پارٹیوں میں لے جاتا تھا مگر سلطانہ اس امر پر راضی نہیں ہوتی تھی۔ وہ اب محسن سے نالاں رہنے لگی ہے۔ اس کا ایک بیٹا بھی تھا جو کافی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد وہ سمجھی کہ اب اس کا شوہر سدھر جائے گا مگر یہ اس کی خام خیالی تھی۔ کچھ عرصہ تو وہ مجبور شوہر کے اشاروں پر چلتی رہی بالآخر تھک گئی۔ اندر کی گھٹن اتنی بڑھ گئی کہ اس نے احتجاج شروع کر دیا لیکن بھری دنیا میں احتجاج کر کے بھی وہ اپنے گھر کی چھت تلے ہی پناہ لینے پر مجبور تھی کیونکہ ماں اور بھائی اس سے ناتا توڑ چکے تھے اور ان کے گھر کے دروازے اس پر بند تھے۔ اس پریشان صورت حال میں وہ میرے پاس آئی اور بتایا کہ وہ منشیات ادھر سے اُدھر پہنچانے کے پُر خطر کام سے برافروختہ ہے ، وہ کیا کرے۔ مجھ سے مشورہ لیا تو میں نے کہا کہ تم بھائیوں کے پاس چلی جائو ، بھائیوں کے گھر سے اچھی پناہ گاہ کوئی اور نہیں۔ اگرچہ ان کے منع کرنے کے باوجود تم نے محسن سے شادی کی لیکن بھاگ کر تو نہیں کی، تمہارے باپ نے خود کروائی اور اس کے بدلے اس نے محسن سے خاصی رقم بھی لی۔ شاید تم کو اس کا علم ہے کہ نہیں مگر تمہارے بھائیوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے ، اس وجہ سے وہ اپنے باپ اور محسن کے ساتھ ساتھ تم سے بھی ناراض ہیں۔ وہ بولی۔ ہاں مجھے کوئی علم نہیں ہے ان معاملات کا، مجھے تو بس محسن اچھا لگتا تھا۔ وہاں جانے کے کچھ عرصے بعد یہ عقدہ کھلا کہ وہ کس قماش کا بندہ ہے لیکن اب سوائے پھڑ پھڑانے کے میں کیا کر سکتی تھی۔

ایک روز محسن نے اسے بہت مارا۔ وہ چاہتا تھا کہ جو مہمان اس کے ساتھ گھر آئے ہیں، سلطانہ ان کی ہر طرح سے مدارات کرے۔ وہ دبئی کے رئیس زادے تھے۔ جب سلطانہ نے ان کی مدارات سے انکار کیا تو شوہر نے اسے اتنامارا کہ لہولہان کر ڈالا کیونکہ ان مہمانوں کو راضی کرنے سے محسن کو لاکھوں کا فائدہ ملنے والا تھا۔ وہ زخمی حالت میں میرے پاس آئی۔ میں نے اس کی مرہم پٹی کی اور اس کے ساتھ اس کی ماں کے گھر گئی۔ ان سے درخواست کی کہ بیٹی کا احوال تو لے لیں۔ یہ تو نا سمجھ لڑکی تھی، اصل قصور وار آپ کا شوہر ہے۔ بیٹی تو آزمائش میں پڑ جاتی ہے ، جب باپ کہے میرا کہا مانو اور ماں کہے کہ باپ کا نہیں بلکہ میرا کہنا مانو۔ آپ خود سوچئے اولاد خصوصا بیٹی کے لئے یہ کتنا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ میرے سمجھانے سے خالہ جی نے سلطانہ کو گلے لگالیا لیکن جب اس کے بھائی آئے ، وہ اسے گھر میں دیکھ کر برافروختہ ہو گئے ، تب ماں نے بیٹوں کو سمجھایا کہ یہ گھر سے بھاگ کر نہیں گئی تھی، باپ نے اپنے ہاتھ سے رخصت کیا۔ یہ تو نادان بچی تھی، تم لوگ کیوں اس کو ایسی کڑی سزا دینے پر تلے ہو ؟ جب بھائیوں نے باتیں سہیں تو انہوں نے اس شرط پر سلطانہ کو پناہ دینا قبول کیا کہ وہ محسن سے خلع لے لے۔ وہ بھی تھک چکی تھی۔ وہ محسن سے چھٹکارا چاہتی تھی۔ اس شخص نے اس کی ذات کو اس کے ضمیر پر بوجھ بنا دیا تھا۔ بھائیوں نے اس کی طرف سے خلع کا مقدمہ دائر کر دیا۔ محسن نے طلاق دے کر بیٹا اپنے پاس رکھ لیا جو ابھی صرف چھ برس کا تھا۔ ماموئوں کو اس لڑکے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ انہوں نے سلطانہ کے آنسوئوں کی پروا کئے بغیر بھانجے کو محسن کے حوالے کر دیا اور طلاق حاصل کر لی۔ سلطانہ کے لئے یہ صدمہ نا قابل برداشت تھا مگر بھائیوں کی عزت کا بھرم رکھنے کے لئے اس نے اس بات کو قبول کرنا تھا۔ ممتا کی ماری اب اکثر میرے گھر آجاتی اور بیٹے کو بلوا کر اس سے مل لیتی۔ اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں یہ بات اس کے بھائیوں سے پوشیدہ رکھوں۔ میں نے وعدہ کر لیا۔ آہستہ آہستہ اس نے بیٹے کی جدائی کو بھی قبول کر لیا کہ کم از کم یہ سب کچھ گناہ کی زندگی سے تو بہتر ہے۔ بعض اوقات اس کا سارا دن میرے گھر گزر جاتا۔ اس کو بیٹے کے ساتھ کھیلتے دیکھتی تو خوشی ہوتی۔ میں بھی ایک ماں تھی، ممتا کے جذبات کو سمجھتی تھی۔ ایک دن وہ آئی تو کچھ کھوئی کھوئی سی تھی۔ اس نے بتایا کہ بھائی دوسری شادی پر مجبور کر رہے ہیں ، وہ شخص شادی شدہ اور بچوں والا ہے۔ میں منع کر رہی ہوں مگر میرے بھائی نہیں مان رہے۔ والدہ بھائی کی شادی کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ پہلے میری شادی کرانا چاہتا ہے۔ اس کی یہی شرط ہے اور اماں نے پھر سے مجھے کوسنے دینے شروع کر دیئے ہیں۔ تم کیوں دوسری شادی نہیں کرنا چاہتیں ؟ پہلی شادی سے کون سا سکھ مل گیا ہے، دوسرے یہ کہ دوسری شادی کے بعد میں اپنے بیٹے سے نہ مل سکوں گی ، اب تو محسن اسے ملنے دیتا ہے ، بعد میں نہ ملنے دے یا دوسرا شوہر اعتراض کرے۔ بہرحال جلد ہی بھائیوں نے اس کی شادی کر دی۔ اس کا شوہر کسی ادارے میں معمولی سا ملازم تھا جو اپنے بچوں کا خرچہ بمشکل اٹھا رہا تھا۔ وہ پہلے ہی چار بچوں کا باپ تھا۔ سلطانہ کے بھائیوں نے گھر کی ہر چیز جہیز میں دی، کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ کمی تھی تو وہ اس کا بیٹا تھا۔ وہ تو چلی گئی، اس کا بیٹا ماں کی تلاش میں میرے گھر آیا کرتا۔ اس کی آنکھوں کی ویرانی دیکھ کر میرا دل پھٹنے لگتا تھا۔ اسے پیار سے بٹھایا کرتی مگر اس کے لئے اب میرے گھر میں وہ کشش نہ تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ آخر اس نے آنا کم کر دیا۔ کچھ دنوں بعد سلطانہ اپنے گھر آئی اور آتے ہی میرے گھر کا رخ کیا۔ آتے ہی بیٹے کے متعلق پوچھا۔ میں نے بتایا کہ تمہاری تلاش میں آیا کرتا تھا مگر اب نہیں آتا، وہ رودی۔ اس کو روتا دیکھ کر میری آنکھیں بھی چھلک پڑیں۔ جب بھی ماں بیٹے کی ملاقات ہوتی ، سلطانہ اس کو گھنٹوں سینے سے لگائے روتی رہتی۔ محسن کا چلن درست نہیں تھا اور بیٹا سارا دن ادھر اُدھر بھٹکتا پھرتا۔ میں نے اس کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے راضی کیا اور اسکول کا خرچہ بھی دینا شروع کر دیا اور جیٹھانی کو مجبور کیا کہ وہ ندیم کو اسکول میں داخل کر آئے۔ ایک دن محسن نے اپنے بیٹے کو کسی بات پر خوب مارا، اسی وقت سلطانہ آگئی۔ وہ بیٹے کی چیخ پکار سن کر برداشت نہ کر سکی اور بغیر سوچ سمجھے محسن کے گھر میں کھس گئی ، وہاں جا کر وہ اپنے سابق شوہر سے خوب لڑی اور بیٹے کو لے کر آگئی۔ اتفاق سے اس کا دوسرا شوہر اسی وقت اسے لینے آگیا اور اس نے سلطانہ کو اس کے سابق شوہر کے گھر سے نکلتے دیکھ لیا۔ اس نے سسرال جا کر ساس اور سالوں کے آگے خوب واویلا مچایا کہ تمہاری بیٹی میرے نکاح میں ہوتے ہوئے اپنے پچھلے خاوند سے ملاقاتیں کرتی ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اس کے گھر سے نکلتے دیکھ لیا ہے۔ مجھے ایسی بد دیانت عورت کو اپنے گھر میں نہیں رکھنا۔ سب نے اسے برا بھلا کہا۔ بھائیوں نے اپنے گھر اور پھر شوہر نے اپنے گھر لے جا کر مار مگر وہ یہ مارسہ گئی کیونکہ اس کے پیروں میں دوسرے شوہر سے بھی اولاد کی بیڑی پڑ چکی تھی۔ وہ ایک بیٹی کی ماں بن چکی تھی۔ اس بار تو بھائیوں نے بہنوئی سے معافی تلافی کر کے اسے گھر روانہ کر دیا۔ وہ بھی چلی گئی- کیونکہ دوبارہ گھر نہیں اجاڑ نا چاہتی تھی لیکن اس کے دل سے اپنے پہلے بیٹے کی محبت کم نہ ہو سکی۔

سال بعد اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اب محسن سے ایک بیٹا تھا تو حیات سے دو بچے تھے۔دوسرے شوہر کا تقاضا تھا کہ اللہ نے میرے گھر سے تم کو دو بچے دے دیئے ہیں، بس ان ہی سے جی بہلا لے اور پہلے گھر والے لڑکے سے اب تم کو نہیں ملنا ہے۔ وہ ایک تنگ نظر، حاسد اور شکی قسم کا مرد تھا۔ وہ اس کی دی ہوئی ساری تکالیف سہ سکتی تھی مگر اپنے ندیم کو نہیں بھول سکتی تھی۔ اس بار بھی جب وہ عید پر ماں کے گھر آئی تو اس نے اپنی والدہ سے بیٹے کو ملوانے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کی ماں نے ٹال مٹول کی لیکن سلطانہ سے صبر نہ ہو سکا۔ وہ مجھ سے عید ملنے کے بہانے میرے گھر آئی کیونکہ محسن کا گھر میرے گھر کے برابر میں تھا۔ ندیم نے اسے آتے ہوئے دیکھ لیا، وہ دوڑا ہوا میرے گھر آگیا۔ دونوں ماں اور بیٹے گلے ملے خوب روئے، پھر ایک دوسرے کو عید کی مبارک دی۔ سلطانہ نے کہا۔ بیٹے مجھے سے عیدی لے لو۔ وہ بولا۔ ماں مجھے عیدی نہیں، ٹی وی چاہیے۔ سب اپنے گھروں میں ٹی وی دیکھتے ہیں اور میں ترستا ہوں، جس کے گھر جائوں، کہتے ہیں اپنے گھر جائو اور اپنے باپ سے کہو تم کوٹی وی لے کر دے۔ سلطانہ بولی۔ بیٹا میرے پاس اس وقت تو پیسے نہیں ہیں، میں تم کو کل رقم دوں گی، تم ٹی وی لے لینا۔ ندیم چلا گیا۔ اس نے اپنی انگلی سے سونے کی انگوٹھی اُتاری جو اس کی ماں نے اسے شادی میں دی تھی اور مجھے کہا کہ اسے بیچ کر مجھے پیسے لادو تا کہ ندیم کوٹی وی لے دوں۔ میں نے اس کو دُکھی دیکھ کر انگوٹھی لے لی اور اسے قریبی سنار کے پاس لے گئی۔ رقم لا کر سلطانہ کے حوالے کی۔ اسی شام اس کا شوہر اسے لینے کو آنے والا تھا اور اس کے آنے سے پہلے پہلے وہ یہ رقم ندیم کو دے دینا چاہتی تھی تا کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ جا کر ٹی وی لے آئے۔ جب وہ ندیم کو رقم دینے گھر سے نکلی تو اسے وہ سامنے گلی میں کھڑا نظر آ گیا۔ اس نے آواز دے کر بیٹے کو بلایا۔ یہ آواز محسن نے بھی سن لی جو اپنے گھر کے صحن میں کھڑا تھا۔ سلطانہ کی آواز سن کر وہ گھر سے نکلا۔ اس وقت وہ ندیم کو پیسے دینے کو بلارہی تھی۔ محسن اس کے پاس آیا اور بولا۔ کیوں ندیم کو بلا رہی ہو ؟ اس نے ٹی وی کی فرمائش کی ہے، تم تو لے کر نہیں دیتے۔ ٹی وی نہ ہونے سے وہ دوسروں کے گھروں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور رشتہ دار ا سے دھتکار کر نکال دیتے ہیں۔ اچھا ٹھیک ہے، پیسے مجھے دے دو، میں اسے ابھی ساتھ لے کر جاتا ہوں اور ٹی وی لے کر دیتا ہوں۔ اتنے میں ندیم بھی آگیا۔ سلطانہ نے رقم اس کو دی اور اس نے باپ کو دے کر کہا۔ ابوا بھی چلو، اسی وقت مجھے ٹی وی لے کر دو۔ ٹھیک ہے۔ ماں کو کہو یہ اپنی سہیلی کے گھر بیٹھی رہے، جب تک ہم ٹی وی لے کر آتے ہیں تاکہ اس کو یقین آجائے کہ میں نے تم کو واقعی ٹی وی لے کر دیا ہے۔ جب گلی میں محسن کے دروازے کے آگے کھڑے یہ بات کر رہے تھے ، سامنے سے سلطانہ کے دونوں بھائی آتے دکھائی دیئے۔ وہ یہی سمجھے کہ سلطانہ پھر سے محسن کے گھر گئی تھی اور اب وہاں سے نکل کر جارہی ہے۔ وہ اس کے پیچھے گئے۔ بھائیوں کے کڑے تیوروں سے ڈر کر وہ ماں کے گھر نہ گئی بلکہ رکشہ لے کر دار الامان چلی گئی کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کوئی ضرور اس کے شوہر کو بتادے گا کہ اس نے ندیم سے اور محسن سے بات کی ہے۔ وہ یہی سمجھے گا کہ وہ محسن سے ملنے اس کے گھر گئی تھی۔ جب اس کا شوہر اسے لینے آیا، اس کے بھائیوں نے کہا کہ وہ ہمارے گھر سے تمہارے گھر چلی گئی ہے۔ وہ اکیلی کیسے چلی گئی ؟ جبکہ میں نے اسے کہا تھا کہ میں اس کو لینے آئوں گا۔ وہ گھر پہنچا تو سلطانہ گھر نہیں آئی تھی۔ پریشان ہو کر سالوں کو فون کیا۔ انہوں نے کہا، صبر کرو، ہم اسے لئے آتے ہیں۔ وہ دراصل اپنی سہیلی نعمت کے ساتھ بازار چلی گئی تھی۔ اسے وہاں دیر ہو گئی، تمہارے جاتے ہی وہ آگئی تھی۔ یہ تو انہوں نے بہنوئی سے جھوٹ بول دیا لیکن وہ خود پریشان تھے کہ سلطانہ آخر گئی کہاں ؟ اگلے روز دار الامان سے فون آگیا۔ آفیسر نے ان کو بلایا تھا۔ سوشل ویلفیئر آفیسر کے دفتر میں وہ پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ سلطانہ نامی آپ کی بہن دار الامان میں ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ وہ خوفزدہ ہو کر دار الامان چلی آئی تھی ، اب وہ گھر لوٹ جانا چاہتی ہے۔ آپ اس سے بات کر لیجئے اور اپنے ساتھ گھر لے جائیے۔ بہر حال ضروری کارروائی کے بعد سلطانہ اپنے بھائیوں کے ہمراہ میکے آگئی۔ بس یہی اس کا قصور تھا کہ وہ دار الامان کیوں گئی؟ یہ ان کے لئے بے حد بے عزتی والی بات تھی کیونکہ چھوٹا شہر تھا اور دارالامان کے عملے کے کچھ لوگ سلطانہ کے بھائیوں کو اچھی طرح جانتے تھے۔ پس دونوں بھائی اب سر جوڑ کر بیٹھ گے کہ ان کی یہ بہن تو سدھرنے کی نہیں۔ اس کا کوئی پکا اور مستقبل بند وبست کرنا چاہئے ورنہ یہ بیٹے ندیم کے بہانے محسن سے ملتی رہے گی اور ہماری آنکھوں میں دھول جھونکتی رہے گی۔ کیوں نہ ہم اس کو زندہ درگور کر دیں مگر زندہ در گور کرنا آسان نہ تھا مگر یہ تو خبطی قسم کے بھائی تھے۔ سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ ماں اس امر میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی، باپ تو وفات پاچکا تھا۔ انہوں نے ماں سے ماموں کی بیماری کا بہانہ کیا اور وہ بیچاری اپنے بھائی کی بیماری کا سن کر اس کے گائوں چلی گئی۔ ماں کے جانے کے بعد ایک دن سلطانہ اپنے بیٹے سے ملنے چلی آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ جانے کیوں مجھ کو ڈر لگ رہا ہے۔ میں نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی اور اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ وہ بھی بیٹے سے مل کر چلی گئی۔ یہ اس کی مجھ سے آخری ملاقات تھی۔

اپنے گھر گئی تو بھائی نے شربت کا جگ بنا رکھا تھا۔ اسے گلاس بھر کر دیا کہ لوپی لو، گرمی ہے۔ دراصل انہوں نے شربت میں زہر ملا رکھا تھا۔ جونہی سلطانہ نے پیا، اسے چکر آیا، طبیعت خراب ہو گئی اور الٹیاں ہونے لگیں۔ الٹیاں آنے سے اس کی طبیعت سنبھل گئی۔ تب انہوں نے مل کر اس کا گلا د باد یا اور اس وقت تک دبائے رکھا جب تک کہ وہ مر نہ گئی ، پھر اس کو گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ کسی کو خبر نہ ہوئی کہ سلطانہ کے ساتھ کیا ہوا اور وہ کہاں گئی لیکن اس کی بھابی نے اسے گاڑی میں لے جاتے دیکھ لیا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر ذہنی توازن کھو بیٹھی اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگی۔ جس طرح ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سو جتن کرنا پڑتے ہیں، یونہی قتل کو چھپانے کے لئے نجانے ظالموں کو کیا کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ بھائی نے اپنی بیوی کو بھی گھر میں بند کر دیا۔ اس پر پابندیاں عائد کر دیں۔ انہی دنوں ہمارے رشتہ داروں میں ایک موت ہو گئی۔ سب لوگ آگئے ، میں سلطانہ کو ڈھونڈتی رہی، وہ مجھے کہیں نظر نہ آئی۔ اس کی بھابی بھی موجود نہ تھی۔ مجھ سے زیادہ اس کا بیٹا اسے ڈھونڈ رہا تھا۔ اس رش میں ماں سمجھ کر وہ نجانے کتنی عورتوں کے پلو کھینچ چکا تھا۔ میں غم زدہ ہو کر وہاں سے چلی آئی۔ آج مجھے سلطانہ بہت یاد آئی۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ ایک دن میں کام سے واپس آئی پتا چلا کہ سلطانہ مرگئی ہے۔ دل دھک سے رہ گیا۔ سلطانہ کے قتل کے شبے میں اس کے بھائیوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یہ بھانڈا اس کے ماموں نے آکر پھوڑا تھا اور اس کا چھوٹا بھائی بھی کہیں دوستوں میں اپنی غیرت کا قصہ لے بیٹھا تھا، انہی دوستوں میں اس کا ایک ماموں زاد بھی تھا جس نے گھر جا کر ذکر کر دیا کہ سلطانہ باجی کو اس کے بھائیوں نے دار الامان جانے پر سزا دی ہے۔ سلطانہ کے ماموں نے اس کے بھائی کے دوستوں سے پوچھ گچھ کی تو کسی نے جا کر تھانے بات پہنچادی۔ پولیس فورا آگئی۔ اتفاق سے بڑا بھائی گھر پر نہ تھا۔ پولیس والے چھوٹے کو پکڑ کر لے گئے۔ بڑا بھائی وکیل کے پاس گیا۔ اس نے کہا کہ اگر چھوٹا قتل قبول بھی کر لے تو اس کو بڑی سزا نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ نابالغ یعنی سترہ برس کا ہے۔ جلد لڑکے کی ضمانت ہو گئی۔ اس نے کہا کہ وہ بہن کو اس کے گھر پہنچانے جا رہا تھا کہ نہر پر بنے پل سے اس کا پیر پھسل گیا اور وہ نہر میں گرگئی۔ نہر بند کرائی گئی مگر سلطانہ کی لاش نہ ملی۔ اس کا شوہر حیات بھی آگیا۔ وہ اپنے بچوں کی ماں کو رورہا تھا، بیوی کو نہیں، البتہ ماں ضرور رو رہی تھی، سلطانہ بالآخر اس کی بیٹی تھی۔ کچھ دن کیس چلا بالآخر یہ کہانی ختم ہو گئی مگر سلطانہ کو کوئی بھلا نہیں پایا۔ بیٹے سے محبت کرنے کے جرم میں ایک حوا کی بیٹی جان سے گئی۔ بھائی پھر سے اپنے گھروں میں خوش ہو گئے۔ جان سے گئی تو وہ، جس کا قصور دنیا معاف نہ کر سکی۔

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS