Tuesday, March 18, 2025

Zara Si Ghalti

شادی کی پہلی رات ہی میرے شوہر نے پہلا سوال یہ کیا کہ قسم کھائو کہ تم کو شادی سے پہلے کوئی پسند تو نہ تھا، کسی سے محبت تو نہ تھی کہ جس کی یاد تم کو ستاتی ہو؟ میں اپنے سواگت کے اس انداز پر دنگ رہ گئی مگر پھر کمال ضبط سے کام لیا اور خود پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا۔ نہ تو مجھے شادی سے پہلے کوئی پسند تھا اور نہ کسی سے محبت ہوئی۔ قسم کھاتی ہو ؟ ہاں، لیکن آپ بھی قسم کھائیں گے کہ آپ کو بھی شادی سے پہلے کسی سے محبت نہیں ہوئی اور نہ کسی کی یاد ستاتی ہے ؟ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے شادی سے پہلے کسی سے محبت نہیں ہوئی۔ میری قسم سچی تھی، میرادل صاف تھا، اس لئے میں مطمئن تھی۔ میرا اضمیر بھی مطمئن تھا۔ خدا کا شکر کہ اس کے بعد ہم میاں بیوی میں کبھی بد اعتمادی نہ ہوئی ہم خوش و خرم زندگی گزارنے لگے لیکن جب خدا کسی کا راز فاش کرنے پر آتا ہے تو وہ ہو کر رہتا ہے۔ ہوا یوں کہ میری بچی کی سالگرہ کی تقریب تھی۔ میں نے اپنی چند پرانی سہیلیوں کو بھی مدعو کیا۔ اس تقریب کے بعد میرے شوہر بہت پریشان دکھائی دیئے۔ وجہ پوچھی تو اپنی روداد بیان کی کہ ان کے ضمیر پر شادی کی رات جھوٹی قسم اٹھانے کا جو بوجھ تھا، ہلکا ہو گیا۔ وہ اس طرح گویا ہوئے۔ میں ایک مناسب شکل و صورت کا انسان تھا۔ جب بھی آئینہ دیکھتا، کڑھتا اور سوچتا کہ اللہ نے کچھ لوگوں کو کتنا حسن دے دیا ہے۔ اے کاش کہ میں بھی حسین ہوتا۔ بس یہی احساس تھا کہ جس کے رد عمل کے طور پر حسین چہرے میری کمزوری بن گئے۔ جن دنوں میٹرک میں تھا، اکثر کالج کی لڑکیاں ہمارے اسکول کے راستے سے جارہی ہوتی تھیں۔ میں ان کو دیکھتا مگر وہ میری جانب متوجہ نہ ہو تیں۔ میری طرح میرے دوست بھی اس امید پر کہ شاید کوئی لڑکی ان کی طرف متوجہ ہو جائے ان لڑکیوں کو دیکھتے تھے مگر بے سود۔ اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کر لیا تو کالج میں داخلہ بھی مل گیا۔ کالج کے دن بہت بور کٹ رہے تھے۔ سب خواب مٹی میں ملتے نظر آرہے تھے۔ کبھی کبھی تو صبح کالج جانے کو دل نہیں کرتا تھا۔ لہذا چھٹی کر لیتا۔ ایک دن میری بوریت ختم ہو گئی۔ زندگی خوبصورت لگنے لگی جیسے بہار آگئی ہو۔ اب میرا کالج جانے کو دل کرتا تھا۔ بڑی بے چینی سے دوسرے دن کا انتظار کرتا تھا کہ کب صبح ہو اور میں کالج جائوں۔ وہ دن میں کبھی نہ بھلا سکوں گا جب میں اور میرے دوست کالج جانے کے لئے سڑک کے کنارے پیدل مارچ کرتے جارہے تھے۔ ہم دنیا کی رونقوں سے بے خبر خوش گپیوں میں مصروف چل رہے تھے کہ اچانک چار لڑکیوں کا ایک گروپ تیزی سے ہمیں کراس کرتا آگے نکلا۔ ہمیں غیرت ہوئی کہ لڑکیاں ہو کر انہوں نے ہمارا راستہ کاٹ دیا۔ ان کے آگے آگے چلنے کا انداز ایسا تھا کہ ہم چونک پڑے۔ میں نے کہا۔ مجھے لڑکیوں کے پیچھے چلنے کی عادت نہیں ہے۔ تم لوگ اگر ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہو تو میں ان کے آگے ہی چلوں گا۔ یہ کہہ کر ہمیں اپنے دوستوں کو چھوڑ ان لڑکیوں سے آگے نکل گیا۔ میرا ایک دوست بھی میرے ساتھ آگیا۔ ہم دو تھے اور وہ چار ان میں سے ایک برقعے میں تھی۔ وہ تھوڑی دور جا کر رک گئی، باقی تینوں نے ہمارے ساتھ ضد کی اور ، اور تیز ہو گئیں۔ ہم دونوں دوست بھی ان سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے اور وہ تینوں ہم دونوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ہم اور ان لڑکیوں میں گویا تیز چلنے کی ریس شروع ہو گئی۔ تھوڑی دُور جا کر ان لڑکیوں کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ راستے میں رُک گئیں۔ اب صرف ایک لڑکی جس نے ہمت نہیں ہاری، وہ ابھی تک مسلسل تیز چل رہی تھی۔ اس طرح ہم دولڑ کے ہو گئے اور وہ اکیلی رہ گئی۔ وہ سڑک پر ہمارے ساتھ یوں قدم سے قدم بڑھا کر چل رہی تھی کہ ہم حیران رہ گئے۔ ایسی باہمت لڑکی ہم نے زندگی میں نہیں دیکھی تھی۔ وہ اس قدر با ہمت اور ضدی تھی کہ اس نے سڑک پر گزرنے والے لوگوں کی بھی پروا نہیں کی اور تیز سے تیز تر ہوتی ہو گئی۔ اس کا کالج اسی سڑک کے کنارے واقع تھا۔ کالج کے سامنے ایک کھمبا تھا۔ میں نے اپنے دوست کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ یہ کھمبا ہماری ریس کی آخری حد ہے۔ جو اس کو پہلے کر اس کرلے گا، وہ جیت جائے گا۔ اس لڑکی نے میری بات سن لی اور جب فاصلہ کچھ کم رہ گیا تو وہ اور تیز ہو گئی۔ اس کا گرمی اور پسینے سے برا حال ہو رہا تھا۔ غصے سے رنگ بھی سرخ ہو چکا تھا۔ آخری لمحے میں ہم نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور میں اس کے چہرے میں ہی کھو گیا۔ میں یہ بھی بھول گیا کہ جو حد میں نے خود مقرر کی تھی وہ سر پر آپہنچی ہے۔ میں تو بس اس کے چہرے کی طرف ہی دیکھتا رہ گیا جیسے کوئی گلاب کی کلی صبح صبح شبنم کے قطروں سے تازگی حاصل کرتی ہے اور ذراذرا کھل جاتی ہے، جیسے کوئی چاند بادلوں سے نکلتا ہے تو رات بھی روشن ہو جاتی ہے۔ میں تو اس کا حسن دیکھ کر گم صم تھا۔ ہوش تو اس وقت ٹھکانے لگے جب اس نے کہا۔ کچھ تو شرم کرو، مگر ان الفاظ نے کچھ اثر نہ کیا ہم تو اس کے جمال میں کھو کر رہ گئے تھے۔ وہ حسین پری  خوبرو حسینہ موقع پاتے ہی اور تیز قدم ہوگئی اور ریس کے آخری مقام کو ہم دونوں سے پہلے ہی کر اس کر گئی۔ یوں اس نے ریس جیت لی مگر یہ نہ جان سکی کہ اس نے اس ریس کے جیتنے کے ساتھ ساتھ میرا دل بھی جیت لیا ہے۔ میں نے زندگی میں کبھی شکست نہیں کھائی تھی، ہر مقابلہ جیت لیتا تھا۔ یہ میری زندگی کی پہلی ہار تھی جو مجھے اچھی لگی۔ اس کے بعد تو میں اس قدر اس پھول سی صورت کو دیکھنے کا آرزو مند ہوتا تھا کہ جس دن اس کا دیدار نہ ہوتا وہ دن بہت بھاری اور اُداس گزرتا تھا۔ میں نے ایک نظر میں ہی اس کو پسند کر لیا تھا۔ اس کے بعد میری یہ حالت تھی کہ صبح صبح اٹھتا، کالج کی تیاری کرتا اور جلدی سے سڑک کے کنارے آ کھڑا ہوتا اور انتظار کرتا کہ وہ پری چہرہ نظر آجائے۔ میں جانتا تھا وہ مجھ کو پسند نہیں کرے گی پھر بھی جی چاہتا تھا کہ کہیں سے اس کو ڈھونڈ نکالوں اور اس کے ساتھ خوب باتیں کروں۔ مقابلے والے دن کے بعد اگلے دن میں اور میرا دوست اس کا انتظار کرتے رہے لیکن وہ نہیں آئی۔ اگلے دن بھی ہم وقت سے پہلے ہی سڑک پر آگئے تاکہ وہ کہیں نکل نہ جائے۔ کافی انتظار کے بعد وہ دُور سے آتی ہوئی نظر آئی۔ میں بہت خوش ہوا۔ جب وہ ہمارے قریب سے نکل کر آگے چلی گئی تو ہم اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے کیونکہ اس نے ریس جیت کر ہمیں اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ میں تو اس کو ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے اسے اس کی جیت پر مبارک دی ہے مگر جواب نہ ملا۔ اس کی وجہ سے مجھے ایک فائدہ ہوا کہ میں باقاعدگی سے کالج جانے لگا۔ پورے پیریڈ پڑھ کر کالج سے نکلتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس طرح میں چھٹی کے وقت ان کے کالج کے پاس پہنچ جاتا تو وہ اپنے کالج سے نکل رہی ہوتی اور میں ایک نظر اس کو دیکھ لیتا۔ ایک دن میں اور میرا دوست کالج کے رستے پر جارہے تھے۔ رش بہت تھا اچانک وہ مجھے لڑکیوں کی بھیڑ بھاڑ میں نظر آ گئی۔ وہ سفید یونی فارم اور گلابی دوپٹہ پہنے تھی اور گلابی رنگ کا حجاب سر پر لپیٹ رکھا تھا۔ اس کا اپنار نگ بھی گلابی تھا شاید اس کو گلابی رنگ پسند تھا۔ اب یہ ہمارا روز کا معمول ہو گیا۔ اس کے ساتھ کالج تک جاتے ہوئے جب وہ اپنے کالج کے گیٹ میں داخل ہو جاتی تو ہم اپنی راہ لیتے۔ میں نے کالج کا پہلا سال اسی طرح اس کے پیچھے چلتے اور آتے جاتے گزار دیا۔ کئی بار چاہا اس کو مخاطب کر کے کم از کم اس کا نام ہی پوچھ لوں مگر ہر بار اس کی خشمگیں نگاہوں نے مجھے ڈرا کر اس امر سے باز رکھا۔ ایک روز میرے دوست نے مجھے اس کا نام بتایا۔ خدا جانے وہ ٹھیک نام بتارہا تھا یا غلط، لیکن یہ سن کر دل کو تسلی ہو گئی کہ اس کا نام گلنار ہے جبکہ میں نے اپنی طرف سے اس کا نام گلاب سوچ لیا تھا۔ پہلے سال کے اختتام پر الوداعی پارٹی سے جب وہ لوٹ رہی تھی۔ میں نے اس کو دیکھا، ہلکے میک آپ میں اس کا رنگ روپ نگاہوں میں کھب جانے والا تھا۔ اس دن جانے مجھ کو کیا ہوا کہ پیچھے پیچھے اس کے گھر تک گیا اور رستے میں اس کو مخاطب کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنے گھر چلی گئی۔ اس کے بعد وہ تین چار دن تک کالج نہیں آئی۔ میں بہت پریشان تھا۔ کچھ دن بعد کالج آئی تو دل کو تسلی ہو گئی۔ جی چاہا اس سے بات کروں نہ آنے کی وجہ پوچھوں۔ چاہے اچھا یا برا کہے ، لیکن اس نے کوئی بات نہ کی۔ مجھے دکھ تھا کہ میں نے کتنا وقت برباد کر دیا تھا۔ کالج کا سارا سال اس کے پیچھے آتے جاتے گزارا لیکن جب اس کا کوئی حاصل نظر نہ آیا تو بالآخر اکتا گیا اور دوستوں سے وقت کے رائیگاں ہونے کا اظہار کیا۔ ایک نے کہا کہ ایک بار رابطہ کر کے اسے اپنے احوال دل سے آگاہ کر دو۔ اگر اس کے من میں تمہارے لئے ذراسی بھی جگہ ہو گی تو جواب دے گی ور نہ اس کا پیچھا چھوڑ دو۔ فضول میں زندگی برباد مت کرو۔ خط دینے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ میں ایسا ویسا لڑکا نہ تھا جو لڑکیوں کو نجانے کتنے خط دیتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا، یار مجھ سے یہ نہیں ہو گا تب اسی نے مجھے خط لکھ دیا اور کہا کہ اب یہ خط اس کو دے دو اور دیکھو کیا ہوتا ہے۔ اگلے دن میں نے خط دینا چاہا مگر ہمت نہ ہوئی۔ دوست نے پوچھا۔ خط دے دیا؟ میں نے بتایا کہ نہیں دے سکا۔ اس پر سب دوست میرا مذاق اُڑانے لگے۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ انہوں نے طیش دلادیا تو قسم کھالی کہ کل ضرور اس کو خط دے دوں گا، چاہے کچھ ہو جائے لیکن اگلا دن مجھ پر بہت بھاری پڑ گیا اور آج تک اپنی حرکت پر پچھتارہا ہوں۔ دوسرے دن دیکھا کہ وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ کالج جارہی ہے۔ میں نے جلدی سے خط نکالا اور تیز قدموں ان کے قریب جا پہنچا اور خط اس کی سہیلی کے ہاتھ میں تھما کر بولا۔ یہ ان کے لئے ہے ، ان کو دے دینا۔ اس لڑکی نے خط لے لیا۔ تبھی میں ترنت مڑا اور ایسا بھاگا کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سردیوں میں بھی مجھے پسینہ آگیا۔ اس کے بعد ایک ہفتہ تک وہ نہیں آئی۔ میں اتنا بے چین ہوا کہ اس کے گھر کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ اچانک وہ اپنے گھر سے نکلی اور اشارے سے مجھے بلایا۔ میں دھڑکتے دل سے اس کے پاس گیا۔ سوچ رہا تھا شاید وہ خط کا جواب دینے والی ہے مگر میر اخیال غلط تھا۔ اس نے تو سڑک پر کھڑے کھڑے میری ایسی بے عزتی کی کہ کیا بتائوں جی چاہا کہ اسی وقت جا کر پانی میں ڈوب مروں۔ کافی دن شرمندہ رہا۔سوچتا تھا آخر میں نے ایسی گھٹیا حرکت کیوں کی ؟ اپنی عقل سے کام کیوں نہ لیا؟ دکھ اس بات کا نہیں تھا کہ اس نے سڑک پر میری بے عزتی کی تھی، غم تھا یہ کہ میں نے ایسی حرکت کی ہی کیوں ؟ اس نے میرے بارے کیا سوچا ہو گا۔ اس واقعہ کا مجھ پر گہرا اثر ہوا۔ کئی دن تک پژمردہ اور بیمار رہا۔ اپنے کئے پر پچھتاوا ہر وقت مجھ کو جلاتارہتا۔ کچھ دن بعد کالج گیا اور سارا غصہ ان دوستوں پر نکالا، جنہوں نے مجھے یہ مشورہ دیا تھا۔ سچ ہے ، جب انسان بگڑتا ہے تو اپنے دوستوں ہی سے بگڑتا ہے۔ میں اب روز اس کا انتظار کرنے لگا۔ نظر آئے تو معافی مانگ لوں مگر پھر وہ مجھے نظر نہیں آئی۔ میرے دل پر ایک بوجھ تھا، جو کم نہیں ہو رہا تھا۔ چاہتا تھا اس کو بتائوں کہ میں غلط لڑکا نہیں ہوں۔ یہ بھی چاہتا تھا کہ اپنے کئے کی معافی مانگوں۔ میرے دل میں کھوٹ نہیں تھا، میں نے دل سے اسے چاہا تھا، اسی لئے اس کو بھلا نہ سکا۔ سوچتا تھا اگر میری وجہ سے یہ لڑکی تعلیم سے محروم ہو گئی، تو میں زندگی بھر خود کو معافی نہیں کر سکوں گا۔ اس کی اگر غلطی تھی تو بس اتنی کہ اس نے جوش میں اگر ہمارے ساتھ ایک مر تبہ ریس لگالی تھی یوں وہ کبھی کسی سے بات نہیں کرتی تھی۔ اس بات کو ایک سال گزر گیا مگر وہ پھر کبھی نظر نہ آئی۔ نگاہیں اس کو ڈھونڈتی رہ گئیں۔ اب بھی جب کبھی اس کے گھر کے قریب سے گزرتا ہوں، میری نگاہیں اس کے دروازے پر دستک دینے لگتی ہیں۔ دل کہتا ہے شاید وہ کبھی گھر سے نکلے اور میں اس سے معافی مانگ لوں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کالج اور ان رستوں سے میرا واسطہ ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا، جہاں یہ ناخوش گوار واقعہ پیش آیا تھا۔ وقت گزرتا رہا، میں نے عملی زندگی میں قدم رکھ دیا اور اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو گیا۔ دو برس بعد میری تم سے شادی ہو گئی اور میں ایک نارمل زندگی بسر کرنے لگا۔ کہتے ہیں وقت سب سے بڑا مر ہم ہے ، ہر زخم کو مندمل کر دیتا ہے مگر میرے ساتھ ایسانہ ہو سکا۔ پچھتاوے کی صورت یہ آج بھی میرے دل میں ہرا ہے اگر وہ مل جاتی اور میں اس سے معافی مانگ لیتا تو شاید یہ زخم مٹ جاتا۔ میں صبر کے ساتھ جھوٹی قسم کھانے والے اپنے شوہر کی روداد سنتی رہی جس کو گلنار اور اس کے تصور کی گلاب آج بھی پہلے دن کی طرح یاد تھی، جس نے اس سے پہلی اور آخری محبت کی تھی مگر یہ محبت چونکہ یک طرفہ تھی تبھی اس کو تڑپاتی، رلاتی اور دکھ دیتی رہتی تھی۔ یہ مرد کی فطرت ہے چاہے وہ خود کتنی ہی محبتیں کرلے، چاہتا یہی ہے کہ اس کی بیوی صاف ستھرے ذہن اور پاکیزہ جسم و دل کے ساتھ اس کی شریک حیات بنے۔ دوسری صورت میں وہ اسے قبول نہ ہو گی۔ خیر ، اپنے شوہر کی رام کہانی سن لینے کے بعد میں نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔ مجھے لگتا ہے سالگرہ کی تقریب والے دن تم نے گلنار کو دیکھ لیا ہے۔ نہیں تو۔ اس نے معصوم شکل بنا کر کہا۔ تم کہتے ہو ، اس واقعے کو بارہ برس بیت گئے مگر آج بھی وہ تم کو پہلے دن کی طرح یاد ہے۔ ظاہر ہے چھپے ہوئے زخم ایسے ہی تو رسنے نہیں لگتے۔ تم نے ضرور اسے دیکھا ہے۔ وہ میری پرانی سہیلی ہے اور میں نے اس کو بچی کی سالگرہ میں مدعو کیا تھا۔ وہ سالگرہ میں اور سہیلیوں کے ساتھ آئی تھی۔ اس کو خبر نہ تھی کہ تم میرے شوہر ہو ۔ جب تم نے اسے گھر میں دیکھاتو ٹھٹھک گئے اور وہ بھی ششدر رہ گئی تم کو دیکھ کر اور دوسرے ہی لمحے وہ ہمارے گھر سے چلی گئی۔ ہے نا یہی بات ؟ جب پارٹی ختم ہو گئی تم نے پوچھا۔ تمہاری ایک مہمان وقت سے پہلے کیوں چلی گئی ؟ اس کی طبیعت ٹھیک نہ تھی، اس نے یہی کہا تھا نا! اس وقت تم پریشان ہو گئے تھے اور تم نے پوچھا تھا کہ کہو تو میں کچھ کھانے پینے کا سامان اس کے گھر پہنچا آئوں؟ تمہاری سہیلی نے کچھ کھایا پیا بھی تو نہیں ہو گا۔ تمہارے اس سوال نے میرے دل میں شک کو جنم دیا۔ میں حیران رہ گئی کہ آخر تم کو اس کی فکر کیوں ہے ؟ اور یہ بھی بتادوں اس کا نام گلنار نہیں، سلطانہ ہے۔ تم اتنے پریشان تھے کہ میں نے اصرار کر کے تم سے پریشان ہونے کی وجہ پوچھ لی۔ بچاری سلطانہ کس قدر بد نصیب ہے کہ کسی اور کی غلطی کی سزا اسے ملی۔ تبھی تمہارے ضمیر کی خلش نے تم کو مجبور کر دیا کہ مجھ کو اپنی ایک طرفہ محبت کی کہانی سنا دو لیکن کیا تم جانتے ہو کہ اسے تمہارے کارن کتنی بڑی سزا ملی ہے؟ سنو ! جھوٹی قسم کھانے والے، میں تمہیں بتاتی ہوں۔ سلطانہ نے مجھے بتایا تھا کہ جن دنوں وہ کالج میں پڑھتی تھی، ایک لڑکے نے اس کا پیچھا کیا اور پھر خط دینے کی کوشش کی۔ جب اس نے نہ لیا تو اس کی ساتھی لڑکی کو دے کر چلا گیا اور وہ ساتھی لڑکی اس کی کزن سلمیٰ تھی جس کے بھائی سے سلطانہ کی منگنی ہو چکی تھی اور شادی ہونے والی تھی۔ سلمیٰ نے وہ خط سلطانہ کو نہ دیا۔ گھر لے جا کر پڑھا اور اپنے بھائی کو دے دیا۔ خدا جانے تم نے اس میں کیا اوٹ پٹانگ باتیں لکھ دی تھیں کہ اس نے سلطانہ سے منگنی ختم کر دی اور شادی سے انکار کر کے خط اس کے گھر والوں کو دے دیا۔ یوں اس پر تعلیم کی دروازے بند ہو گئے۔ اس صدمے سے وہ بیمار ہو گئی۔ پڑھائی بھی چھوٹی اور سلمیٰ کے نمک مرچ لگا کر بات کا بتنگڑ بنانے سے اس کی منگنی بھی ٹوٹ گئی۔اس واقعہ سے اتنی دلبر داشتہ ہوئی کہ پھر شادی بھی نہیں کی اور اب وہ ایک اسکول میں ٹیچر ہے۔ میں نے تب اس سے یہی پوچھا تھا کہ کون تھاوہ لوفر ! جس نے تم سے ایسا مذاق کیا تھا ؟ خدا جانے کون تھا۔ تم تو جانتی ہو کالج کے کچھ لڑکے، ایسے غیر ذمہ دار ہوتے ہیں۔ کسی کے نفع نقصان کا بھی نہیں سوچتے لیکن ان کی ذرا سی غلطی کسی کی زندگی تباہ کر دیتی ہے۔ میں کیا جانتی تھی کہ وہ لوفر لڑکا میراشوہر ہے۔ میں تم سے شرمندہ ہوں شگفتہ ! یقین کرو۔ میں نے بات کاٹ کر کہا کہ دکھ مجھے یہ ہے کہ شادی کے پہلے دن تم نے مجھ سے قسم اٹھوائی۔ سوچو تو ایک ایک دلہن کے لئے کتنے بڑے صدمے کی بات ہے۔ مجھے معاف کر دو۔ وہ کہنے لگے۔ اب اگر میں نے تم کو سب کچھ سچ بتا دیا ہے تو مجھ کو سچ بولنے کی سزا تو مت دو۔ میں کیا آپ کو سزادے سکتی ہوں میرے سرتاج ! جبکہ سچ بولنے والے کا میں دل سے احترام کرتی ہوں۔ اچھا اتنا تو کہہ دو کہ معاف کیا۔ معاف کیا، اس لئے کہ نو عمر لڑکے لااُبالی ہوتے ہیں۔ وہ صرف اپنے دل کی سوچتے ہیں اور کسی کا خیال نہیں کرتے۔ ان جیسوں کی وجہ سے کتنی لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوئے ہوں گے ، سوچو تو ذرا …

Latest Posts

Related POSTS