میں لاہور کے قریب ایک گائوں میں پیدا ہوئی تھی، ماں باپ غریب تھے۔ انہوں نے میری شادی ایک قریبی گائوں میں نسبتاً بہتر گھرانے میں کر دی۔ میرا خاوند ایک چھوٹا دکاندار تھا۔ یہ میرا نصیب کہ شادی کے دو سال بعد اس کا كاروبار اتنا ترقی کر گیا کہ دولت سنبھالے نہ سنبھلتی تھی مجھے اور میرے شوہر کو خرچ کرنے کا ڈھنگ نہ آتا تھا۔ بس جو چیز اچھی لگی ، فوراً خرید لی ، یہ سوچے بغیر کہ ہم کو اس چیز کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ یوں اکثر خریداری بے کار جاتی یا چیزیں سڑ جاتیں، لیکن ہمیں احساس نہ ہوتا۔ شوہر تو نو دولتے کہلائے ہی ، میں نے بھی کسر نہ چھوڑی۔ دکان پر گئی تو کپڑوں کے انبار کے انبار لگوا دیئے۔ سوٹ پر سوٹ خریدے جا رہے ہیں۔ اگر سیر بھر گوشت کی ضرورت ہے تو آدھا بکرا تلوا کر لے آئے۔ ادھر وہ گوشت لاتے تو ادھر میں نوکر سے چار پانچ مرغیاں منگوا لیتی گوشت یک رہا ہے، پلائو بنا ہوا ہے، مگر مرغی کا گوشت آگیا تو چلو بھئی اس کو بھی بنوا لو اتنا كهانا … تھوڑا ساکهایا اور اگلے دن باسی کہہ کر ایک طرف نکال دیا۔ سردی کا موسم ہے، چائے پر چائے پی رہے ہیں۔ ایک بچے نے فرمائش کر دی کہ مجھے تو ٹھنڈی بوتل پینا ہے، میاں صاحب نے ڈرائیور کو دوڑا دیا کہ جا کر تین کریٹ بوتلیں لے آؤ۔ اب سردی میں کون پیئے۔ کسی کے گھر ملنے گئے تو کیک مٹھائی سے لدپھد کر۔ ان کے گھر کا نیا فرش دیکھا تو خیال آیا کہ ویسا ہمارا بھی ہونا چاہیے ۔ اپنا اچھا بھلا فرش اکھڑوا کر ان جيسا بنوا لیا۔ غرض کہ خرچہ کرنے کا کوئی ڈھنگ اور نہ سلیقہ آپ جانیں جب دولت کی ریل پیل ہو جائے تو آدمی میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔ شوہر نے گھر سے باہر عورتوں سے دوستیاں بڑھانا شروع کر دیں۔ عیاشیاں میرے شوہر کا بھی مشغلہ بن گئیں۔ ایک بار ایک ہوٹل پر اچانک چھاپہ پڑا۔ تین درجن مرد اور عورتیں پکڑی گئیں اور سزائیں بھی ملیں۔ خوش قسمتی سے میرے شوہر اس رات ہوٹل میں نہ تھے، ورنہ وہ بھی پکڑے جاتے ، مگر میں کہتی ہوں کہ برا ہوا جو یہ بچ نکلے۔ دوسروں کے ساتھ ان پر بھی بھاری جرمانہ ہوتا، اخبارات میں تصویریں لگتیں تو شاید دولت کا خمار اتر جاتا اور وه عام آدمی کی طرح شریفانہ زندگی گزارتے، پھر شاید میری زندگی بھی سکون سے گزرتی۔ میں شوہر کو تواس راه پر چلنے سے نہ روک سکی بلکہ خود بھی ایک دوسری طرح پر چل نکلی۔ شوہر نے رفتہ رفتہ گھر میں مئے نوشی شروع کر دی۔ دولت اعلیٰ سوسائٹی کی طرف لے گئی تو عورت اور مئے کے بیچ ، حجاب کو بھلا دیا۔ اب مجھے مجبور کرتے کہ میرے ساتھ بیٹھ کر پیو۔ میں کہتی، یہ حرام ہے میں نہیں پیوں گی، تو جواب دیتے کہ اگر میرا ساتھ نہیں دو گی تو میں کسی دوسری عورت کو ساتھی بنا لوں گا۔
ایک دن مجھے بہت اصرار کر کے زبردستی پلائی میں نے مجبوراً ان کا کہا مانا پھر تو انہوں نے وطیرہ بنا لیا۔ گھر پر مئے نوشی کرتے ، مجھے ساتھ بٹھا لیتے ، اوٹ پٹانگ باتیں شروع کر دیتے اور ساتھ مئے نوشی پر مجبور کرتے ۔ کہا نہ مانتی تو دوسری عورتوں کے پاس جانے کی دھمکیاں دیتے۔ اب میں ان کی حرکتوں سے بہت زیادہ غمزدہ رہنے لگی۔ مجھے دیکھ کر کہتے ، کیوں غمزدہ رہتی ہو ؟ غم غلط کرنے کا چارہ ہے تو تمہارے پاس…. یوں میں اپنی غمزدگی دور کرنے کو بار بار اس بری چیز کو چکھنے لگی، یہاں تک کہ حجاب ٹوٹ گیا اور میں نے مئے نوشی کو عادت بنا لیا۔ جب پیتی تو پھر خوب کهاتی بھی اس طرح میرے چہرے پر سرخی رہنے لگی اور میں صحت مند نظر آنے کے باعث خوبصورت بھی دکھائی دینے لگی۔ مانتی ہوں کہ میں کمزور کردار کی تھی، ورنہ کوئی اچھی عورت ہوتی تو ایسا نہ کرنی۔ آئینہ دیکھتی تو سمجھتی کہ اس شے نے ہی میری عمر کے نشانات مٹا دیئے اور مجھ پر جوانی کے رنگ بکھیر دیئے ہیں۔ نہیں جانتی تھی کہ یہ تو ایک زہر ہے جو مجھ کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ اب کچھ غلط قسم کی عورتيں بھی ہمارے گھر آنے لگیں، جن کو میرے شوہر مدعو کرتے تھے وہ کافی تیز طرار تھیں۔ مجھ کو اپنی لچھے دار باتوں میں الجھاتی تھیں۔ میری تعریفیں کرتیں اور میرے ساتھ دوستیاں بنائیں۔ میں نہ سمجھ سکی کہ دراصل وہ میرے خاوند میں دلچسپی رکھتی ہیں ۔ ایک دن میں نے ایک ایسی ہی بدنام زمانہ کے ساتھ شوہر کو اپنے بیڈروم میں دیکھ لیا تو مجھے ہوش آیا۔ یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکی، گھر میں لڑائی ہوئی، محلہ داروں اور بڑے بھائی کے ڈر سے فراز نے ہتھیار ڈال دیئے۔ غیر عورتوں کا آنا جانا تو بند ہو گیا مگر ان کے اوباش دوست پھر بھی آتے تھے۔ ایک روز ان کے ایک دوست نے مجھ سے ہمدردی جتلاتے ہوئے راز داری سے بتایا کہ فراز کو ہرگزمت بتانا، میں آپ کے بھلے کو یہ راز بتا رہا ہوں تاکہ اندھیرے میں نہ رہو۔ تمہارے خاوند نے ایک اور شادی کر لی ہے۔ وہ عورت ہے تو بڑی خوبصورت لیکن اچھی قبیل سے نہیں ہے۔ انہوں نے اسے بڑا زیور ڈالا ہے اور کچھ اراضی بھی لکھ کر دی ہے۔ یہ سن کر میرے پیروں تلے سے گویا زمین نکل گئی۔ میں جہاں کھڑی تھی، وہیں ڈھے گئی ۔ جب ریاض نے میری یہ حالت دیکھی تو تسلی کو گلے سے لگایا بولا کہ حوصلہ رکھو اور حقیقت کو برداشت کرنا سیکھو۔ میں نے کہا کہ مجھے یقین نہیں آرہا۔ آپ جھوٹ تو نہیں بول رہے ؟ بھلا میں کیوں جھوٹ بولوں گا؟ وہ کہنے لگا۔ اگر ہمت ہے تو تم کو اسے دکھا دیتا ہوں۔ میں نے بھی تجسس کے مارے کہہ دیا کہ ہاں دکھا دو ۔ اس نے ایک پتا لکھ کر دیا کہ وہاں اکیلی مت جانا، اپنے جیٹھ کو ساتھ لے جانا۔ فراز اس عورت کو اب اسی گھر میں لا بسانے کی سوچ رہا ہے ، جس میں تم رہتی ہو۔ کہتا ہے کہ میں ثریا کو منالوں گا اور دونوں کو ساتھ رکھوں گا۔
اگلے دن جیٹھ کے گھر گئی اور ان کو تمام احوال بتایا۔ وہ میرے ساتھ چلنے پر تیار ہو گئے اور مجھے مذکورہ بنگلے میں لے گئے فراز تو وہاں نہ تھے مگر وہ عورت پورے کروفر کے ساتھ موجود تھی۔ بنی ٹھنی ، نویلی دلہن ہو جیسے اور نوکر چاکر بھی تھے۔ جیٹھ وہاں دو چار منٹ رکے، فراز کا پوچھا اور مجھے لے کر گھر آگئے ۔ انہوں نے تسلی دی اور جب فراز آئے تو ان کو کافی برا بھلا کہا۔ ان کے دبائو کی وجہ سے فراز دوسری بیوی کو گھر نہیں لائے بلکہ علیحدہ مکان میں ہی رکھا۔ انہی دنوں ریاض میرا ہمدرد بن گیا اور روز گھر آنے لگا پہلے تو میں واقعی اسے اپنا ہمدرد سمجھتی رہی، لیکن پھر نوٹ کیا کہ وہ تبھی آتا ہے، جب فراز موجود نہیں ہوتے دراصل وہ میرے ٹوٹے ہوئے زخمی دل پر اپنے پیار بھرے دو بولوں سے مرہم رکھنے کا کام کر رہا تھا لیکن مجھے اس کی نیت کا شروع میں اندازہ نہ ہو سکا اور میں اس کی غمگساری کے جال میں ایسے پھنستی چلی گئی ، جیسے کوئی بے بس چیونٹی، مکڑی کے جال میں پھنستی ہے تو پھر نکل نہیں سکتی۔ ریاض پہلے مجھے بھابھی کہا کرتا تھا پھر میرے نام سے پکارنے لگا۔ اگر میری طبیعت ٹھیک نہ ہوتی تو کہتا۔ چلئے آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے چلوں فراز کو تو اپنی دوسری بیوی سے ہی فرصت نہیں ، اور آپ ہیں کہ اس کے انتظار میں گھلتی رہتی ہیں ۔ میں تو اسے ہی اپنا ہمدرد محسن و غمگسار سمجھتی تھی معلوم نہ تھا کہ اس کے دل میں میرے لیے پاکیزہ جذبات نہیں ہیں۔ اب وہ تنہا نہیں آتا تھا اس کے ساتھ اس کی ایک دوست لڑکی بھی آنے لگی، جس کا نام رخسانہ تھا۔ رخسانہ بھی مجھ سے غمگساری کرتی ۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ میری سوتن کے پڑوس میں رہتی ہے۔ اس طرح وہ میرے شوہر کے دوسری بیوی کے پاس آنے جانے ، ان کی سیر و تفریح حتی کہ شاپنگ تک کی خبر رکھتی تھی وہ یہ ساری باتیں مجھے آکر بتاتی اور میں مارے تجسس کے سنتی، اس کی خاطر مدارت کرتی اور چاہتی تھی کہ وہ ہر روز میرے پاس آئے اور زیادہ سے زیادہ وقت میرے ساتھ گزارے۔ رخسانہ کے بہانے ریاض بھی اس کے ساتھ آتا۔ دونوں مجھے گھمانے پھرانے لے جاتے۔ ہم تینوں ایک ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگے جیسے ایک جان اور تین قالب ہوں۔ رخسانہ نے سوتن کی خبریں دے دے کر میری کمزوری سے فائده اٹهایا اور میرے گھر میں گھس آئی۔ اس طرح ریاض اور رخسانہ کو میرے گھر میں ایک محفوظ عیش گاه میسر آ گئی۔ مجھے ان دونوں کے ایک ساتھ وقت گزارنے پر اعتراض نہ تھا۔ میں تو ان کی خاطر مدارت کرتے نہ تهکتی تھی۔ ایک دن ریاض اکیلا آیا۔ وہ بہت اداس تھا اور رو رہا تھا۔ مجھ سے اپنے ہمدرد کا اس طرح رونا دیکھا نہ گیا۔ پوچھا کہ کیا ہوا ہے ؟ اس نے بتایا کہ والدین کو اس کے اور رخسانہ کے تعلق کا علم ہو گیا ۔
انہوں نے رخسانہ کے گھر جا کر اس کی بے عزتی کی ہے جس پر اس کے والدین نے اپنی لڑکی پر پابندی لگا دی ہے بلکہ وہ اس کی کسی اور جگہ شادی کر رہے ہیں۔ تم تو اس درد سے بخوبی واقف ہو ثریا کہ یہ جدائی اور فراق کا درد کیسا جان لیوا ہوتا ہے؟ کل تمہاری جان پر بنی تھی تو میں نے تمہیں سہارا دیا تھا اور آج میری جان پر بنی ہے۔ بولو! کیا تم مجھے سہارا دو گی ؟ میں نے اس کی بات کا مطلب سمجھے بغیر کہہ دیا کہ ہاں اگر آپ نے آڑے وقت مجھے سہارا دیا اور سنبھالا تھا تو میں بھی آپ کو سہارا دوں گی۔ میرا یہ کہنا تھا کہ وہ شخص تو میرے گلے کا ہار ہو گیا ۔ اسے میرے شوہر کے گھر آنے جانے اور معمولات کا علم رہتا تھا ، سو وہ اسی وقت آکر براجمان ہو جاتا جب فراز کسی اور جگہ داد عیش میں مصروف ہوتے تھے بالآخر وہ مجھے گھیرنے میں کامیاب ہو گیا، مظلوم بن کر، دوست اور غمگسار بن کر۔ اس نے میری تنہا روح کی تنہائی کے درد کو سمیٹنے کی خاطر یہ سارا کھیل کھیلا تھا۔ اس کے بعد میں باقاعدگی کے ساتھ اس کے بمراه باہر جانے، سیر و تفریح میں وقت گزارنے لگی اور اس چالاک مکڑی کے غلیظ جالے میں پھنس کر رہ گئی جلد ہی ریاض کے والدین کو ہم پر شبہ ہو گیا۔ اس کے ایک قریبی رشتہ دار نے کئی بار ہمیں گاڑی میں ایک ساتھ باہر گھومتے پھرتے دیکھ لیا۔ انہوں نے ریاض کی شادی اس کی کزن سے کرا دی۔ اس کی شادی ہو گئی مگر ہماری مجلسیں پھر بھی اسی طرح جمتی رہیں۔ اس کی بیوی بڑی معصوم و نو خیز اور خوبصورت تھی مگر ریاض کو تو چوری کا چسکا پڑ چکا تھا اور جس کو حرام شے میں راحت ملے پھر اسے حلال چیز اچھی نہیں لگتی۔ اس نے مجھے بے راہ رو کیا ۔ اب میں بھی خود کو بنا ٹھنا کر دل بہلاتی۔ شوہر کے غم اور اس کی بے اعتنائی کو پس پشت ڈال دیا تھا اور اپنی محرومی کا علاج ریاض کی قربت میں تلاش کر لیا تھا۔ ریاض کے والدین اور اس کی بیوی نے اسے میرے گھر سے روکنے کی بہت کوشش کی۔ اس کے گھر میں لڑائی جھگڑے ہوئے ، باپ بیٹے کی تلخ کلامی بھی ہوئی۔ آخر اس کے بوڑھے ماں باپ نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ بیوی نے بھی اس محرومی سے سمجھوتہ کر لیا مگر میں نہ کر سکی۔ اب اگر ریاض نہ آتا تو مجھے لگتا کہ میں بغیر بادبان کی کشتی ہوں۔ اب اگر میرا شوہر کبھی مجھ سے چاہت کی بات کرتا تو مجھے اس سے نفرت محسوس ہوتی اور میں اس سے دوری میں ہی سکون محسوس کرتی تھی۔ دراصل میں شوہر کی عیاشیوں کے باعث اس سے نفرت کرنے لگی تھی اور اس کا انتقام فراز سے نہیں بلکہ خود سے لے رہی تھی میری سوتن جب تک صاحب اولاد نہ ہوئی تھی، مجھے اس سے خوف نہیں تھا ، لیکن اب خوف رہنے لگا کہ اگر وہ صاحب اولاد ہو گئی تو میرے شوہر کی جائیداد میں کلی طور پر شریک ہو جائے گی۔
میں نے خود کو اس وجہ سے بھی ریاض کے قدموں میں ڈال دیا کہ وہ کسی طرح میرے شوہر کو اس کی دوسری بیوی سے بدظن کر کے رخسانہ کو طلاق کرا دے۔ اس نے ایسا کرنے کا کئی بار وعدہ کیا مگر یہ وعدہ وہ ایفا نہ کر سکا۔ میں نے سوتن کے بارے بڑی غلیظ باتیں مشہور کرائیں مگر ناکامی ہوئی۔ آخر میں ہی اپنے شوہر کی نظروں میں گر گئی۔ اس کا تو میں بال بھی بیکانہ کر سکی ، جو کچھ گنوایا اپنا ہی گنوا دیا۔ اب مجھے ریاض پر بھی رہ رہ کر غصہ آتا تھا کہ اس نے مجھے کیسا بے وقوف بنایا اور اپنا الو سیدھا کرتا رہا۔ شوبر پوری طرح اس کا ہو گیا ۔ فراز سے میں نے مسلسل بے اعتنائی جو اختیار کر لی تو تمام تر نقصان میرا ہو گیا۔ یہ سب ریاض کی وجہ سے ہواتھا، لہٰذا جی چاہتا اس سے انتقام لوں۔ انتقام کیا لے سکتی تھی پھر میں نے اسے بھی گمراہی کے اندھیروں میں گرا کر اس کے سارے خاندان سے گویا انتقام لیا۔ میری ناقص عقل نے یہی مشورہ مجھے دیا کہ اس نے میری زندگی کو بربادی سے ہمکنار کیا ہے تو میں بھی اس کی زندگی میں اندھیرے بھر کے رہوں گی تاکہ یہ بھی سکھ کا سانس نہ لے سکے۔ ریاض پوری طرح میری جھوٹی الفت میں پھنس چکا تھا۔ اس کی بے قصور بیوی میری وجہ سے آگ میں جل رہی تھی اور میں خود بھی دوذخ جیسی آگ کا ایندھن بنی ہوئی تھی۔ ہم دونوں نے چار بار معصوم نفوس کو دنیا میں آنے سے قبل فنا کیا تبھی قدرت نے ہم کو بالآخر ایک بہت بڑی سزا کے لئے منتخب کر لیا کیونکہ ہم جان بوجھ کر اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے تھے اور دوسروں کی جانوں کو بھی ہلاکت میں ڈالے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ گناہ کا گھڑا جب بھر جاتا ہے ، تبھی ڈوبتا ہے۔
ایک دن فراز رات کو گھر نہ آئے۔ دوسرے اور تیسرے دن بھی پتا نہ چلا۔ چوتھے دن ایک لاش مانسہرہ سے چند میل دور ملی اخباروں میں نامعلوم لاش کی خبر چھپی۔ اوروں کے ساتھ ہم بھی پہنچے تو پتا چلا کہ میرے شوہر فراز کی لاش تھی، جسے گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا مگر جائے واردات پر خون نہیں گرا تھا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ قتل کسی دوسری جگہ ہوا تھا اور لاش دوسری جگہ لا کر پھینکی گئی تھی تفتیش شروع ہوئی ۔ پولیس نے مقتول کی زندگی کے معمولات ، اس کی دو شادیوں، میری اور رخسانہ کی ہسٹری ، ریاض سے میرے تعلقات ہر چیز بارے گواہیاں اور شواہد اکٹھے کئے گواہیاں لیں۔ گویا کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہی تھی۔ پولیس اس نتیجے پر پہنچی کہ فراز کو میں نے جائیداد ہتھیانے کے لئے ریاض کے ذریعے مروایا ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ ریاض اس رات میرے ساتھ تھا۔ اس کے والدین نے اعتراف کیا کہ وہ اس رات گھر میں نہیں تھا تو گویا گواہی یہ تھی کہ وہ اپنے رقیب یعنی میرے شوہر کو قتل کرانے کے سلسلے میں کہیں گیا ہوا تھا ۔ اگر میں اس بهیانک رات اس کی اپنے گھر میں موجودگی بتاتی تو اپنے خلاف کیس کو اور مضبوط بناتی ، لہذا میں نے اس معاملے میں بالکل چپ سادھ لی۔ ریاض کو پولیس لے گئی ۔ سات دن کا ریمانڈ لیا۔ اسے تھانے میں اتنا مارا گیا کہ وہ کھڑا ہونے کے قابل نہ رہا۔ میرے ساتھ بھی بہت کچھ ہوا۔ رخسانہ بچ گئی کیونکہ وہ عرصے سے ہماری زندگی سے نکل گئی تھی میں روتی بھی تھی کہ ہم دونوں فراز کے قتل کے معاملے میں بے گناہ ہیں، مگر میرا ضمیر ملامت کرتا کہ میں اپنے ہاتھوں خود اپنی کوکھ اجاڑنے کی مرتکب ہوتی رہی ہوں یہ بھی تو قتل تھے جو ہم سے سرزد ہوئے تھے، تو کیا اس کی سزا ہم کو نہ ملتی تھی ؟ عدالت میں قتل اور سازش قتل سے انکاری رہی۔ کوئی عینی شاہد بھی نہ تھا لہٰذا سزا سے تو بچ گئی مگر ضمیر کی عدالت سے عمر بھر سزا ملتی رہی اور اپنے بچوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہوئی۔
بے شک ریاض نے فراز کو قتل نہیں کیا لیکن میری زندگی کی سب گناہوں میں وہ میرا ساتھی تو بنا رہا۔ اب اس نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا ہے مگر اس کی بہت بڑی قیمت رسوائی کی صورت میں ہمیں ادا کرنا پڑی۔ اس نے اپنی بیوی کے قدم چھو کر اور ماں باپ کے پیروں پر گر کر معافی لے لی۔ اس نے معمول کی زندگی گزارنا شروع کر دی مگر میں … میں سوچتی ہوں کہ میرا اصل جرم کیا تھا ؟ میرے خاوند کا جرم کتنا تھا ؟ ریاض اور رخسانہ کتنے کتنے مجرم ہیں اور ہم میں سے بڑا مجرم کون تھا۔ میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ جرم خواہ جتنا بھی چھپ کر سات پردوں میں کیا جائے ایک نہ ایک دن سامنے آکر رہتا ہے اور سزا اصل جرم کے مقابلے میں کہیں زیادہ ملتی ہے