Sunday, October 6, 2024

Zid Ne Tabah Kiya

دادا نے اپنی زمین پر تین بنگلے تعمیر کرائے تھے اور ان کے ارد گرد ایک چار دیواری بنوادی تھی۔ یوں مکانات الگ تھے لیکن گھر ایک ہی تھا جس کا مشتر کہ صحن تین بیگھوں پر محیط تھا۔ دادا کے تین بیٹے تھے۔ بڑے دو کی شادیاں ہو گئیں تو ان کو اپنے احاطے میں بنے ہوئے دو مکان رہائش کے لئے دے دیئے گئے، جبکہ تیسرے میں وہ خود قیام پذیر تھے۔ میرے والد سب سے چھوٹے بیٹے تھے اور دو پھوپھیاں بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ابو کی شادی ہو گئی تو امی بھی ساس، سسر کے ہمراہ رہنے لگیں۔ ہمارا مشترکہ خاندانی نظام تھا جس کو پہلے پہل امی نے بخوشی قبول کیا۔ زمیندار گھرانہ تھا اور خوشحالی تھی لیکن ایسے گھرانوں کی الگ روایات ہوتی ہیں۔ بے شک میری والدہ ان روایات اور ادب آداب کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ ساس کی خدمت اور سسر کے احکامات کی بجا آوری، نندوں کا خیال رکھنا، غرض انہوں نے کسی کو شکایت کا موقع نہ دیا اور اس فرزانگی کے بدلے میں سبھی سے خوب عزت اور پیار پایا۔ امی کی شادی کے دو سال بعد میں نے اس جہان میں آنکھ کھولی۔ ممتا کے دل کا چمن کھل گیا، والد بھی میری پیدائش پر خوش تھے۔ ہر دم بانہوں میں لئے رہتے۔ میری معصومیت سے جھکتی پلکوں پر دونوں ماں، باپ نہال ہو جاتے۔ کچھ دنوں بعد میں اس قابل ہو گئی کہ اپنے والدین اور دیگر رشتوں کی شناخت کر سکوں۔ اپنے چاروں طرف بہت مہربان اور پیار کرنے والی ہستیوں کو موجود پایا۔ سبھی مجھ پر والہانہ شمار ہوتے تھے ، خاص طور پر دادی اور پھوپھیاں بھی جو کہ غیر شادی شدہ تھیں اور ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔ ہم گائوں میں رہا کرتے، بڑی ٹھاٹ والی زندگی تھی۔ پھوپھیاں ہر دم گود میں لئے رہتیں تو چچا اور تایا بھی انگلی پکڑ کر باری باری سیر کرانے باغ میں لے جاتے ۔ وہ مجھ پر جی جان سے فدا تھے اور میر ادل ان کی محبت کی دولت سے مالا مال تھا۔ ددھیال میں اتنا پیار ملا کہ کبھی ننھیال جانے کی خواہش نہ کی۔ نانی کے علاوہ دو خالائیں تھیں، جبکہ نانا اولاد نرینہ سے محروم اس دنیا سے سدھار گئے تھے۔ میرے لئے ننھیال والے کوئی کشش نہ رکھتے تھے۔ کبھی یہ لوگ ملتے بھی تو ان کے پاس نہ جاتی، جیسے کہ وہ میرے لئے اجنبی ہوں۔ دادا کے گھر میں اتنا پیار مل گیا کہ کسی اور سے پیار کی ضرورت نہ رہی۔

ابھی چھوٹی سی تھی کہ والد اور ان کے بھائیوں نے میرے روشن اور تابناک مستقبل کے لئے منصوبے بنا لئے۔ وہ مجھے اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے ، جبکہ ہمارے گائوں میں لڑکیوں کو پڑھانے کارجحان نہ تھا لیکن وہ اسی سحر کا انتظار کر رہے تھے، جب میں پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جائوں اور خاندان کا نام روشن کروں ۔ گھر پر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیوٹر خاتون کا انتظام ہو گیا جو مجھے پڑھانے آتی تھی۔ کس کو خبر تھی کہ ایک شام ایسی آنے والی ہے کہ جس کے بعد سحر ہمارا مقدر نہ ہو گی۔ زندگی کا سفر تو پیہم رواں دواں رہے گا، منزل کبھی نہ مل سکے گی۔ جسم وروح کا تعلق تو قائم رہے گا لیکن اس میں خوشی کی ذرہ بھر رمق نہ ہو گی اور میری ماں کی زندگی ایسے پھول کی مانند ہو جائے گی جو کھلتے تو ہیں مگر زیست کی کتاب میں مقید ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس میں قصور کسی کا نہ تھا، قصور خود میری والدہ کا تھا۔ کہنے کو انہوں نے بڑی خالہ کے اکسانے پر خود کو بد بختی کے حوالے کیا۔ بس ایک ہی رٹ ان کی نوک زبان پر رہی۔ میں مشترکہ خاندانی نظام میں اب نہ رہوں گی، مجھے تو بس علیحدہ گھر چاہئے۔ جن دنوں میں سات برس کی تھی، نانی امی نے اپنا گھر مرمت کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ مکان کافی بوسیدہ ہو چکا تھا۔ نانا کی وفات سے ابھی تک اس کی مرمت نہیں ہوئی تھی لہذا ساری عمارت کو ٹھیک ٹھاک کرانے کی ضرورت تھی۔ نانی اور بڑی خالہ کچھ دنوں کے لئے ہمارے گھر رہنے آ گئیں تا کہ مکان مرمت کے مرحلے سے گزر سکے۔ یہ لوگ پہلے بھی کبھی کبھار آتے تھے ، دوچار گھنٹے کو ! امی سے مل کر چلے جاتے تھے۔ وہ امی کو اپنے گھر میں خوش و خرم پاتے تو مطمئن ہو جاتے ۔ اس بار وہ زیادہ دن رہنے آئے تو ہمارے روز و شب ان پر کھل گئے۔ ہمارے خاندان کی تو روایت تھی کہ سب سے گھل مل کر رہتے تھے اور بہو کو سسرالی رشتوں کا لحاظ حفظ مراتب سے کرنا ہوتا تھا۔ والدہ یہ فرض نباہ رہی تھیں، بدلے میں پیار اور تکریم پارہی تھیں۔ وہ تو خوش تھیں اپنی زندگی اور طرز زندگی سے لیکن بڑی خالہ کے لئے یہ سب کچھ اچنبھے کی بات تھی۔ انہوں نے آہستہ آہستہ امی کے کان کھانا شروع کر دیئے۔ ارے بھئی ! پاگل ہو تم کیوں ساس کے آگے نوکرانی بنی ہوئی ہو ، جیٹھ جٹھانیوں کے لئے اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہو اور خادمانوں کی طرح کورنش بجالاتی ہو۔ نندیں کوئی مہمان ہیں جو ان کے لئے پکاتی ہو ؟ سسرالی رشتے دار کنبے کے کنبے آجاتے ہیں اور ان کے لئے کھانے کا انتظام کرتے کرتے ہلکان ہو جاتی ہو۔ ارے بھئی تم ایک آزاد و خود مختار فرد ہو، یہ کیا سسرال والوں کی مہمان داری میں پھنسی ہو۔ یہ سب اس مشترکہ خاندانی نظام کا روگ ہے۔ اپنے شوہر پر دبائو ڈالو کہ تم کو الگ گھر لے کر دیں اور تم ان لوگوں سے علیحدہ ہو جائو تا کہ اپنی مرضی سے اٹھو بیٹھو، اپنی مرضی سے کہیں آؤ جائو، چلو پھ و، بھلا یہ کوئی زندگی ہے؟

صرف والدہ ہی ساس، نندوں اور جیٹھ جٹھانیوں کا خیال نہیں رکھتی تھیں۔ وہ سب بھی تو میری ماں کا خیال رکھتے تھے۔ ان کی ایک فرمائش پر بھاگ دوڑ کرنے لگتے تھے۔ نندیں اپنی اس بھابی کے بغیر لقمہ نہ توڑتی تھیں۔ سبھی کام میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے اور ملازمائیں الگ تھیں لیکن خالہ کے ذہن میں شاید یہ تھا کہ سب مل جل کر اور مل بانٹ کر نہ کھائیں بلکہ امی الگ تھلگ پکائیں اور سب سے چھپ کر کھائیں۔ گھر میں کس شے کی کمی تھی جو وہ ایسا کرتیں۔ ہر شے ڈھیروں آتی ۔ خدا ناخواستہ اگر کمی ہوتی بھی تو یہ لوگ ایسے نہ تھے، یہ خاندانی لوگ تھے اور کھانے پینے کے معاملے میں تو اس وضع کے تھے کہ اپنے منہ کا نوالہ دوسروں کے آگے دھر دیتے تھے۔ مہمان نوازی ہی تو ان کا طرئہ امتیاز تھا۔ کہتے ہیں کہ پانی کی ایک بوند بھی مسلسل پتھر پر پڑتی رہے تو اس میں شگاف ڈال دیتی ہے۔ خالہ کی ان باتوں نے بالآخر امی پر اثر کر نا شروع کر دیا اور وہ اپنے جیون ساتھی سے علیحدہ اور سسرال سے دور رہائش اختیار کرنے کا مطالبہ کرنے لگیں۔ خواب اگر حقیقت کا روپ دھار لیں تو انسان کا من کسی انجانی خوشی و سرمستی کے گیت گانے لگتا ہے لیکن اگر حقیقت خواب بن جائے تو سوائے پچھتاوں کے کچھ نہیں رہتا۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی تقدیر کا فیصلہ لوح قلم پر محفوظ ہو جاتا ہے لیکن بسا اوقات جذباتی فیصلے بھی تو عمر بھر کا روگ بن جاتے ہیں۔ میری ماں بھی اپنے جذباتی فیصلے اور انا کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ وہ اگر سسرال سے علیحدہ ہو جانے کی اس قدر ضد نہ کرتیں تو شاید ان کی زندگی میں جگمگانے والی روشنیاں کبھی بھی اندھیروں کا روپ نہ دھارتیں۔ ان کی آنکھوں میں بڑی خالہ نے نجانے کون سے ایسے خواب بھر دیئے تھے کہ انہوں نے اپنی محبت کا تاج محل ان خوابوں پر قربان کر دیا۔ اس وقت تو ان کی آنکھوں پر ضد کی پٹی بندھ گئی تھی اور کان بھی غرور کے باعث بہرے ہو گئے کہ وہ اپنے چاہنے والے شوہر کی التجائیں نہ سن سکیں. میں نہ سن سکیں جو انہوں نے اپنی جنت ، اپنے گھر کو بچانے کے لئے کی تھیں۔ ابونے واقعی بڑے جتن کئے کہ وہ اپنا خوبصورت آشیانہ جو بزرگوں کی دعائوں سے بنا ہوا تھا،اجڑنے نہ دینا چاہتے تھے۔ سب خواب دھرے رہ گئے اور وہ بڑی خالہ کے اکسانے سے گھر چھوڑ کر میکے چلی گئیں۔ ابو کی روحانی مسرتیں بھی ان کے ساتھ جاتی رہیں۔ دادا، دادی نے امی کو منانے کی بہت کوششیں کر لیں مگر وہ نہ مانیں کہ میں اب آپ کے آنگن میں نہ رہوں گی۔ مجھے علیحدہ گھر چاہئے۔ گائوں میں کوئی علیحدہ گھر میں رہے تو سو اندیشے ہوتے ہیں۔ وہاں اکٹھے رہنے میں ہی عافیت ہوتی ہے ، خاص طور پر زمینداری میں سو دوست دشمن ہوتے ہیں۔ والد تو صبح کے گئے شام کو ڈیرے سے لوٹتے تھے۔ کھیتوں کے بیچوں بیچ تنہائی میں کسی گھر میں رہنا ممکن نہ تھا اور والد صاحب کا اراضی کے امور چھوڑ کر کسی شہر جا بسنا، بھی محال تھا۔

دادا، دادی زندہ تھے۔ وہ اجازت نہ دیتے تھے کہ بیٹا، بہو اور ننھی منی بچی کو لے کر شہر جا بسیں۔ ساس، سسر نے منت کی۔ جیٹھ بھی ترلے کرتے رہ گئے کہ بانو بھابھی اس احاطے کے اندر علیحدہ بنگلہ آپ کو بنوا دیتے ہیں۔ بہت زمین پڑی ہے لیکن احاطے سے باہر رہائش کی ضد نہ کیجئے۔ یہ آپ کے اور کسی کے بھی مفاد میں نہ ہو گا کیونکہ ہماری زمینیں مشترکہ
ہیں۔ امی نے ہر کسی کی منت کو پائوں میں ڈال دیا اور ان کو ذہنی اور روحانی کرب واضطراب میں مبتلا کر کے خود بھی جدائی کے الائو میں جھلسنے کو تنہا رہ گئیں، جبکہ ان کا رویہ پہلے اپنے سسرالیوں کے ساتھ قابل رشک ہوتا تھا۔ لیکن خالہ کے آنے کے بعد وہ اتنی بدل گئیں کہ کایا ہی پلٹ گئی۔ ابو تو میری ماں کے اشارے کے غلام تھے۔ اپنی چاند سی بچی سے پل بھر کی جدائی برداشت نہ کر سکتے تھے۔ اگرامی اس وقت سمجھداری سے کام لیتیں تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ان کی جنت اس طرح لٹ جاتی۔ابو نے کہا تھا۔ شہر بانو ! تھوڑا سا صبر کر لو اور بتا دو جو تکالیف تم کو ہیں، میں ایک ایک تکلیف کو دور کر دوں گا۔ عورت کی آزادی اس کا اپنا گھر اس کا حق ہے۔ ایک ایسا گھر جس کی وہ خود ملکہ ہو، سفید و سیاہ کی مالک ہو، جہاں بس اسی کی حکمرانی ہو. لیکن ہر بات کے لئے ایک مناسب وقت ہوتا ہے۔امی ابواب بہت بوڑھے ہو گئے ہیں، تم کو تھوڑے سے انتظار کی زحمت تو اٹھانا پڑے گی لیکن امی نے چند ماہ میں صبر کا دامن چھوڑ دیا۔ امی میں بہت خوبیاں تھیں لیکن ایک خامی بہت بڑی تھی کہ وہ کانوں کی کچی ثابت ہوئیں۔ خالہ نے ان کو یہ باور کرا دیا کہ جو آرام اور آسائشیں تم کو علیحدہ گھر میں میسر آسکتی ہیں، مشتر کہ خاندانی نظام میں ان کا تصور بھی نہیں کر سکتی ہو لہٰذا آفاق جب تک تمہارے لئے علیحدہ گھر کا بندوبست نہیں کرتا، تم میکے میں ہی جم جائو۔ یوں ابو اور دادا، دادی کئی بار بہو کو منانے آئے مگر ناکام و نامراد لوٹ گئے۔ خالہ امی کو اکساتیں کہ ساس کو ایسا کہو، ویسا کہو۔ نندیں لینے آئیں تو یوں جواب دینا۔ خود شوہر کے سامنے ان کی بہنوں میں کیڑے نکالنا، جبکہ دادا کے ویڑے میں تو بیٹیوں، بہوئوں اور بہنوں کی بے حد عزت کی جاتی تھی۔ یہ وہی بہنیں تو تھیں جو موسم سرما کی ٹھٹھرتی یخ بستہ راتوں میں اپنے بھائیوں کی گھر واپسی کا انتظار کرتی رہتی تھیں اور جب بھائی گھر آتے تو کھانا دوبارہ گرم کر کے دیتیں ، ان کے لئے بستر بچھاتیں۔ ایسی مونس و غمگسار بہنوں کو بھلا کوئی بھائی کیسے برا کہہ سکتا ہے۔ یہ خون کے رشتے تھے۔ ماں، باپ، بہن، بھائیوں کے یہ پیار کی وہ مضبوط زنجیریں تھیں کہ ان کو پل بھر میں نہیں توڑا جا سکتا تھا۔ بڑی خالہ تو اس حقیقت سے بالکل نابلد تھیں کہ گائوں میں مل جل کر پیار سے رہنے والے خود کو کس قدر محفوظ خیال کرتے ہیں۔ وہ نجانے میری ماں کو ان کے گھر کی جنت سے نکال کر مجھ سے اور والدہ سے کس بات کا انتقام لے رہی تھیں۔

یہ وہی بہن تھی جو باپ کی وفات کے بعد اپنی ماں اور بہن کا بوجھ اٹھانے کے لئے شادی سے انکاری ہو گئی تھی۔خود اپنے ہاتھوں سے اپنی چھوٹی بہن (میری والدہ) شہر بانو کو دلہن بنا کر رخصت کیا۔ وہی بہن آج امی کو سمجھانے کی بجائے نامعقول بات پر ان کی ہمت افزائی کر رہی تھیں۔ ایک غیر شادی شدہ لڑکی کو ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز کا بھلا کیا علم ہو سکتا ہے۔ یہاں بھی صور تحال کچھ یہی تھی اگر خالہ میری ماں کو ان کے اصل مقام اور گھر سے متعلق صحیح رہنمائی کرتیں تو ہمارا آشیانہ نہ جلتا لیکن خالہ نے تو ماں کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے امی کی آنکھوں کے سامنے بنے بنائے آشیانے کے تنکے بکھر گئے اور ان کے سسرالی رشتے داروں نے بہو کے سخت رویئے سے مجبور و مایوس ہو کر ابو کی دوسری شادی کرادی۔ اب میری ماں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ان کے شوہر نے ان کو منانے کے لئے کتنے جتن کئے تھے، ہر بار بڑی خالہ آڑے آتی رہیں۔ بالآخر میری ماں کی قسمت میں سوتن اور طلاق لکھ دی گئی۔ وقت نے پہلو بدلا تو جوانی کی رنگین صبحیں رات کے اندھیروں کا روپ دھارنے لگیں۔ امی کے بالوں میں سفید چاندنی آگئی۔ اب وہ گھلنے لگیں، گھل گھل کر قسطوں کی موت مرنے لگیں۔ ان کی دلی کیفیت کو میرے سوا کوئی نہ جانتا تھا۔ وہ راتوں کو جاگتیں اور اٹھ اٹھ کر روتیں۔ ایک لاوا تھا جو ان کے سینے میں دہکتا تھا اور جدائی کا بیج جو ان کے اپنے ہاتھوں نے بویا تھا، ان کو جھاڑ کے کانٹوں کی طرح زخمی کرتا رہتا تھا۔ اس ترقی یافتہ دور میں بھی طلاق یافتہ عورت ایک بیکار پرزے کی مانند سمجھی جاتی ہے۔ میری خاطر امی نے یوں بھی دوسری شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھیں کہ اپنے لئے کوئی اچھی ملازمت تلاش کر کے کسی حد تک مشکلات اور پریشانیوں کو کم کر لیتیں، تبھی اپنی اور میری ضروریات کی خاطر خالہ کی محتاج ہو گئیں جو کہ ایک اسکول کی ہیڈ مسٹریس بن گئی تھیں۔ بڑی خالہ ڈیوٹی کے بعد ٹھاٹھ سے گھر آکر لیٹ جاتیں اور آرام کرتیں جبکہ امی پر گھریلو کام کاج کا تمام بوجھ ڈال دیا تھا۔ کبھی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے کسی کام کو کرنے سے قاصر ہوتیں تو اسکول سے واپسی پر خالہ ان کو کوستیں، برا بھلا کہتیں اور آڑے ہاتھوں لیتیں۔ امی کو پائی پائی کا محتاج رکھ کر وہی بہن اب ان کو طعنے دیتے نہ تھکتی کہ جس نے ان کو اس حال تک پہنچایا تھا۔ ان کو پتا تھا کہ ہم اب جس مقام پر پڑے ہیں، وہاں سے ادھر اُدھر ہونا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ شادی شدہ عورت کی عزت اس کے خاوند سے اور خاوند کی عزت عورت سے ہی ہوتی ہے۔ ماں کے ساتھ ساتھ میں بھی ایک نوکرانی کی طرح سارا دن کام میں جتی رہتی تھی۔ جب تھکن سے روتی تب یہ وہ لمحہ ہو تا جب باپ سے جدا کرنے پر میری ماں شدت سے پچھتا تیں، کف افسوس ملتیں۔

اب میں باشعور ہو چکی تھی اور ہر بات کو سمجھ سکتی تھی۔ کبھی ماں کے دکھ پر روتی اور کبھی مجھے ان پر غصہ آتا کہ ایک بیٹی کے بارے میں نہ سوچا اور علیحدہ گھر کی ضد میں اتنے پیار کرنے والے سسر اور ساس کو چھوڑ کر اپنی نامعقول بہن کا کہا مان لیا۔ اب پچھتاتی ہیں۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت … باپ زندہ تھا، میں کوڑی کوڑی کے لئے خالہ کی محتاج تھی۔ اس عمر میں تو لڑکیاں اپنی پسند کے پہناوے پہنتی ہیں اور میں ابھی تک خالہ کی اترن پہنتی تھی۔ کبھی کبھی ماں کہتی تھیں جی چاہتا ہے جا کر آفاق کے قدموں میں بیٹھ جائوں اور اپنے شفیق ساس، سسر سے معافی مانگ کر اس جنت کی بھیک مانگ لوں جس کو میں نے خود ٹھکرایا تھا لیکن اب یہ کیسے ممکن تھا۔ اس جنت کی حقدار تو ایک دوسری عورت ہو چکی تھی۔ وہ سوتن بھی قبول کر لیتیں لیکن طلاق … ! یہ دیوار تو نا قابل عبور تھی۔ وقت محو پرواز رہا اور پھر ایک دن میرے لئے ایک کلرک کارشتہ بھی خالہ جان نے ڈھونڈ ہی لیا۔ کون سا انتظام کرنا تھا، کون سا جہیز دینا تھا۔ واقعی انسان اپنے مرکز سے ہٹ کر قدر و قیمت کھو دیتا ہے۔ آج اگر میں اپنے والد کے گھر ہوتی تو اچھے سے اچھار شتہ میرا مقدر بنتا، لاکھوں کا جہیز ملتا اور پھر میری رخصتی کاروز آگیا۔ ہمسایوں تک کو معلوم نہ تھا کہ شہر بانو کی بیٹی بیاہی جارہی ہے۔ چند لوگ آکر مجھے بیاہ لے گئے۔ رخصتی کے وقت دل جیسے منتظر ہو کہ دو شفیق اور پیارے ہاتھ میرے سر پر رکھ کر کوئی مجھے کہے گا۔ بیٹی ! میں تیرا باپ ، آگیا ہوں، تجھے رخصت کرنے اور دعائوں کی چھائوں میں الوداع کہنے ، مگر آج کے اہم دن بھی وہ سائبان کہاں تھا کہ جس کی اوٹ ساری زندگی دھوپ کو ٹھنڈک میں بدل دیتی ہے۔ ماں کی آنکھیں بھی آج بے بسی کی تصویر بنی کسی شخص کو ڈھونڈتی تھیں کہ جواب کبھی ان کے رو برو آنے والا ہی نہیں تھا۔ آج اگر وہ ابو کے گھر میں ہوتیں تو وہ ان کو ضرور سہارا دے کر کہتے۔ مت رو ایک دن بیٹیاں تو رخصت کرنی ہی ہوتی ہیں۔ یہ تو پرایا دھن ہوتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس سے ابو خود چپکے چپکے روتے مگر امی کو نہ رونے دیتے۔ ان کو تسلیاں دیتے اور یہ ایسے نڈھال اور تنہا نہ ہو تیں۔ ماں کو ایک ٹوٹی ہوئی ٹہنی کی طرح دہلیز پر جھولتے دیکھ کر میں نے وقت رخصتی اپنے دل سے یہ عہد کیا کہ میں کبھی بھی ماں کی طرح اپنے شوہر سے ایسی ضد نہ کروں گی جو گھر اجاڑ دے۔ ان کو بھلا علیحدہ گھر کی ضد میں ہی اپنے اصل گھر کو کھو دینے سے کیا ملا۔ ایک خواب کی خاطر ملی ہوئی خوشیوں بھری تعبیر کو کھو دینا کون سی عقل مندی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS