منورہ میری خالہ کی بہو تھیں۔ وہ بہت نیک اور اچھے اخلاق کی تھیں۔ ان کے شوہر کا نام انور تھا۔ وہ اور اجمل بچپن کے دوست تھے۔ ایک کالج سے تعلیم مکمل کی۔ کچھ عرصہ مختلف جگہ کام کرنے کے بعد بالآخران کو سعودی عربیہ کی ایک مشہور کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ ان کی دوستی مثالی تھی۔ ہر جگہ ساتھ رہے۔ گھر کرائے کے تھے، مگر قریب قریب تھے۔ انہوں نے دیار غیر جا کر خوب کمایا۔ اتنا سرمایہ جمع کر لیا کہ ذاتی گھر خریدنے کے بارے میں سوچنے لگے۔
پاکستان آئے تو ایک پرانی کوٹھی پسند آگئی جو اگلے وقتوں کی مگر مضبوط اور اچھی حالت میں تھی۔ یہ ایک پوش علاقہ تھا۔ یہاں ہر طرح کی سہولتیں میسر تھیں، تاہم مذکورہ رہائش گاہ کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ تبھی انور بھائی اور ان کے دوست اجمل نے یہ فیصلہ کیا کہ آدھی آدھی رقم ملا کر کو بھی خرید لیتے ہیں۔ فی الحال ساتھ رہیں گے۔ جب بٹوارہ کرنا ہو گا تو کوئی پوری کوٹھی لے لے گا یا پھر درمیان سے دیوار اٹھا کر مکان کو آدھا آدھا کر لیں گے۔ کوٹھی وسیع تھی اور دونوں کی فیملی مختصر تھی۔ انور بھائی کی بیوی، بوڑھی ماں اور ایک بیٹا تھا، جبکہ اجمل کی سرے سے کوئی اولاد ہی نہ تھی۔ دونوں مرد ملازمت کی وجہ سے سعودی عربیہ رہتے تھے ، ایسے میں ان کی فیملیز کا ایک ساتھ رہنا ہی بہتر تھا۔ غرض کوٹھی خرید لی گئی۔ میری بھابی منورہ، خالہ جان کے ہمراہ اجمل کی بیوی اور والدہ اس کوٹھی میں شفٹ ہو گئے۔اپنے اہل خانہ کو نئے گھر میں منتقل کرنے کے بعد انور اور اجمل واپس سعودی عربیہ چلے گئے۔ ان دنوں انور بھائی کا بیٹا کاشف بارہ سال کا تھا۔ جب وہ پیدا ہوا تبھی سے اجمل کی بیگم صائمہ نے اسے گود لے لیا تھا۔ وہ اس بچے سے بہت پیار کرتی تھیں اور یہ بھی ان سے بہت مانوس تھا۔ اسکول سے آتے ہی ان کے گھر چلا جاتا۔ ممتا کی پیاسی صائمہ بھی کاشف کا انتظار کرتی رہتی۔ ٹھنڈے شربت اور اکثر کھانے سے تواضع کرتی۔ دیر تک اس کے پاس رہتی۔ کبھی منورہ بھابی نے برا نہ منایا کہ یہ ممتا کی محرومی ہے۔ وہ صائمہ کا دل سے احترام کرتی تھیں۔ صائمہ بھابی، کاشف کو خوش دیکھنے کے لئے اس کے لئے مہنگے کھلونے لاتیں، اچھے اور قیمتی کپڑے بنواتیں۔ جو فرمائش کرتا، اسی وقت پورا کرتی تھیں ۔ اللہ نے ان کی سنی کہ رہنے کو ایک ہی گھر دے دیا۔ اب یہ بچہ ہمہ وقت ان کی نظروں کے سامنے تھا اور وہ اس کو اپنے گھر کی رونق سمجھتی تھیں۔
جس روز کاشف پیدا ہوا، اسی دن سے وہ اس کو اٹھاتی اور کھلاتی آئی تھیں لیکن صائمہ کی ساس اور نند کو ہرگزان کی یہ ادا نہیں بھاتی تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ یہ عورت بجائے روپیہ بچانے کے ہمارے بھائی کی خون پسینے کی کمائی کس طرح غیرکی اولاد پر لٹاتی ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ یہ اپنے غریب رشتے داروں کی مدد کر دیا کرے کہ وہ حق دار تو تھے۔ انسان کو جس کام سے خوشی اور سکھ محسوس ہوتا ہے ، وہی کرتا ہے۔ بھابی صائمہ بھی ساس، نند کی ان باتوں پر کان نہ دھرتیں۔ صائمہ کی نند شادی شدہ تھی اور اس کے چار بچے تھے۔ شوہر کی تنخواہ معمولی تھی اور اس کا مسئلہ یہ تھا کہ چاہتی تھی صائمہ بجائے کاشف کی فرمائشیں پوری کرنے کے اس کے بچوں پر خرچ کیا کرے، جبکہ نند بھاوج کی بنتی نہ تھی۔ ساس آئے دن بیٹی کو بلاتی اور صائمہ کو نند کے اعتراض کھلتے، تبھی وہ اس کو منہ نہ لگاتی ۔ ساری الجھن یہی تھی۔ جہاں تک کاشف کا مسئلہ تھا، صائمہ کہتی۔ یہ گھر کا بچہ ہے، ایک دن کا تھا تبھی سے گود میں اٹھایا۔ اپنی اولاد جیسا پیارا لگتا ہے۔ ساس، نند خواہ مخواہ اس معصوم سے جلتی ہیں۔ منورہ بھابی اور صائمہ کی بہت بنتی تھی۔ دونوں کوٹھی میں سکون سے رہ رہی تھیں۔ ان کی محبت کی وجہ سے گھر کا ماحول پرسکون تھا۔ میری شادی ہو چکی تھی۔ کبھی کبھار ہی بھابی کے یہاں جانا ہوتا۔ میں زیادہ تر اپنے بچوں میں مصروف رہتی۔ والدہ آجاتیں تو بتاتیں کہ منورہ اور صائمہ آپس میں محبت سے رہ رہی ہیں۔ اللہ جانے صائمہ کی ساس کیوں دشمن بنی ہوئی ہے۔ کسی دن یہ دونوں گھرانوں میں جدائی ڈال کر رہے گی۔ میں امی سے کہتی کہ اس بڑھیا کے جلنے سے کیا ہوتا ہے ، جبکہ انور بھائی اور اجمل بھائی کی دوستی بچپن کی ہے۔ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے، اکیلی عور تیں رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے سوچ سمجھ کر انہوں نے مشترکہ گھر خریدا تھا، تاکہ ان کی خواتین اکیلی نہ رہیں۔ وقت گزرتا رہا۔ چھٹی پر دونوں حضرات وطن آتے اور کچھ دن رہ کر واپس لوٹ جاتے۔ یوں سات سال پلک جھپکتے گزر گئے، وقت گزرنے کا پتا بھی نہ چلا۔ کاشف اب ماشاء اللہ انیس برس کا نوجوان ہو گیا تھا۔ اس بار جب بھائی آئے تو بھابی نے کاشف کی شادی کا تذکرہ چھیڑا۔ انہوں نے اپنی ایک دور پرے کی رشتے دار کی بیٹی پسند کر لی تھی، کیونکہ بیمار رہنے لگی تھیں۔ چاہتی تھیں کہ جلد از جلد بہو کو گھر لے آئیں۔ بھائی نے بھی بیوی کی رضا پر ہاں کہی اور کاشف کی منگنی لائبہ سے کر کے واپس سعودی عربیہ چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ پیسے اور کمالوں تا کہ اکلوتے بیٹے کی شادی دھوم دھام سے کر سکوں۔ خدا کی کرنی کہ زندگی نے مہلت نہ دی اور بھابی منورہ، کاشف کی شادی کی خوشی نہ دیکھ سکیں۔ ایک روز اچانک ہارٹ اٹیک ہو گیا اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ بھابی کی وفات کا سبھی کو دکھ تھا۔ یہ اللہ کی مرضی تھی، سب بے بس تھے۔ منورہ بھابی کا چالیسواں گزار کر بھائی واپس لوٹ گئے۔ بوڑھی ماں اور نو عمر بیٹے کی دیکھ بھال اور کھانے کی ذمہ داری بھابی صائمہ نے سنبھال لی کہ وہی اب گھر کی سر براہ تھیں۔
کھانا ایک جگہ پکنے لگا۔ وقت مقررہ پر خالہ جان اور کاشف کو بھابی صائمہ کھانا دے دیتیں۔ ملازمہ کی بھی نگرانی کرتیں جو صفائی کرنے اور برتن دھونے آتی تھی۔ اپنی والدہ اور بیٹے کا خرچ انور بھائی اجمل کو دے دیا کرتے تھے۔ ایک سال بعد بھائی انور نے بیٹے کی شادی کر دی اور بہو گھر لے آئے تاکہ ان کی والدہ کو کوئی سنبھالنے والا ہو۔ بیوی نہ رہی تو گھر میں دل نہ لگا، نیا معاہدہ کر لیا اور سعودی عربیہ لوٹ گئے ۔ اجمل ابھی تک وہاں تھے۔ گھر میں بہو آ گئی مگر وہ کمسن تھی، بمشکل پندرہ سولہ برس کی ، اس کو دنیا کی سمجھ نہ تھی۔ کچھ خالہ بتاتیں اور کچھ صائمہ رہنمائی کرتی تاکہ وہ کھانا پکانا اور صحیح طریقے سے امور خانہ داری سیکھ لے۔ کاشف بھی کم عمر تھا، زمانے کی اونچ نیچ کو نہیں سمجھتا تھا۔ جو بات صائمہ کہتی، وہ مانتا۔ لائبہ کی بات پر زیادہ توجہ نہ دیتا۔ جس پر وہ برا مانتی۔ خالہ نے لائبہ کو افسردہ دیکھ کر کئی بار پوتے کو سمجھایا کہ بیٹا… ! تم اپنی دلہن کا خیال کیا کرو۔ جیسا وہ کہے ، ویسا کیا کرو لیکن کاشف نے دادی کی بات پر کان نہ دھرے۔ اس پر لائبہ نے جھگڑا بھی کیا لیکن ہر بار کاشف نے یہی جواب دیا کہ تائی صائمہ ماں جیسی ہیں۔ میری ماں جا چکی ہیں ، اب یہی تمہاری ساس ہیں۔ انہوں نے شروع دن سے میرا خیال رکھا ہے، اب بھی رکھتی ہیں۔ جیسا یہ کہتی ہیں، ویسا ہی کرو۔ وہ ان کی کوئی بات نہیں ٹال سکتا تھا۔ صائمہ کی ساس نے دیکھا کہ بہو پہلے کاشف پر پیسہ لٹاتی تھی۔ اب اس کی بیوی پر بھی خرچ کرتی ہے۔ لڑکی نادان، پھر بھی منہ بسورے رکھتی ہے۔ اس نے صائمہ کو کہا۔ جب یہ لڑکی تیری چودھراہٹ کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں تو خواہ مخواہ کیوں ان کے گھر میں دخل اندازی کرتی ہو؟ بلا سے کھانا بنائے یا نہ بنائے، سالن جلا دے یا کروا کر ڈالے ہمارا کیا ہے ، یہ جانیں ان کا کام …! ان کے معاملات میں پڑنا چھوڑ دو، ان کو ان کی زندگی گزارنے دو۔ ساس تو ازل کی دشمن تھی۔ صائمہ نے ان کی تنبیہات کو درخوراعتنا نہ جانا۔ بحث کی کہ کاشف میرے لئے بیٹے جیسا ہے اور لائبہ اسی ناتے میری بہو ہے۔ میں اسے نہیں سمجھائوں گی، تو کون سمجھائے گا ؟ وہ کاہلی سے کام لیتی ہے ، تب کیا خالہ جی اس بڑھاپے میں بھوکی پڑی رہیں گی۔ نئی شادی شدہ لڑکیوں کو سمجھانا ہی پڑتا ہے۔ وقت پر کھانا نہ بنائے گی، سارا دن مسہری توڑے گی تب کوئی تو کہے گا خالہ جی کی وہ سنتی نہیں ہے۔ اب اگر سدھرنے سے گریز کیا تو بے شک میکے چلی جائے۔ میں کاشف اور خالہ جی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔ صائمہ نے یوں ہی بات کی تھی۔ وہ کب چاہتی تھی کہ لائبہ سچ مچ میکے جائے، مگر صائمہ کی ساس نے اس بات کو خوب ہوا دی اور بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ یہاں تک کہ بات لائبہ کے میکے تک پہنچ گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پرائی عورت ہماری بیٹی کی نجی زندگی میں اس قدر دخیل کیوں ہے ؟ ایک گھر میں ایک ساتھ رہنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہماری بچی کی زندگی اجیرن کردے۔
دادی دونوں کو خوش و خرم دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ کبھی پوتے کو سمجھاتی اور کبھی لائبہ کو کہتی کہ تم محسوس نہ کیا کرو۔ صائمہ نے شروع دن سے کاشف کو ماں جیسا پیار دیا ہے، اسی لئے زیادہ خیال رکھتی ہے اور کا شف بھی احتراماً اس کی ہر بات مانتا ہے۔ کاشف کی یہ عادت تھی کہ وہ آفس سے آنے کے بعد سیدھا صائمہ کے کمرے میں چلا جاتا، کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا، پھر کھانے کی ٹرے پکڑ کر اپنے کمرے میں آجاتا۔ یہ طریقہ اس نے شادی کے بعد بھی جاری رکھا۔اس کے والد اجمل ، تایا کے ساتھ وطن سے باہر تھے۔ اس گھر کے تمام کام اسی کے ذمے تھے۔ وہ صائمہ کے بھی کام کرتا تھا۔ اس معمول پر لائبہ کو اعتراض رہنے لگا۔ وہ نو عمر لڑکی تھی، شاید اس کو بھی اس گھر میں پیار کی ضرورت تھی۔ جب صائمہ اس کو سمجھاتی بیٹی …! وقت پر شوہر کے کپڑے تیار کر کے رکھو ، استری کردو، اس کے کمرے کی صفائی کرو تو اس کو محسوس ہوتا کہ جو عورت اس کی ساس نہیں بلکہ کچھ بھی نہیں، وہ کیوں اس کو اس کے فرائض یاد دلاتی ہے۔ اس کی حیثیت اس گھر میں کسی نوکرانی سے زیادہ نہیں ہے۔ صائمہ کی ساس لائبہ کے ان احساسات سے واقف ہو گئی۔ وہ اب اس کے کان بھرنے لگی۔ بیٹی ! اپنے شوہر کو قابو میں رکھو ایسا نہ ہو کہ صائمہ اس کی دوسری شادی کرا دے اور اپنی کوئی قریبی رشتے دار لڑکی لے آئے، تب تم ہاتھ ملتی رہ جائو گی۔ آخر وہ کیوں تمہاری پروا نہیں کرتا، ہر بات اس کی مانتا ہے۔ کاشف کو تمہاری پروا کر نی چاہئے۔ اس طرح کی باتیں کر کے صائمہ کی ساس نے لائبہ کے دل و ذہن کو خراب کر دیا۔ وہ خالہ جی کو بھی سمجھاتی کہ تم بچی نہیں ہو ، کیوں اپنے پوتے کو نہیں سمجھاتیں کہ لائبہ نئی دلہن ہے ، اس کی دل جوئی کرے مگر وہ صائمہ کے کمرے میں بیٹھا رہتا ہے اور وہ بیچاری انتظار کر کے سو جاتی ہے۔ خالہ جی جواب دیتیں۔ بڑی آپا ! تم بوڑھی ہو کر سچ مچ سنکی ہو گئی ہو۔ بجائے بڑوں کا ادب سکھانے کے میرے پوتے اور اس کی دلہن کو بدتمیز اور بےادب بنانے پر تلی ہو۔ ایسا بھی کیا حسد ! شروع دن سے ہم ایک گھر میں رہے ہیں۔ آج اگر میری بہو منورہ زندہ ہوتی تو کیا وہ کاشف کو تائی کے پاس جانے سے روکتی ؟ تم بجائے مثبت سوچوں کے منفی کردار ادا کر رہی ہو۔ انہی دنوں عید آگئی۔ عید سے ایک روز پہلے صائمہ کی بہن اور بھانجی ان سے ملنے اور عید مبارک پیشگی کہنے آئیں۔ اس وقت کاشف گھر پر تھا۔ صائمہ نے اسے جلدی سے کچھ چیزیں لینے بھیجا۔ جب وہ کھانے پینے کی اشیاء لے کر آیا تو کہا۔ بیٹا! مجھے کچھ اور بھی منگوانا ہے۔ کل عید ہے مجھے خبر نہ تھی کہ آپا اور شگفتہ آج آنے والے ہیں۔ میں نے ان کے لئے عید کا سامان تو لیا نہیں ۔ ایسا کرو کہ جب تک یہ کھانا کھاتی ہیں ، ان کے لئے بازار سے یہ سامان لے آئو۔ یہ کہہ کر فہرست کاشف کے ہاتھ میں تھمادی۔ اس میں شگفتہ کے لئے چوڑیاں اور کون مہندی، اپنی بہن کے لئے ایک کڑھائی والی سفید رنگ کی چادر کی فرمائش کی تھی، جس کے لئے انہوں نے دکاندار کو فون بھی کر دیا تھا۔ جب یہ سامان لے کر کاشف گھر لوٹا تو لائبہ دادی کے کہنے پر شگفتہ اور اس کی ماں سے ملنے ان کے کمرے میں چلی گئی۔ اس وقت وہ صائمہ کے کمرے میں بیٹھی تھی۔ لائبہ نے جلدی جلدی شاپر کھولا اور منگوائی ہوئی اشیا دیکھیں۔ اس کا منہ اتر گیا۔ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آئی اور دروازہ بند کر کے رونے لگی۔ خالہ اور کاشف آگئے۔ در بند پا کر دوسرے دروازے سے کمرے میں گئے اور رونے کی وجہ پوچھی۔ وہ بولی کہ تم صائمہ کی بھانجی کے لئے عید کے تحفے کیوں لائے ہو ؟ جبکہ میرے لئے کچھ نہیں لائے۔ صائمہ تائی نے فی الفور بھیج دیا اسی لئے چلا گیا۔ تم کو شام کو بازار لے جا کر شاپنگ کرادوں گا۔
یہ جھوٹ ہے، تم جھوٹ بول رہے ہو۔ صائمہ کی ساس صحیح کہتی ہیں کہ وہ اپنی بھانجی کے لئے تمہیں گھیر رہی ہے۔ بس جو اول فول منہ میں آیا، لائبہ بکنے لگی۔ تبھی کاشف کو غصہ آگیا۔ بولا ۔ قسم کھاتا ہوں شگفتہ میری بہن جیسی ہے، کبھی بھی اس بارے میں سوچا تک نہیں، پھر وہ مجھ سے بڑی ہے۔ نجانے ایسی فضول باتیں تمہارے ذہن میں کیوں آتی ہیں۔ تم ان کے پاس رہو ، تم کو میری ضرورت نہیں ہے تو میں میکے چلی جاتی ہوں۔ ٹھیک ہے پھر تم چلی جائو میکے ، میں نے کب تم کو روکا ہے۔ تمہاری یہی مرضی ہے تو پھر یہی سہی۔ یہ کہہ کر وہ غصے میں کمرے سے باہر نکلا۔ صحن تک آیا ہی تھا کہ صائمہ نے آواز دی۔ کاشف بیٹے! ان کو ان کے گھر تک ڈراپ کر دو۔ ڈرائیور عید کی چھٹی پر چلا گیا ہے۔ کاشف نے صائمہ کو کچھ بتانا ضروری نہ جانا کہ کہیں مہمانوں کے سامنے اس کی سبکی نہ ہو جائے۔ اس نے کہا۔ جی امی … ! اور پھر اپنی گاڑی نکال کر وہ شگفتہ اور اس کی والدہ کو ان کے گھر پہنچانے چلا گیا۔ کاشف چاہتا تھا اس سے پہلے کہ لائبہ مزید جھگڑا بڑھادے اور صائمہ کے مہمانوں کے کانوں میں کوئی ایسی بات پڑ جائے جس سے صائمہ کی بے عزتی یا مہمانوں کو اہانت محسوس ہو تو وہ ان کو یہاں سے فورا لے جائے۔ جب وہ دونوں خواتین کو گھر پہنچا کر لوٹا تو لائبہ گھر میں موجود نہیں تھی۔ دادی نے بہت روکا لیکن وہ نہ رکی اور رکشہ منگوا کر میکے چلی گئی۔ اس نے صائمہ کو بھی ایسی بے نقط سنائیں کہ وہ دنگ رہ گئی۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ لائبہ کے میکے والوں نے بات اتنی بڑھائی کہ بالآخر انور اور اجمل کو سعودی عربیہ سے لوٹنا پڑا۔ آخر کار صائمہ کی ساس کی مراد بر آئی کوٹھی اجمل نے خرید لی اور آدھی کوٹھی کی قیمت ادا کر کے وہ انور کی فیملی سے علیحدہ ہو گئے۔ انور بھائی نے دوسرا گھر خرید لیا جو کافی دور تھا۔ اب کاشف سے صائمہ کو بھی دور ہو جانا پڑا، جس کو بیٹا سمجھ کر چاہا اور پالا ، اب اس پر کوئی حق باقی نہ رہ گیا تھا۔ اس بات کا تائی صائمہ کو بہت دکھ تھا مگر یہ دکھ سہنا ہی تھا کیونکہ کاشف ان کا منہ بولا بیٹا تھا۔ یہاں تو شادی کے بعد سگے بیٹے بھی اپنے حقیقی والدین کو چھوڑ جاتے ہیں یا پھر ان سے نظریں پھیر لیتے ہیں۔ بیوی چیز ہی ایسی ہے۔ کبھی ساسوں کو زبردست اور برا خیال کیا جاتا ہے اور کبھی بہو کا وار چل جاتا ہے تو ساس بیچاری منہ تکتی رہ جاتی ہے۔ شاید زمانے کا دستور یہی ہے۔