موسم سرما کی ایک خنک صبح تھی۔ سردی کافی بڑھ چکی تھی۔ کچھ دیر پہلے برفیلی ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے۔ پھر کالے بادلوں سے آسمان ڈھک گیا۔ عجیب نظارہ تھا اور مجھے اسکول جانا تھا۔ امی کی طبیعت ٹھیک نہ تھی تبھی میں ناشتے کے لئے نان لینے اکیلی ہی تنور پر چلی گئی۔ یہ تنور ہمارے محلے کی ایک بیوہ عورت چلاتی تھی اور خود اپنے ہاتھ سے نان لگاتی تھی۔ وہاں پہنچی تو ایک لڑکا پہلے سے موجود تھا ، وہ بھی نان لے رہا تھا۔ اُسے دیکھ کر لگا جیسے سارا جہان اس نے اپنی آنکھوں میں سمیٹ رکھا ہو۔ وہ لڑکا نہیں کوئی چمکتا ستارہ تھا۔ ان دنوں میں تیرہ برس کی تھی اور وہ بیس برس کا ہوگا۔ میں نے نان والی خالہ سے کہا۔ مجھے جلدی نان دے دو، اسکول کو دیر ہورہی ہے۔ تبھی لڑکے نے اپنے لئے خریدے ہوئے نان مجھے دے دیئے۔ میں حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے پر اتنا رعب تھا کہ نان واپس کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو پیسے میں نے تنور والی خالہ کے آگے رکھ دیئے۔ مجھے جلدی تھی۔ اسکول جانا تھا مگر میں نان پکڑے کھڑی تھی ، شاید اس کی صورت میں گم تھی۔ ایسی صورت زندگی میں پہلی بار جو دیکھی تھی۔ میری حیرت سے بے نیاز وہ چلا گیا۔ اس واقعہ کو ایک ماہ بیت گیا، دوبارہ نہ دیکھا تو آنکھیں اسے دیکھنے کو ترسنے لگیں مگر وہ دکھائی نہ دیا۔ جب گھر سے نکلتی دعا کرتی ، اے کاش! اسے دیکھ لوں۔ ایک روز دعا قبول ہوگئی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ میں ٹیوشن پڑھ کر واپس آرہی تھی۔ کیا دیکھتی ہوں وہی لڑکا آنکھوں میں سرمہ اور چہرے پر تبسم لئے، اپنے کسی دوست کے ہمراہ کچھ سامان اٹھائے اپنے مکان کی طرف جارہا ہے اس کا گھر زیادہ دور نہ تھا۔ جب وہ پاس سے گزرا تو میری جانب مڑ کر دیکھا، تبھی دل کی دھڑکنیں تیز ہوئیں۔ جی چاہا اسے پکارلوں مگر اتنی کمسن تھی کہ پکارنے کی جرات بھی نہ کر سکتی تھی۔ امی جان سے کہا۔ جانے کون لوگ سامنے والے مکان میں آئے ہیں، ان نئے کرایہ داروں سے جا کر ملنا چاہئے ۔ کیوں بھئی کیوں جائیں۔ انہوں نے سختی سے جواب دیا اور میں سہم کر چپ ہوگئی۔ ایک روز قدرت نے اچانک اس کی صورت دکھا دی۔ کیا دیکھتی ہوں ، گھر کے سامنے کھڑا ہے اور موٹر سائیکل ٹھیک کروا رہا ہے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آرہا تھا، جلدی جلدی اس کی طرف گئی ، وہ اکیلا تھا لیکن بات نہ کر سکی۔ ایک لفظ بھی ادا نہیں ہو رہا تھا۔ ایک روز ایک خاتون اور دولڑکیاں ہمارے گھر آئیں ۔ آنے والی آنٹی نے اپنا تعارف کرایا۔ میں جنید کی ماں ہوں اور یہ میری بیٹیاں زیبا اور شیبا ہیں۔ ہم آپ کے سامنے والے مکان میں آئے ہیں ، سوچا آپ سے ملیں۔ وہ بہت ملنسار اور مہذب تھیں۔ امی اور آپا خوشدلی سے ملیں، ان کو پسند کیا اور کہا کہ ہم بھی آپ کے گھر آئیں گے۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی، دل کی مراد بر آئی تھی ۔ آرزو تھی کہ ان کے گھر آنا جانا ہو۔ ایک بات نوٹ کی کہ وہ میری جانب توجہ اور دلچسپی سے دیکھتی تھیں۔ شیبا نے مجھ سے دوستی کرلی اور گھر آنے کا وعدہ لیا۔ ہفتہ بعد امی نے کہا۔ چلو نا ہمسایوں سے مل کر آتے ہیں۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ جلدی سے تیار ہوگئی۔ میں اور امی گئے۔ انہوں نے بڑی آؤ بھگت کی ۔ ہم وہاں کچھ دیر بیٹھ کر آگئے۔ دل تھا کہ اس مکان کی دہلیز پر رہ گیا تھا۔
میٹرک کے امتحان ہونے والے تھے۔ میں پڑھائی میں مصروف تھی لیکن شیبا روز آ جاتی۔ میں پڑھائی چھوڑ کر اس سے باتیں کرنے لگتی۔ خدا خدا کر کے پرچے ہو گئے تو ایک روز اس نے کہا۔ ہم تمارا رشتہ جنید بھائی کیلئے مانگ رہے ہیں، تمہاری کیا مرضی ہے؟ کیونکہ بھیا کا خیال ہے کہ کرن کی مرضی ضرور معلوم کرنی چاہئے ۔ میں یہ سن کر شرما گئی مگر خوشی چہرے سے چھلک رہی تھی ۔ شیبا نے پوچھا۔ تم چپ ہو لیکن مسکرا رہی ہو تو میں ہاں سمجھوں؟ میں نے اثبات میں گردن ہلا دی کیونکہ چہرے پر حیا کی سرخی نے اسے سب کچھ بتا دیا تھا۔ شیبا نے جنید سے کہا۔ جس لڑکی کو تم نے پسند کیا ہے، وہ بھی تمہیں پسند کرتی ہے، ہم کرن کا رشتہ ضرور لیں گے۔ اپنی ہر بات میری بڑی بہن کے صلاح و مشورے سے کرتی تھیں اور آپا جو شادی شدہ تھیں، ہمارے گھر کی اوپر والی منزل پر رہتی تھیں۔ جب جنید کی امی رشتہ لائیں تو امی نے آپا سے مشورہ کیا اور پھر انہوں نے لڑکے کو بلا لیا۔ کچھ دیر بات چیت کی ۔ اُن کو جنید بہت پسند آیا، انہوں نے ابو سے بات کی۔ ابو خاصے بوڑھے تھے، کہنے لگے۔ بیٹا! جیسی تم لوگوں کی مرضی، میں کیا کہہ سکتا ہوں، خود ہی دیکھ بھال کر لو۔ بہنوئی نے بھی جنید کو جانچا پرکھا۔ پھر امی کو کہا۔ لڑکا اچھا ہے، فورا ہاں کر دیں اور ساتھ ہی نکاح کردیں۔ جو میں سوچ بھی نہ سکتی تھی ، وہ ہو گیا۔ پہلے دن بات پکی ہوئی اور ہفتہ بعد میرا جنید سے نکاح ہو گیا۔ شروع شروع میں سسرال والے بڑے تحائف لے کر آتے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے مطالبہ کیا کہ رخصتی کر دیں۔ اس بات پر بہنوئی صاحب نے کہا کہ چار سال کا آپ نے وعدہ کیا تھا، ابھی تو دو سال گزرے ہیں۔ میرے سسرغریب آدمی ہیں، ان کی آمدنی کا کوئی خاص ذریعہ نہیں ہے، اچھی رقم کا بندو بست کر رہے ہیں تا کہ جہیز بنا سکیں، کچھ جہیز بن جائے تو لڑکی کو رخصت کر دیں گے لیکن انہوں نے ہی اصرار کیا کہ ہم کو جہیز کی ضرورت نہیں ہے، ہم کو بغیر جہیز کے رخصتی دے دیں۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے یہ بات پھیلا دی کہ وہ لڑکی کو بیاہ کر لے جائیں گے اور پھر طلاق دے دیں گے۔ تب میرے گھر والے بے حد پریشان ہوگئے۔ اس وجہ سے بہنوئی نے میرے حق مہر میں پچاس ہزار کے اضافے کا مطالبہ کر دیا۔ اس بات پر وہ لوگ بددل ہو گئے اور پیچھے ہٹ گئے۔ اب اصل پریشانی کا شکار میں اور جنید تھے کیونکہ ہمیں ایک دوسرے سے جدائی منظور نہ تھی۔ شیبا نے مجھے اپنے بھائی کا خط لا کر دیا جس میں لکھا تھا ، پارک میں ملو، میں سہیلی کے گھر جانے کے بہانے پارک میں آگئی اور اس سے ملی۔ سلام کے الفاظ بھی مجھ سے ادا نہیں ہو رہے تھے۔ وہ جانے کیا کیا کہتا رہا لیکن میں ایک بات کا بھی جواب نہ دے سکی، بس اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی جب کہا کیا بات ہے؟ تم اتنی خاموش کیوں ہو؟ دیکھو کرن اگر تمہارے گھر والوں نے رشتہ نہ دیا تو میرے گھر والے طلاق پر تل جائیں گے اور ہم پچھڑ جائیں گے۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کہا تو بس اتنا اور مل جائے گی لیکن مجھ سی نہ ملے گی۔ ہاں تم پری ہو لیکن وعدہ کرو مجھے دھوکا نہ دو گی وعدہ کرو تم کبھی مجھے دھوکا نہ دو گے۔ اس نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ کبھی دھوکا نہ دوں گا۔ کچھ دیر باغ میں بیٹھ کر ہم آگئے تو میرے دل کو سکون ملا… اس پہلی اور آخری ملاقات کے بعد مجھ بد قسمت پر وہ قیامت ٹوٹی کہ قلم لکھتے ہوئے اور ہاتھ رقم کرتے ہوئے کانپ رہے ہیں۔ یہ وہ دن تھا جب زلزلہ آیا تھا۔ صبح کا وقت تھا، میں اپنے گھر کی کھڑکی سے اس کے دروازے کی سمت دیکھ رہی تھی، میری آنکھیں اس کا دیدار کرنا چاہتی تھیں… اچانک زمین کے اندر اس قدر خوفناک گڑ گڑاہٹ سنائی دی کہ مارے دہشت کے میری چیخ نکل گئی۔ مجھے کچھ ہوش نہیں رہا کہ کیا ہوا گھر، مکانات، پہاڑ سب ہی کچھ زمین بوس تھا۔ خاک ، خون ، پتھر، چیخیں اور سسکیاں میں کچھ دیکھ سکتی اور نہ سن سکتی تھی۔ جب ہوش آیا تو کائنات بدل گئی تھی۔ میرا کچھ بھی میرے پاس نہ تھا۔ گھر والے کہاں گئے ، خبر نہیں میں ایک گاڑی میں تھی اور میرے اردگرد اجنبی چہرے تھے ۔ وہ جانے کن رستوں پر اور کہاں مجھے لے جا رہے تھے؟ یہ لوگ بردہ فروش تھے۔ میرے علاوہ اور بھی لڑکیاں ان کے ہاتھ لگیں۔ یہ ہمیں اُٹھا لائے اور بیچ دیا۔ پھر ہم ایسی جگہ پہنچا دی گئیں کہ جس کا نام لیتے ہوئے شرفا گھبرا جاتے ہیں۔ یہ لاہور کا علاقہ تھا جہاں حسن فروشی اور جسموں کا کاروبار ہوتا تھا۔ مجھے بھی ان ظالموں نے اسی جہنم میں دھکیل دیا۔
شروع دنوں میں مجھے پر کیا گزری ہے، یہ نہ ہی لکھوں تو بہتر ہوگا کیونکہ میرے والدین اگر زندہ ہوں گے اور وہ یہ حال پڑھ لیں گے تو ان پر ایک اور قیامت بھی گزر جائے گی۔ جہاں میں تھی وہاں روز ہی حسن کے خریدار آتے تھے اور ہم کو سجا سنوار کران کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ میرے ساتھ والے کوٹھے پر جس بیگم کا ٹھکانہ تھا، اس میں اس کی چار نام نہاد بیٹیاں رہتی تھیں، جن سے وہ دولت کماتی تھی۔ ان لڑکیوں میں سے ایک کا نام مدیحہ تھا اور وہ بھی میری طرح مصیبت کی ماری تھی۔ اس لڑکی سے میری دوستی ہوگئی اور اکثر جب فراغت ہوتی، ہم مل بیٹھ کر دکھ سکھ کرلیا کرتی تھیں۔ ایک دن کھڑکی سے میں نے اپنی اس سہیلی مدیحہ کو بلایا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ سامنے ہی صوفے پر جنید بیٹھا تھا۔ میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتی تھیں، بھلا میں کیسے اس کی صورت بھلا سکتی تھی جس کی صورت میرے دل میں بسی تھی۔ بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا۔ اپنے آپ کو کیسے ظاہر کرتی ، اس بات کا بھی حوصلہ نہیں تھا لیکن میں اس کی منکوحہ تھی، میرا اس کے ساتھ نکاح ہوا تھا اور طلاق بھی نہ ہوئی تھی۔ کافی دیر کھڑکی میں کھڑی رہی اور وہ ان کے گھر سے نکل کر چلا گیا۔ ساتھ اس کا دوست تھا۔ جب وہ چلا گیا تو میں نے مدیحہ کو بلایا اور پوچھا کہ یہ کون لوگ تھے؟ کہنے لگی شمشیر تھا جو آپا کا شیدائی ہے اور آج وہ اپنا ایک دوست ساتھ لایا تھا۔ یہ نیا پنچھی ہے میرے لئے بات کی ہے شام کو مجھے لے جائیں گے میرا دل بیٹھ سا گیا۔ لب پر حقیقت حال لانا چاہتی تھی مگر ضبط کر لیا کہ راز افشا ہونے کی صورت میں مزید حالات خراب ہو سکتے تھے۔ ایک ہفتہ تک وہ نظر نہ آیا۔ بارہا ارادہ کیا۔ مدیحہ سے پوچھوں مگر زبان نہ کھول سکی۔ اتفاق کہ ایک روز میری طبیعت خراب ہوگئی اور دوا لینے اماں نے مجھے نوکرانی کے ہمراہ ساتھ والے مطب بھیجا تو مطب کے دروازے کے قریب مجھ کو جنید نظر آگیا میں خود پر قابو نہ رکھ سکی اور نقاب الٹ دیا حالانکہ مجھے پتہ تھا کہ یہاں اردگرد ایسے چوکیدار پھرتے رہتے تھے جن کے فرائض تھے کہ وہ ہم پر نظر رکھیں تا کہ کوئی لڑکی کہیں بھاگ کر نہ جا سکے۔ جنید نے مجھے دیکھا تو ششدر رہ گیا تم یہاں ہاں میں نے جھوٹ بولا ہمارا گھر سڑک پار بلاک میں ہے۔ یہاں میں دوا لینے آئی تھی، امی کی طبیعت بہت خراب ہے نا تم لوگ سب خیریت سے ہو؟ ہاں زلزلے کے بعد ایک امدادی ٹیم نے ہمیں کچھ دن کیمپ میں رکھا۔ پھر یہاں لا بسایا اور تم، میں بھی زندہ ہوں اور تمہارے سامنے ہوں۔ ہاں مجھے پتہ ہے کہ تم کہاں جارہے تھے۔ وہ کچھ خجل سا ہوا اس روز بھی میں دوا لینے آئی تھی تو تم سامنے کی طرف جارہے تھے۔ وہاں کون رہتا ہے؟ میں نے بن کر سوال کیا۔ وہاں میرا دوست لے گیا۔ اس کی ایک دوست ہے مدیحہ، وہ اس سے ملنے گیا تھا لیکن سنا ہے وہ جگہ تو اچھی نہیں ہے. ایک دم میں بپھر گئی۔ میں نے کہا جنید جھوٹ مت بولو تم جیسا جھوٹا، فریبی اور چکر باز میں نے پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔ آج کے بعد میرے رستے میں مت آنا، مجھے سے ملنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ کہنے لگا کرن تم کو کیا ہو گیا ہے۔ اس نے کافی اصرار کیا کہ اپنے گھر کا پتہ دو لیکن میں نے کوئی بات نہ سنی۔ کافی دیر سمجھاتا رہا کہ دن رات دعا کے بعد مل گئی ہو تو ایسا مت کرو لیکن مجھے ڈر تھا کہ اس بازار کا کوئی نگہبان مجھے دیکھ لے گا تو میری شامت آجائے گی اور وہ غنڈے جنید کی جان کے دشمن ہو جائیں گے۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے مگر بے بس تھی ۔ کوٹھے والی ماں تو کبھی کسی کو یوں اکیلا نہ بھیجتی تھی۔ مجھ پر اعتبار کر کے ملازمہ کے ہمراہ بھیجا تھا مگر مجھے یقین تھا کہ اس کا کوئی نہ کوئی گرگا، میری نگرانی ضرور کر رہا ہوگا۔ اس وقت بے بسی سے آنسو میری آنکھوں سے چھلک رہے تھے اور بدن تھرتھر کانپ رہا تھا۔ میری یہ حالت دیکھ کر اس نے کہا۔ واقعی تم بہت خوبصورت ہوں، اس میں کوئی شک نہیں اور میں تمہارے قابل نہیں تھا لیکن یہ سچ ہے میں نے اپنی زندگی میں محبت صرف تم سے ہی کی ہے اور ہمیشہ کرتا رہوں گا تم چاہے. مجھے بھول جاؤ.. رہی بات ملاقات کی ، اگر تم نہیں چاہتیں، آج کے بعد میں بھی تمہارے اس شہر میں نظر نہیں آؤں گا۔ اگر تم خود مجھے سے رابطہ کرنا چاہو تو یہ لو میرا نمبر اس پر مجھے فون کر دینا۔ میں تمہارے سارے غم سمیٹ لوں گا اور اپنی ساری خوشیاں تم کو دے دوں گا۔ سدا خوش رہو۔ وہ چلا گیا تو میں نے ملازمہ سے کہا اماں شانو ماں کو کچھ نہ بتانا دراصل یہ میرا شوہر تھا، نکاح ہوا تھا، رخصتی نہیں ہوئی تھی ، طلاق بھی نہیں ہوئی تھی ، بس رخصتی پر جھگڑا چل رہا تھا کہ ہم بچھڑ گئے ،زلزلہ نے ہم کو جدا کر دیا۔ امان شانو کہنے لگی بیٹی تو اب اس کو بھول جا، جس جگہ تو ہے وہاں سے کوئی شوہر اپنی بیوی نہیں لے جاتا لے بھی جائے تو دنیا اس کو خوار کرتی ہے اور پھر تم کو واپس یہاں ہی پناہ لینی پڑے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی نے اس کو تیرے ساتھ بات کرتے دیکھ لیا تو پھر تو اچھی طرح جانتی ہے یہاں کے قاعدے قانون کیا ہیں. بھلائی اسی میں ہے ماضی کو دل میں دفن کر دے۔ اماں شانو مجھ پر مہربان تھی۔ میں جانتی تھی کہ وہ میرا راز افشا نہ کرے گی لہذا میں اس سے دکھ سکھ کر لیا کرتی تھی ۔ ٹھکانے پر آکر میں نڈھال تھی۔ بستر پر لیٹ گئی ۔ ماں نے سمجھا کہ میری طبیعت خراب ہے، اسی لئے نڈھال پڑی ہوں۔ مجھے دوا لینے کی تاکید کی اور باورچن سے کہا کہ اس کیلئے سوپ بنا دو، بچی کمزور ہو گئی ہے۔ ممی کی ہم پر عنایتیں تو بہت تھیں لیکن وہ ہماری عزت کی دشمن تھی۔ یوں ہم ساری لڑکیوں پر وہ دن رات واری صدقے جاتی تھی۔ ہم نوٹ کمانے کی مشینیں جو تھیں۔ اس بار جب وہ مدیحہ کے پاس آیا۔ میں نے کھڑکی سے دیکھ لیا۔ اگلے روز مدیحہ سے کہا کہ پلیز ذرا تم اس سے کرن کا ذکر کرنا کہ کون تھی، کیسی تھی اور تمہاری کیا لگتی تھی؟ اور مجھے بتانا۔ مدیحہ نے مجھے بتایا کہ وہ تمہاری بہت تعریف کرتا ہے، کہتا ہے کہ اگر دنیا والے مجھے ساری دولت، ساری خوبصورت لڑکیاں دے دیں تو وہ ایک طرف اور کرن ایک طرف میں ان سب کو ٹھوکر مار دوں گا وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے دراصل اس جگہ وہ تم کو ڈھونڈنے کی غرض سے آیا تھا کیونکہ اسے پتہ چلا تھا کہ وہ ویگن والے اس زلزلہ زدہ جگہ سے جو لڑکیاں لے گئے تھے، وہ لڑکیاں انہوں نے کوٹھوں کی زینت بنا دی تھیں۔ وہ تیری ہی تلاش میں گھوم رہا ہے۔ میں نے اس کے دل کا راز لے لیا ہے۔ تجھے اتنا اچھا ہم سفر مبارک ہو۔ اب اگر تو کہے تو میں اس کو تیرا پتہ بتا دوں۔ نہیں مدیحہ کیونکہ اب میرے پاس کچھ بچا بھی نہیں ہے۔ پھر تجھے پتہ ہے نا کہ ماں ڈائن کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں، وہ تو اس کو جان سے مروا دیں گی۔ مدیحہ بولی اری ظالم اس کو ساری حقیقت بتادے۔ وہ زبان کا پکا ہے، ایک بار اس شہر سے نکل گیا تو پھر کبھی نہیں آئے گا۔ میں خوف سے اس وقت نہ بتا سکی مگر سوچتی تھی کہ بتا دوں ۔ یہ سوچنے میں شاید میں نے بہت دیر کردی اب چھ سال ہونے کو ہیں کہ پھر اس کی صورت نہیں دیکھی۔ کئی بار فون پر رابطہ کرنا چاہا مگرنہ ہو سکا، شاید اس کا نمبر بدل گیا اور شاید وہ اب کسی اور بازار حسن میں مجھے تلاش کر رہا ہو۔ میری کیفیت اس غم میں ایسی ہو گئی کہ پھر کبھی لبوں پر مسکراہٹ نہ آسکی۔ سب کہتے تھے اسے کیا ہو گیا ہے۔ رنگ پیلا اور میں ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی ۔ تب کسی نے ماں کو کہا کہ اس کو مزار پر لے جاؤ تو ٹھیک ہو جائے گی۔ ماں دیگر لڑکیوں کے ہمراہ مجھے مزار لے آئی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ وہاں ایک لڑکا لمبی داڑھی، لمبے بال بکھیرے بالکل کمزور لکڑی کی مانند گلے میں زنجیریں ڈالے، بوسیدہ لباس میں بیٹھا ہے جیسے ہوش و حواس کھو چکے ہوں ۔ وہ کسی کو جانتا تھا اور نہ پہچانتا تھا۔ لوگ اس سے دعا کرانے آتے۔ وہ بس ہاتھ اٹھا کر سر ہلا دیتا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا کوئی دوست بیٹھا تھا جو صحت یابی کیلئے اس کو اس دربار لایا تھا۔ اس کی زبانی معلوم ہوا کہ اس کی منکوحہ کو کچھ غنڈے زلزلہ زدہ علاقے کے ایک گاؤں سے اٹھا کر لائے تھے اور بازار حسن کی زینت بنا دیا۔ جب اس کو معلوم ہوا تو یہ اس لڑکی کو ہر شہر میں ڈھونڈتا رہا۔ اسے وہ لڑکی مل بھی گئی مگر لڑکی نے اس کو پہچاننے سے انکار کر دیا جس کا اسے سخت صدمہ ہوا۔ تب سے غم زدہ رہنے لگا تھا۔ پھر کچھ دوستوں نے نشے پر لگا دیا اور حالت یہ ہوگئی کہ اپنی سدھ بدھ گنوا دی۔ بس اتنا کہتا تھا کہ اب لاہور نہیں جاؤں گا، بھی نہیں جاؤں گا۔ دن بدن کمزور ہوتا گیا۔ اسپتال میں علاج بھی کرایا، ٹھیک نہ ہوا۔ اب اس کی یہ حالت ہے۔ سوچا آخری کوشش کر دیکھیں۔ کسی نے کہا کہ مزار پر لے جاؤ تو ہم یہاں لے آئے ہیں۔ دوست کا نام عبدالشکور تھا۔ میں نے تمام قصہ سنا۔ پھر عقیدت سے دوزانو ہو کر اس شخص کے سامنے بیٹھ گئی کہ میرا یہ بزرگ میرا ہی جنید تھا۔ میں نے اس کو پہچان لیا مگر وہ مجھے نہ پہچانا کیونکہ اس کی آنکھیں پہچان کھو چکی تھیں ۔ سب ہی دعا کرانے کے چکر میں تھے مگر مجھ سے تو وہاں ٹھہرا نہ گیا اور میں وہاں سے ہٹ گئی کیونکہ میں نے اپنے اندر جھانک لیا تھا کہ میں کیا ہوں کاش! اس وقت میں، حقیقت جنید کو بتا دیتی ، پھر جو ہوتا دیکھا جاتا مگر اس وقت میں سولہ برس کی تھی عقل تھی اور نہ حوصلہ تھا۔ میں خوفزدہ ہرنی کی مانند، وحشی انسانوں کی شکار گاہ میں تھی۔ ہر دم دعا کرتی ہوں خدا کرے وہ ٹھیک ہو جائے۔ اپنی بدنصیبی کا رونا بہت رو چکی مگر اپنی بزدلی پر میں خود کو بھی معاف نہیں کروں گی۔