ہم ایک گائوں میں رہا کرتے تھے، ابّا زمیندار کی زمینوں پر کام کرتے اور ماں کھجور کے پتّوں سے چٹائیاں، پنکھے اور چھابڑے بناتی تھی جو شہر کی دُکان پر بک جاتے، اُن دِنوں ہم بچّے تھے اور کھیتوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ ہمیں دو وقت کی روٹی سے مطلب ہوتا تھا۔ گھر میں غربت تھی۔ ہمیں اس غربت کا احساس نہ تھا۔ سر پر باپ کی شفقت کا سایہ اور ماں کی ٹھنڈی چھائوں میں میٹھی نیند سو جاتے تھے۔ ہوش سنبھالا تو وقت اور حالات کو بدلتا ہوا پایا۔
زمیندار نے اپنے مربع بیچ دیئے جس نے خریدے اس نے ٹریکٹر اور تھریشر بھی خرید لئے وہ کام جو ہل بیل اور کسانوں کے ہاتھ کرتے تھے، وہ مشینیں سرانجام دینے لگیں۔ زمیندار کو ابّا کی ضرورت نہ رہی۔ نیا مالک نئے ملازم ساتھ لایا تو میرا باپ بچارا بیروزگار اور ہم گھر سے بے دخل ہوگئے۔ ایک رشتے دار کراچی میں محنت مزدوری کرتا تھا۔ وہ گائوں آیا تو ابّا کو مشورہ دیا کہ تم کراچی آ جائو۔ محنت مزدوری ملے گی تمہاری روزی روٹی کا آسرا ہو جائے گا۔
والد دیہات کی زندگی کے عادی تھے اور کھلی فضا کے پروردہ انہیں بڑے شہر کی تنگی راس نہ آئی چند دن دوست کے ساتھ رہ کر مزدوری کرلی مگر بیمار ہو کر لوٹ آئے۔ اللہ جانے یہ کیسی بیماری تھی کہ موت کا بہانہ بن گئی اور وہ گائوں واپس آ کر صحت مند ہونے کی بجائے اس جہان سے سُدھار گئے۔ اب دُنیا میں کوئی ہاتھ ایسا نہ تھا جو دستِ شفقت ثابت ہوتا۔ ماں نے ہم تینوں بہنوں کو اپنے ناتواں بازوئوں سے کما کر کھلایا۔ پچیس برس کی عمر میں بیوگی ایک عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ ایک عورت کے لئے یہ وقت کڑا امتحان ہوتا ہے جب اس کا جیون ساتھی اُس پر تین بچوں کا بوجھ ڈال کر راہیٔ ملکِ عدم ہو جائے۔
ماں خوبصورت تھی جوان تھی۔ اُسے دُوسری شادی کے لئے پیغام ملنے لگے مگر اس خوف سے ہر پیغام کو ٹھکرا دیا کہ تین لڑکیوں کا ساتھ تھا۔ ڈر تھا دُوسرا شوہر صحیح نہ ہوا تو بچیوں کی زندگیاں عذاب ہو جائیں گی۔ ماں نے محنت مشقت کا رستہ چُن لیا۔ وہ چہرے پر دوپٹہ لپیٹ کر سارا دن سڑک کے کنارے پتھر کوٹنے کی مزدوری کرتی مگر کسی کو اس کی طرف اُنگلی اُٹھانے کی جرأت نہ ہوتی… اِسی وجہ سے گائوں میں اُس کی عزت قائم رہی۔ اس قربانی کا یہ صلہ ملا کہ ہم تینوں بہنوں کے رشتے آتے گئے اور ہم باری باری اپنے اپنے گھروں کی ہو گئیں۔
ہمارا ایک بھائی تھا جو ہم تینوں سے چھوٹا تھا۔ وہ ڈیڑھ سال کا تھا جب اسہال کی بیماری کی وجہ سے چل بسا۔ اب داماد ہی میری ماں کے بیٹے تھے۔ وہ کبھی ایک داماد کے گھر تو کبھی دُوسرے کے گھر رہتی تھیں۔ میری شادی جس شخص سے ہوئی وہ غریب ضرور تھا مگر محنت کش اور اپنے کنبے سے محبت کرنے والا انسان تھا۔ اُس کا نام الیاس تھا۔ میری منجھلی بہن کی شادی قدرے خوشحال شخص سے ہوئی تھی جس کا کپڑے کا کاروبار تھا… وہ اپنے گھر خوش تھی۔ میری غربت کا اسے بہت احساس تھا۔ اُس نے اپنے شوہر سے کہا کہ اگر تم تھوڑی سی مدد کر دو اور الیاس بھائی کو ایک رکشہ لے کر دے دو تو میری بہن کے گھر میں بھی دو وقت کی روٹی کا سامان ہو جائے گا۔
اسلم بھائی نے مہربانی کی اور میرے شوہر کو رکشہ خرید کر دے دیا کہ جب توفیق ہو رکشہ کی قیمت ادا کر دینا ورنہ کوئی بات نہیں، تمہاری روزی کا سامان ہو جائے تو مجھے تمہارے بچّے دُعا دیں گے۔
شادی کے آٹھ سال سکون سے گزر گئے۔ اس دوران، میں تین بیٹیوں کی ماں بن گئی۔ بیٹے کی آرزو تھی الیاس مجھے آزردہ دیکھ کر تسلی دیتے تھے کہ بیٹیاں بھی اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔ تم دِل چھوٹا نہ کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ بیٹا بھی دے گا۔ ابھی بیٹیاں ہیں تو ان کی قدر کرو۔
گائوں میں رکشے کی سواری کم ملتی تھی۔ سواری مل جاتی تو کرایہ کم دیتے تھے۔ رکشے سے بھی گزر بسر صحیح طرح نہ ہوئی، تب میری چھوٹی بہن نے مشورہ دیا کہ تم لوگ شہر چلے جائو۔ شہر میں رکشے کی سواریاں بہت ملتی ہیں اور کرایہ بھی ٹھیک دیتے ہیں۔ گائوں میں رہ کر رکشہ چلانے سے حالات سُدھرنے والے نہیں۔ میری یہ چھوٹی بہن بیاہ کر شہر چلی گئی تھی اور اس کے شوہر کی وہاں کریانہ کی دُکان تھی لہٰذا ان کی گزر بسر اچھی ہو جاتی تھی۔
بہنوں کے بہتر حالات دیکھ کر میں نے الیاس کو مجبور کیا کہ گائوں چھوڑو جہاں سارا دِن لاری اڈّے پر کھڑے ہو کر سواریوں کے انتظار میں سوکھتے رہتے ہو۔ صبح سے شام ہو جاتی ہے… کسی بڑے شہر میں چل کر رہتے ہیں۔ آخر بچوں کا پیٹ تو بھرنا ہے۔ یہ اسکول میں جا کر دو چار جماعتیں بھی پڑھ لیں گے۔
الیاس نے میری بات مان لی اور ہم ایک قریبی شہر چلے گئے۔ یہاں آ کر شروع میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے پہلے مسئلہ رہائش کا تھا۔ بہت بھاگ دوڑ کے بعد ایک درمیانے درجے کے علاقے میں مناسب گھر مل گیا۔ گرچہ کرایہ تھوڑا سا زیادہ تھا لیکن پانی، بجلی اور گیس کی سہولت موجود تھی۔ الیاس سارا دن رکشہ چلاتے اور دن بھر کی کمائی لا کر میری ہتھیلی پر رکھ دیتے۔ جلد ہی ہم اس قابل ہوگئے کہ مکان کا کرایہ ادا کرنے کے بعد پیٹ بھر روٹی کھانے لگے۔ تینوں بچیاں بھی ایک نزدیکی سرکاری اسکول میں جانے لگیں۔ الیاس کی کوشش ہوتی کہ وہ رات گئے لاری اَڈّے سے بھی سواریاں اُٹھا لیا کرے، تبھی ان کو گھر آنے میں دیر ہو جاتی تھی۔
یہ چاند رات تھی جب وہ رکشہ لے کر گئے تا کہ کمائی ہو تو بچیوں کے لئے عید کا سامان اور تحفے خرید کر لا سکیں اور ہماری خوشیاں دوبالا ہو جائیں۔ وہ واپس لوٹنے والے تھے کہ ایک سواری نے انہیں روکا اور کہا کہ قریبی گائوں جانا ہے۔ یہ گائوں شہر سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ رات کا وقت تھا میری بچیاں اپنے بابا کے لوٹ کر آنے کا انتظار کر رہی تھیں۔
الیاس کا جی نہ چاہتا تھا مزید سواری اُٹھانے کو، لیکن پھر سوچا کہ یہ آخری سہی۔ سواری نے دُور جانا ہے تو پیسے بھی اچھے مل جائیں گے۔ اشارہ کرنےوالا آدمی جب نزدیک آیا تو وہ اس سواری کو اُٹھانے پر مجبور ہوگئے کیونکہ اس نے پولیس کی وردی پہن رکھی تھی۔ الیاس نے اپنے دوست سے کہا جو پہلے سے ان کے رکشے میں بیٹھا ہوا تھا۔ یار باسط… آج تم کسی اور رکشے میں گھر چلے جائو۔ مجھے سواری مل گئی ہے۔
باسط دُکان دار کا گھر ہمارے گھر کے برابر تھا۔ اسی وجہ سے جب الیاس گھر لوٹتے تو اکثر باسط بھی دُکان بند کر کے سڑک پرکھڑا مل جاتا۔ پڑوسی ہونے کے ناتے اسے رکشے میں بٹھا لیا کرتے تھے۔ ہاں بھئی… میرے گائوں چلنا ہے۔ وہ رکشے پر بیٹھ چکا تھا۔ الیاس نے کہا۔ صاحب آج چاند رات ہے کل عید ہے، بچوں کے لئے کچھ لے کر جانا ہے۔ کرایہ سو روپیہ آپ کو دینا ہوگا۔ ہاں ہاں، لے لینا اب چلو بھی، مجھے دیر ہو رہی ہے۔ باسط کو الیاس نے جیب سے کچھ رقم نکال کر دی اور کہا یہ میرے گھر دے دینا۔ اپنی بھابی سے کہنا مجھے دیر ہو جائے تو خود محلّے کے اسٹور سے جا کر بچیوں کو چیزیں لے دے، ورنہ میرے لوٹنے تک وہ سو جائیں گی۔
باسط نے رقم پکڑ لی اور الیاس نے رکشہ آگے بڑھا دیا۔ جب سواری کی منزل ایک فرلانگ رہ گئی تو اس نے الیاس کو رُکنے کا کہا اور رکشہ سے اُتر پڑا۔ قریب ہی ایک سائیکل والا جارہا تھا۔ وردی والے نے اُسے روکا۔ اُوئے کاکا۔ ٹھہر، مجھے بھی گائوں جانا ہے۔ سائیکل والا نوجوان ٹھہر گیا۔
کرایہ سو روپے طے ہوا تھا جو بغیر دیئے وہ چلتا بنا تو الیاس نے رکشہ چلا کر سائیکل کے مقابل روک دیا اور کہا۔ بڑے صاحب آپ شاید کرایہ دینا بھول گئے ہیں۔ بڑے صاحب نے مونچھوں پر تائو دے کر کہا۔ پہلے کبھی کرایہ دیا ہے جو اب دوں گا۔ الیاس نے رکشہ اور آگے بڑھا کر سائیکل کو رُوکا اور کہا۔ صاحب آج چاند رات ہے کل عید ہے کرایہ تو آپ سے ضرور لوں گا میں۔ اُس پر وہ غصّے سے بُھنّا کر اُترا اور گالی دے کر کہا۔ دفع ہو۔ ہٹ راستے سے۔ بڑا آیا کرایہ لینے والا۔
الیاس گالی برداشت نہ کر سکا اور اس نے آگے بڑھ کر اس کا گریبان پکڑ لیا۔ ایک غریب رکشہ والے کی اتنی جرأت؟ یہ جرأت اُسے پسند نہ آئی اور اس نے پستول نکال لیا۔ چھوڑ گریبان ورنہ یہ گولی تیرے سینے کے پار کر دوں گا۔
میں تیرے پستول سے نہیں ڈرتا۔ الیاس نے کہا۔ کرایہ لے کر رہوں گا۔ رکشہ والے بھیّا۔ چھوڑو کرایہ تم چلے جائو۔ بڑے صاحب کا غصہ نہیں جانتے کیا۔ سائیکل والے کاکا نے منت کی۔
بڑے صاحب نے سائیکل والے کاکا کو بھی دُھتکار دیا اور کہا۔ تو بھی چلا جا۔ دفع ہو جا یہاں سے۔ میں خود آ جائوں گا۔ وہ ڈر کر آگے کو چلا ذرا دیر بعد اُسے پستول کے چلنے کی آواز سُنائی دی۔ سائیکل سوار نے مڑ کر دیکھا۔ رکشہ والا اپنے رکشے کا سریا پکڑ کر جھول رہا ہے اور وہ شخص لمبے لمبے ڈگ بھرتا سڑک سے نیچے اُتر گیا تھا۔
کاکا پلٹ کر آیا اس نے الیاس کو سہارا دے کر رکشے میں ڈالا اور اپنی سائیکل سڑک کےکنارے ایک طرف کھڑی کر کے وہ رکشے کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا وہ رکشہ چلانا جانتا تھا اور یہ باسط کا برادر نسبتی تھا جو کبھی کبھی سائیکل پر اپنی بہن سے ملنے باسط کے گھر آیا کرتا تھا۔ وہ رکشہ لے کر ہمارے گھر کے دروازے تک آیا اور کہا۔ بہن جی… ان کا خون بہت بہہ گیا ہے شاید پہلو میں کہیں گولی لگی ہے۔ باسط بھائی کو بلاتا ہوں تاکہ انہیں اسپتال لے جائیں۔
وہ باسط کو بلانے گھر کے اندر چلا گیا اور جب دونوں بھائی باہر نکلے میرے شوہر بیہوش ہو چکے تھے۔ دونوں الیاس کو اسپتال لے گئے۔ انہوں نے اپنا خون بھی دیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس واقعے کو بہت عرصہ گزر چکا ہے، وہ پولیس والا بھی اب اس دُنیا سے سُدھار گیا ہے لیکن یہ واقعہ جس نے میری اور میری بچیوں کی زندگیوں میں گہرے زخم ڈالے آج بھی ہمارے ذہنوں میں پہلے دن کی طرح تازہ ہے۔ میں آج بھی اس بات پر حیران ہوں کہ صرف سو روپے کی خاطر اس سنگدل نے میرا سہاگ اُجاڑ ڈالا اور میری تینوں بچّیاں اسی طرح یتیم ہو گئیں جیسے ہم بہنیں ہوئی تھیں۔
ماں نے گائوں میں محنت مزدوری کر کے ہمیں پروان چڑھایا تھا لیکن وہ دور اور تھا آج اپنی بچیوں کو پالنے کی خاطر مجھے گائوں چھوڑ کر شہر آنا پڑا۔ ایک رشتے دار نے بتایا کہ کراچی میں گھریلو کام کے لئے کوٹھیوں کی بیگمات کو مددگار عورتوں کی ہمہ وقت حاجت اور ضرورت رہتی ہے۔ وہ ان عورتوں کو اچھے پیسے ادا کرتی ہیں۔ کھانا اور پرانے کپڑے بھی دیتی ہیں… صرف وہاں رہائش کا مسئلہ حل کرنا ایک مشکل مرحلہ ضرور ہے مگر کام مل جاتا ہے۔
اُسی رشتے دار نے ایک ماہ ہمیں اپنے کرایے کے مکان میں ٹھہرایا ایک کمرہ رہنے کو دیا۔ ہم نے ایک ماہ جوں توں گزارہ۔ مجھے اور میری تینوں بچیوں کو کام مل گیا۔ تینوں کو اتنی اُجرت مل جاتی کہ ہم نے ایک چھوٹا سا گھر بھی کرائے پر لے لیا۔ ایک میں ہم، دُوسرے کمرے میں ایک بیوہ اس کے دو بچّے اور ساس رہائش پذیر تھے۔ اسی عورت نے ہمیں بنگلے میں کام دلوایا تھا اور بنگلے والی بیگم نے میری بچیوں کو اپنی بہن کے گھر رکھوا دیا۔ میری بیٹیوں کا کام بیگم کےچھوٹے دو بچوں کو سنبھالنا اور کھلانا تھا۔
اللہ تعالیٰ بڑا رازق ہے۔ اس نے ہماری روزی کا سامان کر دیا اور مجھے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ پڑی۔ تبھی سے میں یہاں کام کر رہی ہوں۔
پندرہ برس گزر گئے ہیں۔ میں نے محنت سے رقم جوڑ کر اپنی بچیوں کی شادیاں بھی کر دی ہیں۔ ان کے شوہر یہاں رکشے چلاتے ہیں لیکن مجھے بہت ڈر لگتا ہے اور میں اپنے دامادوں سے کہتی ہوں۔ بیٹا رکشہ ضرور چلانا لیکن کسی طاقت ور سے مت اُلجھنا کیونکہ مجھے الیاس کا انجام یاد ہے۔ جسے گولی مارتے ہوئے اس سنگدل انسان نے یہ تک نہ سوچا کہ اس کے ساتھ کتنی زندگیاں وابستہ ہوں گی جو اس کےبعد ٹھوکریں کھانے کو تنہا رہ جائیں گی۔ (ک… کراچی)