ربیکا ایک تندرست و توانا چھریرے بدن کی عورت تھی۔ اس کا جسم گھٹا ہوا تھا۔ رنگ سانولا، نقش تیکھے اور قد نکلتا ہوا۔ اس کی خوبصورتی عجیب طرح کی تھی۔ اس میں بلا کی کشش تھی۔ اعتماد اور رعب خدا نے عطا کیا تھا۔ محلے کے لفنگے ، بدمعاش بھی اس کو دیکھ کر کترا جاتے تھے۔ اگرچہ تھی تو وہ جھاڑو لگانے والی، لیکن وضع قطع سے سلیقہ مند لگتی تھی۔ صبح اجالا ہونے سے پہلے ہی وہ گھر سے نکلتی اور منہ اندھیرے گلیوں کی صفائی شروع کر دیتی۔ اس کا خاوند بھی خاکروب تھا۔ روزانہ صبح تڑ کے دونوں اکٹھے کام پر نکلتے۔ یہ ان کا معمول تھا۔ ان کے دو بچے تھے جو اس وقت سو رہے ہوتے تھے- ربیکا اگرچه چاق و چوبند عورت تھی، مگر جب اس کا شوہر فوت ہو گیا تو صدمے نے اس کو چند دنوں میں ہی عمر رسیدہ کر دیا۔ اس کی دنیا اچانک اجڑ گئی تھی، غم سے نڈھال کیوں نہ ہوتی۔ اس کا شوہر پیٹر بھی جوان آدمی تھا۔ وہ محنتی ہی نہیں ، فرض شناس اور دیانت دار بھی تھا۔ دونوں ہی اپنا کام دل جمعی سے کیا کرتے تھے اور سورج نکلنے سے پہلے پہلے محلے کی تمام گلیوں میں جھاڑ ولگا کر ان کو صاف اور اجلا کر دیتے تھے۔ ایک دن بد قسمتی سے پیٹر صبح چار بجے سڑک کی جھاڑو لگا رہا تھا کہ ایک ویگن اچانک گلی کے موڑ پر نمودار ہوئی اور اس غریب کو کچلتی ہوئی نکل گئی ، شاید ویگن کے ڈرائیور نے نشہ کر رکھا تھا۔ وہ اس قدر مستی میں تھا کہ اس کو احساس بھی نہ ہوا ویگن کے پہیوں تلے ایک انسانی جان کچلی گئی ہے۔ یہ ایک معمولی حادثہ نہ تھا، پھر بھی یہ ایک معمولی حادثہ ہی تھا کہ روز کہیں نہ کہیں اس قسم کے بے نام لوگ حادثے کا شکار ہو کر مرتے ہی رہتے ہیں۔ اتنے بڑے حادثے پر ربیکا کو صرف دس روز کی چھٹی ملی اور وہ پھر سے گلیوں میں جھاڑو لگانے آموجود ہوئی۔ غریب آدمی پر کیسا ہی حادثہ گزر جائے، وہ زیادہ دن اپنے کام سے دور نہیں رہ سکتا کیونکہ اس کو اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے کی فکر کرنا ہی ہوتی ہے۔ اس کے بچے اخراجات پورے نہ ہونے کے سبب اسکول نہیں جا سکتے تھے۔ وقت گزرتا رہا، وہ بھی اپنے جیون ساتھی کے بغیر جینا سیکھ گئی۔ اکیلی ہی رسان سے اپنے فرائض انجام دیتی تھی، بچے بڑے ہو رہے تھے۔ یونہی تین برس گزر گئے۔ اس نے دوسری شادی کا بھی نہ سوچا۔ ربیکا اپنے بچوں سے دیوانگی کی حد تک پیار کرتی تھی۔ کہنے کو خاکروب تھی مگر خیالات اونچے تھے۔ ہمیشہ یہی بات سوچا کرتی کہ میں اپنے بچوں کے ہاتھ جھاڑو کی بجائے قلم اور کتابیں دوں گی۔ ان کو پڑھا لکھا کر عزت دار بنائوں گی۔ یہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کچھ بن جائیں گے تو ان کو منہ اندھیرے اٹھ کر گلیوں کو صاف کرنا نہیں پڑے گا ۔ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نہیں اٹھانے پڑیں گے۔ انہیں وقت پر دوا اور پیٹ بھر روٹی ملے گی۔ اس نے نورین اور کمال کو اسکول میں داخل کروا دیا۔ خود وہ سارا دن لوگوں کے گھروں میں سخت مزدوری کرتی تھی۔ اس طرح بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کا اہتمام ہو جاتا تھا۔ وہ ہمارے گھر روزانہ شام کو لان میں پانی لگانے آتی۔ امی کی عادت تھی شام کو لان میں کرسی ڈال کر بیٹھ جاتیں۔ جب ربیکا آتی، وہ اس کے ساتھ گفتگو کرتی جاتیں اور وہ اپنا کام سرانجام دیتی رہتی۔ وہ اکثر اپنے بچوں کے بارے ہی امی سے باتیں کرتی یا پھر مہنگائی سے متعلق گفتگو ہوتی۔ وہ کسی سیانے گیانے کی مانند ٹھوڑی پر انگلی رکھ کر کہتی۔ بے بے جی ! کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ سرکار سارے ملک میں ہر کسی کا علاج مفت کر دے؟ خاص کر ہم غریبوں کو بغیر خرچہ کئے ، دوا دارو ملے۔ میرے بچے تو آئے دن بیمار رہتے ہیں۔ امی تب سوچ میں پڑ جاتیں کہ اس کو کیا جواب دیں ! یہ عورت اکیلی اپنے بچوں کے لئے کتنی محنت کرتی ہے۔ اس کا تو کوئی سہارا بھی نہیں ہے، اگر اس کو کچھ ہو گیا تو بچوں کو کون دیکھے گا، لیکن خالق کا اپنا نظام ہے۔ ہماری عقل اس کے اسرار و رموز کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ ہم تو اس کی حکمتوں کے سامنے انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ خدا ہی جانے کہ اس بات میں کیا مصلحت تھی کہ ایک روز ربیکا ہمارے گھر کا کام ختم کر کے نکلی تو اس کو ایک تیز رفتار گاڑی روندتی ہوئی چلی گئی۔ عجب بات کہ میاں اور بیوی کی موت ایک ہی طریقہ سے لکھی گئی تھی۔ دونوں کے لہو سے وہی سڑک رنگین ہوئی کہ جس پر وہ روز صبح دم جھاڑو لگایا کرتے تھے اور اسے اجلا کیا کرتے تھے۔ایک شخص یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ دوڑا ہوا آیا اور ربیکا کو دیکھا کہ اس کو بر وقت امداد ملنے سے بچایا جاسکے۔ وہ بیچاری اس وقت آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اس شخص نے پوچھا۔ تم کون ہو اور کہاں رہتی ہو؟ ربیکا کے لبوں کو جنبش ہوئی، وہ اس قدر بول سکی کہ میرے بچے نورین اور کمال، یہ کہہ کر اس نے دم توڑ دیا۔ مرتے وقت بھی ایک ماں کو اپنے بچوں کے نام، صرف دو الفاظ ہی یاد رہے تھے۔ تبھی لوگ اکٹھے ہو گئے اور جائے وقوع پر پولیس بھی آگئی۔ وہ مشتاق کو ہمراہ لے گئے۔ اس نے جو دیکھا تھا بیان کر دیا جبکہ ربیکا کی لاش ایک رفاہی ادارے کے سپرد کر دی گئی۔ پولیس اسٹیشن قریب ہی تھا۔ مشتاق تھانے سے نکلا تو اس کو سڑک پر دو بچے دکھائی دیئے۔ وہ اس طرح ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے جیسے کسی کو تلاش کر رہے ہوں۔ مشتاق نے سوچا۔ کہیں یہی نورین اور کمال نہ ہوں ، وہ ان کی جانب بڑھا اور لڑکی سے اس کا نام پوچھا۔ میر ا نام نورین اور یہ میر ابھائی کمال ہے۔ تم کس کو ڈھونڈ رہے ہو ؟ ماں کو ، وہ بے بے کے گھر ان کے گارڈن کو پانی لگانے گئی تھی، بڑی دیر ہو گئی ابھی تک نہیں آئی، ہم ان کو ہی دیکھنے نکلے ہیں۔ تمہارے ابا کہاں ہیں ؟ وہ مر گئے ، اب صرف اماں ہوتی ہے۔ اپنے محلے کے کسی آدمی کو بلائو۔ وہ اس کے ہمراہ تھوڑا آگے چلے تو ایک پڑوسی آتا دکھائی دیا۔ جس کا نام بخش تھا۔ مشتاق نے اس کو بتایا کہ ان بچوں کی ماں کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ، اس کو تو دفنانے لے گئے ہیں اور بچے اکیلے ہیں، کیا تم ان کو سنبھال لو گے۔ وہ کہنے لگا۔ بائو جی ! میں تو نہیں سنبھال سکتا، یہاں اپنے بچے نہیں سنبھالے جاتے، دوسروں کے بچوں کی دیکھ بھال کیسے کی جاسکتی ہے- تم بے شک ان کو لے جائو، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ محلے والوں کو بھی بتا دو۔ محلے میں تو سبھی غریب رہتے ہیں، کوئی نہیں رکھے گا ان کو۔ مشتاق بچوں کو اپنے گھر لے آیا۔ ان کو بتا دیا کہ ان کی ماں اللہ کو پیاری ہو گئی ہے۔ اب تم یہاں رہو گے میرے بچوں کے ساتھ ۔ مشتاق کے تین بچے تھے۔ بیوی متضاد ذہن کی مالک تھی، کبھی نرم خو ، کبھی تند مزاج۔ کبھی رحم دل تو کبھی سنگ دل۔ بہرحال مشتاق نے بیوی کو سمجھا دیا کہ بچے رات کو اکیلے گھر میں نہیں رہ سکتے تھے ، یہ اکیلے سونے سے ڈرتے ہیں۔ لہذا تم ان کے ساتھ سو اور میں ان کے پڑوسیوں سے بات کرنے جارہا ہوں شاید کوئی ان کی ذمہ داری اٹھالے۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آگیا۔ بیوی نے پوچھا۔ کیا ہوا؟ بات کر آئے ہو۔ بولا۔ ہاں، وہاں کوئی ان کو رکھنے پر تیار نہیں، سبھی بہت غریب لوگ ہیں۔ انہوں نے ان کے گھر پر تالا ڈال دیا ہے۔ فی الحال ان کا کوئی سرپرست نہیں ہے ، تم ان کو کچھ دن رکھ لو۔ مشتاق کی بیوی دن بھر کے کام کاج سے تھکی ہوئی تھی، رات ہو رہی تھی۔ اس نے بچوں کو کھانا دے دیا اور دوسرے کمرے میں چٹائی پر سلا دیا۔ صبح جاگی اور کہنے لگی۔ مشتاق! تم یہ کن خاکروبوں کی اولاد اٹھا لائے ہو۔ اپنے بچوں کا تو خیال کیا ہوتا۔ مشتاق نے سمجھایا بھی کہ خدا کا شکر کرو کہ تم کو اور تمہارے بچوں کو گھر بیٹھے دو وقت کی روٹی آرام سے مل رہی ہے۔ ان سے پوچھو کہ جن کو ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہے۔ تو کیا ہم نے ان لوگوں کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ تم کو خدا سمجھاے ، تم جس کو چاہو ، گھر اٹھا لائو۔ خدا کا خوف کرو۔ مشتاق نے کہا۔ یتیم اور بے سہارا بچوں کو نہیں، اس وقت تم اپنی قسمت کو دھتکار رہی ہو۔ اچھا اچھا! بڑے نیکو کار نہ بنو، اب کام پر جائو۔ تم کو دیر ہو رہی ہے۔ مشتاق چلا گیا تو اس کی بیوی نے سوچا کہ اوپر کے کام کے لئے کتنی ہلکان ہوتی ہوں، مجھ کو کسی مددگار کی ضرورت رہتی ہے ، یہ دو وقت کے خدمت گار مل گئے ہیں۔ کام میں ہاتھ بٹالیں گے ، ملازم تو ستے میں ملتے نہیں، انہیں رہنے ہی دوں۔ اس وجہ سے اس نے ان کو رکھ لیا۔ مشتاق دفتر سے گھر آیا تو تہمینہ کا موڈ ٹھیک دیکھ کر خوش ہو گیا۔ کہا کہ شکر ہے کہ تمہارا موڈ اچھا ہے ، ورنہ میں تو گھر آنے سے ڈر رہا تھا۔ بچے کہاں ہیں ؟ وہ پچھلے کمرے میں ہیں۔ میں نے اسٹور کا ایک حصہ خالی کر کے ان کو رہنے کو دے دیا ہے۔ چلو یہ اچھا ہے۔ اب کھانا تو کھلوائو۔ بیوی نے کھانا لا کر مشتاق کو دیا، تبھی اس نے پوچھا۔ کیا تم نے نورین اور کمال کو کھانا دے دیا ہے۔ دے دیا ہے، تم کیوں اتنی فکر کرتے ہو ؟ آخر میں بھی انسان ہوں۔ بیوی نے بے دلی سے جواب دیا۔ مشتاق نے مزید اس سے بات چیت کو مناسب نہ جانا اور سر جھکا کر کھانا کھانے لگا۔ نورین اور کمال مشتاق کے گھر رہنے لگے۔ اگرچہ وہ یہاں بڑی اجنبیت محسوس کرتے تھے ، سہمے سہمے رہتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ خاتون خانہ نے ان سے فاصلہ قائم رکھا اور اپنائیت کا احساس نہ دیا تھا۔ وہ ان سے بہت کم بات کرتی تھی۔ اپنے بچوں سے بھی کہتی کہ تم لوگ ان کے ساتھ مت کھیلا کرو۔ یہ ایک جھاڑو لگانے والی کی اولاد ہیں۔ تہمینہ نے ان معصوموں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں سمیٹ دیا۔ وہ بہت ہی کم گھر سے باہر جاتے تھے۔ جب تہمینہ کے بچے اسکول چلے جاتے ، تب وہ ان کو بلاتی اور گھر کے کام کرواتی تھی۔ بچے بچارے کچھ نہ سمجھتے کہ یہ ان کے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔ جب ماں یاد آتی تو آپس میں معصومانہ گفتگو کر کے روتے اور ایک دوسرے کے آنسو پوچھتے اور تسلی دیتے تھے۔ بچے تو پھر بچے ہوتے ہیں۔ مشتاق کے بچے بھی ربیکا کے بچوں کے ساتھ گھلنا ملنا چاہتے تھے۔ وہ خود ان کے پاس جا کر آواز لگاتے۔ کہتے آجائو، ہمارے ساتھ کھیلو۔ آئو بیٹھو، ٹی وی دیکھو۔ وہ اپنی ماں کو سمجھاتے کہ ان کوٹی وی دیکھنے دیں۔ امی جان یہ اپنی ماں کے لئے اداس رہتے ہیں۔ ان کی ماں نہیں ہے ، ان کا باپ نہیں ہے۔ تہمینہ اپنے بچوں کے منہ سے ایسی باتیں سن کر کبھی تو بے حد شرمندہ ہو جاتی تھی۔ ان یتیموں سے روکھا سلوک دیکھ تہمینہ کے بچے کہتے۔ امی جان ! ہم پر بھی ایسا وقت آ سکتا ہے، ان سے پیار کیا کرو، ان کو ہمارے ساتھ کھیلنے دیا کرو۔ انہیں مت دھتکارا کرو ورنہ خدا ہم سے ناراض ہو جائے گا۔ آپ ہی تو کہتی ہیں خدا کو ناراض نہیں کرنا چاہئے ، گویا وہ بات جو ماں کو سمجھانا چاہئے تھی، بچے اس کو سمجھاتے تھے ۔ کہتے ہیں انسان اپنی فطرت سے باز نہیں رہ سکتا۔ وہ جیسا ہوتا ہے ویسا ہی برتائو کرتا ہے۔ تھوڑی بہت تبدیلی کسی کے باور کرانے سے البتہ آ جاتی ہے، تبھی تہمینہ کبھی ان بچوں سے نرمی کا برتائو کرتی اور کبھی سخت رویہ اختیار کر لیتی۔ نورین کی آنکھ نہ کھلتی تو تہمینہ اس کو ڈپٹ کر جگا دیتی کہ تم نواب کی بچی نہیں ہو کہ دن چڑھے بستر پر آرام فرماتی رہو ۔ اٹھو اور جلدی سے برتن صاف کرو، مجھے ناشتہ تیار کرنا ہے۔ کمال کو دبکاتی کہ تم کیا منہ تک رہے ہو ، ہاتھ منہ دھو کر صفائی شروع کر دو۔ وہ بچارا بغیر منہ ہاتھ دھوئے ہی جھاڑو اٹھا لیتا اور صفائی کو لگ جاتا۔ سوچتا کہ جب جھاڑو ہی لگانا ہے تو ہاتھ منہ کی دھونا۔ اب دونوں بچے سمجھ گئے تھے کہ صبح اٹھتے ہی ان کو کیا کام کرنے ہیں۔ وہ بغیر کہے کام پر لگ جاتے۔ ایک دن بہت سردی تھی اور بارش بھی ہو رہی تھی۔ نورین اٹھی اور برتن دھونے لگی۔ اچانک اس کے ہاتھ سے گلاس گر کر ٹوٹ گیا۔ تبھی تہمینہ کا پارہ چڑھ گیا۔ اس نے نورین کو مارا۔ اس روز نورین کو بخار تھا۔ جب مار پڑی تو خوف سے بخار اور تیز ہو گیا۔ وہ تمام دن اسٹور میں پڑی رہی مگر تہمینہ نے اس کی خبر نہ لی۔ دوا دی اور نہ کھانے کو پوچھا۔ بہن کے حصے کا کام بھی کمال نے کیا۔ اس رات کمال اپنی ننھی بہن کے سرہانے بیٹھ اس کا سر دبا رہا تھا اور نورین بار بار پانی مانگ رہی تھی۔ وہ دن بھر کی بھوکی تھی۔ چائے کی ایک پیالی تک کا مالکن نے نہیں پوچھا تھا۔ تبھی کمال کو خیال آیا کہ کیوں نہ نورین کو تھوڑا سا دودھ لا دوں۔ وہ دبے پائوں بچن میں گیا جہاں دودھ کا پتیلا رکھا تھا۔ اس نے ایک کپ بھرنا چاہا تو کپ اس کے ہاتھ سے پھسل کر فرش پر گر گیا۔ تہمینہ برابر والے کمرے میں تھی۔ اس نے پکارا۔ کون ہے ؟ کوئی جواب نہ ملا مگر قدموں کی ہلکی سی آہٹ سنی تو چور چور چلانے لگی۔ اس کا شور سن کر کمال ڈر گیا اور صحن میں آگیا۔ اس نے خوف سے باہر کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔ صبح جب تہمینہ اسٹور میں آئی۔ دیکھا کہ لڑکی تو بے سدھ پڑی ہے مگر کمال موجود نہیں ہے۔ اس نے نورین سے پوچھا۔ کمال کہاں ہے۔ مجھے پتا نہیں باجی۔ بچی نے جواب دیا۔ ان دنوں مشتاق دفتر کے کام سے کسی دوسرے شہر گیا ہوا تھا۔ دو دن گزر گئے۔ کمال نہ آیا۔ تہمینہ کو فکر ہوئی کہ یہ لڑکا کہاں غائب ہو گیا ہے۔ مشتاق آئے تو کہا کہ کمال غائب ہے اور کس سے یہ بات کہتی۔ شوہر آگیا۔ بتایا کہ لڑکا تو دو روز سے غائب ہے۔ کہاں غائب ہے ؟ کیا معلوم ، آپ دیکھو، نورین بھی کچھ نہیں بتاتی۔ نورین کا بخار اتر چکا تھا۔ وہ بہت کمزور ہو گئی تھی۔ کمال کے لئے پریشان تھی۔ اس کی بے چین آنکھیں سارے گھر میں اپنے بھائی کو تلاش کر رہی تھیں۔ اس کے بنا نورین کا یہاں رہنا محال تھا۔ اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ وہی تو ایک اس کا سہارا، اس کا غمگسار تھا۔ مشتاق ، لڑکے کا کھوج لگانے چلا گیا۔ ادھر ادھر پتا کیا، سراغ نہ ملا تو اپنے ایک دوست کے پاس پہنچا جو پولیس انسپکٹر تھا ۔ اس نے بھی خاص توجہ نہ دی۔ بھلا ایسے بچوں کی بازیابی میں کون دلچسپی لیتا ہے جو لاوارث ہوں، جن کا کوئی نہ ہو۔ ہفتہ بھر نورین نے انتظار کیا۔ مزید صبر نہ کر سکی اور ایک روز اپنے بھائی کو ڈھونڈ نے گھر سے نکل گئی اور ادھر اُدھرگلیوں میں پھرنے لگی۔ جہاں کمال کی عمر کے لڑکے دیکھتی، ان کے پیچھے ہو لیتی۔ ان کو قریب سے جا کر دیکھتی اور پوچھتی۔ کیا تم نے کمال کو دیکھا ہے؟ وہ میرا بھائی ہے ، گھر سے چلا گیا ہے۔ بچے اس کی بات کو سمجھ نہ پاتے ، کیا جواب دیتے۔ یہی کہتے کہ ہم نے تو نہیں دیکھا ہے، نجانے کون ہے تمہارا بھائی ؟ اس بائولی کو یونہی ڈھونڈتے ڈھونڈتے شام ہو گئی۔ کمال نہ ملا، مگر سردی بڑھنے لگی۔ جب واپس آئی ، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کسی نے در ہی نہ کھولا۔ اس روز مشتاق گھر پر نہ تھا اور بیوی سر شام سو گئی تھی۔ بچے بھی سوچکے تھے۔ نورین تھکن اور بھوک سے نڈھال تھی۔ رات سر پر تھی۔ وہ روتے روتے گلی میں ہی ایک تھڑے پر سو گئی۔ بخار تیز ہو گیا۔ وہ رات بھر سردی میں پڑی رہی۔ صبح ہوئی تو ہلنے جلنے کے قابل نہ تھی، اس سے اٹھا نہ جارہا تھا۔ وہ کہتی رہی، کوئی مجھے اٹھائو۔ کھانا دے دو، مجھے دوا دے دو، میرے بھائی کو ڈھونڈ کر لا دو، لیکن کسی نے اس کی آواز نہ سنی۔ اسے کھانا دیا، نہ دوا دی اور نہ اس کے بھائی کو تلاش کر کے دیا۔ وہ کئی گھنٹے گلی میں پڑی رہی۔ یہی کہتے کہتے اس کا گلا بند ہو گیا اور وہ مر گئی۔ جب وہ مر گئی تو کسی کی اس پر نظر پڑ گئی۔ اس نے قریب آ کر ہلایا۔ ارے، یہ تو مر چکی ہے۔ تب سارے محلے والے اکٹھے ہو گئے۔ اب وہ پوچھ رہے تھے کہ یہ کون ہے ، اس کو کیا ہوا اور یہ کیسے مرگئی؟ کسی نے کہا۔ یہ تو مشتاق کے گھر پر رہ رہی تھی، اس کا بھائی بھی تھا مگر مشتاق کہاں ہے۔ وہ تو دورے پر گیا ہوا ہے۔ اب وہ ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرانے لگے کہ دن بھر پاس سے گزرتے ہوئے بھی کسی نے اس بچی کی طرف توجہ کیوں نہ دی۔ اس کی لاش کے گرد اکٹھے لوگوں میں سے ایک شخص بخش نے کہا۔ یہ تو اپنی خاکروب ربیکا کی لڑکی ہے جو گاڑی تلے آکر مرگئی تھی۔ کسی نے بھی اس کو پناہ نہ دی تو مشتاق بھائی اپنے گھر لے آئے تھے ، انہوں نے بھی رکھ تو لیا مگر خیال نہ کیا۔ بچی باہر آکر پڑ گئی۔ رات بھر ٹھنڈ لگتی رہی تو مر گئی۔ کچھ دنوں تک یہی چرچا رہا پھر بات ختم ہو گئی۔ کسی نے تھانے رپورٹ نہ کرائی کیونکہ مشتاق ان کے محلے کا بھلا مانس تھا تو اس کے خلاف رپورٹ کیوں کراتے۔ اپنا پرانا پڑوسی تھا اور اس کا کیا قصور ، اس نے تو پناہ دی تھی۔ وہ دورے پر تھا۔ واقعہ اس کے پیچھے ہوا تھا۔ بہر حال اب تو اس بیچارے کی نیکی پر بھی مٹی پڑ گئی تھی۔ اس واقعہ کا میرے دل پر بہت اثر ہوا تھا۔ امی بھی ربیکا کو یاد کر کے اداس تھیں۔ انہوں نے تو کئی روز تک کھانا بھی نہ کھایا۔ جب کھانا کھانے بیٹھتیں نورین اور کمال کی بھولی بھالی شکلیں یاد آجاتیں اور ربیکا کی باتیں۔ تب میں سوچتی کہ کیا اتنے بھرے پرے ملک میں کوئی بھی اس کو روٹی نہیں دے سکتا تھا۔ جب یہ بخار میں تڑپ رہی تھی تو کیا کوئی اسے دوا نہیں دے سکتا تھا۔ کیوں سارے محلے والے اتنے خود غرض ہو گئے کہ بس اپنے ہی لئے جیتے ہیں، ارد گرد کی کسی کو خبر ہی نہ تھی۔ افسوس، وہ ماں رہی اور نہ اس کے بچے۔ کچھ روز لوگوں کی زبانوں پر ان کے تذکرے ضرور رہے پھر وقت کے ساتھ اس قصے کو بھی سب نے بھلا دیا۔