Saturday, December 14, 2024

Zewar Ki Qeemat

جب ہوش سنبھالا تو احساس ہوا کہ مجھ پر گھر کی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ تب میں نے بہت محنت کی۔ بی اے، بی ایڈ کیا اور پھر ایک ہائی اسکول میں ملازمت مل گئی۔ میرے بہن بھائی سبھی مجھ سے چھوٹے تھے، ان کو پڑھایا لکھایا۔ گھر کے حالات سنبھل گئے، مگر میرے خوابوں کے دن نوکری کی نذر ہوتے گئے۔ جب میرے بھائی گھر کو سہارا دینے کے قابل ہوئے، تو میری عمر ستائیس برس ہو چکی تھی۔ اب ماں کو میرے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر ہو گئی۔ منہ بولی خالہ میرے لیے اپنے بیٹے کا رشتہ لائیں۔ ماں نے سوچا، لڑکا ابھی پڑھ کر فارغ ہوا ہے، نوکری بھی مل ہی جائے گی۔ سلیمان نوجوان اور خوبصورت تھا اور میں برسرِ روزگار تھی۔ لڑکے والوں کا گھر ذاتی تھا اور گھر کا خرچہ بڑا بیٹا اٹھا رہا تھا، جو اچھی پوسٹ پر تھا۔ لہٰذا اماں نے میرا رشتہ سلیمان سے طے کر دیا اور پھر جھٹ پٹ شادی بھی ہو گئی۔ مجھے سلیمان اچھے لگے اور میں بھی ان کو پسند آگئی۔ ہماری جوڑی خوب بن گئی۔ چند دن تو ہنسی خوشی بیت گئے مگر جلد ہی مجھے محسوس ہوا کہ جیٹھانی خود کو مجھ سے برتر خیال کرتی ہیں اور رعب بھی جماتی ہیں، کیونکہ ان کا شوہر کمائو ہے۔ میں نے سلیمان سے کہا کہ وہ اونچی نوکری کے انتظار میں نہ رہیں، کوئی چھوٹی موٹی نوکری بھی ملتی ہے تو کر لیجیے۔ تب تک میں اپنی تنخواہ سے خرچ اٹھاؤں گی، مگر اب ہمیں آپ کے بھائی کی تنخواہ پر انحصار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ آپ کی بھاوج کو میرا وجود بوجھ لگتا ہے۔ سلیمان میری بات سن کر پریشان ہو گئے۔ وہ چھوٹی موٹی نوکری نہیں کرنا چاہتے تھے۔

ہماری شادی کو تین ماہ ہوئے تھے کہ ایک دن جیٹھانی نے کہا کہ جو زیور ساس نے تم کو بری میں دیا تھا، وہ میرا ہے۔ انہوں نے چند دن کے لیے مانگا تھا، برائے مہربانی مجھے واپس کر دو۔ میں نے ساس سے پوچھا تو وہ خاموش ہو گئیں اور میں نے جیٹھانی کو زیور واپس کر دیا۔ جب شام کو سلیمان گھر آئے تو میں نے بتایا کہ تمہاری بھاوج صاحبہ نے مجھ سے زیور واپس لے لیا ہے۔ اگر آپ کے پاس زیور چڑھانے کی توفیق نہ تھی تو نہ چڑھاتے، مانگے کا تو نہ پہناتے۔ وہ بولے، زیور تو میری ماں کا تھا، بھاوج کا نہیں۔ وہ اپنا حصہ لے چکی ہیں۔ شاید اس وجہ سے میری ماں خاموش ہو گئی تھیں کہ وہ گھر میں جھگڑا نہیں چاہتی تھیں کیونکہ گھر بھائی کی کمائی پر چل رہا ہے اور میں بے روزگار ہوں۔ خیر، تم افسردہ نہ ہو، میں تمہیں زیور پہناؤں گا اور اس سے بھی اچھا اور بھاری زیور ہو گا۔ خدا جانے کیسے میرے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے کہ میری اچھی تنخواہ ہے، خود لے کر پہن سکتی ہوں۔ آپ جھوٹے دلاسے نہ دیجیے، بس آپ نوکری ڈھونڈ لیجیے، یہی میرے لیے بہت ہو گا۔ میں نے تو ویسے ہی کہہ دیا تھا، مجھے علم نہیں تھا کہ سلیمان میری اس بات کا اتنا گہرا اثر لیں گے۔ وہ کافی عرصے خاموش اور بجھے بجھے رہے اور اتنے مایوس ہو گئے کہ ایک دن ایسی حرکت کر ڈالی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے شوہر کا حلقہ احباب کیسا تھا۔ وہ کب اور کیسے اس گینگ میں جا پھنسے تھے۔ ایک دن شام کو جب میں اسکول سے پڑھا کر لوٹی، تو سلیمان گھر میں موجود نہیں تھے۔ رات ہو گئی، مگر وہ نہ لوٹے تو مجھے فکر ستانے لگی۔ رات بھر نیند نہیں آئی۔ اگلی صبح چار بجے وہ گھر آئے، ان کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا جس میں کچھ زیورات اور نقد رقم تھی۔ کہنے لگے، یہ زیورات تمہارے ہیں اور رقم بھی سنبھالو۔ اس سے کوئی کاروبار کرنا ہے تاکہ تمہیں بھابی کے رعب میں نہ رہنا پڑے۔ ہم الگ گھر لے کر رہ لیں گے، لیکن کچھ دن کے لیے اس بیگ کو کہیں چھپا دو۔ اس وقت وہ بہت تھکے ہوئے دکھائی دے رہے تھے، جیسے مسلسل جاگتے رہے ہوں۔ میں نے کوئی سوال کرنا مناسب خیال نہ کیا۔ ان کا ہاتھ بھی زخمی تھا۔ میں نے پوچھا، یہ آپ کو کیا ہوا ہے؟ تو وہ بولے، صبح بتاؤں گا، ابھی مجھے سونے دو۔ انہوں نے نیند کی گولی کھائی اور سونے کے لیے لیٹ گئے۔ میری پریشانی تو کم ہوئی کہ صحیح سلامت گھر لوٹ آئے تھے۔ سوچا، ابھی آرام کرنے دوں، بعد میں پوچھ ہی لوں گی۔ خود بھی رات بھر جاگتی ہوئی تھی۔ نماز پڑھ کر اسکول کی تیاری کرنے کی بجائے چھٹی کر لی اور سو گئی۔ بہرحال، بیگ کو میں نے بستروں والی بڑی پیٹی کے پیچھے ڈال دیا کیونکہ فی الحال اسے چھپانے کی اور جگہ ذہن میں نہیں آ رہی تھی، مگر دل میں پریشانی تھی کہ یہ کہاں سے لائے ہیں۔ دوپہر کو میری آنکھ کھلی۔ وہ ابھی سو رہے تھے، میں نے گھر کے کچھ کام سمیٹے، تبھی شام ہو گئی۔ شام کو ابھی سلیمان آفس سے آئے ہی تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ انہوں نے دروازہ کھولا۔ باہر پولیس والے کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا، سلیمان کو ہمارے حوالے کر دیجیے، ہمیں وہ وُڈ کیتی کے کیس میں مطلوب ہے اور آپ کے گھر کی تلاشی بھی لینی ہے۔

ہم عزت دار لوگ ہیں، آپ ہمارے گھر کی تلاشی لیں گے تو بدنام ہو گی۔ اگر آپ کو میرا بھائی مطلوب ہے تو آئیے، بڑے شوق سے گرفتار کر لیجیے۔ وہ گھر میں موجود ہے۔ پولیس نے سلیمان کو گرفتار کر لیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ میں رونے لگی تو جیٹھ نے کہا، یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔ تمہارے لیے ہی اس نے ڈکیتی کی ہے اور چور ڈاکو بن گیا ہے۔ اس سے پہلے وہ ایسا نہیں تھا۔ تم نے اس کو زیورات کے لیے پریشان کیا ہے کیونکہ تم زیورات دینا نہیں چاہتی تھیں۔ اس نے مجبور ہو کر ڈاکہ ڈالا تاکہ تمہارے طعنوں سے بچ سکے۔ مجھے بتاؤ! کیا زیور ہی سب کچھ ہوتا ہے؟ تمہاری وجہ سے ہماری خاندانی عزت خاک میں مل گئی۔ اب میں تمہیں وہ سبق سکھاؤں گا کہ یاد کرو گی۔ اس کو کہتے ہیں چت بھی میری، یت بھی میری۔ بھلا میرا کیا قصور تھا؟ انہوں نے زیور بری میں چڑھا کر واپس مانگے، میں نے دے دیے۔ اب میں شوہر سے شکوہ نہ کرتی تو کس سے کرتی؟ بے شک پڑھی لکھی تھی مگر ہمارے یہاں عورت پڑھ لکھی ہو یا ان پڑھ، اسے زیور سے پیار ہوتا ہے، مگر میں نہیں چاہتی تھی کہ میرا شوہر ڈکیت بن جائے۔ جو کچھ سلیمان نے کیا، اپنی مرضی سے کیا، لیکن الزام سارا مجھ پر آ گیا۔ البتہ یہ میری غلطی تھی کہ میں نے شوہر کے کہنے پر بیگ چھپا دیا اور اس بارے جیٹھ کو نہیں بتایا۔ اس خوف سے کہ وہ یہ بیگ پولیس کے حوالے کر دیں گے تو پولیس کو فوراً ڈکیتی کا ثبوت مل جائے گا، پھر سلیمان بری طرح کیس میں پھنس جائیں گے۔ یہ نہیں پتا تھا کہ جب پولیس اپنے داؤ آزمائے گی تو وہ خود سب کچھ بتانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ زخمی ہاتھ نے بھی سارا راز اگل دیا کہ انہوں نے کھڑکی کا شیشہ مکا مار کر توڑا تھا، جب ڈکیتی کے لیے کمرے میں داخل ہونا تھا۔ پولیس دوبارہ گھر آئی، بیگ برآمد کرنے کے لیے، تب جیٹھ مجھ پر بہت بگڑے کہ تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ وہ بیگ تمہارے پاس ہے؟ اب اور زیادہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ میری نوکری زد پر آجائے۔ تم عجب پڑھی لکھی جاہل عورت ہو۔ اگر اسی وقت ہم نے بیگ پولیس کے حوالے کیا ہوتا تو ہم شریک جرم نہ ٹھہرتے۔ اب تم کو بھی یہ پکڑ کر لے جائیں گے کیونکہ چوری کا مال ہم سے برآمد ہوا ہے۔ بیگ تو پولیس کے حوالے ہوا، لیکن اس کے بعد تھوڑی بہت کارروائی دکھانے کو گھر کی تلاشی بھی لی گئی۔ جیٹھ صاحب پوزیشن والے آدمی تھے۔ پولیس کے ایک بڑے آفیسر کے ان کے اچھے مراسم تھے۔ انہوں نے ان کو فون کر کے سچ سچ تمام احوال بتا کر کہا کہ یہ عورتوں کے کرتوت ہیں اور مرد اس طرح پھنتے ہیں۔ انہوں نے جیٹھ کی شرافت کی لاج رکھی اور بات صرف سلیمان کی گرفتاری تک محدود رہی، گھر کے دیگر افراد کو شامل تفتیش نہ کیا، نہ ہی کسی کو پولیس نے پریشان کیا۔ سلیمان نے قبول کر لیا کہ اس نے اس ڈکیتی میں پہلی بار حصہ لیا ہے۔ اس طرح بچا تو گیا مگر ہمارے جیٹھ نے کہہ دیا کہ میرا اپنے ڈکیت بھائی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میں اس کی ضمانت یا کیس میں کوئی مدد کروں گا اور میرا تم سے بھی کوئی رشتہ واسطہ نہیں، تم اپنے میکے جا سکتی ہو۔

اس ڈکیتی کی خبر اخبار میں چھپی۔ اپنے شوہر کا نام ڈکیتی کی خبر میں پڑھا تو بہت شرمندہ ہوئی۔ اور ٹیچرز کو بھی سن گن ہو گئی کیونکہ وہ میری شادی اور ولیمے میں آ چکی تھیں۔ انہوں نے سلیمان کو دیکھا ہوا تھا اور اب ڈاکوں اور چوروں کے گینگ کے افراد کے ساتھ ان کی بھی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ بھلا اخبار والے کسی کو بخشتے ہیں، جب کہ بڑے بھائی نے لا تعلقی کا اعلان کر دیا ہو۔ میں چند ماہ کی دلہن تھی، اور وہ ٹیچرز جو شادی والے دن مجھ پر رشک کر رہی تھیں، اب طنزیہ مسکرا رہی تھیں۔ لکھ نہیں سکتی کہ اس کے بعد میں نے کتنی سختیاں جھیلیں، وکیلوں کے دفتروں کے چکر لگائے۔ جو تھوڑی بہت جمع پونجی تھی وہ بھی لٹا دی مگر سلیمان کی ضمانت نہ کروا سکی۔ ان کو جس گینگ نے اپنے ساتھ پھنسایا تھا، اس کے بااثر لوگوں سے تعلقات تھے۔ جو لوگ پکڑے گئے تھے، ان سب کی ضمانت ہو گئی۔ انہوں نے سارا الزام سلیمان پر ڈال دیا اور میں نہ تو اپنے شوہر کو جیل کی سلاخوں سے رہائی دلوا سکی۔ سات برس تک میں اس آس میں سلتی رہی کہ کبھی تو میرا شوہر جیل سے باہر آئے گا، مگر ایک دن انہوں نے مجھے جیل سے ہی طلاق بھجوائی کہ تم اپنی آزاد زندگی بسر کرو، مجھ پر تو ڈاکو اور متلب کا دھبہ لگ چکا ہے، حالانکہ میں نے کسی کا قتل نہیں کیا۔ تمہارے لیے زیور لانے کی خاطر چوری میں ضرور شریک ہوا تھا۔ مجھے خبر نہ تھی کہ جرائم کی دنیا اتنی بھیانک ہوتی ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی والا معاملہ بھی چلتا ہے۔ میں تو سلیمان کے لیے عمر بھر بھی انتظار کر سکتی تھی۔ میں نے تو ان سے آزادی نہیں مانگی تھی، خود انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔ مجھے اپنے محبوب شوہر سے واقعی محبت تھی، اس لیے دوبارہ شادی نہیں کی۔ والدین اور بھائی کہہ کر ہار گئے۔ سوچا، بس اب یہی زندگی بہتر ہے۔ جو ہوا سو ہوا، اللہ نے ملازمت دی ہوئی تھی، کسی کی محتاج تو نہیں تھی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ تعلیم بڑی نعمت ہے۔

Latest Posts

Related POSTS