ہمارے گھر کے سامنے ایک صاحب آکر رہنے لگے۔ صاحب کیا تھے طالب علم تھے لیکن ٹیپ ٹاپ سے ‘ صاحب بنے رہتے تھے۔ میں بھی طالبہ تھی، کالج آتے جاتے اس سے سامنا ہو جاتا تھا۔ وہ بھی جیسے تاک میں ہوتا۔ جو نہی اس کے گھر کے سامنے سے گزرتی وہ اپنے دروازے سے نکل رہا ہوتا۔ اس کا انداز مجھے اچھا لگا۔ چھٹی کے دن ہمارا سامنانہ ہو پاتا تو اپنے کمرے کی کھڑکی کے پیٹ نیم واکر کے اس کے مکان کی طرف چوری چھپے دیکھتی شاید کہ وہ بھی کھڑ کی میں موجود ہو۔
کچھ دن گزرے کہ اس نوجوان کی مڈ بھیڑ میرے والد صاحب سے ہو گئی۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے دریافت کیا، نئے پڑوسی ہو؟ میری بیٹھک میں آجاؤ چائے پیتے ہیں۔ انہوں نے نام پوچھا تو نوجوان نے بلند بخت بتایا۔ نام تو خوب ہے۔ والد کا کیا نام ہے؟ کہاں سے آئے ہو ؟ والد کا نام میر عالم ہے اور قصور سے آیا ہوں۔ لاہور گور نمنٹ کالج میں داخلہ ہوا ہے اور یہ مکان جس میں رہائش ہے والد صاحب کے دوست عبید اللہ صاحب نے کرایہ پر دلوایا ہے۔ واہ بھئی واہ… کیا خوب۔ قصور کے میاں میر عالم صاحب تو میرے کلاس فیلو تھے۔ وکیل ہیں نا تمہارے ابا جان ؟ جی ہاں … بالکل ٹھیک۔ بیٹھک میں اور بھی باتیں ہوئیں بلند بخت کے والد سےسچ مچ کا دیرینہ تعلق نکل آیا تھا۔ تو والد صاحب نے کہا، بلند میاں، اب اکیلے گھر میں رہنے اور خود چولہا پھونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے گھر سے متصل ایک چھوٹا سا انیکسی ٹائپ پورشن ہے .. اپنا سامان اٹھا لو اور اس میں آ جائو۔ کرایہ بھرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ والد صاحب کمال شفقت سے ملے تو بلند بخت کو بھی انکار کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ اگلے دن وہ کرائے کا گھر واپس کر کے ہمارے بنگلے کی انیکسی میں آبسا۔ اب کھانا ہمار املازم صبح و شام بلند انیکسی میں پہنچانے لگا۔ والد نے اسے اپنا بیٹابنالیا کیو نکہ ان کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ وہ بھی اباجان کے اخلاق سے بہت متاثر تھا۔ اس نے لاکھ منع کیا کہ کھانا بھجوانے کی تکلیف نہ کیا کریں لیکن والد نہ مانے کہنے لگے … خود کیا پکا پائو گے اور بازار کے کھانے صحت خراب کرتے ہیں۔ خانساماں بناتا ہے اور ملازم پہنچاتا ہے۔ ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اب وہ بھی امی جان کو سلام کرنے کبھی کبھی ہمارے ڈرائنگ روم میں آجاتا تھا۔ ابو گھر موجود ہوتے تو ان کی خاصی گپ شپ رہتی۔ ورنہ امی دو چار باتیں کر لیتیں لیکن میں اس کے سامنے نہ جاتی تھی۔ ایک روزا با جان نے اسے کہا بیٹا، زیبا کو ایف ایس سی کے پیپرز دینے ہیں اور سائنس کے ایک دو مضامین اسے مشکل لگتے ہیں۔ اگر تم ایک ماہ شام کو اس کی تیاری کراد و تو بڑا احسان ہو گا۔ انکل احسان کی کیا بات ہے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ آپ کے حکم کی تکمیل کروں۔ میں ضرور زیبابی بی کو پڑھا دیا کروں گا۔ میرے دل میں تو شروع سے اس کے لئے پسندیدگی کے جذبات تھے۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ دل ہی دل میں وہ سبق بھی پڑھنے لگی جو طلب گار محبت اپنے محبوب کے حضور پڑھا کرتے ہیں۔ بڑے طریقے اور سلیقے مگر صبر کے ساتھ ، بالآخر میں نے اسے اپنی سوچوں کا شریک سفر کر لیا۔ وہ میری جانب متوجہ ہوا اور میں نے سمجھ لیا کہ اس کے دل میں بھی میرے لئے محبت کی جوت جاگنے لگی ہے۔
امتحان ختم ہو گیا، اس سے ملاقات کا جواز بھی ختم ہو گیا۔ مگر دل کی لگی اور بے چین رکھنے لگی۔ وقت گزرنے لگا، اب والدین میری شادی کی فکر میں لگ گئے۔ ابو کی نظر میں بلند بخت ایک شریف نوجوان تھا۔ اگر وہ اشار تا بھی کہتا تو وہ فوراًمیرے اس کے ساتھ شادی کر دیتے مگر بلند بخت نے ایسا کوئی اشارہ نہ دیا۔ بالآخر میں نے اس سے کہا… بلند تم جلد اپنے والدین کو لائو اور میرا رشتہ مانگوورنہ ابو میری شادی کسی اور سے کر دیں گے۔ میں فی الحال شادی کرنے سے مجبور ہوں۔ جب تک کوئی بہت عمدہ نوکری نہیں مل جاتی۔ ابھی مجھے کم از کم پانچ سال دیر ہے۔ اگر تم پانچ سال انتظار کر سکتی ہو، پھر میں کسی نہ کسی دن رشتہ مانگنے تمہارے والدین کے پاس ضرور آئوں گا۔اس کے جواب سے مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ لگا وہ مجھے حاصل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ وقت پاس کرنے کو ملتا تھا، لیکن میں تو بہت سنجیدہ تھی۔ میں اس معاملے میں دوسری لڑکیوں سے مختلف تھی۔ آہیں بھرنے اور وقت ضائع کرنے کی بجائے میں نے اس سے قطع تعلق کر لیا۔ اس میں میری بھلائی تھی کہ والدین کی خوشنودی کو ان کی اطاعت کروں۔ انہی دنوں اس کا تبادلہ ہو گیا اور وہ ہمارا شہر چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کے بعد وہ کبھی نہیں آیا۔ اس نے میرے حالات جاننے کی بھی زحمت نہ کی کہ میں کیسی ہوں، کہاں ہوں۔ میری شادی ہو گئی ہے یا نہیں ہوئی۔ مجھے اس کی یاد شدت سے آتی تھی لیکن صبر کر لیا کہ جو چیز حاصل نہ ہو اس کے لئے آرزو میں ہلکان ہونا کیا وہ بھی شاید اپنی زندگی کی نئی دلچسپیوں میں گم ہو گیا تھا کہ پھر کبھی پلٹ کر خبر نہ لی۔ تاہم میرے دل میں اس کی یاد رہ رہ کر ٹھیسں اٹھاتی تھی۔ میری شادی والدین کی مرضی سے ہو گئی۔ وقت گزرتا رہا۔ میں دو بیٹیوں کی ماں بن گئی۔ شوہر اچھے انسان تھے ، متوسط آمدنی تھی تاہم میرا ہر لمحہ خیال رکھتے تھے۔ ایک مطمئن زندگی گزار رہی تھی۔ بلند بخت کی یاد آتی تھی لیکن میں نے اپنی ناکام محبت کو زندگی کا روگ نہ بنایا۔ شوہر اور بچوں کی خدمت و پرورش کے ساتھ گھر گرہستی کی مصروفیات میں وقت گزرنے لگا۔
شادی کے دس برس بعد امی ابو کا یکے بعد دیگر انتقال ہو گیا۔ اب میرا سب کچھ میرے شوہر ہی تھے۔ بیٹیوں کی خوشیوں اور ان کے مستقبل کا تمام تر انحصار ان ہی پر تھا۔ خدا کی مرضی کہ ایک روز وہ دفتر جاتے ہوئے موٹر بائیک حادثے کا شکار ہو کر موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ یہ صدمہ بہت بڑا تھا کہ میں بے آسرا اور بچیاں یتیم ہو گئی تھیں۔ ہماری کفالت کرنے والا بھی کوئی نہ رہا تھا۔ اب پتہ چلا کہ شوہر ایک عورت کیلئے کتنی بڑی پناہ اور نعمت ہوتا ہے۔ در در کی ٹھوکریں تو نہ کھانی پڑیں کہ والد صاحب مکان میرے نام کر گئے تھے۔ تاہم والد کے مکان میں قیام نہ کیا کہ اسے ٹھیک ٹھاک کرانا تھا تا کہ کرایہ پر اٹھا سکوں، جس کیلئے رقم کی ضرورت تھی۔ سر دست میرے پاس تو گزارے کیلئے بھی رقم موجود نہ تھی۔ بی ایس سی کیا تھا، نوکری کی تلاش میں نکل پڑی۔ ایک اخبار میں ضرورت ملازمت کا اشتہار دیکھا۔ لکھے ہوئے پتے پر پہنچی۔ کلرک نے بتایا کہ درخواست دے جائیں ، پر سوں انٹرویو ہیں، صبح ٹھیک دس بجے آنا ہو گا۔ مقررہ دن دوبارہ گئی۔ جب انٹرویو کے لئے صاحب نے بلایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ان کے برابر والی کرسی پر ایک اور صاحب بھی براجمان تھے ، لگتا تھا جیسے خواب دیکھ رہی ہوں۔ بلند بخت کو سترہ برس بعد دیکھ رہی تھی۔ وہ بالکل ہی ویسا تھا جیسا کہ سترہ برس قبل تھا۔ وقت کی گردش نے اس پر کوئی اثر نہ کیا تھا۔ یقین نہ آرہا تھا کہ وہ میرے سامنے بیٹھا ہے۔ اس نے حیران نگاہوں سے دیکھا۔ شاید اسے بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہ آرہا تھا کیونکہ وقت نے میرے رنگ وروپ کافی بدل دیا تھا لیکن اب پر وقار ہو گئی تھی اور پہننے اوڑھنے کا سلیقہ بھی آگیا تھا۔صاحب نے سوالات کئے اور میں نے جواب دیئے۔ وہ مجھ سے متاثر نظر آئے تھے۔ انہوں نے کچھ نجی زندگی کے بارے میں بھی سوال کئے۔ میں نے بتایا کہ … ایک سال قبل بیوہ ہوئی ہوں۔ شوہر کا حادثے میں انتقال ہو گیا ہے اور اپنی دو بچیوں کی پرورش کی خاطر ملازمت کرنا چاہتی ہوں۔ اس سے پہلے کبھی ملازمت نہیں کی ہے۔ پھر تو مشکل ہے، باس نے کہا۔ ہم کو آفس ورک کیلئے کچھ تجربہ کار لوگ درکار ہیں۔ آپ سے پہلے جن خواتین نے انٹر ویو دیے ہیں ان کو ملازمت کا خاصا تجربہ ہے۔ میں کچھ مایوس سی انٹر ویو لائونج سے باہر نکلی تھی، امید نہ تھی کہ مجھے بلا لیں گے شاید کہ قدرت بلند بخت کی ایک جھلک دکھانے کو مجھے وہاں لے گئی تھی۔ اگلے روز فون آگیا کہ صاحب نے بلایا ہے ، آپ کا سلیکشن ہو گیا ہے فوراً آ کر اپائنٹمنٹ لیٹر لے لیں۔ سمجھ گئی کہ بلند بخت نے سفارش کی ہے کیونکہ وہ وہاں موجود تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کمپنی میں وہ اچھے عہدے پر فائز ہے تب ہی اسے انٹرویو بورڈ میں شامل کیا گیا تھا۔ میرا اندازہ درست نکلا، بلند بخت نے ہی میری سفارش کی تھی اور باس نے ملازمت پر رکھ لیا تھا۔ میں اس کی سفارش پر نوکری کرنا نہیں چاہتی تھی لیکن مجبوری تھی کیونکہ مجھ سی ناتجربہ کار کو نوکری ملنی مشکل تھی۔ یہ تو ایک اتفاق ہی ہو گیا تھا ور نہ ملازمت کیلئے کتنے دھکے کھانے پڑتے ہیں، جانتی تھی۔ اگلے روز بلند بخت کا فون آگیا۔ زیبا میں بول رہا ہوں، صد شکر تم مل گئیں۔ جب ملنا تھا ملے نہیں،اب کیوں شکر کر رہے ہو. میں نے بے رخی سے جواب دیا۔ امریکا سے آنے کے بعد ایک بار تمہارے شہر گیا تھا۔ محلے کے ایک صاحب سے تم لوگوں کا پوچھا۔ انہوں نے بتایا تمہارے والد کا انتقال ہو گیا ہے ، تمہاری شادی ہو چکی ہے اور تم کراچی جاچکی ہو۔ اس اطلاع سے تو قصہ ہی ختم ہو گیا، اور کھوج لگا کر کیا کرتا؟ کیا تم نے شادی کرلی ؟ ہاں کی تھی لیکن غیر ملکی لڑکی تھی، نباہ نہ ہو سکا۔ جلد ہی اس نے طلاق لے لی تو پھر شادی نہ کی، واپس پاکستان آ گیا۔ سوچا اب تو تم جیسی لڑکی ملے گی تب ہی شادی کروں گا۔ کافی عرصہ بیت گیا، میری زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں لیکن تم جیسی نہ ملی۔ مجھ کو ہمیشہ تم ہر ایک سے ممتاز اور الگ تھلگ لگیں۔ اب تم اچانک مل گئی ہو تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ سوچا کہ تم سے معافی مانگوں گا اور شادی کی درخواست پیش کروں گا۔ تہیہ کر لیا ہے کہ اب اگر شادی کی تو تم ہی سے ہوگی۔ یہ ممکن نہیں، میں دو بیٹیوں کی ماں ہوں جواب جوانی کے دور میں قدم رکھ چکی ہیں، میرا خیال دل سے نکال دو اور دوبارہ مجھے فون مت کرنا۔ یہ کہہ کر میں نے ریسیور رکھ دیا۔
اسے میری سرد مہری سے جیسے دھچکا لگا ہو۔ دوبارہ فون ملایا، گھنٹی بجتی رہی اور میں نے فون نہ اٹھایا۔ میں اس بیتے وقت کو پھر سے آواز دینا نہ چاہتی تھی۔ اپنی بچیوں کا ہر شے سے زیادہ خیال تھا، انہیں اپنے ماضی کے بارے میں بالکل بھی آشنانہ کرنا چاہتی تھی کہ ان کی نظروں میں میرا امیج خراب ہو جاتا۔ وہ مجھے ایک اچھی ماں سمجھتی تھیں اور میں اچھی ماں ہی رہنا چاہتی تھی۔بلند بخت مسلسل فون کرتا، میں نے نہ اٹھایا تو ایک دن وہ خود اس کمرے میں آگیا جہاں میں دفتر میں بیٹھ کر کام کرتی تھی۔ اس نے معافی طلب کی اور کہا کہ میری درخواست پر غور کرو… میں تمہیں شریک حیات بنانا چاہتا ہوں۔ لیکن میں نے اس کی درخواست کو رد کر دیا اور سیدھے منہ بات نہ کی۔ میں نے کہا، بلند صاحب …. شادی کی ایک عمر ہوتی ہے ، اب میں دو بچیوں کی ماں ہوں اور مجھے ان کا مستقبل بنانا ہے … جو ہر شے سے زیادہ ضروری اور اہم ہے۔ یہ ملازمت میں انتہائی مجبوری کی وجہ سے کر رہی ہوں۔ مجھے تنگ مت کرنا اور نہ میرا پیچھا کر ناور نہ ملازمت چھوڑ دینے پر مجبور ہو جائوں گی۔ اس پر میری باتوں سے اوس پڑ گئی ، وہ بجھ کر رہ گیا۔ پہلے تو میں اس کے انکار پر رورو کر پاگل ہوئی تھی اور اب اسی کورد کر رہی تھی۔ یہ تو وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ جب میں نے ملازمت سے استعفیٰ دیا تو بلند بخت میرے پاس آیا اور کہا… آخری بار مخاطب ہوں پھر کبھی تم کو نظر نہیں آئوں گا۔ اس نے خود کو لعنت ملامت کی کہ میری وجہ سے تم ملازمت چھوڑ رہی ہو۔ اگر میں تم سے اصرار نہ کرتا تو تم یہ قدم نہ اٹھائیں۔ تم نے اپنی زندگی کو مسائل کی بھٹی میں جھونک دیا۔ اب بھی کہتا ہوں نوکری مت چھوڑو میں یہ شہر چھوڑ جائوں گا تم کو دوبارہ کبھی نظر نہ آئوں گا میر ایقین کرو۔ میں نے مگر اس کا یقین نہ کیا۔ اس کا دکھ جیسے بڑھ گیا ہو۔ میرا بھی دکھ بڑھ گیا۔ میں کیا اسے مورد الزام ٹھہراتی اس نے خود کو مجرم بنالیا تھا۔ اس کے بعد کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، بتا نہیں سکتی۔ اپنی بچیوں کو ان کی منزلوں تک پہنچانے کے لئے میں اس طرح حالات کی بھٹی میں پگھلتی رہی جیسے سونے کی اینٹ بھٹی میں پگھلتی ہے۔ آج میری بیٹیاں باعزت زندگی بسر کر رہی ہیں۔ ایک ڈاکٹر ، دوسری انجینئر بن چکی ہے۔ ان کی شادیاں اچھے گھرانوں میں ہو گئی ہیں۔ وہ خوشحال زندگی بسر کر رہی ہیں اور اکثر میرے ہاتھ چوم کر کہتی ہیں کہ ماں ہو تو آپ جیسی، اماں آپ کتنی مقدس ہیں… اور میں نم آنکھوں سے جواب دیتی ہوں خدا تم کو زندگی کی ساری خوشیاں دے میں تمہاری خوشیوں کے لئے ہی تو زندہ ہوں۔