Thursday, October 10, 2024

Zameer Ki Awaz

پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ گہری سوچوں میں گم تھے۔ ان کی نظریں سامنے رکھی بڑی فائل پر جمی ہوئی تھیں۔ ان کے ساتھ کے کتنے افسر اوپر کی کمائی سے نہ جانے کہاں سے کہاں تک پہنچ چکے تھے، اور وہ اپنی نیکی، شرافت اور اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے آج تک اسی سیٹ پر تھے۔ لیکن اب وہ تھک چکے تھے، وہ بھی چاہتے تھے کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھیں۔ جب امیر گھرانوں کے لڑکے لڑکیوں کو بے فکری سے پیسہ اڑاتے دیکھتے تو ان کے دل میں بھی حسرت جاگتی کہ کاش وہ بھی اپنے بچوں کو پُر آسائش زندگی دے سکتے۔ اس طرح کی کئی فائلیں ان کے پاس پڑی ہوئی تھیں جو انہیں کہاں سے کہاں پہنچا سکتی تھیں، بس ایک ہلکی سی جنبش کی ضرورت تھی۔ ایک دستخط کی، اور وہ منٹوں میں فرش سے عرش تک پہنچ سکتے تھے۔ لیکن ان تمام فائلوں سے زیادہ آج کی فائل میں کشش تھی، کیونکہ معاملہ ان پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ جتنے چاہیں مانگ لیں۔ انہوں نے کئی بار پڑھی ہوئی فائل دوبارہ کھولی۔

نام: حسام
عمر: پچیس سال
ولدیت: محمد رمضان
پیشہ: ایک معمولی کارکن
ایک بیٹا جو حال ہی میں جرنلزم کے شعبے میں آیا ہے۔
جرم: بڑے چوہدری کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اس کا کیا کرنا ہے؟ بس پولیس مقابلے میں مار دیا جائے تاکہ کوئی دوسرا یہ جرات نہ کر سکے۔ فائل لانے والا خباثت سے مسکرایا تھا۔ انہوں نے ایک گہرا سانس بھرا، فائل بند کر کے پرے کھسکا دی۔ اردلی! انہوں نے آواز دینے لگے۔ جی سر! ایک بانس کی طرح لمبا شخص اندر داخل ہوا اور سیلوٹ مار کر پوچھنے لگا، ایک حسام نامی لڑکا ہے، علاقے کی چھوٹی جیل میں۔ ہمیں یہاں لے کر آؤ۔ یس سر! وہ ایک بار پھر سیلوٹ مار کر چلا گیا۔

اور پھر جب حسام نامی لڑکے کو ان کے سامنے لایا گیا تو وہ حیران رہ گئے۔ بالکل ان کے بیٹے کی مشابہت رکھنے والا لمبا گورا حسام، جسے مار مار کر شکل بگاڑ دی گئی تھی۔ پتا نہیں کیوں، اسے دیکھتے ہی انہیں اپنا بیٹا یاد آ گیا جو کہ آج کل کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انٹری ٹیسٹ کلیئر کرنے کی خاطر جان توڑ محنت کر رہا تھا۔ اسے مارا کیوں ہے؟ احسان الحق نے درشتی سے اسے دائیں بائیں سے پکڑے دو اردلیوں سے پوچھا۔ چوہدری کا حکم ہو گا اس لیے تو انہوں نے مارا ہے۔ بھلا کوئی چوہدری کا حکم ٹال سکتا ہے۔ جواب ان دونوں کے بجائے حسام نے انتہائی تلخ لہجے میں دیا تھا۔ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگے اور ایک بار پھر انہیں اپنا بیٹا یاد آیا۔ تم دونوں جاؤ ۔ انہوں نے سر کو جھٹکتے بیٹے کی سوچ سے پیچھا چھڑا کر دونوں اردلیوں کو حکم دیا۔ وہ ایڑیاں بجاتے وہاں سے چلے گئے۔ حسام بیٹا ! تم یہاں بیٹھو۔ وہ حسام کو سامنے بٹھا کر اپنی کرسی کو آگے کھینچ کر سرگوشیوں میں اسے نہ جانے کیا سمجھانے لگے تھے۔
***

اسی شام کو جب وہ گھر جا رہے تھے۔ تو وہ حسام اور اس کے گھر والوں کو ایک محفوظ مقام تک پہنچا آئے تھے۔ جہاں چوہدریوں کی رسائی ناممکن تھی۔ انہیں اب پتا چلا تھا کہ حسام کو دیکھتے ہوئے انہیں اپنا بیٹا کیوں یاد آتا تھا۔ کیونکہ ان کا بیٹا بھی حسام کی طرح جوشیلا اور حساس تھا۔ ان کا بیٹا بھی تو اس طرح بے خوف ہو کر نظام بدلنے کی باتیں کرتا تھا اور اگر اس طرح کل کلاں کو یہ سوچ کر ہی جھر جھری آ گئی۔ وہ جانتے تھے کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے اس کا خمیازہ انہیں بھگتا بھی پڑ سکتا ہے۔ لیکن اپنے ضمیر کے اس فیصلے پر وہ بہت مطمئن ہو کر کھر کی طرف رواں دواں تھے۔
***

ابھی گھر میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ان کی چھوٹی بیٹی شہیرہ خوشی سے جگمگاتا چہرہ لیے ان کی طرف بڑھی۔
ارے، میرا بیٹا اتنا خوش کیوں ہے؟ انہوں نے اپنا بازو پیار سے اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے پوچھا۔ پاپا، سنیں گے تو آپ بھی خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔ اللہ نے ہماری بھی سن لی! ارے بیٹا! کچھ بتاؤ بھی۔ یہ تو ایسے ہی کرتی رہے گی، بابا! میں آپ کو بتاتا ہوں کہ خوشی کی خبر کیا ہے۔ جنید نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پاپا! میں نے جو انٹری ٹیسٹ دیا تھا، اس میں میرا نام آ گیا ہے۔ آپ کے بیٹے نے ٹاپ کیا ہے! جنید کا چہرہ جذبات سے سرخ ہو رہا تھا۔ واقعی، ایک دم جیسے ان کا دل بے طرح خوشی کے احساس سے بھر گیا۔ انہوں نے بے اختیار آگے بڑھ کر جنید کو گلے لگا لیا اور مسکراتے ہوئے اپنی شریک حیات کو دیکھا، جس نے قدم قدم پر ان کا ساتھ نبھایا تھا۔ وہ طمانیت بھرے انداز میں مسکراتی ان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی آنکھوں میں نمی لیے ان کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور نفل ادا کرنے چل دیے۔ وہ اپنے پاک رب کا شکر ادا کرنا چاہتے تھے، اس رب کا جس نے انہیں یقینا آزمائش میں ڈالا تھا اور وہ اپنے پاک رب کی آزمائش پر پورا اترے تھے

Latest Posts

Related POSTS