Wednesday, October 16, 2024

Zehni Mareez

ساتویں جماعت میں ہماری ایک ٹیچر بہت خوبصورت تھیں لیکن کچھ دن ان کی شادی چلی اور پھر طلاق ہوگئی۔ وہ دوبارہ اسکول آنے لگیں۔ ایک روز، دوسری ٹیچر نے ان سے طلاق کی وجہ پوچھی تو وہ بولیں کہ میرا شوہر مینٹلی ڈس آرڈر تھا، اس لئے میں نے طلاق لے لی۔ اس وقت مجھے اس جملے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا لیکن اب آگیا ہے۔ وہ کیسے؟ آپ کو بتاتی ہوں ۔ جن دنوں میں آٹھ سال کی تھی، ہمارے گھر کا ماحول عجیب بحران کا شکار تھا۔ ابا زیادہ وقت گھر سے باہر رہا کرتے اور اماں دن بھر سلائی کرتی تھیں۔ والد جب گھر آتے، امی سے پیسے مانگتے۔ ان کے جو پلے ہوتا چپ چاپ دے دیتیں ، پھر بھی وہ اُن سے حسن سلوک نہ رکھتے۔ والدہ چپ چاپ ان کی زیادتیاں سہتی تھیں۔ شاید، اولاد کے جوان ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔ ہمارا باپ جب گھر میں قدم رکھتا، ہم یوں سہم جاتے جیسے چوہے بلی کو دیکھ کر سہم جاتے ہیں، کیونکہ ماں کے ساتھ ہم بھی کبھی کبھی باپ سے تشد د کا نشانہ بن جاتے تھے۔ ہمارے گھر کے بالکل سامنے نانی کا مکان تھا، جس میں نانی، ماموں ممانی اور ایک خالہ رہتی تھیں۔

بچوں کے دل میں کب یہ ارمان نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ماں کو اچھے کپڑوں میں دیکھیں ۔ ایک دن ہم سب بہن بھائیوں نے ماں سے فرمائش کی کہ وہ اچھا سا سوٹ پہنیں۔ انہوں نے ہماری فرمائش پر نجانے کب سے رکھا ہوا ریشمی ساٹن کا غرارہ سوٹ نکالا اور پہن لیا۔ ہم سب خوش ہو گئے اور اپنی ماں کو اشتیاق سے دیکھنے لگے۔ آپ اسے اتفاق کہہ لیں یا اماں کی بد قسمتی کہ اس وقت ابا تشریف لے آئے۔ آتے ہی پوچھا۔ یہ ریشمی جوڑا پہن کر تم کس کے گھر گئی تھیں؟ میری ماں نے لاکھ کہا کہ وہ کہیں بھی نہیں گئیں تھیں، بچوں کے کہنے پر پہنا ہے، پر ابا نے اس بات پر یقین نہ کیا اور بولے۔ تم جھوٹ بول رہی ہو اور مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو۔ انہوں نے اماں کو گھسیٹا اور مارنے لگے۔ ہم سب بچے سہم کر دیوار سے چپکے اپنی ماں کو مار کھاتے دیکھتے رہے اور روتے رہے، مگر ابا کے سامنے چوں تک نہ کر سکے۔ وہ یہی کہتے جا رہے تھے کہ تم ابھی کہیں سے ہو کر آرہی ہو۔ اتفاق سے میں آگیا، ورنہ مجھے کہاں خبر ہوتی ہے کہ تم میرے پیچھے کیا کرتی پھرتی ہو۔ ماں رو دھو کر چپ ہو گئیں۔ بھلا کسے کچھ کہنے کی مجال تھی؟ والد تو بھوکے شیر کی طرح گھر میں ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ اس دن کے بعد میری مسکین اور محنت کش ماں نے کبھی اچھے کپڑے نہ پہنے، نہ ہی ہم نے پھر فرمائش کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار امی گھر میں اکیلی تھیں اور ابا بھی بیٹھے تھے کہ ایک عورت ماں سے کپڑے سلوانے آئی ۔ اس کو دیکھتے ہی وہ آگ بگولہ ہو گئے اور کچھ کہے بغیر ایک گھونسہ امی کے منہ پر جڑ دیا۔ ماں کے منہ سے خون نکل آیا۔ ابا گرج رہے تھے کہ خبردار آئندہ یہ عورت یہاں نہ آئے ، حالانکہ یہ عورت پہلی بار ہمارے گھر آئی تھی۔ ابا نے عورت کے بارے میں کچھ نہ بتایا کہ کیوں اس کے بارے ایسا کہا ہے۔ ان کے جانے کے بعد میری ماں بیچاری اس دن اتنا روئیں کہ شاید ہی کبھی اتنا روئی ہوں گی۔ میں نے پوچھا بھی کہ ابا نے کیوں اس عورت کے لئے ایسا کیا ہے؟ کیا وہ اسے جانتے تھے یا وہ اچھی عورت نہیں ہے؟ وہ کچھ نہ بولیں، بس اتنا کہا۔ اگر مجھے تم لوگوں کا خیال نہ ہوتا تو کبھی کی گئی ہوتی۔

اس وقت میں نادان تھی ، اب سمجھ گئی ہوں کہ ابا کو دراصل شک یا وہم کی بیماری تھی یا وہ ذہنی مریض تھے اور ان کو علاج کی ضرورت تھی ، یعنی ابا مینٹلی ڈس آرڈر تھے۔ امی کو ابا نے بہت رسوا کیا تھا کہ یہ عورت میری وفادار نہیں ہے، حالانکہ میری شریف ماں نے کبھی اکیلے گھر سے قدم باہر نہ نکالا تھا۔ وہ سب جاننے والوں میں کہتے پھرتے تھے کہ یہ عورت دراصل میری نہیں ہے، کوئی ان کی باتوں پر کان نہیں دھرتا تھا کیونکہ سبھی اماں کو جانتے تھے کہ وہ ایک پاک دامن اور نیک خاتون ہیں، جو دن بھر مشین چلا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں اور شوہر نجانے کہاں غائب رہتا ہے۔ خدا جانے والد کی مضطرب طبیعت کیسی تھی کہ نہ خود چین سے رہتے تھے اور نہ کسی کو چین سے رہنے دیتے تھے۔ میری پھوپھی ، چچی چچا سب امی کے طرف دار تھے۔ وہ ابا کو ہی غلط کہتے تھے۔ ہر ایک ان کی عادتیں جانتا تھا۔ میری پھوپھی صرف دو سال کی تھیں ، جب ہماری دادی فوت ہو گئی تھیں تبھی ان کو امی کی گود میں ڈال دیا گیا تھا۔ انہوں نے ان کو اولاد کی طرح پالا پوسا اور جب ان کی شادی ہو گئی تو ہمارے باپ نے ان کا بھی گھر میں آنا جانا بند کر دیا۔ ہم ان کے لئے تڑپتے تھے اور وہ بھی ۔ امی پھوپھی کو یاد کر کے روتیں مگر شوہر کے ڈر کی وجہ سے ملنے نہ جاتیں کبھی کسی قریبی رشتہ دار کی شادی پر البتہ ان سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ میری بڑی بہن کی شادی ہوئی مگر وہ سسرال والوں سے سمجھوتہ نہ کر سکیں تو ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ انہیں سسرال والے ہمارے گھر چھوڑ گئے ۔ جب ان کو دورہ پڑتا وہ اول فول بکتیں ۔ ایک روز ابا بیٹھے بیٹھے بولے۔ یہ پاگل نہیں ہے، بنتی ہے۔ میں اس کو ابھی ٹھیک کرتا ہوں۔ وہ لکڑی لے کر باجی کو مارنے لگے۔ امی سے نہ دیکھا گیا، تو رونے لگیں ۔ ہم سب بھی رونے لگے۔ ابا نے باجی کو مار مار کر بے دم کر دیا اور بولے ۔ اب یہ اسی طرح ٹھیک ہوگی ۔ چند دن بعد پھر انہوں نے بیٹی کو بید سے مارا کہ اچانک دولہا بھائی آگئے ۔ انہوں نے جو دیکھا کہ علاج اس طرح ہو رہا ہے تو وہ باجی کو ساتھ لے گئے ۔ امی نے خدا کا شکر ادا کیا کہ یہاں سے تو وہاں اچھی رہے گی اور واقعی، دولہا بھائی نے جب ان کا علاج کروایا اور سسرال والوں نے بھی پیار دیا تو وہ ٹھیک ہوگئیں۔

اور وہ رات تو مجھے خون کے آنسو رلاتی ہے، جب امی بخار سے تڑپ رہی تھیں اور ابا ان کے سامنے بیٹھے ، بے فکری سے سگریٹ پی رہے تھے۔ میری ماں رات بھر بخار میں پھنکتے ہوئے صبح ہر غم سے نجات پاگئیں۔ ان کو پوری زندگی سکون نہ ملا مگر قبر میں جا کر تو سکون ملا ہوگا۔ وہاں تو کوئی انہیں ستانے والا نہ تھا، مگر انہیں کیا خبر کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنی پیاری نند کے حوالے کر کے گئیں، ان کے شوہر نے انہیں اس خاتون کی ممتا سے بھی محروم کر دیا ہے۔ پھوپھی اب بھی ہمارے گھر نہیں آسکتی تھیں ۔ خدا جانے ابا کو کیا ہو گیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی چھ بیٹیاں ہیں۔ بیٹا ایک ہی ہے لیکن اسے بھی ماں کے پیار کی ضرورت ہے۔ پھوپھی میرے بھائی کو بہت چاہتی تھیں، بھائی بھی ان کو چاہتا تھا لیکن والد اس کو بھی برداشت نہ کرتے کہ گھر میں ماں کے نہ ہونے سے بیٹیوں کو کیسی مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے وقت تو اپنے بھی آنکھیں بدل لیتے ہیں۔ ابا گھر پر ہوتے تو سارا گھر بے چینی کا شکار رہتا، وہ سب کو مشکل میں ڈالے رکھتے۔ انہوں نے ایک روز بھائی کو بھی گھر سے نکال دیا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ بغیر اجازت پھوپھی سے ملنے چلا گیا تھا۔ بھائی کے جانے سے ہم اور بھی غیرمحفوظ ہوگئیں، کیونکہ باپ کے بعد بھائی ہی بہنوں کی عزت کے محافظ ہوتے ہیں مگر یہ نجانے کیسا غیرت مند باپ تھا، بیٹیاں تنہا رہیں تو پروا نہیں مگر کوئی رشتہ دار ہم سے ملنے نہیں آسکتا۔ خالہ اگر خالو کے ساتھ آجاتیں تو خالو گیٹ سے اندر نہیں آسکتے تھے۔ خود ہفتوں بعد بھی نہ آتے تو پروا نہیں۔ خرچہ پورا نہ دیتے ، پھوپھی چوری چھپے کچھ بھجوا دیتیں یا ماموں ممانی دے جاتے ۔ عجیب کسمپرسی کی زندگی تھی۔ ابا نے دوسری شادی کر لی۔ وہ عورت اچھی تھی۔ ہمارا احساس کرتی، مگر اس کا بھائی اس کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ لڑکا ٹھیک نہ تھا۔ ابا کا خیال تھا نوکری والا ہے، اپنی کسی لڑکی کا بیاہ اس سے کر دیں گئے وہ مگر مجھ پر بری نظر رکھنے لگا۔ سوتیلی ماں ہمارا خیال کرتی تھی سو اس سے بھی اس کے بھائی کی شکایت نہ کر سکتی تھی کہ اس کا دل میلا نہ ہو جائے۔ یہ بات میں کسی کو نہ بتا سکتی تھی اور خوف کے مارے سو بھی نہ سکتی تھی۔

عادت کے موجب، ایک روز ذراسی بات پر ابا نے دوسری بیوی کو بھی دھنک کر رکھ دیا۔ پھر کیا تھا۔ اس نے تو اسی وقت سامان اٹھایا اور اپنے بھائی کو لے کر چلی گئی۔ ابا سے بولی ۔ میرا بھائی کماؤ ہے، مجھ کو پال لے گا مگر تیری بچیاں بن ماں کے ہیں۔ ان کا خیال کون رکھے گا ؟ جب وہ چلی گئی تو ابا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ناچار نانی کو منت سماجت کر کے لے آئے اور اس کے بعد ایسے گئے کہ پھر نہ لوٹے۔ خدا جانے کوئی حادثہ ہو گیا یا کیا ہوا ؟ ماموں نے تھانے اور جیل سے بھی پتا کروایا مگر وہ نہ ملے ۔ ہم نے دعا کی کہ جہاں رہیں، عافیت سے رہیں مگر ہمیں ستانے کے لئے نہ ہی آئیں تو اچھا ہے۔ بیچارے ماموں نے ہمارا بکھیڑا یوں سمیٹا کہ ہم سب کو گھر لے آئے اور اپنی بیٹی سے میرے بھائی کی شادی کر دی۔ وہ ابا کے گھر رہنے لگے اور ہم بہنیں ماموں کے گھر ، یوں ماموں نے رفتہ رفتہ سب بہنوں کی شادی کی۔ ایک چھوٹی رہ گئی تھی، وہ پھوپھو کے پاس چلی گئی ۔ اس طرح ہمارے گھر تو بس گئے مگر ہمارے ابا کے گھر کا گھروا ہو گیا۔ اب سوچتی ہوں کہ کہیں میرے والد مینٹلی ڈس آرڈر کا شکار تو نہ تھے؟ کیا خبر، مردوں کو یہ مرض کن حالات میں لاحق ہوتا ہے؟ اور ان کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے۔ کیا خبر ابا کسی پاگل خانے میں ہوں ۔ ایسا سوچتی ہوں تو بھی دکھ ہوتا ہے۔ خدا جانے ہمارے معاشرے کے یہ دکھ کب دور ہوں گے اور ان کو کون دور کرے گا؟

Latest Posts

Related POSTS