کنیز میری کلاس فیلو تھی۔ ہم دونوں ہم نشست تھیں لہٰذا روز وہ مجھے اپنے گھریلو حالات بتاتی تھی۔ چھوٹی بہن کا نام سمیرا اور بھائی کا نام سلیمان تھا۔ اس کے والد زمیندار کے منشی تھے اور ماں سلائی کڑھائی کرتی تھی، کم آمدنی میں بھی ان کا گھر سکون کا گہوارہ تھا۔ ان کی دادی بڑے بیٹے کے گھر رہتی تھی۔ بہو سے جھگڑا ہوا تو چھوٹے بیٹے یعنی کنیز کے والد کے پاس آکر رہنے لگی۔ یہ بڑی تیز عورت تھی۔ بہوؤں سے جھگڑنا اس کا مشغلہ تھا۔ وہ ان کے ہر کام میں کیڑے نکالتی اور بیٹوں کو بیویوں کے خلاف کرکے گھر کے ماحول کو تلخ بنادیتی تھی۔ بڑی بہو نے تو جان چھڑالی مگر چھوٹی اس کے حسد کا نشانہ بن گئی۔ اگر بہو اس کی بدزبانی پر کوئی جواب دے دیتی تو یہ ایسی تہمتیں لگادیتی کہ سننے والے دنگ رہ جاتے۔ یہ ساس بہو کا روایتی جھگڑا نہ تھا بلکہ اس بڑھیا کی فطرت کچھ ایسی تھی کہ آرام و چین میں اسے رخنہ ڈال کر مزا آتا تھا۔
ایک دن کنیز آئی تو بہت پریشان تھی۔ کہنے لگی۔ دادی نے میری ماں کو ابا سے مار پڑوائی ہے اور وہ روٹھ کر میکے چلی گئی ہیں… سمیرا اورسلیمان کو اماں ساتھ لے گئی ہیں۔ دادی نے لیکن مجھے ماں کے ساتھ نانی کے گھر جانے نہیں دیا۔ میں نے کہا۔ رنج مت کرو… اگر تم ماں کے ساتھ چلی جاتیں تو اسکول کیسے آتیں۔ پڑھائی کا حرج ہوتا ۔ دعا کرو۔ اللہ نے چاہا تو تمہاری ماں جلد واپس آجائیں گی۔
اس کی ماں کو گئے کافی دن بیت گئے۔ اب کنیز اپنی والدہ کے لئے بہت اُداس تھی۔ میں اسے تسلیاں دیتی تھی۔ ہمارے گھر قریب تھے لہٰذا اس کے پاس شام کو چلی جاتی تاکہ وہ اداس نہ ہو۔ میرا آنا اس کی دادی کو ناگوار گزرتا اور وہ مجھے گھور گھور کر مشکوک نگاہوں سے دیکھتی۔ کبھی کہتی اسکول میں تو مل لیتی ہو۔ گھر آکر وقت ضائع کرنے کیا کیا ضرورت ہے۔ اسے گھر کا کام کرنا ہوتا ہے اور تم آکر بیٹھ جاتی ہو تو کام پڑا رہ جاتا ہے۔ اس بزرگ خاتون کی بدمزاجی کی وجہ سے میں نے اس کے گھر جانا ترک کردیا حالانکہ جب خالہ راشدہ ہوتی تھیں اور میں ان کے گھر جاتی تھی تو وہ مجھ سے پیار سے بات کرتیں، جو گھر میں پکا ہوتا کھلائے بغیر نہ بھیجتی تھیں۔
بیوی کے میکے چلے جانے کے بعد کنیز کا باپ بہت پریشان رہنے لگا تھا لیکن وہ اپنی ماں کی ہر بات مانتا تھا لہٰذا چاہتے ہوئے بھی بیوی کو منا کر نہ لاسکا کہ اس کی والدہ نے اجازت نہ دی۔حالانکہ وہ اپنے دونوں بچوں سمیرا اور سلیمان کے لیے غمزدہ تھا۔ اس واقعہ کو چھ ماہ گزر گئے۔ وہ کڑھتے کڑھتے نیم جان ہوگیا، اس نے کام چھوڑ دیا اور نشہ بھرے سگریٹ پینے شروع کردیئے۔ یوں اسے نشے کی لت لگی۔ اب اس نے گھر آنا بھی چھوڑ دیا۔ خرچہ دینا تو دور کی بات، ماں سے کلام بھی نہ کرتا تھا۔ بیٹے کا یہ حال دیکھ کر ماں نے سوچا کہ اب بہو کو واپس لانا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ بیٹا ہاتھ سے نکل جائے، تب وہ ایک دن خالہ راشدہ کے والدین کے گھر گئی۔ ان کی منت سماجت کرکے بہو کو منا کر گھر لے آئی۔
کہتے ہیں انسان بدل جاتا ہے مگر اس کی فطرت نہیں بدلتی۔ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ دوماہ بمشکل گزرے تھے کہ بڑی بی کے دل میں پھر وسوسوں کے طوفان اٹھنے لگے۔ بہو پر شک کرنے لگی۔ لڑائی جھگڑے بنِا آرام سے بیٹھ نہ سکتی تھی۔ بیٹا بھی بیروزگار ہوچکا تھا۔ اب گھر کا خرچہ کیوں کر چلتا۔بہو سے کہا کہ اپنے زیور مجھے دو تاکہ انہیں بیچ کر میں وہاب کو دکان کرادوں۔ روزی روٹی کا کچھ آسرا تو ہو ورنہ بچے بھوکے مرجائیں گے۔
خالہ راشدہ ساس کی چالاکی بھانپ گئیں اور اپنے زیورات ساس کے حوالے کرنے سے انکار کردیا جس پر بڑھیا بدکلامی پر اتر آئی کہ تم گھر اور بچوں کی خیرخواہ نہیں ہو۔ تمہیں اپنے زیور بچوں سے زیادہ پیارے ہیں۔ اس بات کی سن گن راشدہ کے والدین کو ہوگئی۔ جھگڑا بڑھا تو کسی پڑوسی نے جاکر میکے والوں کو بتا دیا کہ زیورات لینے کی خاطر تمہارے داماد نے بیوی کو مارا پیٹا ہے، اس کی خبر لو۔ یہ زیورات راشدہ خالہ کو میکے سے ملے تھے لہٰذا ان کے والدین بیٹی کے گھر پہنچے۔ کنیز کی امی کو واقعی ساس نے بیٹے سے مار پڑوائی تھی۔ وہ لہولہان پڑی تھی۔ والدین بیٹی اور زیورات ساتھ لے گئے۔
تبھی جھگڑا اور بڑھا۔ حالات بے قابو ہوگئے۔ داماد نے سسر سے گستاخانہ رویہ اختیار کرلیا۔ راشدہ کے بھائی نے بہنوئی سے کہا کہ زیورات کا مطالبہ چھوڑو، میں آپ کی نوکری لگوا دیتا ہوں لیکن اس شخص نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ میں تمہارا احسان لینا نہیں چاہتا۔ دراصل انکل وہاب نشے کے عادی ہوگئے تھے اور اب نوکری پابندی سے کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔ انہی جھگڑوں کے کارن بے چاری کنیز بھی تعلیم سے محروم ہوگئی۔ گھریلو کام کاج کی خاطر دادی نے اسے اسکول سے نکلوالیا۔ یوں میرا اس کا ملنا جلنا جاتا رہا۔کچھ دنوں بعد سنا کنیز کی شادی ہورہی ہے۔ دادی نے کہیں غیروں میں رشتہ طے کردیا تھا۔ خوشحال گھرانہ تھا مگر دولہا کنیز سے عمر میں کافی بڑا تھا مگر شادی کے بعد وہ کچھ پُرسکون ہوگئی۔
اب مجھ سے کبھی کبھار آکر مل جاتی تھی۔ اس کا شوہر اسے ہم سے ملنے سے نہیں روکتا تھا۔ وہ بتاتی تھی میرا جیون ساتھی محبت کرنے والا اور اچھا انسان ہے اور ہمارے گھر کا ماحول بھی بہت پُرسکون ہے لہٰذا میں وہاں خوش ہوں۔
ایک سال بعد کنیز کی دادی کا انتقال ہوگیا۔ گھر میں سمیرا اور سلیمان اکیلے رہ گئے۔ خالہ راشدہ کے شوہر اسے منانے گئے مگر کنیز کے نانا نانی نے بیٹی کو داماد کے ساتھ جانے نہ دیا جبکہ بچوں کی خاطر خالہ واپس گھر جانا چاہتی تھی۔ باپ اور بھائیوں سے مجبور تھی، نہ جاسکی۔ ادھر بچے دادی کے بغیر آوارہ ہوگئے، خاص طور پر سمیرا پر بہت بُرا اثر پڑا تھا۔ وہ محلے کے گھروں میں جا بیٹھتی۔ کبھی کسی کے گھر اور کبھی کسی کے یہاں سے روز کھانا کھالیتی۔
سمیرا اب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی۔ ہمسایہ خواتین بھی اسے اپنے باپ کے گھر رہنے کی تلقین کرتیں تاکہ یہ اپنے گھر میں رہے اور گھر گھر پھرنے کی عادت ترک کردے مگر اکیلے میں اس لڑکی کو چین نہ آتا۔ اسی آوارہ گردی میں وہ ایک دن دوسرے محلے جانکلی جہاں اس کی ملاقات ایک عورت سے ہوگئی جو اسے بہلا پھسلا کر اپنے گھر لے گئی۔ یہ عورت صحیح کردار کی نہ تھی۔ اس نے جب لڑکی کے حالات جان لیے تو اسے پیار دے کر اپنی مٹھی میں کرلیا۔ اور اب سمیرا اس کے اشاروں پر چلنے لگی۔ تاہم ابھی تک معصوم تھی اور برائی سے عملی طور پر واسطہ نہیں پڑا تھا اور نہ برائی کے انجام سے واقف تھی لیکن بدبخت سوہا اسے اپنا شکار بنانے کا منصوبہ بناچکی تھی۔ بالآخر وہ اپنے مذموم ارادے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے گھر ایک فرید نامی نوجوان آیا کرتا تھا۔ وہ فرید کے جال میں آگئی۔ اس کی گرویدہ ہوگئی… رفتہ رفتہ اسے فرید پر اعتماد بڑھتا گیا اور اس کے ساتھ باہر جانے لگی۔
کچے ذہن کی اس لڑکی کو کچھ پتا نہ تھا کہ دنیا کیسی ہے۔ فرید سے محبت کا دم بھرنے لگی۔ اب جس روز اس سے نہ ملتی، بے قرار رہتی اور کسی پل چین نہ آتا۔ باپ نے دیکھا کہ لڑکی گھر میں ٹکتی نہیں۔ وہ چند محلے داروں کو ساتھ لے کر سسر کے پاس گیا۔ ساس، سسر، بیوی سب سے معافی مانگی اور کہا کہ سمیرا بڑی ہوگئی ہے، میرے قابو میں نہیں آرہی۔ مجھے روزی تلاش کرنے گھر سے باہر جانا ہوتا ہے۔ اللہ کے واسطے مجھے معاف کردیں، بے شک زیورات اپنے پاس رکھ لیں مگر بچوں کی خاطر راشدہ کو گھر آنے کی اجازت دے دیں۔ میرا وعدہ ہے کہ اب کبھی میں اس کے ساتھ بدسلوکی نہیں کروں گا۔سسر نے داماد کو معاف کردیا اور بیٹی کو اس کے ہمراہ بھیج دیا لیکن سمیرا بگڑ چکی تھی۔ اب وہ ماں کے ہاتھ بھی نہ آتی۔ تب میاں، بیوی نے فیصلہ کیا کہ جلد ازجلد اس کی شادی کر دیں۔
سمیرا نے فرید کو آگاہ کردیا کہ والدین اس کی شادی کررہے ہیں۔ اس نے ماں کو راضی کیا کہ سمیرا کا رشتہ لینے اس کے والدین کے پاس جاؤ۔ ماں نے پہلے پڑوسیوں سے اس گھرانے کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو ایک دو بدخواہ عورتوں نے کہہ دیا کہ اس گھر سے رشتہ نہ جوڑنا ورنہ بے سکون ہو جاؤ گے۔ یہ لوگ صحیح نہیں ہیں۔ فرید کی والدہ نے سمیرا کا رشتہ لینے سے انکار کردیا تو فرید نے یہ حل نکالا کہ سمیرا کو لے کر ایک روز غائب ہوگیا اور انہوں نے کورٹ میرج کرلی۔محلے میں بدنامی ہوگئی۔ سب سے زیادہ سلیمان نے اثر لیا کہ اس کی عمر کے لڑکے بات بات پر طعنہ دیتے تیری بہن گھر سے بھاگ گئی ہے۔
ایک سال بعد ایک دن دروازے پر دستک ہوئی۔ ماں باپ گھر پر نہ تھے۔ سلیمان اکیلا تھا۔ اس نے پوچھا کون ہے۔ سمیرا نے کہا۔ بھائی سلیمان میں ہوں سمیرا۔ مشکل میں ہوں، در کھولو۔ تم واپس چلی جاؤ… ہمارے لیے مرچکی ہو، دوبارہ مت آنا ورنہ جان سے مار دوں گا۔
سیلمان جو اب سترہ برس کا تھا۔ اس نے نفرت سے دربند کردیا اور سمیرا کو گھر میں داخل نہ ہونے دیا۔ معاملہ یہ تھا کہ سمیرا بے حد دکھی تھی۔ فرید خود کچھ نہیں کرتا تھا بلکہ وہ بھٹکی ہوئی لڑکیوں کو عیاش لوگوں کے سپرد کرکے پیسہ کماتا تھا۔ وہ اس برے ماحول میں ناخوش تھی اور غلط انداز میں زندگی گزارنا اسے گوارا نہ تھا۔ اسی وجہ سے وہ لوٹ کر گھر آئی تھی کہ ماں باپ اس کی غلطی کو معاف کردیں گے تو وہ اس جہنمی زندگی سے نجات پالے گی۔
سلیمان نے در نہ کھولا تو وہ تھانے چلی گئی اور وہاں بیان دیا۔ تب انہوں نے اسے دارالامان بھجوا دیا۔ اس نے خواہش کی کہ اس کی خلع کرائی جائے تاکہ وہ فرید سے آزاد ہوکر شریفانہ زندگی بسر کرسکے۔ ادھر فرید کو پولیس نے گرفتار کرکے حوالات میں ڈال دیا۔ سوہا کے مگر کچھ لوگوں سے مراسم تھے جو بااثر تھے، انہوں نے فرید کو رہائی دلوادی۔ جس روز سمیرا کو مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہونا تھا اور فرید کو بھی پیش ہونا تھا۔ خلع کا کیس تھا۔ سمیرا نے دلیری سے بیان دیا اور ہر بات جج کے سامنے دہرا دی۔ بیان دے کر جونہی وہ باہر نکلی، دارالامان جاتے ہوئے رستے میں فرید نے اسے فائر کرکے ہلاک کردیا۔ یوں ایک بے سکون گھر کی پروردہ بچی اپنی معصومیت کھو کر بدچلن کہلائی اور آخرکار موت کی وادی میں اتر گئی۔
میں آج بھی سوچتی ہوں اگر غور کیا جائے تو سمیرا کا اتنا قصور نہیں جتنا اس کا گھریلو ماحول، وجہ بربادی بنا۔ اگر اس کی دادی، باپ یا نانا نانی ہی بروقت عقلمندی سے کام لیتے تو یہ المیہ جنم نہ لیتا۔ افسوس کہ ہمارے اکثر بزرگ اپنے بارے میں سوچتے ہیں مگر اپنی معصوم نسل کے مسائل کو نہیں سمجھتے۔
( الف… ڈیرہ غازی خان)