شبانہ میری بہت پیاری دوست تھی، کبھی کوئی بات مجھ سے نہیں چھپاتی تھی۔ اس کی ماں سوتیلی تھی اس لئے اپنے دکھ سکھ کی باتیں میرے ساتھ شیئر کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا کرتی تھی۔ ہماری دوستی ایک دو دن کی نہیں، بچپن سے تھی۔ شبانہ کو مجھ پر ایسا اعتماد تھا کہ سگی بہنوں کو بھی شاید ایک دوسرے پر نہ ہوتا ہو۔ جب ہم نے میٹرک پاس کیا تو والدین نے ہماری شادی کی فکر شروع کر دی۔ آگے پڑھانے کے حق میں وہ نہ تھے اور پڑھاتے بھی کیسے جب کہ ہمارے علاقے میں دور دور تک کوئی گرلز کالج ہی نہ تھا۔ میرا رشتہ تو بچپن سے میرے چچا زاد سے ملے تھا لیکن شبانہ کے والدین کو اس کیلئے کافی پریشانی اٹھانی پڑی کیونکہ کوئی موزوں رشتہ اس کے خاندان میں موجود ہی نہ تھا۔ کافی تگ و دو کے بعد بالآخر ایک مالدار گھرانے سے اس کا پیغام آ گیا۔ یہ زمیندار لوگ تھے لڑکا اکلوتا اور تمام جائداد کا وارث تھا۔ ایسی لڑکی چاہئے تھی جو خوبصورت بھی ہو۔ گاؤں میں ان دنوں کسی لڑکی کا میٹرک پاس ہونا بھی اعزاز کی بات تھی۔ پس دونوں گھرانوں نے ایک دوسرے کو موزوں سمجھ کر بات پکی کرلی۔ میری شادی کے چھ ماہ بعد شبانہ بھی بیاہ کر اپنے گھر چلی گئی۔ رخصتی کے وقت وہ بہت خوش تھی ، پھول کی طرح کھلی ہوئی اور شاداب … دلہن بن کر چودھویں کا چاند لگ رہی تھی۔ میں نے اس کے کان میں کہا تھا، دولہا میاں تو دیکھتے ہی تم پر فدا ہو جائیں گے ۔ سنا ہے وہ بھی کم خوبصورت نہیں ! وہ مسکرا کر رہ گئی۔ اس کی وہ ملکوتی مسکراہٹ آج بھی میری آنکھوں میں سمائی ہوئی ہے۔ ویسے والے دن میں نہ جاسکی کیونکہ میرے میاں کی طبعیت کچھ ناساز ہوگئی تو میں نے کی تو میں جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ لیکن پھر میں نے پندرہ دن بعد دولہا دلہن کی دعوت کا انتظام اپنے گھر پر کیا۔ جب شبانہ دعوت پر اپنے شوہر کے ہمراہ آئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ خاموش اور بھی بجھی سی ہے۔ مجھے کچھ تشویش ہوئی کیونکہ وہ بہت زیادہ لئے دیئے کی تھی اور انداز بڑا نپا تلا سا تھا۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ ایسا کیوں ہے؟ وہ تو میری بہت بے تکلف سہیلی تھی بات بات پر کھلکھلا نے والی اور خوش مزاج۔ اس کا دولہا تو جوان اور خوش شکل تھا، زمیندار گھرانے کا خوشحال شخص تھا۔ پھر بھلا ایسی کون سی بات تھی جو شبانہ کے اس رویئے کا موجب بنی تھی۔
شبانہ کی مرجھائی ہوئی صورت دیکھ کر ایک بے نام سا زخم میرے دل پر لگا تھا۔ اس وقت تو اس سے کوئی سوال نہیں کیا البتہ چند روز بعد اس کے گھر ملنے چلی گئی۔ اتفاق سے اس کا شوہر گھر پر نہ تھا۔ وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گئی جو ابھی تک سجا ہوا تھا اور کاغذی پھولوں سے مزین تھا۔ کچھ خاطر تواضع اور رسمی باتوں کے بعد میں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔ شبانہ کیا بات ہے؟ آخر کیوں اتنی خاموش نظر آتی ہو، کیا سرال میں کوئی دکھ ملا ہے؟ بولی کوئی دکھ نہیں ہے ، سب لوگ بہت اچھے ہیں۔ دیکھو، میں تمہاری بچپن کی ساتھی ہوں اور تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں۔ پہلے مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتی تھیں ، اب بھی مت چھپاؤ! کہنے لگی اب کسی اور کا راز بھی میرے راز میں شامل ہے اور یہ ایسی امانت ہے جس میں خیانت نہیں کر سکتی۔ راز بتا کر خیانت ہی تو کروں گی اور ایسا میں قیامت تک نہیں کر سکتی۔ ایسا مت سوچو شبانہ، میں اور تم اب بھی ایک ہیں۔ جیسے ہم پہلے ایک دوسرے کے رازوں کے امین تھے ، اب بھی رہیں گے۔ یہ عہد زندگی کے آخری سانسوں تک باقی رہے گا۔ خدارا مجھے اور اذیت میں نہ رکھو۔ غرض بڑی جد و جہد کے بعد میں نے اسے قائل کر ہی لیا اور وہ راز بتانے پر آمادہ ہوگئی۔ اس نے کہا ہونا تم تو جانتی ہو میں فراز سے شادی پر کتنی خوش تھی۔ میرے دل کی سلیٹ خالی تھی اس پر پہلا نام اس کا لکھا گیا۔ لیکن میں کم نصیب تھی کہ وہ مجھے مکمل انسان کے طور پر نہیں ملا۔ کیا مطلب، میں کبھی نہیں! یوں سمجھ لو کہ اسے شادی سے کچھ غرض نہ تھی لیکن ماں باپ کو حقیقت کا علم نہیں تھا۔ میرے سسر صاحب اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجانا چاہتے تھے۔ ہر باپ کی طرح انہیں بھی اپنے اکلوتے فرزند کی خوشی دیکھنے کی چاہ تھی۔ وہ اپنی زمین و جائداد کا وارث چاہتے تھے۔ روز روز کے اصرار سے فراز پریشان تھے لیکن طبعا اس قدر شر میلے تھے کہ والد کو بتا نہ سکے کہ شادی شادی کرنے سے کسی لڑکی کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ بالآخر والدین جیت گئے اور بیٹے کو شادی کیلئے مجبور کر دیا۔ فراز مارے باندھے دولہا تو بن گئے لیکن انہوں نے پہلے ہی دن ساری بات کھل کر مجھے بتادی۔ کہا کہ میں نے سوچا تھا کہ ایک بار والدین میرے سہرے کی خوشیاں دیکھ لیں- پھر میں کچھ دن بعد تم سے جھگڑا کر کے تمہیں آزاد کر دوں گا۔ تم جہاں چاہو اپنے والدین کی مرضی سے شادی کر لینا۔ انہوں نے یہ بات رو کر اتنی بے بسی سے کہا کہ میرا دل کانپ گیا۔ میں نے طلاق لینے سے صاف انکار کر دیا کہ بدنامی کا یہ داغ اپنے دامن پر نہ لگنے دوں گی۔ میری قسمت میں جو لکھا تھا وہ مجھے مل گیا۔ وہ مجھے پہلے ہی روز سے اچھے لگے کہ ان کی صورت اور ان کی باتوں نے میرے دل میں گھر کر لیا۔ سوچا کہ اب زندگی انہی کے ساتھ گزار دوں گی ۔ شاید کہ قدرت کو میرا امتحان مقصود ہے۔ خود کو عبادت میں گم کر کے جیون گزار دوں گی۔ میرا رب یہی چاہتا ہے کہ اس سے نزدیک ہو جاؤں اور دنیاوی رشتوں کو ثانوی سمجھ لوں۔ معلوم نہیں میری سوچ صحیح تھی یا غلط مگر دل کے بہلانے کو کوئی نہ کوئی تاویل درکار ہوتی ہے۔ سو میں نے بھی اسی طرح کی تاویلوں میں پناہ لے لی۔ اب میں اداس اور پریشان نہیں ہوں اور کسی قسم کے دکھ کا احساس میرے دل میں نہیں۔ شبانہ نے بڑے حوصلے سے اپنا راز میرے دل کے دامن میں ڈال کر کہا کہ ایک بار اور اس وعدے کو دہرا دو کہ میری زندگی تک کم از کم تم اس راز کو اپنے دل میں ہی رکھو گی۔ کبھی کسی کے سامنے افشا نہ کرو گی۔ میں نے اس سے وعدہ کر لیا، وہ مطمئن تو پہلے ہی تھی مزید مطمئن ہو گئی۔ دوسری بار ملی تو بولی کہ سونیا، فراز بہت اچھے انسان ہیں۔ وہ مجھے بہت محبت کرتے ہیں اور مجھے بھی ان سے محبت ہو گئی ہے۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ لیکن ایک بات کا وعدہ انہوں نے مجھ سے لیا ہے کہ ہمیشہ ان کے راز کو راز رکھوں گی اور کبھی ان کے خاندان کیلئے رسوائی کا سبب نہیں بنوں گی۔ ان میں خوبیاں بہت سی ہیں اور جو کمی ہے وہ قدرت کی جانب سے ہے ۔ اس کا کوئی مداوا ان کے اختیار میں نہیں ہے۔ میں اس کی بات سمجھ گئی تھی۔ اپنی سہیلی کا حوصلہ دیکھ کر میں دنگ رہ گئی لیکن اس نے مجھے ان الفاظ میں تسلی دی کہ سونیا، جسے تم اتنا بڑا ایشو سمجھ رہی ہو، میرے نزدیک وہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ اگر انسان چاہے تو ہر طرح سے زندگی گزر سکتی ہے۔ دراصل کچھ لوگ بنے ہی قربانی کیلئے ہوتے ہیں۔ تبھی ان کے قدموں میں زندگی بسر کرنے کا عہد کر لیا ہے۔ میں اس کی باتیں سن کر حیران تھی۔ میں نے پوچھا، کیا تم نے بھی کوئی عہد فراز سے لیا ہے؟ ہاں، میں نے ان سے یہ کہا ہے کہ عمر بھر کیلئے یہ وعدہ کیجئے کہ آپ کبھی عشاء کے بعد گھر سے باہر نہیں رہیں گے۔ ورنہ مجھے تنہائی کا احساس ہوگا اور کیا پتا کہ وحشتیں مجھے گھیر لیں۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہر حال میں بعد نماز عشاء رات سے صبح تک میرے ساتھ رہیں گے۔ یہ عجیب و غریب وعدہ تھا، تاہم اپنی سہیلی کو مطمئن پاکر میں بھی پر سکون ہو گئ –
ان کی شادی کو بارہ برس بیت گئے ۔ وہ پرسکون جیون گزار رہے تھے۔ کبھی کسی سے کوئی شکایت کوئی جھگڑا نہ سنا تھا۔ لیکن جتنے یہ دونوں پر سکون تھے، فراز کے والدین اس قدر بے سکون تھے ۔ کیونکہ ان کا اکلوتا وارث ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم تھا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے بیٹے کے کان کھانا شروع کر دیئے کہ دوسری شادی کرو تا کہ جائداد کا وارث پیدا ہو۔ ورنہ یہ سب دھن دولت ، زمین جائداد کس کام کی ! فراز انکار کرتا رہا لیکن جب والدین نے اصرار ترک نہ کیا تو اس نے بہت سوچ سمجھ کر ایک شرط رکھ دی کہ مجھے شادی کرنی ہے تو زمیندار بلال کی بیٹی سے ہی کروں گا۔ کسی اور سے شادی نہ کروں گا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ امر ناممکن ہے کیونکہ زمیندار بلال کے باپ نے اس کے دادا کو گولی ماری تھی۔ وہ ان کے گھر کے سربراہ کا قاتل تھا۔ ان سے خاندانی دشمنی چلی آرہی تھی۔ اس کڑی شرط کو بھی فراز کے والد نے قبول کر لیا اور جی توڑ کر اپنے باپ کے قاتل کی پوتی کا رشتہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہو گیا۔ بالآخر اس کی کوششیں کامیاب ہوئیں اور انہوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ فراز کو دینا منظور کر لیا۔ جب اس امر کا علم شبانہ کو ہوا تو وہ ہکا بکا رہ گئی۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا مگر جب فراز نے بھی تصدیق کر کے تمام صورت حال بتائی تو شبانہ نے کہا۔ فراز تم بہت بڑی تم غلطی کرنے جارہے ہو۔ تمام عورتیں میری مانند صابر نہیں ہوتیں۔ ان لوگوں سے برسوں کی خاندانی دشمنی ہے۔ جب شادی کے بعد یہ راز کھلے گا تو سوچو کہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ دشمنی دگنی طاقت سے زندہ ہو جائے گی ۔ اب بھی وقت ہے، شادی سے انکار کر دو یا راہ فرار اختیار کر لو۔ فراز سدا کا بزدل تھا، خاص طور پر وہ اپنے باپ کے سامنے دم نہیں مار سکتا تھا۔ اس نے سوچا کہ اب کیا کرے، بیوی بھی صحیح کہتی ہے۔ ادھر شادی کی تیاریاں بھی روز و شور سے ہو رہی تھیں اور وہ تھا کہ خوف سے مرا جاتا تھا۔ شبانہ تو ایک عجب لڑکی تھی جس نے اس کا پردہ رکھ لیا تھا۔ لیکن ہر لڑ کی شبانہ جیسی تو نہیں ہوتی ۔ آنے والی نے تو کوئی نہ کوئی قیامت کھڑی کرنی ہی تھی۔ تاریخ رکھ دی گئی اور فراز خود کو اس بھنور سے نہ نکال سکا تو اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ عزت کا جنازہ نکلے وہ خود کیوں نہ منوں مٹی تلے جا سوئے ۔ بھلا ایسی زندگی جینے کا فائدہ بھی کیا ہے۔ تبھی اس نے خود کشی کا فیصلہ کر لیا اور ایک حکیم سے بھاری رقم دے کر زہر خرید لایا۔ وہ دوا جس کو اس نے زہر سمجھ کر پھانکا تھا دراصل وہ زہر نہیں تھی بلکہ اس کی زندگی کیلئے تریاق ثابت ہوئی۔ نہ جانے کیسی دو اتھی کہ اسے کھاتے ہی سر چکرایا اور حالت غیر ہو گئی ۔ وہ جہاں کھڑا تھا وہیں زمین پر لیٹ گیا کہ اب مرنا تو ہے اور موت کا سامان بھی خود ہی تو کیا تھا۔ اس کے بعد اسے الٹیاں شروع ہو گئیں ۔ جوں جوں دوا رگ وپے میں حلول کرتی گئی اس کے ہوش جاتے رہے۔ دوبارہ ہوش آیا تو اس نے پاس رکھا پانی کا جگ منہ سے لگا لیا۔ کچھ دیر بے سدھ پڑا رہنے کے بعد جسم میں پھر سے طاقت عود کر آئی۔ دو تین گھنٹے بعد وہ پھر سے اٹھ بیٹھا اور لبر حیات نے اس کے جسم کو طاقت و توانائی بخش دی۔ وہ جو موت سے گلے ملنے چلا تھا، کسی نے اسے پھر سے ہاتھ پکڑ کر چلانا شروع کر دیا۔ یقین نہ آرہا تھا وہ اب تک زندہ ہے۔ خدا جانے حکیم صاحب کے پاس یہ کیسی جادوئی دوا تھی جس نے اسے زندگی بخش دی تھی۔ قدرت بھی کیسے کیسے معجزے دکھاتی ہے کہ زہر امرت بن چکا تھا۔ ایک بار پھر اسے والدین کی خوشی کیلئے سہرا باندھتے ہی بن پڑی تھی۔ گاؤں کے ماحول میں اگر کوئی مرد اتنے عرصے تک اولاد سے محروم رہے تو اسے خود بہ خود دوسری شادی کا اذن مل جاتا ہے اور کوئی بھی اس پر خفگی کا اظہار نہیں کرتا۔ کون مرد بھلا بارہ سال تک صبر کرتا ہے اگر اسے اولاد کی خوشی نہ ملے۔ قصور وارا گر عورت نہ بھی ہو تب بھی قصور اس کے سر جاتا ہے۔ شبانہ نے بھی لب سی لئے کسی سے کوئی شکوہ نہ کیا۔ فراز سے بھی نہیں جس نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بھی بھی عشاء کے بعد اس سے دور نہیں رہے گا۔ آج دوری کی پہلی رات تھی کہ جب وہ اپنے جیون ساتھی کے بغیر اپنے کمرے میں تنہا تھی۔ اسے کتنا غم تھا یہ کوئی نہ جانتا تھا۔ اس نے عشاء تک شوہر کے لوٹ آنے کا انتظار کیا اور نماز ادا کرنے کے بعد اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔ کیونکہ ان دونوں میں یہ طے تھا کہ اگر کسی رات عشاء کے بعد فراز نہ آیا تو پھر وہ کبھی اس کیلئے اپنے کمرے کا دروازہ نہ کھولے گی ۔ آج وہ دن آچکا تھا۔ صبح جب وہ اپنی نئی دلہن کے کمرے سے نکلا تو شبانہ کا خیال کر کے بہت پریشان ہوا۔ یہ سوچ اس کیلئے بہت تکلیف دہ تھی کہ اس کے بغیر اس نے گزشتہ رات کسی طرح گزاری ہو گی ۔ خود کو ملامت کرنے لگا اور جب ملامت کا بوجھ نہ سہہ پایا تو اس گھر کی طرف چلا گیا جہاں اس نے شبانہ کے ہمراہ زندگی کے بارہ سال گزارے تھے۔ بیرونی دروازہ کھلا پڑا تھا، وہ بے دھڑک گھر کے اندر پہنچ گیا اور سیدھا اپنے بیڈ روم کی طرف گیا۔ دروازہ ابھی تک اندر سے بند تھا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ مسلسل دستک دیتا رہا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا لیکن سوائے خاموشی کے کوئی دوسرا جواب موصول نہیں ہوا۔ ناچار اس نے کھڑکی کو توڑ ڈالا اور اندر داخل ہو گیا۔ سامنے شبانہ بستر پر سورہی تھی مگر یہ معمول کا سونا نہ تھا۔ وہ گہری ابدی نیند سورہی تھی۔ وہ سوتن کا دکھ برداشت نہ کر سکی اور موت کو گلے لگا لیا۔ اتنے برس صبر کے ساتھ پاکیزگی کی امین رہنے والی اس کی جدائی نہ سہہ سکی ۔ جب پھولوں سے دامن بھرنے کا وقت آیا تو دامن جھٹک کر چلی گئی اور قسمت والی نے اپنا دامن پھولوں سے بھر لیا۔ شبانہ کی موت کا دکھ ہر ایک کو تھا لیکن فراز کے والدین کو قدرت نے عمر کے آخری حصے میں وہ خوشی عطا کر دی کہ جس کے وہ برسوں سے منتظر تھے۔ فراز کو دوسری شادی راس آگئی اور وہ تین بچوں کا باپ بن گیا۔ اس نے جو دوا زہر سمجھ کر کھائی تھی وہ اس کیلئے تریاق بن گئی ۔ بچوں کی محبت کے سہارے اس نے باقی زندگی گزار دی لیکن شبانہ کو کبھی نہ بھلا سکا۔ جب بھی اس کا ذکر آتا ، اس کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔