Wednesday, October 16, 2024

Zindagi Badal Gai

ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ شفیق والد اور پیارے بھائی جان اچانک بم دھماکے کی لپیٹ میں آجائیں گے اور ہماری امیدوں کے چراغ ہمیشہ کیلئے بجھ جائیں گے۔ لیکن ایسے سانحوں کا شکار ہم اکیلے نہیں اور بھی ہم جیسے بہت ہوئے تھے جن کے پیاروں کے جسد خاکی تک نہ ملے اور وہ گوشت کے لوتھڑوں کی صورت میں خاک و خون میں ڈوب گئے۔ تبھی ان کے مرقد بنے اور نہ قبروں کا کوئی نشان کہ جہاں فاتحہ پڑھ کر بے قرار دل تسکین پاسکیں۔

اس روزا ابو اور بھائی جان عید کا سامان خریدنے گئے تھے۔ ان کے ہمراہ چاچا رحمت بھی تھے جو ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ وہ عید نہ تھی، ایک قیامت تھی جو اچانک ہم پر ٹوٹی تھی۔ کیسے رقم کروں کہ اس روز امی اور ہم بہنوں کی کیا حالت تھی جب صبح کے گئے ابو اور بھائی شام تک گھر نہ لوٹے۔ بالآخر رات کو چاچا رحمت یہ خبر لائے کہ وہ بم دھماکے کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ ان سے کچھ دور ہی خریداری کر رہے تھے کہ ایک شناختی کارڈ اڑ کر ان کے پاس آ گرا۔ چاچا نے اٹھا کر دیکھا یہ ابو کا تھا۔ یہ ہماری خوشیوں کا آخری دن تھا۔ اس کے بعد تو کبھی لوٹ کر نہ آنے والوں کی یاد تھی اور زندگی کا بوجھ تھا، عمر بھر جو ہمیں خود اٹھانا تھا۔ ابو گھر کے واحد کفیل تھے اور بھائی ادریس نے انہی دنوں ایم بی اے مکمل کیا تھا اور وہ ملازمت کیلئے تگ و دو کر رہے تھے تاکہ ابو کا سہارا بنیں اور معاشی حالات کو کاندھا دے سکیں۔ ان دنوں میں ایف اے اور میری بہن شائستہ میٹرک میں تھی، جب یہ سانحہ گزرا۔ کچھ دن گھر پر سوگ کی فضا طاری رہی۔ بالآخر شائستہ سب سے پہلے ملازمت کی تلاش میں گھر سے نکلی کیونکہ میں اپنی گریجویشن ہر صورت مکمل کرنا چاہتی تھی۔ ملازمت ملنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ ہر جگہ کسی کورس میں ڈپلومہ یا کسی ہنر میں ٹریننگ یافتہ لوگوں کی ضرورت تھی، محض میٹرک پاس کو نوکری کیا ملتی۔ والدہ پانچویں پاس تھیں۔ میری چار بہنیں چھوٹی تھیں، بھلا وہ انہیں چھوڑ کر کہاں محنت مزدوری کرنے جاتیں۔ مجبوراً مجھے کالج کو خیر باد کہنا پڑا کہ فاقوں تک نوبت آگئی تھی۔ چچا رحمت ہمارے حالات جانتے تھے۔ وہ خود اس روز موت کو چھو کر واپس آئے تھے جہاں بم دھماکا ہوا تھا۔ جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے کے مصداق معجزہ ہی ہوا کہ وہ زندہ بچ گئے شاید کہ انہیں ہم کو ہمارے والد اور بھائی کی شہادت کی خبر پہنچانی تھی اور ان کے شناختی کارڈز اس واقعہ کی گواہی تھے۔ چچانے موت کی ہولناکی کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کر لیا تھا۔ محلے میں اک وہی تھے جن کے دل میں ہمارے لئے حقیقی درد تھا، تبھی حسب استطاعت مالی مدد کر رہے تھے لیکن ان پیسوں سے ایک وقت کی روٹی مشکل سے میسر آتی تھی۔ گھر کے دیگر اخراجات پورے نہ ہو سکتے تھے۔ جب حالات کسی طور نہ سنبھلے اور ہم دونوں بہنوں کو کہیں ملازمت بھی نہ ملی تو چاچا رحمت نے امی کو نکاح ثانی کا مشورہ دیا۔ بولے، بہن زینت کسی خوشحال شخص سے عقد ثانی کر لو تا کہ تم اور تمہاری بچیاں عزت کی زندگی بسر کر سکیں۔

میرے ایک واقف کار کا بھانجا ہے۔ بیوی کو کسی وجہ سے طلاق دے دی تھی، اولاد کوئی ہے نہیں۔ میں نے ایک روز اپنے واقف کار سے تمہاری بچی کی ملازمت کیلئے کہا تو یہ شخص اس کے پاس موجود تھا۔ اس کا نام گلاب احمد ہے۔ گلاب کہنے لگا۔ بیوہ سے نکاح ثواب کا کام ہے جبکہ اس کی یتیم اور معصوم عمر بچیاں بھی ہیں تو ان بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھنا، ان کی کفالت اور ان کی شادیاں کرانا اللہ کی خوشنودی کا بڑا سبب ہو گا۔ گلاب کے بہت اصرار کرنے پر چاچا رحمت اسے ہمارے گھر لے آیا۔ والدہ سے ملوایا اور اس آدمی نے میری ماں کو یقین دلا دیا کہ وہ ایک ہمدرد اور مخلص انسان ہے۔ کسی بیوہ سے شادی اللہ کو راضی کرنے کی خاطر کرنا چاہتا ہے۔ عورت کی عمر، خوبصورتی، بد صورتی سے غرض نہیں ہے۔ بس یتیم بچیوں کی دعا ہی کافی ہے۔ گلاب نے کچھ اس طرح ہمدردی جتلائی کہ حالات سے ٹوٹی ہوئی ماں نے اس کے ساتھ عقد ثانی کا عندیہ دے دیا۔ یہ سوچ کر کہ اس قربانی سے اس کی بچیاں عزت کی زندگی جی لیں گی، اچھے گھروں میں بیاہی جائیں گی اور سب سے بڑی بات کہ گلاب احمد ہمارے سارے گھرانے کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار تھا۔ دو تو ناسمجھ تھیں لیکن ہم دو بڑی بیٹیاں والدہ کے اس فیصلے سے خوش نہ تھیں۔ مصلحتاً خاموش ہونا پڑا کہ حالات کی سنگینی کو ہم زیادہ جھیل رہی تھیں۔ باشعور ہونے کی وجہ سے غربت کے دکھوں کا زیادہ اثر ہمارے ذہنوں پر ہوا تھا اور ماں نے ہم کو ہی تو بھوک کے عذاب اور غربت سے چھٹکارا دلوانے کیلئے یہ قربانی دی تھی۔ ہمارے پیارے بابا جان جو ہم بیٹیوں کی عزت کے محافظ تھے ، انہیں کیا خبر کہ بعد میں دو وقت کی روٹی کیلئے ان کی بیوہ کو کسی اور سے نکاح کرنا پڑے گا اور وہ شخص بالکل بھی ان کی بیٹیوں کی عزتوں کا محافظ نہ ہو گا۔ والدہ سے نکاح کے بعد گلاب ان کو اپنے گھر لے آیا۔ ہم ایک ہفتہ چاچا رحمت کے گھر رہے اور پھر والدہ سوتیلے والد کے ہمراہ آکر ہم کو بھی ساتھ لے گئیں۔ یوں ہمارے حقیقی والد کے تین مرلہ مکان کو تالا لگ گیا کہ گلاب کا مکان کشادہ، عمدہ اور بہت شاندار تھا۔ وہ ہم سے بے حد محبت اور شفقت سے پیش آتا تھا۔ کھانے پینے کو سب نعمتیں اس نے ہمارے آگے ڈھیر کر دیں کہ جیسے ہر روز گھر میں دعوت ہوتی تھی۔ اس کے پاس کچن میں کھانا بنانے کیلئے دو خانساماں تھے، ڈرائیور، مالی، چوکیدار اور ملازمہ عورت … سبھی ہماری خدمت پر مامور تھے۔ گھر میں دو گاڑیاں تھی اور دونوں ہمارے لئے ہر وقت حاضر رہتی تھیں۔ غربت کے بعد یہ زندگی ایک خواب تھی۔

ایک روز گلاب نے ماں سے کہا کہ رخسانہ کو دیکھنے کچھ لوگ آرہے ہیں۔ امیر کبیر فیملی ہے، اسے اچھے کپڑے پہنا دینا۔ وہ رشتے کیلئے لڑکی دیکھنے آئیں گے۔ خاطر مدارات کا انتظام میں کرادوں گا۔ تم بس ذراسی ایک جھلک مہمانوں کو دکھا کر ماں، بیٹی وہاں سے اٹھ جانا باقی بات میں سنبھال لوں گا۔ امی نے ہدایت کی کہ تیرے رشتے کیلئے کچھ مہمان آرہے ہیں، ٹھیک طرح سے تیار ہو کر سامنے آنا۔ گلاب کہہ رہے تھے کہ بہت اچھے اور امیر لوگ ہیں۔ زیادہ بات مت کرنا۔ اب تو امیری غریبی کے عیب ثواب سمجھ چکی تھی۔ سوتیلے باپ کو دعائیں دیتی تھی کہ اس نے مفلسی کے عذاب سے بچالیا اور آئندہ بھی بچانا چاہتا ہے۔ ماں نے ہدایت کی، اسی طرح تیار ہو کر بیٹھ گئی۔ مہمان ڈرائنگ روم میں آچکے تو گلاب نے ماں کو کہا۔ بیٹی کو لے آئو اور صرف پانچ منٹ وہاں بیٹھنا کیونکہ لڑکا بھی اپنے والدین کے ساتھ آیا ہے۔ اس کے رو برو رخسانہ کا زیادہ بیٹھنا معیوب بات ہے۔ اس ملاقات کا بس اتنا ہی مقصد ہے کہ دونوں لڑکا اور لڑکی ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھ لیں تو آگے بات چلائی جائے۔ آج کل کا دور ہی ایسا ہے کہ بغیر لڑکی کو دیکھے لڑکے ہاں نہیں کرتے۔ میں دھیرج سے ماں کے ساتھ مہمانوں کے سامنے جا بیٹھی۔ بس پانچ منٹ کیلئے اور کن انکھیوں سے لڑکے کی طرف دیکھا لیکن ایسی گھبرائی ہوئی تھی کہ خاک نظر نہ آیا۔ لڑکا کس ڈھب کا ہے۔ وہاں صرف تین افراد آئے تھے۔ ایک لڑکا، دوسرا اس کا والد اور تیسری والدہ یہی گلاب نے بتایا تھا۔ میں نے نظریں جھکائے رکھیں، سلام کیا اور ایک طرف صوفے پر بیٹھ گئی۔ میرے کانوں نے ایک عورت کی آواز سنی تھی۔ ماشاء اللہ! بہت خوبصورت ہے، اللہ نصیب اچھے کرے۔ کیا خبر تھی اچھے نصیب کی دعا دینے والی لڑکے کی ماں نہیں بلکہ کٹنی ہے۔ اس بازار کی نائیکہ ہے اور میری ماں سے عقد ثانی کرنے والا گلاب کوئی نیک طینت، شریف کردار آدمی نہیں بلکہ بازار حسن کا دلال ہے جس نے ایک نیک دل شخص کا روپ دھار رکھا ہے۔ چار بچیوں کی ماں سے عقدثانی بھی محض اس سبب کیا ہے کہ خوبصورت مگر لاوارث اور فاقوں سے سراسیمہ دو جوان اور دو معصوم لڑکیاں ہاتھ آجائیں گی۔ کاروبار خوب چلے گا اور اس کی چاندی ہو جائے گی۔ وہ میرا رشتہ نہیں کر رہا تھا بلکہ میری خوبصورتی، نوخیزی اور دوشیزگی کا پہلا سودا کر رہا تھا۔ سوتیلا باپ میری دوشیزگی کی قیمت لے کر چلتا بنا تھا۔ میری سادہ لوح ماں کو دھوکا دے کر مجھے ایسی دلدل میں دھکیل گیا کہ جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ماں کو یہی بتایا کہ میں نکاح کے اگلے روز سوئٹزر لینڈ چلی جائوں گی اور نکاح صبح ہو گا۔ میں بے رحم زمانے کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئی۔ قابل اعتراض تصویریں اتار کر میرا منہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا گیا تا کہ میں خوف زدہ ہو کر خاموش رہوں۔ بدنامی کا طوق گلے کی زینت نہ بن جائے جس سے میری بہنوں کی نیک نامی متاثر ہو۔ یہ ایک کارگر حربہ تھا۔ ان کا معصوم ذہن تو ان تصویروں کی تاب نہ لا سکتا تھا۔ تبھی میں نے ویسا ہی کیا جیسا گلاب نے کہا۔ اب اس کی تفصیل کیا لکھوں کہ میں کب کب، کہاں کہاں لوٹی جاتی رہی۔ لیکن میری روح میں پاکیزگی کا جو تصور رچ بس گیا، وہ مجھے ہر لمحہ تڑپاتا رہا حالانکہ میرے پاکیزہ خیالات اور نیک جذبات کو کند چھرے سے ذبح کیا جاتا رہا۔ میں نے صرف اس لئے برداشت کیا کہیں میری بہنوں کا میرا جیسا حال نہ کیا جائے۔ میں انہیں ہر صورت اس دلدل سے بچانا چاہتی تھی۔

فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اس توہین آمیز زندگی سے نجات حاصل کر کے رہوں گی۔ گھر کے اخراجات کی ذمہ داری مجھ پر تھی۔ میری بہنیں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ اس جہنم سے نکلنے کی امید نے مجھ میں ظلم و ستم سہنے کی سکت پیدا کی لیکن میں ہمیشہ دلی طور پر اس بے ہودہ زندگی سے نفرت کرتی رہی۔ قسم کھالی کہ حالات سے مقابلہ کروں گی مگر اپنی چھوٹی بہنوں کو اس خار زار سے زخمی نہ ہونے دوں گی۔ میں نے ایک بوڑھے مالدار شخص کو شادی کیلئے راضی کر لیا۔ اس نے گلاب سے بھی بات کی، مول تول کیا اور بہت سا روپیہ اس کو بھی دیا اور مجھے خرید لیا۔ بہت بھاری قیمت چکا کر نکاح کر لیا۔ وہ بے حد مالدار شخص تھا۔ میرے سارے کنبے کا خرچا اٹھاتا تھا۔ افسوس کہ اس کی حیات کے دن تھوڑے تھے۔ اس کی زندگی نے وفانہ کی اور مالک حقیقی سے جاملا۔ اس کے بعد مجھے وہ سب کچھ تو مل گیا جو اس نے میرے نام کر دیا تھا لیکن اس کے گھر والوں اور اس کی جوان اولاد نے مجھے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت نہ دی۔ ایک بار پھر ماں اور بہنوں کی خاطر میں گلاب خان کے در پر آگئی۔ اب میری بہنیں بڑی ہو گئی تھیں خاص طور پر شائستہ پر گلاب خان کی نظر تھی۔ وہ اب اس کو بھی اسی دلدل میں دھکیلنے کے منصوبے بنارہا تھا جس میں مجھے دھکیلا تھا لیکن میں تب نادان تھی اور خوف زدہ ہو گئی تھی، اس کی دھمکیوں سے ڈر گئی تھی۔ زندگی کے تلخ تجربات نے اب مجھے دلیر بنادیا۔ ٹھان لی کہ گلاب خان سے نمٹوں گی۔ اب تو اپنی ان ممنوع قسم کی تصاویر کا بھی خوف نہ رہا تھا کہ جن کے عیاں ہونے سے ڈرتی تھی اور جو مجھے خوف زدہ رکھنے کیلئے اتاری گئی تھیں۔ میں نے والدہ کو اعتماد میں لیا کہ آپ اس شخص سے چھٹکارا پایئے، اس سے خلع لے لیں، ورنہ یہ آپ کی دوسری بیٹیوں کو بھی تباہی کی طرف لے جائے گا۔ میرے پاس ایک گھر تھا جو میرے مرحوم شوہر نے میرے نام کر دیا تھا۔ ہم وہاں رہ لیں گے اور میں حالات کا مقابلہ کروں گی۔ خدا کی کرنی گلاب کو انہی دنوں گولی لگ گئی۔ دراصل اس کی کچھ لوگوں سے دشمنی چل رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ ماں خلع لیتی یا وہ میری بہنوں کے دام لگاتا، اسپتال میں دم توڑ گیا۔ اس طرح اس ظالم کے ساتھ ظلم کا یہ باب بھی بند ہوا۔ شائستہ اور عظمیٰ نے تعلیم مکمل کر لی تھی جبکہ لبنیٰ ابھی پڑھ رہی تھی۔ میں اپنے کنبے کے ساتھ اپنے مرحوم شوہر کی دی ہوئی کوٹھی میں چلی آئی اور گلاب کا گھر چھوڑ دیا۔ اس کوٹھی سے میری عزت وابستہ تھی لہٰذا میرے شوہر کے ملنے جلنے والے مجھ سے رابطے میں آگئے۔ انہی کے توسط سے بہنوں کی شادیاں اچھے گھروں میں ہو گئیں۔ میں اور والدہ اکیلے رہ گئے۔ میں نے شادی نہ کرنے کی قسم کھائی کہ مجھے مردوں سے نفرت ہو چکی تھی۔ والدہ کی خدمت کیلئے جی رہی تھی اور وہ میرے لئے زندہ تھیں۔

Latest Posts

Related POSTS