امی مجھے جنم دے کر دوسری دنیا میں چلی گئیں۔ والد صاحب اور دادی نے پالا۔ جو شریک زندگی بنا، وہ بھی انہی حالات کا پروردہ تھا۔ میری کامران سے شادی ہوئی تو ہم دونوں کو رخصتی کے وقت والدین کے نہ ہونے کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ وہ وقت تھا جب ماں، باپ کی دعائیں نئی منزلوں کی سمت سفر کرتے ہوئے زاد راہ ہو جاتی ہیں۔ وقت رخصتی کئی دھڑکے اور اندیشے تھے۔ اجنبی لوگوں میں جارہی تھی، ایک اجنبی کو اپنا سمجھنا تھا۔ کچھ خبر نہ تھی کہ آئندہ کیا حالات در پیش ہوں گے۔
کامران اچھے انسان تھے۔ ہم ایک دوسرے کے سچے اور مخلص جیون ساتھی بن گئے۔ بھروسہ اور اعتماد جو میاں، بیوی کی کامیاب زندگی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے، خدا نے عطا کر دیا تو معاشی تنگی کے باوجود دن سکون سے گزرنے لگے۔ کامران گریجویٹ تھے۔ کوئی سفارش نہ تھی۔ اچھی نوکری کیلئے بہت بھاگ دوڑ کی، نہ ملی تو ایک جنرل اسٹور پر سیلز مین ہو گئے۔ دن بھر محنت کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آتے۔ میں ان کی بہت خدمت کرتی۔ وقت پر گرم کھانا اور ہر شے ہاتھ میں دیتی۔ وہ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد پڑھنے بیٹھ جاتے تا کہ اپنی قابلیت بڑھا سکیں۔ اچھی نوکری کی امید دل میں لئے وہ پرائیویٹ طور پر پڑھتے رہے اور کئی کورس کر لئے۔ تب میں سارا دن گھر کا کام کرتی تھی اور وہ محنت مشقت سے میرے لئے خوشیوں کا اہتمام کرتے۔ ہم چھٹی کے دن سیر پر جاتے، غرض خوشحالی کے خواب سجائے، ہم ہنسی خوشی وقت گزار رہے تھے۔ شادی کو سال گزر گیا اور میں ماں نہ بن سکی تو ہم دونوں کو فکر لاحق ہو گئی۔ ایک لیڈی ڈاکٹر سے علاج کرایا۔ تمام رپورٹیں ٹھیک تھیں۔ پانچ برس گزر گئے، اولاد کی خوشی نہ ملی تب میں بہت حساس ہو گئی۔ بات بے بات پر آنکھیں چھلک جاتی تھیں۔ ٹی وی پر وہ اشتہار نہ دیکھ سکتی تھی جو بچوں سے متعلق ہوتے تھے۔ کامران مجھ سے بچوں کے نہ ہونے کے بارے میں بالکل بات نہ کرتے۔ وہ اس موضوع کو نہ چھیڑتے تھے کہ کہیں میری دل آزاری نہ ہو جائے۔ میرا یوں خیال رکھتے تھے جیسے کوئی ہتھیلی کے آبگینے کا خیال کرتا ہے۔ کامران مسلسل ترقی کی کوششوں میں لگے رہے۔ مختلف جگہ اچھی نوکری کے حصول کیلئے درخواستیں دیتے رہے۔ آخر اللہ نے سن لی اور ان کو ایک بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ دفتر سے گاڑی بھی ملی کیونکہ فیلڈ ورک کرنا ہوتا تھا۔ حیات زیادہ خوبصورت ہو گئی۔ زندگی کی آسائشیں میسر تھیں مگر اولاد کی کمی تھی جو دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ خدا سب کی سنتا ہے، بالآخر ہماری بھی سنی۔ شادی کے آٹھ برس بعد مجھے اولاد کی خوشی سے ہمکنار کیا۔ کامران بے حد مسرور تھے۔ گھر کے کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتے کہ میں زیادہ سے زیادہ آرام کروں۔ آخر وہ دن آگیا جس کا ہم کو انتظار تھا۔ قدرت نے ایک خوبصورت بیٹا عطا کیا لیکن کچھ کمزور تھا۔ آئے دن اس کی صحت خراب رہتی اور ہم پریشان رہتے۔ سچ ہے کہ کسی نعمت کی زیادہ قدر تبھی ہوتی ہے جب وہ مشکل سے ملتی ہے۔ ہم دونوں بھی زیادہ عبادت گزار ہو گئے۔ بچے کی صحت کیلئے دعائیں کرتے ۔ تہجد کے بعد اس کی درازی عمر کی دعا مانگتے اور یہ بھی کہ وہ نیک اور صالح ہو۔ تین سال بعد وہ بہت صحت مند، تندرست و توانا ہو گیا۔ اپنی پیاری پیاری باتوں سے ہمارے دل کو لبھاتا اور ہنساتا۔ وہ ہماری زندگی اور خوشیوں کا مرکز بن گیا۔ ایک بار پھر میری گود ہری ہو گئی۔ اس دفعہ بیٹی ہوئی جس کا نام زاہدہ رکھا۔ عمران اور زاہدہ آپس میں بہت مشابہت رکھتے تھے۔ ساتھ کھیلتے تو دل شاد اور آنکھیں ٹھنڈی ہو تیں۔ سچ ہے کہ اولاد بڑی نعمت ہے۔
وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ دونوں بچے اسکول جانے لگے ۔ گھر کے اخراجات بھی بڑھ گئے۔ کامران نے سوچا کیوں نہ ملازمت کے ساتھ کوئی سائیڈ بزنس کرلوں تا کہ رزق حلال میں اضافہ ہو۔ ایک دوست کے ساتھ شراکت کر لی۔ وہ تجارت کرتا تھا۔ ایک روز جبکہ چھٹی کے دن تھے ، دونوں مال لینے پشاور گئے۔ واپسی میں اسلام آباد کے قریب بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔ حادثہ ایک اسلحے کے ڈپو میں ممنوعہ علاقے میں ہوا تھا۔ یہ وہاں سے اتفاقاً گزر رہے تھے۔ گاڑی تباہ ہو گئی اور بہت سے راہ گیروں کے پر خچے اڑ گئے تھے۔ جب ہم کو اطلاع ملی، میں یہ خبر سن کر بے ہوش ہو گئی تھی۔ محلے کی ایک عورت نے مجھے اور بچوں کو سنبھالا۔ میری حالت دیکھ کر بچے بھی سہم گئے۔ دونوں کمسن تھے ، زندگی اور موت کے فلسفے کو نہیں سمجھتے تھے۔ جب ان کو بتایا گیا کہ ان کا باپ اس دنیا میں نہیں رہا ہے تو وہ مجھ سے لپٹ گئے۔ کڑے سے کڑا وقت بھی آخر گزر جاتا ہے۔ صبر سے کام نہ لیتی تو کیسے معصوم بچوں کی پرورش کر پاتی۔ خوشیوں نے آنگن میں قدم ہی رکھا تھا کہ بہاریں لٹ گئیں اور خزاں کا موسم مقدر ہو گیا۔ وہ دن یاد آتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے جب بچے باپ کے انتظار میں سوتے نہ تھے اور میں ان کو جھوٹے لفظوں سے بہلاتی تھی کہ آجائیں گے ابھی، دفتر کے کام سے گئے ہیں، سو جائو۔ جب آئیں گے ، جگا دوں گی۔ وہ کھلونے لینے گئے ہیں لیکن کب تک … مرنے والے کب واپس آتے ہیں۔ کئی روز تک میں نے کھانا نہ پکایا تھا۔ محلے کی عورتیں کھانا لا کر میرے بچوں کو کھلا تیں۔ مجھ پر تو آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔ کامران کے بغیر کیسے کھاتی، بھوک ختم ہو گئی تھی۔ سانس کی ڈوری قائم رکھنے کی خاطر چند نوالے نگلتی اور پانی پی لیتی۔ عورتوں نے سمجھایا کہ ہوش کرو، تم پر اب دو بچوں کی بھاری ذمہ داری ہے۔ ایسا کرو گی تو بیمار ہو جائو گی۔ تمہارے بچے کون سنبھالے گا ؟ ان کو پڑھانا لکھانا ہے، اسکول بھیجنا ہے اور تم نے رزق کی فکر کرنی ہے۔ ہوش آیا تو گھر میں دانہ نہ تھا۔ نوکری ڈھونڈنے نکل پڑی۔ اب زندگی کا مقصد صرف ان بچوں کو پریشانیوں سے بچانا تھا اور قابل انسان بنانا تھا۔ میں نے اسکول ٹیچر کی ملازمت کرلی اور وقت گزرتا گیا، یہاں تک کہ عمران اور زاہدہ پڑھ لکھ گئے۔ اب یہ دونوں جوان تھے ، وہ زندگی کے دکھوں کو سمیٹنے کے قابل ہو چکے تھے لیکن باپ کا خلا جو رہا، وہ کبھی پورا نہ ہو سکا۔ وہ اب بھی روزانہ ہی اپنے باپ کو یاد کرتے تھے۔ عمران کو ملازمت مل گئی اور اس نے گھر کا خرچا اٹھا لیا۔ زاہدہ بھی بی۔اے کر چکی تھی۔ اس نے بی۔ ایڈ کیا اور ٹیچر ہو گئی۔ وہ اب مجھے ملازمت نہ کرنے دیتے۔ کہتے تھے۔ آپ نے بہت کام کر لیا، اب آپ کے آرام کا وقت ہے۔
سماری فکریں دور ہو ئیں تو بچوں کی شادی کی فکر لگ گئی۔ میں نے بہت تحمل سے کام لیا تھا۔ بچوں کے سامنے تھکن کو بھی ظاہر نہ کرتی تھی، بیمار ہوتی تب بھی کام پر جاتی۔ میرے بچوں کو کسی بات کا پتا نہ تھا۔ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر اپنی بھری جوانی مٹی بنا ڈالی۔ نئے کپڑے سالوں نہ خریدتی، بچوں کو اچھا کھلاتی، خود روکھی روٹی کھا لیتی لیکن ان کو پتا نہ چلنے دیتی۔ اپنی چھوٹی سے چھوٹی خواہش بھی پوری نہیں کرتی تھی تا کہ میرے بچے کسی چیز کو نہ ترسیں۔ زندگی کی کھٹائیوں نے مجھے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا۔ ایک روز عمران نے مجبور کیا کہ ہم نئے گھر شفٹ ہو جاتے ہیں اور یہ پرانا محلہ چھوڑ دیتے ہیں۔ تب میں نے اسے بہت منع کیا کیونکہ میں نے ساری زندگی اسی محلے میں گزاری تھی۔ محلے والے میرے دکھ سکھ سے واقف اور خوشی، غمی کے سانجھی تھے لیکن بیٹا نہ مانا۔ نئی نسل کی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ بیٹے نے گھر فروخت نہ کیا لیکن اسے کرائے پر اٹھا دیا اور ہم نئے گھر میں منتقل ہو گئے۔ یوں اس نے میری بات بھی رکھی اور اپنی آرزو بھی پوری کر لی۔ عمران کو جلد جلد ترقی ملنے لگی۔ اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گیا تب وہ دیر سے گھر آنے لگا۔ ایک روز میں نے قسم دے کر کہا۔ سچ بتائو کیوں دیر سے گھر آتے ہو، کہاں وقت گزارتے ہو ؟ اس نے دبے لفظوں بتا دیا کہ ایک لڑکی سے دوستی ہے اور اس کے ساتھ گھومتا پھرتا ہوں۔ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ شکر ہے کہ اس نے سچ بتا دیا اور میں نے بھی اجازت دے دی۔اس کی شادی دھوم دھام سے اس کی پسندیدہ لڑکی سے ہی کر دی۔ جب ماریہ بہو بن کر گھر آئی، پتا چلا کہ وہ دولت مند مگر لاپروا والدین کی بگڑی ہوئی اولاد ہے جس کو بڑوں کے ادب کا علم تھا اور نہ چھوٹوں کا لحاظ تھا۔ اس کی تربیت پر والدین نے کوئی توجہ نہ دی تھی۔ وہ اپنے اپنے مشاغل میں گم رہے اور بچوں نے نوکروں کے رحم و کرم پر بچپن سے جوانی کی منازل طے کر لیں۔ ماریہ حسین تھی مگر اس کے حسن کو تکبر کی دیمک اور غرور کا گھن لگا ہوا تھا۔ وہ مجھ سے اور زاہدہ سے سیدھے منہ بات نہ کرتی، صرف اپنے شوہر سے خوش دلی سے بات کرتی تھی۔ وہ ہم کو منہ نہ لگاتی۔
ماریہ کے والد ایک بڑے بزنس مین تھے۔ ان کے کاروبار میں بیٹے کے ساتھ ساتھ بیٹی کا بھی حصہ موجود تھا اور منافع ہر ماہ وہ ماریہ کے اکائونٹ میں ڈال دیتے تھے۔ شاید اسی بات کا کا اس لڑکی کو تکبر تھا۔ ماریہ کی ماں کی سوشل سرگرمیاں بہت تھیں۔ اس نے شروع سے ہی بچوں کو ہاسٹل میں ڈال دیا تھا۔ جب بچے چھٹیوں پر گھر آتے تو نوکر ان کی دیکھ بھال کرتے۔ ماں اور باپ دونوں کے پاس اتنا ٹائم نہ ہوتا تھا کہ اپنی مصروفیات سے ہٹ کر اولاد کی تربیت پر توجہ دیں۔ ان کو ادب، آداب سکھائیں جو ضروری ہوتے ہیں۔ ایک پرسکون اور کامیاب زندگی کیلئے ماریہ کو ایسا ماحول ملا کہ اسے رشتوں کا احساس ہی نہ تھا۔ میں بہت پریشان تھی کہ کیسی بہو مل گئی ہے جو سارا دن اپنے کمرے کا دروازہ بند رکھتی ہے۔ جو شوہر کے سوا کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتی۔ جب پڑوس سے کوئی بہو کو دیکھنے کی فرمائش کرتا تو مجھے کہنا پڑتا۔ سورہی ہے۔ وہ کہتیں، کیسی بہو لے کر آئی ہو جو سارا دن سوئی رہتی ہے۔ اب مجھے اس مسئلے پر سوچنا تھا کہ کیسے گھر کا ماحول درست کروں۔ ایک ہی حل سمجھ میں آیا کہ کسی طرح پیار و محبت سے اس لڑکی کو رام کروں۔ بیٹے سے کچھ کہنے کا مطلب تو گھر کی خوشیوں کو خراب کرنے کے مترادف تھا۔ میں نے ماریہ کی فطرت کو سمجھنا شروع کیا۔ وہ جانوروں سے بہت پیار کرتی تھی۔ اپنی پالتو بلی کا بہت خیال رکھتی، پرندوں کو دانہ ڈالتی، ان کی کولیاں دھو کر پانی بھر کے رکھتی۔ اگر کوئی فقیر صدا لگاتا تو دوڑ کر جاتی، مدد ضرور کرتی ۔ گویا اس کی فطرت اچھی تھی لیکن اچھی تربیت سے محروم تھی۔ جب انسان کسی کی فطرت کو جان لے ،اس کا دل جیتنا آسان ہوجاتا ہے۔ وہ پیار کی بھوکی تھی۔ میں چونکہ ٹیچر تھی، بڑوں اور بچوں کی پہچان رکھتی تھی۔ میں نے زاہدہ کے ذمے لگا دیا کہ تم بھابی کے قریب ہونے کی کوشش کرو، اس کی پالتو بلی کا بہت خیال رکھو اور پیار کا اظہار کرو۔ ماریہ اسی طرح پہلے پہل تمہاری جانب متوجہ ہو گی۔ وہ اپنی پالتو بلی اور طوطے وغیرہ میکے سے لے آئی تھی۔ زاہدہ نے ان کا بہت زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا۔ جب ماریہ اپنے کمرے سے نکل کر پالتو جانوروں کی دیکھ بھال کرنا چاہتی، زاہدہ دوڑ کر اس کی طرف جاتی، اس کی مدد کرنے کی کوشش کرتی اور اس کے پالتو پرندوں اور بلی سے اظہار محبت کرتی۔ ماریہ رفتہ رفتہ زاہدہ سے مانوس ہوتی گئی اور اب وہ اس کے ساتھ دوستانہ انداز میں باتیں کرنے لگی۔
سچ ہے انسان پیار اور اخلاص سے ہی کسی کا دل جیت سکتا ہے۔ شکوے شکایات سے ہرگز نہیں۔ بالآخر زاہدہ کی محنت رنگ لائی اور وہ اپنی مغرور بھابی سے دوستی کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ زاہدہ، ماریہ سے قریب ہوتی گئی تو اب وہ اس کو اس کے کمرے سے نکال کر میرے کمرے تک لانے لگی۔ بہو مجھ سے دعا سلام کرنے لگی۔ زاہدہ سے باتیں کرتی تو مجھے بھی مخاطب کر لیتی ۔ بارے کفر ٹوٹا اور میرے دل کی گھٹن کم ہو گئی۔ زاہدہ، بھائی کی مصروفیات کے مطابق وقت نکالتی۔ میں نے بیٹے کو بھی ماریہ کی شکایت نہ کی۔ اس بارے کوئی بات منہ سے نہ نکالی کہ وہ سارا دن ہم سے کیسا سلوک رکھتی ہے۔ جانتی تھی کہ وہ ماریہ کا بہت خیال کرتا ہے ، اس کی خوشی پر نچھاور رہتا تھا اور بیوی کے عشق میں مجھے بھی نظر انداز کر دیتا تھا۔ وہ بہن جو پہلے اس کی جان تھی، جس کے بغیر نوالہ نہ توڑتا تھا،اب زاہدہ سے بات کئے ہفتہ گزرجاتا۔ ماریہ کو روزانہ آفس سے آنے کے بعد باہر لے جاتا، کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا کھلانے۔ میں ساس نہ بنی اور نہ اپنی بیٹی کو نند بننے دیا۔ زاہدہ کو سمجھاتی۔ قلق نہ کرو، بھابی سے محبت کرو۔ اس سے محبت کرو گی تو بھائی کی محبت کو حاصل کر پائو گی۔ یہی میرا تجربہ کہتا ہے اور یہی زمانے کا دستور ہے۔ جب چہیتی بیوی آجاتی ہے ، ماں اور بہنیں اگر فراست سے کام نہ لیں تو بیٹے اور بھائی کی زندگی سے منفی ہو جاتی ہیں۔ میری بیٹی سمجھدار اور صبر والی تھی۔ جیسا میں کہتی، کہا مانتی۔ ایک دن ایسا آیا کہ ماریہ مجھے ساس اور نند کی حیثیت دینے پر مجبور ہو گئی۔ وہ مجھے امی کہنے لگی۔ اب وہ ایک نارمل رویے کی حامل تھی اور ہم کو اس کے ساتھ بات کرنے میں آسانی محسوس ہوتی تھی۔ بے شک ہم ایک ہی گھر کے فرد جیسے ہو گئے تھے۔ ماریہ جہاں جاتی، مجھے بتاتی اور کبھی کہتی آپ بھی ساتھ چلیں۔ اس نے ادب آداب سیکھنا شروع کر دیئے جبکہ پہلے وہ اگر کہیں جاتی، ہم کو یہ بتانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتی تھی کہ گھر سے باہر جارہی ہے۔ جب میں نے اس کے ساتھ ممتا بھرا سلوک رکھا، وہ مجھے اپنے دل کے قریب سمجھنے لگی۔ آخر کار اس نے اپنی زندگی کی گزشتہ تلخیوں اور دکھوں سے مجھے آگاہ کر دیا۔ اس نے بتایا کہ مجھے بچپن سے جوانی تک اپنے گھر میں کبھی پیار نہیں ملا۔ روپے پیسے کی کمی نہ دیکھی لیکن محبت کو ترستی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ لوگوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیں اور رشتے کیا ہوتے ہیں۔ وہ اب اتنی سعادت مند ہو گئی کہ ہر کام مجھ سے پوچھ کر کرتی اور میرا بہت خیال رکھنے لگی۔ اس کا رخ میری طرف ہو گیا۔ میرا کھویا ہوا عمران بھی دوبارہ مجھے مل گیا۔ وہ اب آفس سے آکر پہلے کی طرح میرے کمرے میں بیٹھ جاتا، کچھ دیر باتیں کرتا، طبیعت پوچھتا، دوائیاں لانے کو کہتا۔ زاہدہ سے کہتا۔ امی کا بہت خیال رکھا کرو، وقت پر دواکھلا دیا کرو۔ باہر کھانے کیلئے جاتے تو میرے لئے بھی پیک کرا کر لے آتے۔ زاہدہ کی شادی کی فکر بھی تھی۔ میرے کہنے پر ماریہ نے اس طرف توجہ دی اور اپنے شوہر کو بھی یاد دلانے لگی کہ تمہیں بہن کی شادی کرنی ہے۔ عمران نے ایک دو دوستوں سے بات کی اور پھر ایک دوست کے توسط سے اچھے گھرانے میں زاہدہ کی بات طے ہو گئی۔ لڑکا نیک اور خوبصورت تھا اور میرے بیٹے کے دوست کا بھانجا تھا۔ مختصر کنبہ یعنی ماں اور بیٹا تھے۔ لڑکے کا نام ثاقب تھا۔
ثاقب سے منگنی کے بعد ماریہ نے نند کے جہیز کی خریداری شروع کر دی۔ وہ اکثر زاہدہ کو بھی ساتھ لے جاتی، تبھی عمران نے عزت سے بہن کو بیاہ دیا اور جہیز میں ہر چیز دی۔ بہن کی شادی میں کسی شے کی کمی نہ ہونے دی اور یہ سب ماریہ کے تعاون سے ہوا۔ جس نے نند کی شادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ میں اور ماریہ گھر میں باقی رہ گئے۔ وہ کچن میں آجاتی، کھانا پکاتے دیکھتی تو دلچسپی لیتی۔ یوں اس نے کئی طرح کے کھانے بنانے سیکھ لئے ۔ گرچہ نوکر موجود تھے لیکن خاتون خانه کارشتہ تو کچن اور گھریلو امور کی انجام دہی سے قائم رہتا ہے۔ پس ماریہ نے بھی رفتہ رفتہ گھر کی ساری ذمہ داری سنبھال لی، مجھے آرام نصیب ہو گیا۔ اب گھر اس کا تھا، میں تو بڑھاپے کی دہلیز پر مختصر عرصے کی مہمان تھی۔ ظاہر ہے لمبی عمر کی طویل مسافت طے کر چکی تھی۔ زیادہ تر اپنے بیڈ روم میں رہتی تھی۔ ماریہ مکمل بدل گئی تھی۔ اس میں تکبر اور غرور نام کی کوئی چیز نہ رہی تھی۔ وہ ایک سمجھدار خاتون خانہ بن گئی تھی۔ گھر میں سکون تھا اور وہ سلیقہ مند تھی۔ اس نے میری خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ وہ بہترین فطرت کی مالک نکلی۔ تھوڑی سی توجہ اور پیار نے اسے یکسر بدل دیا تھا۔ وہ مجھے آرام کرنے کا کہتی اور خود سارے گھر کی دیکھ بھال کرتی۔ نوکروں سے کام کراتی اور مہمانداری کے سب تقاضے نبھاتی۔ پڑوس سے عور تیں ملنے آتیں، ان کو عزت سے بٹھاتی اور خاطر مدارات کرتی۔ یہ سب باتیں مجھ سے سیکھیں۔ سارے لوگ اس کی تعریف کرتے کہ بہو ہو تو ایسی، خدا ہر کسی کو ماریہ جیسی بہو دے۔ ایک روز میری طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔ وہ ایسے روئی جیسے کہ میں اس کی ماں ہوں۔ ماریہ اپنے والدین کے گھر غیروں کی طرح بے سکون رہی تھی۔ اب وہ اپنے گھر میں بہت سکون محسوس کرتی تھی، خاص طور پر میرے ساتھ… مجھ کو زکام بھی ہوتا، فوراً اسپتال لے جاتی، پریشان ہو جاتی۔ زاہدہ تو اپنے گھر آباد تھی۔ اس کی ساس غصے کی تیز تھی لیکن میری بیٹی صبر والی تھی۔ اس نے مجھ سے تربیت لی تھی۔ وہاں ساس کا بھی دل جیت لیا جس کی وجہ سے شوہر اس کی قدر کرنے لگا۔ جن دنوں میں بیمار تھی، ماریہ اپنے ہاتھ سے پرہیزی کھانا بنا کر کھلاتی تھی۔ کہتی تھی کہ امی جان، زاہدہ تو اپنے گھر میں ہے ، روز نہیں آسکتی۔ میں ہی آپ کی بیٹی ہوں۔ دعا مانگتی رہتی ہوں، خدا کرے آپ کو کچھ نہ ہو۔ ہم کو آپ کی ضرورت ہے۔ اس کی یہ باتیں گویا مجھ بیمار کی زندگی بڑھا دیتی تھیں۔ وہ ماں باپ سے ملنے بہت کم جاتی تھی۔
شادی کے دو سال بعد اللہ نے ماریہ کو یکے بعد دیگرے دو بچوں سے نواز دیا۔اب ہماری فیملی مکمل تھی۔ میں پوتے، پوتی کو دیکھ کر دیکھ کر خوش ہوتی اور سوچتی اب اگر کامران زندہ ہوتے تو اپنے خوشحال گھرانے کو دیکھ کر ان کا دل کتنا شاد ہوتا۔ ماریہ کو اپنا بچپن یاد تھا۔ وہ بچوں پر بہت توجہ دیتی تھی، نوکروں کے حوالے کرنے کی بجائے اپنا آرام تج کر ، بچوں کے سارے کام وہ خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھی۔ عمران تو پہلے ہی ماریہ سے پیار کرتا تھا، بچوں کی وجہ سے یہ پیار اور مضبوط ہو گیا۔ زاہدہ پہلے تو اپنے گھر میں خوش و خرم تھی۔ اچانک اس کے خاوند کی ملازمت جاتی رہی اور اس کی زندگی میں رفتہ رفتہ پریشانیاں بڑھتی گئیں۔ جب آتی، بجھی بجھی اور زردرنگت ہوتی چلی گئی ۔ تب ماریہ نے اس سے پوچھا۔ کیا پریشانی ہے، کچھ تو بتائو ؟ پہلے تو زاہدہ نے کچھ نہ بتایا لیکن ایک روز اپنی بھابی کے اصرار پر بتا دیا کہ سال بھر سے شوہر بیروزگار ہیں اور بچوں کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔ ساس ملازمت کرنے کی بھی مجھے اجازت نہیں دیتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں تمہارے بچے نہیں سنبھال سکتی۔ ماریہ نے زاہدہ کے خاوند سے بات کی اور اسے اپنے والد سے کہہ کر ایک بہت اچھی ملازمت دلوا دی۔ ان کے گھر سے فاقے مٹ گئے اور دوبارہ خوشحالی و سکون میسر آگیا۔ زاہدہ نے بھابی کو دعائیں دیں۔ کہتی تھی کہ امی جان اصل کریڈٹ تو آپ کو جاتا ہے جو ہم کو صحیح سمت پر چلایا اور آج ہم سب اگر خوشیوں سے ہمکنار ہوئے ہیں تو آپ کی وجہ سے ،اگر آپ ہم کو صبر اور اچھے اخلاق کی بجائے لڑائی جھگڑے لگائی بجھائی میں ڈال دیتیں تو نفرت کی آگ میں جل چکے ہوتے۔ آپ کی اچھی تربیت نے آج ہم کو زندگی کا ہر موڑ با آسانی عبور کرا دیا۔ میں آج بھی کہتی ہوں، سب آپ پر منحصر ہے کہ زندگی کو کس رخ سے بسر کرتے ہو۔ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ اپنے سلوک اور رویئے سے کسی کو نقصان پہنچانے کی بجائے ان کو خوشیاں دو تو غیر بھی اپنے ہو جاتے ہیں۔