Sunday, April 20, 2025

Zamane Ki Chaal

آج جو کہانی میں آپ کو سنانے لگی ہوں وہ میرے دل کے قریب ہے کیونکہ اس ایک بے وفا لڑکی نے میرے پورے ہنستے بستے گھر کو برباد کر دیا – وہ گھر جہاں ہر دم خوشی کا راج تھا اب وہاں پر صرف ویرانی بستی تھی- آج کل کے اس دور میں بھی ہمارے گھرانوں میں رشتوں کی خوب پہچان تھی ۔ والد ، تایا، چچا سبھی اکٹھے ، ایک حویلی نماگھر میں رہتے تھے۔ بنیادی طور پر تو ہم بھی اس گھر کو اپنا گھر سمجھتے تھے جو گائوں میں تھا۔ تعلیم حاصل کرنے ہم شہر آگئے تھے۔ شہر میں بھی ہمارا اپنا بڑا سا مکان تھالیکن گائوں ہمارے لئے جنت سے کم نہیں تھا۔ ہم سب کزن ان دنوں شہر والے گھر میں تھے کہ سبھی زیر تعلیم تھے تاہم جو نہی کوئی چھٹی آتی ، ہم فورا گائوں پہنچ جاتے۔ ہمارے ارد گردرشتوں میں محبت کی خوشبو جنم دن سے رچی بسی ہوئی تھی۔ میرابھائی اعظم اور میں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے ، ہم دونوں ، ہم شکل ، جڑواں بہن بھائی تھے ، تبھی ہم میں دوستی کارشتہ تھا۔ نہ تو اعظم مجھ سے کوئی بات چھپاتاتھا اور نہ میں اسے اپنا کوئی راز مخفی رکھ سکتی تھی ۔ جڑواں ہونے کے باعث ہم میں بہت سی عادتیں مشترک تھیں۔ میرا ایک چھوٹا بھائی عاصم تھا۔ وہ ہم سے چھ برس چھوٹا تھا۔ میری اعظم سے خوب بنتی تھی۔ اگر اختلاف تھا تو اس بات پر کہ وہ خاموش طبع تھا میں شوخ طبع اور باتونی تھی ۔اس کے چہرے پر چھائی سنجید گی اسے باوقار بناتی تھی وہ مجھ سے بڑا لگتا تھا۔ اس کے باوجود اس کی صورت پر معصومیت برستی تھی۔ ہماری بھی لڑائی ہو جاتی تب وہ مجھ سے بات چیت بند کر دیتا۔ اس کی یہ عادت بہت بری تھی کہ جب تک میں اس کی منت سماجت نہ کرتی، اس کو نہ مناتی وہ خود مجھ سے بات کرتا۔ زندگی کے سہل اور خوشیوں بھرے رستے پر بھاگتے دوڑتے ہم کالج تک آ پہنچے۔ ہمارے امتحان نزد یک ہوتے تو ہم ایک ساتھ پڑھتے اور امتحان کی تیاری کرتے۔ ہم خوب محنت سے دل لگا کر پڑھتے تھے لیکن اس بار نہ جانے اعظم کو کیا ہو گیا کہ وہ امتحان کے دنوں میں گم سم رہنے لگا۔ سبھی یہ سمجھ رہے تھے کہ اس کو پر چوں کی فکر ہے لیکن میں جانتی تھی کہ بات یہ نہیں ہے۔ بات کوئی اور تھی جو اسے تانگ کر رہی تھی۔ امتحان ختم ہوئے تو ایک دن میں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔ کیا بات ہے اعظم تم آج کل کس مسئلہ میں الجھے ہوۓ ہو۔ اس نے کوئی بات نہیں، کہہ کر مجھے ٹال دیا۔ چند دنوں کے اندر اندر اس کی صحت کرنے لگی۔اب تو سبھی گھر والوں نے محسوس کر لیا کہ اعظم کی صحت کو کوئی گھن لگ گیا ہے۔ ہر کوئی اس کے بارے پر یشان تھا۔ وہ سار اسارادن بستر پر پڑا رہتا۔ کسی سے بات کرتا اور نہ کھانار غبت سے کھاتا۔ امتحان ختم ہوۓ تو گائوں جانے کا پروگرام بن گیا۔ ہم بھی سب کے ساتھ گائوں چلے گئے۔ وہاں حویلی میں ہمارے جانے سے میلے کا سا سماں ہو گیا۔ گائوں میں بھی کوئی میلہ تھا، دوست رشتہ دار آۓ ہوۓ تھے ، خوب رونق تھی۔ میں خوش تھی کہ یہاں آکر اعظم کی طبیعت سنبھل گئی تھی۔ وہ آتے ہی گھر سے غائب ہو گیا۔ کافی دیر باہر رہنے کے بعد لوٹا تو ہشاش بشاش نظر آرہا تھا، بات بے بات ہنس رہا تھا۔ امی اور میں نے یہ تبد یلی خاص طور پر محسوس کی۔اس کے چہرے پر صحت اور مسکراہٹ کے روپ میں زندگی لوٹ آئی تھی۔ مجھ کو حیرت تھی اور خوشی بھی کہ چلو کسی صورت تو وہ ٹھیک ہو گیا۔ گائوں میں چھٹیاں گزار کر ہم شہر واپس آگے ۔ یہاں آ کر ایک بار پھر اعظم اس نامعلوم اداسی اور پراسرار پر یشانی کا شکار ہو گیا۔ اب مجھے یقین ہو گیا کہ میرے بھائی کے ساتھ کوئی نہ کوئی سنجیدہ معاملہ ضرور ہے۔ جب پوچھتی ، ٹال دیتا تب ایک دن بے بسی سے اس کے سامنے رو پڑی۔ میرا رونا وہ نہ سہ سکا۔ کہنے لگا۔ رونے کی کیا بات ہے؟ یہ میرا پرسنل معاملہ تھا، تم اتنی پر یشان ہو تو بتاۓ دیتا ہوں۔ ایک لڑکی مجھے پسند ہے ۔ اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن ہم تایا چچا والے رشتوں کے جال میں اس مضبوطی سے گندھے ہوۓ ہیں کہ باہر سے شادی نہیں کر سکتے ۔ جانتی ہو نا کہ کسی باہر کی لڑ کی سے میری شادی ہو نا کتنی محال بات ہے ، پس اس بات سے پریشان رہتا ہوں۔ سوچتارہتا ہوں کہ کیونکر چچا کی لڑکی سے شادی کے لئے انکار کر کے صبا سے شادی کر پائوں گا۔ اس معاملے پر ا با، تایا، چچا سبھی ایک ہو کرمیری گردن پکڑ کر بیٹھ جائیں گے ۔ بات تو بھائی کی ٹھیک تھی ، پھر بھی میں نے اس کی دلجوئی کی اور کہا۔ بس اتنی سی بات ، تم فکر نہ کرو، یہ معاملہ مجھ پر چھوڑ دو۔ تعلیم مکمل کر لو ، وعدہ کرتی ہوں کہ تمہاری شادی تمہاری پسند کی لڑکی سے ہی کروا کر دم لوں گی۔اچھا بتائو کہ وہ لڑ کی ہے کون ؟ اعظم کو میرے اس طرح کہنے سے ڈھارس ملی ۔ اس نے کہا۔ اچھا! پھر یہ قصہ سنو۔ ایک دن میں گائوں گیا تو باہر گھومتے ہوۓ مجھے ایک لڑکی ملی ، بس اس کو دیکھتا رہ گیا۔ وہ شہری اور دیہاتی حسن کا حسین امتزاج تھی۔ وہ میرے سامنے سے گزر کر چلی گئی۔ گھر آیا تواس کے خیالوں میں کھو گیا۔ شام کو باغ کی طرف گیا۔ دیکھا کہ وہ گنے توڑنے کی کوشش کر رہی ہے ، لیکن اس سے ٹوٹ نہیں پار ہے ، تب پاس جا کر پوچھا۔ کیا میں توڑ دوں ؟ اس نے ہاں کہا اور ناں نہ ، میں نے از خود دو چار توڑ کر اس کو دیئے تو شر ما کر بھاگ گئی۔ میں نے چچازاد بھائی سے پوچھا۔ اس نے بتایا کہ میری خالہ کی بیٹی ہے ، شہر میں رہتی ہے ، آج کل چھٹیاں گزار نے گھر آئی ہوئی ہے۔ وہاں یہ کالج میں پڑھتی ہے ، چند روز بعد واپس چلی جاۓ گی۔ اعظم کا اس کے بعد کئی بار صبا سے آمنا سامنا ہوالیکن وہ ہر بار اس کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتی تھی۔ اس رویے کے سبب اعظم کو یقین ہو گیا کہ صبا اس کو پسند نہیں کرتی ۔اس کا اعتماد متزلزل ہو گیا۔ اس کے اندر شکست و ریخت شروع ہو گئی۔ وہ پھر سے اداس اور پریشان رہنے لگا۔ جب کوئی اس کی پر یشانی کی وجہ پوچھتا وہ اس کو کچھ نہ بنا پاتا تھا۔ اس کے مرض کا حل اب کسی کے پاس نہیں تھا اور میں دعا کرتی تھی کہ خدا ایک بار اس لڑکی کو ہم سے ملادے تا کہ میں اپنے بھائی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کروں ۔ ان دنوں ہم شہر میں تھے ، صبا بھی شہر میں تھی ، مگر ہماری ملاقات ممکن نہ تھی – ایک دن مجھے پتا چلا کہ وہ گائوں جار ہی ہے ، انہی دنوں ہم بھی گائوں جارہے تھے۔ میں خوش ہو گئی کہ چلووہاں اس لڑکی سے ملاقات کی کوئی سبیل نکال لوں گی۔ گائوں پہنچے، جاتے ہی اعظم کھیتوں کی طرف نکل گیا۔ اتفاق کہ وہاں اس کو صبا مل گئی۔ وہ جلدی سے اس کی طرف گیا تا کہ اس موقع کو ہاتھ سے گنواۓ بغیر اسے دل کی بات سے آگاہ کر دے۔ اعظم کو اپنی طرف آتے دیکھ کر وہ ٹہر گئی، بھائی نے بلا جھجک اس سے کہا۔ صبا گر تم مجھ کو پسند کرتی ہو تو بتادو کیونکہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں،اگر نہیں، تو بھی کہہ دو تا کہ میں خود کو سمجھا کر یہ خیال چھوڑ دوں۔ لڑکی نے جواب دیا۔ جو آپ کے جذبات ہیں ، سمجھ لیں وہی میرے بھی ہیں۔ یہ بات کہنے کے بعد اس کی حیانے اسے وہاں رکنے نہ دیا اور وہ فوراوہاں سے چلی گئی۔اعظم کے لئے تو اس کا اتناجواب ہی کافی تھا۔ وہ اتناخوش گھر لوٹا جیسے اس کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی مل گئی ہو ۔ جس کی جدائی اس کو گھن کی طرح کھارہی تھی۔ اس کے اقرار نے میرے بھائی کے مردہ تن میں پھر سے روح پھونک دی تھی۔ تاہم جو فکر اس کو ستار ہی تھی وہ بدستور موجود تھی بلکہ اب پہلے سے زیادہ ہو گئی تھی کہ یہ رشتہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ چچا کب چاہیں گے کہ ان کی لڑکی کارشتہ رد کر کے ان کی سالی کی لڑکی سے رشتہ کیا جاۓ جبکہ ان کے تعلقات اپنے سسرال والوں سے بھی اچھے نہ تھے۔ چچا نے کئی بار اپنی بیوی کی بہن یعنی صبا کی امی کی اہانت کی تھی ، بھلاوہ دوسری بار کیونکر ہمارے خاندان میں لڑکی دینا پسند کر یں گے ۔ اسی طرح کے خیالات ہر دم میرے بھائی کو تر پاتے رہتے تھے جبکہ میں دلا سادیتی کہ اعظم یہ تمہاراو ہم ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے اور چچی بھی اپنی بھانجی کو چاہتی ہیں۔اگر صبا کی پسند تم سے ہوئی تو وہ مخالفت نہ کر یں گی۔ میں خودان سے بات کر لوں گی۔ وہ اپنی بیٹی یوں بھی اپنے بھائی کے بیٹے سے بیاہنا چاہ رہی ہیں۔ اعظم میری باتوں کو سُن کر چپ ہو جاتا، تب میں سوچتی کہ محبت بھی کیا جذ بہ ہے جو بسیرے کے لئے کوئی مقام بھی نہیں دیکھتا۔ میری اور اعظم کی روز اس موضوع پر بات ہوتی۔ وہ اس کے ذکر پر مسرور ہو جاتا۔ بھائی کو خوش دیکھ کر میرے دل سے بھی دعا نکلتی ۔ خدا ان دونوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دے اور پھر کبھی جدانہ کرے۔ اب صبا اور اعظم کی اکثر فون پر بات ہوتی، کبھی کبھی میں بھی صبا سے بات کر لیتی تھی۔ میں اس کو اپنے بھائی کے پر خلوص جذبات کے بارے میں بتاتی تو وہ کہتی ۔ یقین نہیں آتا آج کل کے دور میں بھلا کون کسی سے اتنی محبت کر تا ہے ۔ اب اس جذبے میں اتنی سچائی ممکن نہیں، جتنی تم بہن بھائی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ ذرا سا بزرگوں کا دباؤ پڑے گا تو ساری محبت ہوا ہو جائے گی۔ مجھ کو صبا کے ایسے جواب سے دکھ پہنچتا۔ اسی قسم کی باتیں وہ اعظم سے بھی کرتی تھی ، تب وہ بہت زیادہ پریشان ہو جاتا تھا۔ وہ تواس کو پورے خلوص سے اپناناچاہتا تھا، اب مستقبل میں کیا ہو نا تھا اس بارے تو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ اعظم مگر اس بات سے تو از حد رنجور تھا کہ صبا اس کے خلوص پر شک کرتی تھی۔اسی بات پر ایک دفعہ دونوں میں لڑائی ہو گئی۔ انہی دنوں امی بیمار ہو گئیں ۔ ہم ان کی پریشانی میں پڑ گئے۔ اعظم اور میں نے کچھ دن صبا سے بات نہ کی ، جس پر اس کی خفگی شدید ناراضی اور شک میں بدل گئی۔ جب اعظم نے اس سے بات کر نا چاہی، اس نے گفت و شنید کے تمام حیلے ہی تمام کر دیے۔ اب اعظم پھر سے پریشان رہنے لگا۔ میں صبا کے پاس گئی ، منت سماجت کر کے اس کی غلط فہمی دور کی اور ان کی اعظم سے صلح کرائی، تب میر ابھائی خوش گیا۔ امی کی بیماری کا سن کر صبا کی والد ہ اس کو لے کر ہمارے گھر عیادت کو آئیں ۔ اس روز اعظم اور صبانے سے خوب باتیں کیں۔اعظم پھر سے صبا پر اعتبار کرنے لگا کہ یہ دھوکا نہ دے گی ۔ دو تین سال میر انتظار کرے گی ، جب تک میں تعلیم مکمل نہ کر لوں۔ مگر صبا شاید میرے بھائی سے دل لگی کر رہی تھی کہ اس کو اعظم کی محبت کا اعتبار نہ تھا۔ اس نے میرے بھائی کو مجبور کیا کہ وہ انہی دنوں اپنے والدین کو راضی کرے اور منگنی کی رسم ک والے۔ ابھی مناسب موقع نہ تھا۔ پہلے ہم نے اپنی چچی کو اعتماد میں لینا تھا۔ وہ ہم سے بہت محبت کرتی تھیں۔ وہ ضرور ہماری بات سن لیتیں لیکن صبا کے مجبور کرنے سے ہم نے پہلے اپنے والد سے بات کی ۔ والد تو بھڑک اٹھے ،انہوں نے آئودیکھا نہ تائو اعظم کا نکاح، ہماری چچا زد سے کرنے کی تیاری شروع کر دی، حالانکہ وہ ہم سے سات سال بڑی تھی ، وہ میرے بھائی کے جوڑ کی نہ تھی۔ بے شک وہ اچھی لڑکی تھی۔اعظم بھی اس کی عزت کرتا تھا لیکن وہ اس کو صبا کی جگہ نہیں دے سکتا تھا۔ جب نکاح کی تاریخ رکھ دی گئی تو اعظم کی حالت غیر ہو گئی۔ کہنے لگا۔ میں نہ کہتا تھا کہ یہ رشتہ نہیں ہو سکے گا۔ یہی غم تو مجھے اندراندر کھاتا رہا تھا۔ خدا کی کرنی ان ہی دنوں دادی جان کا انتقال ہو گیا اور نکاح ملتوی کر دیا گیا۔ اسی دوران صبا کارشتہ کسی اچھی جگہ سے آ گیا۔ اعظم کی حالت ایسی تھی جیسے کسی نے بدن سے روح کھینچ لی ہو۔ اس نے والد سے جاکر شادی سے انکار کر دیا۔ وہ سخت خفا ہوۓ مگر بھائی اپنے موقف پر ڈٹ گیا کہ میں خود سے سات سال بڑی سے شادی نہیں کروں گا۔ اس کے بعد وہ صبا سے ملا۔ کہا کہ میں نے شادی سے انکار کر دیا ہے۔ والد کی ناراضی مول لے لی ہے تو اب تم بھی انکار کر دو۔ اس نے تعاون کرنے کی بجاۓ بھائی سے کہا کہ جہاں میرے والدین چاہیں گے ، وہاں شادی کروں گی۔ اس کے رویئے سے اعظم نے اپنی بے عزتی محسوس کی ۔ادھر والد ، تایا، چچا سبھی نے میرے بھائی کا جینا حرام کر ڈالا تھا۔ وہ تنہا ان سب کی بد سلو کی اور غصے کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا اور اس کو تسلی دینے والا میرے سوا کوئی نہ تھا۔ البتہ واحد چچی جان تھیں جو یہ چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹی کی شادی اعظم سے نہ ہو پاۓ تا کہ وہ بیٹی کو اپنے بھتیجے کی دلہن بناسکیں۔ مجھ کو لگا کہ شروع دن سے صبامیرے بھائی کے ساتھ مخلص نہ تھی، یا پھر اعظم کے حالات کو نہ سمجھ سکی، جو اس کی خاطر پورے خاندان میں برا بن گیا تھا۔ وواعظم کے جذبوں پر ہی شک کرتی رہی، کہتی کہ تم بھی دوسرے سب لڑکوں کی طرح بے وفا ہو جبکہ میرے بھائی بچارے نے بے وفائی کب کی تھی؟ وہ تو اس کی خاطر خاندان بھر سے لڑ بھڑ رہا تھا اور وہ مصر تھی کہ تم محبت کا ڈرامہ کر رہے تھے ۔ خاندانی رکاوٹ تو بس ایک بہانہ ہے۔اس نے انتظار کئے بغیر ہی محبت کے بندھن کو اتنی آسانی سے توڑ دیا۔ مجھ کو صبا کی سوچ پر بہت دکھ ہوا، جبکہ چچی نے صبا سے بھی کہا کہ جلد بازی نہ کرو میں تمہارا مسئلہ حل کرادوں گی۔ بس تھوڑ اسا صبر اور انتظار کر لو مگر اس لڑکی کو نجانے کس بات کی اتنی جلدی تھی۔ صبا کی باتوں سے بھی اعظم نے حوصلہ نہ ہارا اور بڑی ہمت سے گھر والوں کا مقابلہ کیا۔ اس نے صبا کی والد واور بڑی بہن سے بھی بات کی کہ میں ثابت قدم ہوں ، آپ میراساتھ دیں اور صبا کے رشتے میں جلدی نہ کر یں، مگر انہوں نے ڈانٹ کر میرے بھائی کو بھگادیا۔ کہا کہ صبا کہتی ہے تم نے اس سے دل لگی کی ہے لہذا ہم صبا کی منگنی کر رہے ہیں۔ آج کے بعدادھر کارخ مت کرنا۔ یوں ان سب لوگوں نے مل کر میرے معصوم بھائی کو تباہی کے رستے پر ڈالا اور وہ شدید بیمار پڑ گیا۔ مایوسی نے گویا اس سے جینے کی تمنا ہی چھین لی۔ وہ اپنی تعلیم بھی جاری نہ رکھ سکا۔ جب والد صاحب نے بیٹے کی حالت دیکھی تو ان کی شفقت پدری نے بالآ خر جوش مارا۔ اب ان کو احساس ہوا کہ وہ غلط کر رہے ہیں۔ انہوں نے چچا سے کہا کہ اعظم اگر اس شادی پر رضامند نہیں ہے تو یہ تمہاری بیٹی کو خوش نہ رکھ سکے گا۔ میں تمہاری لڑکی کی شادی اپنے چھوٹے بیٹے سے کئے دیتا ہوں۔ یہ فیصلہ اور بھی حیران کن تھا کیونکہ عاصم تو اعظم بھائی سے چھ برس جبکہ چچی کی بیٹی سے تیرہ برس چھوٹا تھا۔ بابا جان کے اس فیصلے سے ہم پر بجلی گر گئی۔اعظم جو ابھی تک اپنے غم میں ڈوباہوا تھا اس کو ہوش آ گیا۔ والد سے کہا کہ میرے معصوم بھائی کو اپنے بھائی کی محبت کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ اس سے تو بہتر ہے کہ میں ہی شادی کر لوں تا کہ میرے بھائی کی زندگی تو تباہ ہونے سے بچ جاۓ۔ امی نے بھی زبان کھولی۔ کہا کہ میرے ہوتے آپ میرے معصوم بچے کے ساتھ اتنی بڑی زیادتی نہیں کر سکتے ۔اعظم کے دل پر جو گزری سو گزری مگر اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو قربانی کا بکرانہ بننے دیا۔ والد خوش ہو گئے۔ چچا کی بھی باچھیں کھل گئیں کہ اب زمین گھر میں رہے گی ، بٹوارہ نہ ہو گا۔ اعظم نے خود کو بربادی کے گڑھے میں جھونک کر بھائی کا مستقبل بچالیا جو بھی صرف چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ تقدیر ہم پر پھر بھی مہربان نہ ہوئی۔ ایک دن نہر میں نہاتے ہوئے میرا چھوٹا بھائی ڈوب گیا۔ ہمارے گھر کا چراغ گل ہوا تو دلوں میں اندھیرا بھر گیا۔ جس بھائی کی خاطر ،اعظم نے اپنی زندگی دائو پر لگائی ، جب وہی نہ رہاتو وہ شادی کیوں کرتا۔ اس نے منگنی توڑنے کا اعلان کر دیا اور ایک دوست کے ساتھ ملک کی سر حد سے نکل گیا۔ وہ دکھوں سے نجات چاہتا تھا لیکن یہ دکھ تو سایہ بن کر اس کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ نجانے کتنی صعوبتیں برداشت کر کے خشکی کے راستے ایران سے ترکی اور آگے یورپ کو نکلا۔ اس کے بعد مدتوں اس کی کوئی خبر نہ آئی۔ بالآخر پندرہ برس بعد ایک واقف کار پاکستان آیا تو اس کی زبانی پتا چلا کہ وہ ان دنوں اسپین میں ہے ۔ وہاں اس نے پھول بیچے ، ہوٹلوں میں کام کیا، جانے کیا کیا جتن کئے پیٹ بھرنے کی خاطر ۔ مسلسل حادثات کا مقابلہ کرتے کرتے اس کے اعصاب شل ہو گئے۔ برسوں بعد جب وہ وطن لوٹاتو وہ پہلے والا اعظم نہ رہا تھا، وہ بالکل بدل چکا تھا۔ اب اس کو کسی سے محبت نہ رہی تھی۔ایک ناسمجھ اور بے وفالڑ کی کی خاطر میرا پیارا بھائی ہم سے چھن گیا اور دوسرے کو موت لے گئی اور والدین کے سد اشاور بنے والے دل ناشاد ہو گئے۔ آج اپنے خاندان کے حالات دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ ہماری خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی۔ آج ہر کوئی اپنی جگہ الگ الگ زندگی بسر کر رہا ہے اور ہماری گائوں والی حویلی جو کبھی بھری پڑی اور قہقہوں کی آماجگاہ تھی ، ویران پڑی ہے۔ زمانہ بھی کیسی کیسی چال چلتا ہے ۔ کب کروٹ لے کر ہمارے خوابوں کے محل گراد یتاہے ، ہم نہیں جان سکتے اور نہ ہم وقت اور زمانے کی چال کو سمجھ سکتے ہیں ۔ لیکن بزرگوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اولاد پر جبر سے کبھی کبھی خود انہی کا نقصان ہو جاتا ہے۔ اگر صبا میرے بھائی کی شروع میں ہے حوصلہ افزائی نہ کرتی تو یقینا وہ پیچھے ہٹ جاتا – صبا کی دل لگی نے ہمارا سب کچھ ہم سے چھین لیا –

Latest Posts

Related POSTS