Tuesday, March 18, 2025

Zindagi Bhar Ki Khushiyan

ہم کھاتے پیتے لوگ تھے۔ مجھے ملازمت کی ضرورت نہ تھی، میں اپنی خوشی سے نرس بنی۔ ٹریننگ لینے سے پہلے بھی گھر والوں نے سمجھایا تھا کہ یہ ایک محنت طلب پیشہ ہے ، تم اس سے انصاف نہ کر سکو گی مگر بچپن کا شوق تھا، میں نہ مانی اور اس مقدس پیشے سے وابستہ ہو گئی۔ ہماری ڈیوٹی مختلف وارڈوں میں لگتی تھی، اس بار ایمرجنسی میں تھی۔ ایک دن ایک مریض کو لایا گیا، حالت تشویشناک تھی، ایکسیڈنٹ کا کیس تھا۔ بچنے کی امید کم تھی۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا، جوان اور خُوبصورت تھا۔ بی ایس سی امتیازی نمبروں سے پاس کیا تھا، احمر نام تھا۔ احمر کی صورت اور اس کے والدین کی حالت دیکھ کر دل پر چھری چل گئی۔ پھر روتے بلکتے والدین کی دُعائیں کام آئیں اور احمر کو ہوش آگیا۔ اس کی حالت خطرے سے باہر تھی۔ ایک ہفتے بعد اسے خصوصی کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔ مجھے اس مریض سے قدرتی لگائو محسوس ہوا تھا۔ میری ڈیوٹی سرجن صاحب نے جب مستقل اس کے کمرے میں لگا دی تو مجھ کو سکون ملا کہ اب میں خصوصی طور پر اسی مریض کی خدمت پر مامور تھی۔ وہ ایک ذہین اور دل موہ لینے والا انسان تھا۔ خود تکلیف میں ہونے کے باوجود ہم کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔ تاہم ابھی تک اُٹھ کر بیٹھنے اور ملنے جلنے سے معذور تھا۔ اُسے سوپ وغیرہ پیچھے سے پلانا پڑتا تھا۔ یہ ایک ایسا مریض تھا جس پر سرجن ، ڈاکٹر ، نرسنگ عملہ سبھی لوگ ازخود مہربان تھے۔ ہم سب اُس پر فدا تھے۔ اللہ تعالی نے اس کے چہرے میں ایسی کشش رکھی تھی جو اسے دیکھتا، اس سے بات کرتا تھا وہ اسی کا ہو کر رہ جاتا تھا۔ افسوس کہ احمر کے ٹھیک ہونے کے امکانات کم تھے۔ ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ لگنے سے معذور ہونے کے نوے فیصد امکانات تھے کیونکہ اس کے نروس سسٹم کو نقصان پہنچا تھا۔ اب وہیل چیئر ہی اس نوجوان کا مستقبل تھی۔ ہم دُعا کرتے ، خُدا کرے وہ کم از کم وہیل چیئر پر بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے حرکت دینے کے قابل ہو سکے۔ جس کے زندہ بچ جانے کی آس نہ ہو ماں باپ کو اس کی معذوری بھی قبول تھی لیکن بستر پر پڑی رہنے والی زندہ لاش سے تو بہتر تھا کہ اپنے خالق حقیقی کے پاس چلا جائے۔ علاج ہو رہا تھا۔ ٹانگ میں جو فریکچر ہوا تھا، اس کا آپریشن بھی کامیاب رہا تھا، گردوں پر چوٹ آئی وہ بھی ٹھیک کام کر رہے تھے لیکن وہ بستر پر پڑا تھا۔

ہم سب کو احمر کے اُٹھ بیٹھنے کا انتظار تھا۔ خُدا کا شکر وہ دن بھی آگیا۔ جب وہ پہلی بار وہیل چیئر پر بیٹھا اور اس نے اسے خود اپنے ہاتھوں سے حرکت دی۔ یہ دن اس کے والدین کے لئے ہی نہیں ہم سب کے لئے بھی روز عید تھا۔ ڈاکٹرز اور سرجن خوش تھے ان کا مریض صحت یاب ہو رہا تھا۔ اس روز اس کے رشتہ دار ، دوست سب آئے۔ مبارکباد دی لیکن احمر کو کسی اور کا انتظار تھا۔ وہ اس کی منگیتر تھی، جس کو آنا تھا مگر نہ آئی۔ اس کی نگاہیں بار بار دروازے پر جاتیں اور لوٹ آتیں۔ اس کی والدہ نے مجھے بتایا کہ احمر چونکہ معذور ہو گیا ہے تبھی ان لوگوں نے رشتہ ختم کر دیا ہے۔ اب یہ بات میں اپنے بیٹے کو کیسے بتائوں؟ احمر کو یقیناً صدمہ ہونا تھا لیکن اس حقیقت کو بتانا ضروری تھا، ورنہ روز و شب اسی آس میں وہ گھلتا رہتا۔ اس کی اُمید بھری نظروں میں انتظار کے دیپ جلتے دیکھ کر میں بہت دُکھی ہو جاتی۔ اب پتا چلا نرسنگ کتنا حساس پیشہ ہے اور کسی مریض کے ساتھ دلی لگائو خود نرس کے لئے دُکھ بن جاتا ہے۔ کیا بتائوں وہ کتنے کٹھن دن تھے ؟ میرا اس کے ساتھ کوئی رشتہ نہ تھا لیکن انسانی ہمدردی نے مجھ کو اس کے ساتھ ایک ان دیکھے جذباتی رشتے میں جکڑ دیا تھا اور اب اس رشتے سے آزادی اپنے بس میں نہیں تھی۔ ابو امی مجھے پریشان دیکھ کر پوچھتے۔ بیٹی کیا بات ہے ؟ ایک جواں سال مریض جس کی حالت اچھی نہیں ہے وہ حادثے کا شکار ہوا ہے۔ نروس سسٹم متاثر ہے۔ بس اتنا میں نے ان کو بتایا کہ مجھے فکر ہے وہ معذور ہو گیا ہے، یہ نہیں بتایا کہ مجھ کو اس سے لگائو ہو گیا اللہ سب کا نگہبان ہے، تمہارا کام تو اپنی ڈیوٹی ادا کرنا ہے ، باقی کی فکر مت کرو، اللہ پر چھوڑ دو۔ امی مجھے سمجھاتی تھیں لیکن میں نہیں سمجھتی تھی گویا یہ میرا پرسنل معاملہ بن چکا تھا۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہو چکی تھی۔ ایک طوفان تھا جو دل و دماغ میں برپا تھا۔ پل بھر کو آنکھ لگتی تو احمر وہیل چیئر پر بیٹھا یا بیساکھیوں کے سہارے چلتا دکھائی دیتا۔ تبھی ایک جھٹکے سے اُٹھ کر بیٹھ جاتی۔ جب سے احمر کی حالت بہتر ہوئی تھی میرا سکون اور زیادہ لٹ گیا تھا۔ اس خیال سے کہیں وہ واقعی عمر بھر کے لئے معذور نہ ہو جائے۔

دن اسی اضطرابی کیفیت میں بسر ہو رہے تھے ، اس کا اعصابی نظام کی بحالی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا انتہائی نازک آپریشن ہونا تھا۔ اس کے بعد وہ چل پڑتا یا پھر ہمیشہ کے لئے وہیل چیئر اس کا مقدر بن جاتی۔ جس دن آپریشن تھا میری روح زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑانے لگی۔ میں اس احساس کو کوئی نام نہیں دے سکتی، لگتا تھا جیسے میری زندگی کا دار و مدار اس آپریشن پر ہو۔ میری اضطرابی کیفیت پر ماں کی نگاہیں جمی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر کا کام کو شش کرنا ہوتا ہے کوئی کسی کا نصیب نہیں بدل سکتا۔ معذوری احمر کے نصیب میں لکھی تھی۔ وہ اسٹریچر پر لایا گیا تھا اور وہیل چیئر پر گھر گیا۔ چھ ماہ اسپتال میں رہ کر وہ ہم سب کا چہیتا مریض اور سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا تھا، آخر وہ چلا گیا۔ مجھے اس کے معذور ہو جانے کا سب سے زیادہ دُکھ تھا۔ اس دوران جو دلی لگاو مجھ کو ہوا تھا، اس کو شاید محبت کہتے ہوں گے۔ مجھے نہیں معلوم ساری دنیا کو چھوڑ کر ایک معذور انسان سے ہی کیوں محبت ہو گئی۔ یہ احمر کی کوئی خوبی تھی یا میری بد نصیبی، اس میں کوئی ایسی بات تو تھی جس نے میرے دل کا سکون لوٹ لیا تھا۔ مجھے احمر سے ملے بغیر چین نہ تھا۔ جی چاہتا تھا ہر کام چھوڑ دوں بس اس کی خدمت میں ساری عمر گزار دوں۔ والدین بھانپ چکے تھے میں پریشان رہنے لگی ہوں۔ انہوں نے شادی کا مسئلہ انہی دنوں اُٹھایا۔ شادی کے لئے جب تک انسان کا ذہن خود آمادہ نہ ہو ہم جیسی لڑکیوں کا کسی دوسرے کی خوشی کے لئے گھر بسا لینا آسان نہیں ہوتا۔ مجھے والدین کے کہنے پر فوری طور پر فیصلہ کرنا تھا۔ وہ مجھے پریشان نہیں دیکھ سکتے تھے۔ میری صحت گررہی تھی۔ خصوصاً امی میری فکر میں گھل رہی تھیں۔ میں نے امی سے کہا آپ مجھے صرف چھ ماہ کی مہلت دے دیجئے۔ اس کے بعد آپ کی جو مرضی ہو گی میں اپنا سر جھکالوں گی۔ امی ابو میری شادی میرے چچازاد سلیمان سے کرنا چاہتے تھے جو انجینئر تھا اور بیرون ملک جانے کی تیاریوں میں تھا۔ والدین چاہتے تھے میں فوری ملازمت چھوڑ دوں اور میں چاہتی تھی کہ احمر کی وہیل چیئر کو تھام لوں۔ اُسے سارے جہاں کی سیر کرائوں۔ وہ خوش ہو اور اس کا دل شاد ہو تو میرا دل بھی خوشی سے کھل اٹھے۔ یہ کیسی عجیب خواہش تھی۔ میں ساتھی کا مطلب روحانی ساتھ کو سمجھتی تھی۔ دن رات اس معاملے پر سوچ رہی تھی۔ آخر کار میں نے اُسے خط لکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ڈائری سے اس کے گھر کا پتا نکالا اور خط لکھنے بیٹھ گئی اور بلا تکلف وہ سب کچھ تحریر کر دیا جو میرے دل میں تھا۔ بلا کم و کاست اس ضمن میں ، مبالغہ آرائی سے بالکل کام نہیں لیا۔ ایسے معاملات میں لگی لپٹی چلتی بھی نہیں۔

ہفتہ بعد جواب آگیا۔ بہت اضطراب سے میں نے لفافہ چاک کیا۔ انداز بیان دلکش اور تحریر خُوبصورت تھی۔ سب سے زیادہ متاثر کن بات اس کے الفاظ کی سچائی تھی۔ سوچ رہی تھی ایسے پُر عزم انسان دُنیا میں کم ہی ہوتے ہیں۔ احمر نے لکھا تھا۔ آپ نے شادی کے متعلق پوچھا ہے۔ شادی میرا اخلاقی، معاشرتی اور مذہبی حق ہے۔ اگر میں چل پھر نہیں سکتا تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میری یہ خواہشات ختم ہو گئی ہیں۔ میری سوچ ، میرے احساسات و جذبات سب اپنی جگہ قائم ہیں، یورپ و امریکہ میں تو میری طرح کے لوگ شادی کر کے گھر بسا لیتے ہیں لیکن یہاں معذور آدمی کی کوئی زندگی نہیں، ہم پر محض ترس کھایا جاتا ہے۔ یہ تحریر پڑھ کر میرا دل کٹ گیا، آنکھوں میں درد دل میں آنسو بھر آئے۔ تذبذب کی کیفیت ختم ہو گئی۔ اس سے پہلے کسی نوجوان نے مجھے متاثر نہیں کیا تھا۔ احمر ہی میری زندگی میں آنے والا پہلا شخص تھا۔ جس نے میرا دل اپنی مٹھی میں لے لیا تھا۔ اور محبت کے جذبے کی آفرینی کا پہلی بار احساس ہوا تھا۔ بے اختیار میں اُسے خط لکھنے بیٹھ گئی اور صاف لکھ دیا کہ احمر میں آپ سے شادی کروں گی، آپ کا گھر بسائوں گی، آپ پر ترس کھا کر نہیں اپنی خوشی کی خاطر کیونکہ مجھے آپ سے محبت ہے۔ خط روانہ کر چکی تو سوچنے لگی۔ یہ کیا لکھ دیا ہے اب کیسے اس امر کو ممکن بنا پائوں گی؟ امی ابو کو کیونکر راضی کروں گی۔ وہ تو کسی صورت ایک معذور شخص کو میرا جیون ساتھی بنانے پر راضی نہ ہوں گے۔ وہ نہ مانے تو یہ وعدہ بھی کیسے نباہ پائوں گی کیونکہ میں ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہوں۔ خط کا جواب آگیا۔ احمر نے اپنے بارے تفصیل سے ؟ بات لکھ دی، شاید مجھے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی تھی، کہ میں ایک اپاہج کے ساتھ عمر بھر نباہ نہ کر پائوں گی۔ میری زندگی اجیرن ہو کر رہ جائے گی اور بعد میں اپنے اس فیصلے پر بے حد پچھتائوں گی۔ میرے علاوہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو احمر کا خط پڑھ کر یقیناً اپنارادہ بدل دیتی۔ اس نے صاف لکھا تھا کیوں اپنے آپ کو کنویں میں گرانا چاہتی ہو۔ جان بوجھ کر خود کشی کرنا چاہتی ہو۔ اس کی صاف گوئی سے میرے دل میں اس کے لئے زیادہ جگہ بن گئی۔ میں احمر سے ہی شادی کروں گی، دل نے فیصلہ کر لیا۔ اب والدین کو آگاہ کرنا بہت جان جو کھم کا کام تھا۔ کئی دن سوچوں میں غلطاں و پریشان رہی۔ ڈیوٹی سے بھی چھٹی لے لی۔ امی ابو سلیمان کے لئے میرے جواب کے منتظر تھے کیونکہ چاچا، چچی ہمارے گھر کے چکر لگا رہے تھے۔ انہوں نے یہ شرط بھی رکھ دی کہ ماریہ شادی کے بعد ملازمت نہیں کرے گی۔ اب ایک ہی حل تھا کہ دل کی بات سمجھانے کی خاطر احمر کے خطوط اپنے والد کو دے دوں فیصلہ تو آخر میں انہوں ہی نے کرنا تھا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ ان خطوط کو پڑھ کر ابو کو جیسے سکتہ ہو گیا۔انہوں نے مجھے پیار سے سمجھایا۔ بیٹی کچھ تو سوچو ! تم کیا کرنے جارہی ہو؟ یہ ایک دو دن کی بات نہیں، یہ عمر بھر کا سودا ہے اور بڑے خسارے کا سودا ہے۔ محبت وغیرہ ہوائی چیز کا نام ہے۔ اصل زندگی اور حقائق زندگی کچھ اور ہیں۔ ماں نے بھی کہا۔ بیٹی عورت کے لئے شوہر ایک سہارا ہوتا ہے اور اگر شوہر ایسا ہو تو، تم کب تک اس کی بیساکھی بن کر رہو گی۔

مجھے امی ابو کی باتیں اچھی نہ لگیں۔ اپنی اولاد کی خاطر وہ آج کتنی خود غرضی سے سوچ رہ تھے۔ اس دن مجھے اپنے والدین بہت سنگدل نظر آئے ، میں خود غلطی پر تھی کہ وہ ؟ اس کا فیصلہ نہیں کر پارہی تھی یہ فیصلہ تو کوئی دوسرا شخص ہی کر سکتا تھا، جو بالکل غیر جانبدار ہو۔ اسپتال میں ایک لیڈی ڈاکٹر میری دوست تھی۔اس سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا۔ احمر سے شادی مت کرو بلکہ والدین کی بات مان لو۔ بعد میں بہت مسائل ہوں گے اور تم اس امتحان میں پوری نہ اتر سکو گی۔ میں اُدھر سے بھی مایوس ہو گئی۔ اب سرجن صاحب باقی رہ گئے تھے۔ وہ بزرگوں کی طرح شفقت کرتے تھے۔ اپنا مسئلہ ان کو بتایا، صلاح لی۔ وہ کہنے لگے۔ ماریہ ! میری رائے یہ ہے کہ اپنے والدین کا کہا مان لو۔ ایک اپاہج کے ساتھ عمر بسر کرنا بہت کٹھن رہے گا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر پھر سے احمر کا سہارا لیا۔ اسے بتایا کہ سب مجھے منع کر رہے ہیں۔ کیا نیکی کرنا بہت مشکل کام ہے۔ چلو اور نہیں تو اس کو یہ لوگ نیکی کا کام سمجھ لیں ؟ ایک اپاہج کو بھی تو ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تو سبھی میری حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ میں بھی یہی کہوں گا، کہ سب تم کو ٹھیک صلاح دے رہے ہیں۔ تم ایک بڑی جذباتی غلطی کرنے جارہی ہو ۔ لہذا اب بھی وقت ہے سوچ سمجھ لو۔ اس میں کوئی تمہاری مدد نہیں کرے گا، میں بھی تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکوں گا۔ مجھے بھی سہارا چاہئے ، تو میں تم کو کیسے صحیح رائے دے سکتا ہوں ؟ میں شروع سے ہی ایک ضدی لڑکی تھی، جو جی میں آجاتا، کر گزرتی۔ احمر کے سمجھانے سے بھی نہ مانی اور اس کے ساتھ شادی کا فیصلہ کر لیا۔ امی بہت دکھی ہو ئیں۔ وہ دوبارہ بیمار پڑ گئیں۔ میری بربادی کی فکر سے پہلے ہی میری طرف کی فکر سے آزاد ہو کر اس دنیا سے چلی گئیں۔ امی کی وفات کا بھی غم جتنا مجھے تھا، اتنا کسی کو نہ ہو گا۔ لیکن موت کا غم ہر ایک کو سہنا پڑتا ہے۔ والدہ کی وفات کی اطلاع میں نے احمر کو دی وہ اپنے والدین کے ہمراہ تعزیت کو آیا۔ یہ لوگ دوسری بار آئے تو ابو سے میرے رشتے کی بات کی۔ میں ان کو اپنا عندیہ دے چکی تھی، لہذا والد نے مجبورا، میری خوشی کی خاطر ایک معذور نوجوان کو اپنا داماد بنانا قبول کر لیا۔ میں اپنے والد کی عظمت کو سلام کرتی ہوں، جنہوں نے میری خواہش کو عزیز جان کر مجھ کو زبر دستی کسی اور سے شادی کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ خود وہ کتنے دُکھی ہوئے تھے اس فیصلے پر ، میں جانتی ہوں مگر میری مرضی کا احترام کیا، صرف اتنا کہا کہ کسی مجبور کو سہارا دینے کی ہمت کر لی ہے تو پھر اس رشتے کو عمر بھر کے لئے نباہنا، بیچ منجدھار میں نہ چھوڑ دینا۔

میری احمر سے شادی ہو گئی، بہت خوش تھی۔ مجھے مراد مل گئی تھی۔ سچ بات لکھوں گی کہ بعد میں ویسی خوشی نہ رہی جیسی ابتدا میں تھی۔ مجھے ابو کی کہی ہوئی باتیں یاد آتیں جو دل پر نقش ہو چکی تھیں۔ ابو فوت ہو چکے تھے ، میرا جو حق جائیداد میں بنتا تھا، بھائیوں نے مجھے دے دیا۔ احمر کے والدین بھی کھاتے پیتے لوگ تھے۔ ان کو بھی وراثت ملی جو بینک میں ہم نے ڈپازٹ کرادی۔ ان کو کمانے کی ضرورت نہ تھی، وہ سارا دن گھر میں ہوتے تھے۔ وہیل چیئر پر ادھر سے اُدھر گھومتے رہتے اور میں ان کے سامنے رہتی تھی۔ وہ کہتے تھے بس میرے سامنے رہا کرو۔ شاید ہر مرد شکی مزاج ہوتا ہے ، وہ بھی بلا کے شکی تھے۔ ذرا سی دیر بھی گھر سے باہر رہنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ اسی وجہ سے میں ملازمت بھی نہ کر سکی۔ جونہی گھر میں قدم رکھتی جھگڑ پڑتے یوں ہماری ازدواجی زندگی میں تلخی کی ابتدا ہوئی۔ میں ملازمت نہ چھوڑنا چاہتی تھی، لیکن احمر نے کہا۔ میں دُکان کھول لوں گا، تم کو کہیں جانے نہ دوں گا۔ تم گھر میں میرے سامنے رہو گی۔ ان کی خاطر نرسنگ چھوڑنی پڑی۔ وہ پھر بھی ناخوش رہتے۔ ان کا احساس محرومی بڑھتا گیا اور میں ہار مانتی چلی گئی تاکہ ان کے دل کو ٹھیس نہ لگے کیونکہ ان سے شادی کر کے ، سہارا بن جانے کا میرا اپنا فیصلہ تھا۔ ہر کسی نے منع کیا تھا۔ حتیٰ کہ خود احمر نے بھی سمجھایا تھا۔ بہر حال جو بھی حالات رہے ، میں نے نباہ کیا۔ اپنی طرف سے ممکن کوشش کی۔ پندرہ سال ان کی خوشی کی خاطر گھر میں قید رہ کر گزار دیئے ، ان کے بغیر گھر سے باہر نہ جاتی۔ شام کو روزانہ قریبی پارک میں لے جاتی تھی اور بھی جتنی زندگی تھی میں ایسے نباہ دیتی۔ ہماری شادی کے پندرہ برس بعد ایک دن اچانک ان کو تیز بخار آیا اور اس بخار میں دوسرے روز وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ مجھے ان سے محبت تھی۔ وہ جیسے بھی تھے، مجھے قبول تھے۔ کاش وہ اور زندہ رہتے ، مجھ سے محبت کرتے اور میں ان کی خدمت کرتی لیکن یہ اللہ کی مرضی کہ احمر کی زندگی کے دن ہی اتنے تھے۔ ان کے بعد رفتہ رفتہ مجھ پر بڑھاپا آنے لگا۔ میں بڑے بھائی کے گھر آگئی۔ ان کے بچوں کو اپنے بچے سمجھ لیا اور اپنا سب کچھ ان کو دے دیا۔ سب کہتے ہیں تم نے ایک معذور کے لئے اپنی زندگی بھر کی خوشیاں کھوئیں مگر میں سمجھتی ہوں کہ میں نے کچھ نہیں کھویا کیونکہ انسان اپنی روحانی طمانیت کے لئے اگر کچھ کھو دے تو میرے نزدیک یہ خسارے کا سودا نہیں ہے۔

Latest Posts

Related POSTS