شازیہ ہمارے گھر کے قریب رہتی تھی اور میرے ساتھ ہی ، ہماری گاڑی میں کالج آتی جاتی تھی۔ ایک روز چھٹی کے وقت امی کا فون آیا کہ ڈرائیور کسی کام سے چھٹی پر چلا گیا ہے ، تم شازیہ کے ساتھ رکشہ میں گھر آجاؤ۔ اسٹاپ پر کچھ دیر انتظار کے بعد شازیہ بولی۔ بینا ! کوئی رکشہ تو آتاد کھائی نہیں دے رہا، چلو بس میں چلتے ہیں۔ اسی وقت ہماری مطلوبہ بس بھی آگئی۔ اس نے میرا بازو پکڑا اور بولی۔ جلدی سے اس میں چڑھ جاؤ، ورنہ دوسری بس گھنٹہ بھر بعد ملے گی ۔ یوں ہم دونوں بس میں سوار ہو گئیں۔ ہمارے کالج کی اور بھی لڑکیاں اس بس میں سوار تھیں۔ رش کی وجہ سے ہم دونوں کو سیٹ نہ ملی، اس لئے کھڑے ہو کر چھت کا ڈنڈا پکڑے ہوئے تھیں۔ مجھے اس طرح سفر کرنے کا تجربہ نہ تھا، اس لئے اپنا توازن برقرار رکھنا محال ہو رہا تھا۔ اگلے اسٹاپ پر بس رکی تو تین لڑ کے لیڈیز کیبن کے دروازے سے سوار ہوئے اور ہمارے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ ہمیں بہت برا لگا۔ دو تین مرتبہ کنڈیکٹر نے ان سے کہا کہ یہ لیڈیز کیبن ہے ، آپ لوگ مردانے حصے میں جائے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے ، بلکہ دھمکیاں د ینے لگے کہ تم جانتے نہیں ہم کون ہیں ؟ ہم اس شہر کے راجہ ہیں راجه ، زیادہ بات کی تو گاڑی سے اتار کر تمہاری دھنائی کریں گے۔ ڈر کے مارے، میں تو کانپ رہی تھی۔ اتنے میں ڈرائیور نے گاڑی روک کر ان لڑکوں سے کہا۔ تم لوگ لیڈیز سائیڈ سے اُتر جاؤ، ورنہ میں بس نہیں چلاؤں گا۔ یہ سنتے ہی وہ تینوں ڈرائیور پر جھپٹے اور اسے بری طرح پیٹنے لگے۔ میں تو خوف سے لرز رہی تھی اور اس وقت کو کوس رہی تھی، جب شازیہ کے کہنے پر بس میں سوار ہوئی تھی۔ یہ سلسلہ جانے کب تک جاری رہتا کہ ہجوم میں سے ایک نوجوان نمودار ہوا اور تینوں لڑکوں پر بجلی کی مانند گرا۔ اس نے ان تینوں کی ایسی پٹائی لگائی کہ وہ بھاگ نکلے۔ اس سے پہلے کہ لوگوں کو لڑائی کا سبب پتا چلتا ، ہم دونوں بس سے اتر کر رکشہ میں سوار ہو گئیں۔
گھر آکر بھی میں پریشان تھی امی نے وجہ پوچھی مگر میں نے اس واقعے کا ذکر نہ کیا۔ دن گزرتے گئے، مگر میرے ذہن سے اس نوجوان کا خیال نہ نکلا جس نے ان آوارہ لڑکوں کا دماغ ٹھکانے لگایا تھا۔ اس واقعہ کو دو ماہ گزر گئے۔ کالج کا ٹرپ پکنک پر جانے کو تیار ہوا۔ ہم سب طالبات بہت خوش تھیں۔ سب نے خوب انجوائے کیا، تبھی اچانک میری نظر سامنے سے آتے نوجوان پر پڑی۔ یہ وہی دلیر لڑکا تھا۔ میں محو ہو کر اسے دیکھنے لگی کہ یہ کہاں سے آگیا ہے یہاں ؟ اونچ لمبا، گند می تانبے جیسی سرخی مائل رنگت ، وہ اکیلا تھا۔ میں نے شازیہ سے کہا۔ یہ وہی ہے نا! وہ بولی۔ ہاں، وہی لگتا ہے۔ چلو اس کو شکر یہ کہتے ہیں۔ نہیں بھئی ، خدا جانے کون ہے۔ مگر شازیہ نے اس کی جانب قدم بڑھا دیئے ۔ وہ دلیر لڑکی تھی، اس نے بات چیت کے لئے پہل سلام سے کی ، مگر نوجوان نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا یا اس نے ہم کو پہچانا ہی نہ تھا۔ اس کی بے نیازی پر میری سہیلی کا خفت سے منہ اتر گیا، تو میں آگے بڑھی اور اس کی شرمندگی مٹانے کو اس لڑکے کو سلام کیا اور حیرت زدہ رہ گئی کہ اس نے میرے سلام کا جواب نرمی سے دیاتاہم میں بات بڑھانے کی ہمت نہ کر سکی، تبھی شازیہ نے بات شروع کر دی۔ بولی۔ دراصل ہم آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ اس دن ہماری وجہ سے لڑائی ہوئی تھی اور آپ نے ان بد معاشوں کو مار بھگایا تھا۔ میں آپ کا شکر یہ قبول کرتا، اگروہ میں ہوتا۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، میں نے کسی کی خاطر لڑائی نہیں کی۔ اس کا جواب سن کر ہم دونوں چپ رہ گئیں۔ یہ بحث نہیں کی کہ اس روز آپ ہی تھے، مگر شازیہ نے ہمت کر کی اس کا نام پوچھ لیا۔ تب اس نے عجیب سا نام بتایا یتیم ۔ لڑکیاں بس میں سوار ہو رہی تھیں۔ ہمیں بھی جانا تھا، تبھی بس چل پڑی۔ تمام راستہ میں شازیہ سے کہتی گئی کہ یہ وہی شخص تھا اور وہ کہتی کہ یہ وہ نہیں تھا، ہم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر وہی ہوتا تو اس کو اقرار کرنے میں کیا قباحت تھی ؟ دن گزرتے گئے ، ہمارے پرچے شروع ہو گئے۔ مجھے دن رات محنت کرنا پڑی۔ پرچے ختم ہوئے۔ گھر میں کچھ پریشانی تھی کیونکہ والد کی ریٹائر منٹ قریب تھی اور وہ سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں۔ ایک دوست نے ان کو مشورہ دیا کہ میرے ساتھ فیکٹری میں حصہ دار بن جاؤ۔ پاپا نے سوچا کہ کاروبار تو کرنا ہی ہے یوں وہ بزنس کی طرف آگئے۔ شروع میں کافی پریشانی رہی، لیکن پھر کار و بار بالآخر چل پڑا اور کمائی کا دروازہ کھل گیا۔ پاپا اب اپنا تمام وقت بزنس کو دیتے۔ کچھ عرصہ بعد ان کے شراکت دار نے کنیڈا شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا اور سارا بزنس میرے والد کے حوالے کر گئے۔ اب ان کو کسی معاون کی ضرورت تھی، لہٰذا وہ بھائی نادر کو ساتھ لے جانے لگے تاکہ یہ کچھ کار و باری رموز سیکھ لے تو ان کا دست راست بن جائے۔ ایک دن اچانک ہمارے گھر پر غم کے بادل چھا گئے۔ فیکٹری سے گھر آتے ہوئے میرا جان سے پیار بھائی غنڈوں میں گھر گیا۔ انہوں نے کافی رقم کا مطالبہ کیا جو وہ نہ دے سکا۔ انہوں نے بے رحمی سے نادر بھائی کو گاڑی سے کھینچ کر باہر نکالا اور گولی مار کر سڑک پر پھینک گئے۔
پاپا بزنس کے سلسلے میں بنکاک گئے ہوئے تھے۔ ہم اسپتال پہنچ تو پتا چلا کہ بھائی کا آپر یشن ہو رہا ہے۔ جب ڈاکٹر صاحب باہر آئے تو دل دھک دھک کرنے لگا۔ انہوں نے تسلی دی کہ گولی ٹانگ میں لگی ہے اور حالت خطرے سے باہر ہے۔ شکریہ ادا کیجئے اس شخص کا، جس نے آپ کے بھائی کو زخمی حالت میں دیکھا تو بر وقت اسپتال پہنچادیا، ورنہ زیادہ خون بہہ جانے سے جان بھی جاسکتی تھی۔ جب ہم اندر گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جان بچانے والا وہی شخص تھا، جس کا ہم نے پکنک پوائنٹ پر شکریہ ادا کیا تھا۔ امی کی حالت تو ابھی تک نہ سنبھل رہی تھی۔ ان کارو رو کر برا حال تھا۔ بھیا کو ہوش آچکا تھا۔ انہوں نے ماں کو تسلی دی کہ اب میری حالت ٹھیک ہے۔ اللہ نے بڑا کرم کیا ہے ، پھر اس شخص کا پوچھا جو ان کو اسپتال لایا تھا۔ امی نے اس کو اندر بلا کر نا پوچھا۔ ” یتیم“۔ اس نے جواب دیا۔ اس کے نام کی عجائبت نظر انداز کرتے ہوئے ماں نے اس کو بہت دعائیں دیں۔ بیٹا تمہارا ہم پر بڑا احسان ہے کہ تم نے اسے اسپتال پہنچا کر اس کی زندگی بچالی۔ میں اکیلا نہیں تھا ماں جی ! خوش قسمتی سے میں اپنے ایک واقف کار کی ویگن میں تھا، ہم کسی کام سے وہاں سے گزر کر جارہے تھے۔ اس شخص کو میں نے کہا کہ ہم اس زخمی کو اسپتال لے جاتے ہیں۔ اس نے میرا کہا مان لیا، تبھی یہ ممکن ہو سکا۔ شکریہ اس کا ادا کرنا چاہیے کہ گاڑی اس کی تھی۔ اس کے بعد یتیم صاحب نے امی سے اجازت طلب کی اور چلا گیا۔ جاتے ہو کہا کہ آپ اپنا فون نمبر دیں تو میں بھائی کی خیریت دریافت کرلوں گا۔ امی نے پرس سے کارڈ نکال کر اس کو دے دیا جس پر پاپا کا نمبر لکھا ہوا تھا۔ میں اس کا شکر یہ خود ادا کرنا چاہتی تھی مگر اس نے موقعہ نہیں دیا۔ اس سے بات نہ کر پانے کا افسوس میرے دل کو تڑپانے لگا۔ بعد میں اس نے پاپا کو کال کر کے نادر کی خیریت دریافت کی اور کئی بار بھیا کو دیکھنے اسپتال بھی گیا۔ بھیا ٹھیک ہو گئے تو ڈا کٹر نے گھر جانے کی اجازت دے دی تاہم اس دوران ان کی دوستی یتیم کے ساتھ ہو گئی تھی۔ تبھی میرے والد نے اسے گھر پر مدعو کر لیا۔ ہم نے اس کی کافی خاطر تواضع کی تو وہ شرمندہ سا ہو گیا۔ جب وہ جانے لگا تو میرے والد نے کچھ رقم لفافے میں رکھ کر بطور ہدیہ کے طور پر اس کو دینا چاہی مگر اس نے نہ صرف رقم لینے سے انکار کر دیا بلکہ والد صاحب کی یہ پیش کش اسے بُری لگی۔ اس نے کہا۔ میں نے انسانیت کے ناتے اپنا فرض ادا کیا۔ میں اپنی نیکی فروخت نہیں کرنا چاہتا۔ میں غریب ضرور ہوں، بلکہ جنم دن سے یتیم پیدا ہوا تھا اس لئے اپنا نام یتیم پسند کر لیا۔ میں پیسوں کا بھوکا نہیں ہوں ۔ تم تو بر امان رہے ہو بیٹا ! میں تم کو اپنے نادر کی جگہ سمجھتا ہوں۔ تم نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ، جس کی کوئی قیمت نہیں۔ یہ کہہ کر پاپانے اسے منالیا بلکہ وعدہ لے لیا کہ وہ دوبارہ بھی ہمارے گھر آئے گا۔ مجھے بھی اسے پیسے دینے کی بات اچھی نہ لگی تھی۔ میں نے امی سے کہا۔ پاپانے کسی کے خلوص اور نیکی کی قیمت لگالی جبکہ سب لوگ تو ایک جیسے نہیں ہوتے۔ وہ نیکی، نیکی کی خاطر کرتے ہیں، کسی معاوضہ کی خاطر نہیں۔ امی نے مجھے سمجھایا کہ تمہارے پاپانے اچھی نیت سے اچھائی کا بدلہ دینے کی کوشش کی ، اس میں برا منانے والی بات نہیں تھی۔ روپیہ بھی زندگی کی ایک بڑی حقیقت ہے۔ تمہارے پاپا نے برا نہیں کیا۔ بس غریب لوگ حساس ہو جاتے ہیں تو حقیقت کو بھی تسلیم کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔ میں تو سوچ رہی ہوں کہ اگر یہ لڑکا بر سر روز گار نہیں ہے ، تو کیوں نہ تمہارے پاپا سے فیکٹری میں ملازمت دے دیں۔ اس طرح اس کی مالی مشکلات بھی دور ہو جائیں گی اور احسان بھی ادا ہو جائے گا۔ رات کو جب پاپا آئے امی نے دو پہر والی بات چھیٹر دی۔ پاپا نے کہا۔ بیگم میں تو اس کا امتحان لے رہا تھا، جس نے اپنا نام یتیم رکھا ہوا ہے۔ واقعی وہ ایک بے غرض اور خود دار انسان ہے۔ ایسے لڑکے قابل بھروسہ اور ایمان دار ہوتے ہیں۔ نادر سے اس کی دوستی بھی ہو گئی ہے ، میرے خیال میں وہ نادر کے ساتھ بہتر طور پر کام کر سکے گا۔ ان کی باتیں سن کر میں بہت خوش ہوئی۔
اس بار وہ آیا تو والد نے اس سے پوچھا۔ تم کہیں کام کرتے ہو ؟ کام ڈھونڈ رہا ہوں۔ اس نے جواب دیا۔ کتنی تعلیم ہے ؟ یتیم خانے والوں نے میٹرک تک پڑھادیا تھا، آگے خود محنت مزدوری کر کے گریجویشن کیا اور اچھے نمبروں سے پاس ہوا تھا۔ پہلے بھی کہیں کام کیا ہے ؟ ہاں ، چھوٹی موٹی نوکریاں کرتارہا ہوں لیکن کوئی اچھی نوکری ابھی تک حاصل نہیں کر سکا۔ آپ تو جانتے ہیں جس کی پشت پر کسی کا ہاتھ نہ ہو ، اس کو اچھی ملازمت قسمت سے ہی ملتی ہے۔ یتیم ! ایک تو تم اپنا نام بدلو ، دوسرے تم میری پیش کش پر سنجیدگی سے غور کرو۔ مجھے اپنی فیکٹری میں ایک اچھے معاون کی ضرورت ہے۔ تم چاہو تو میرے پاس کام کر سکتے ہو۔ یتیم نے اس ملازمت کو قبول کر لیا اور روزانہ میرے والد کے آفس جانے لگا اور جو ڈیوٹی پاپانے اس کے ذمہ لگائی ، اسے خوش اسلوبی سے نباہنے لگا۔ والد نے خوش ہو کر اس کو مزید اہم ذمہ داریاں سونپ دیں۔ وہ اب بے فکر ہو کر کاروبار کی بڑھوتی کی خاطر بیرون ملک جا سکتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کو نادر سے زیادہ سوجھ بوجھ والا سا تھی میسر آگیا تھا۔ وہ اب نادر کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔ کہتے ، میرے اب دو بیٹے ہیں۔ اگر ایک میرے ساتھ ہوتا ہے ، تو دوسرا فیکٹری سنبھالتا ہے۔ ایک دن یتیم گھر آیا، اس نے پاپا کی گاڑی گیراج میں کھڑی کی اور جانے لگا، تو امی نے کہا۔ بیٹے، تم بینا کو اس کی سہیلی کے گھر تک چھوڑ دو۔ یہ اکیلی نہیں جاسکتی۔ میں تیار ہی بیٹھی تھی۔ وہ راستے بھر خاموش رہا، میں نے ہی بات شروع کی۔ آپ نے کبھی ہمیں اپنے گھر والوں کے بارے میں نہیں بتایا۔ ؟ اس نے کہا۔ میرے گھر والے ہیں ہی کتنے ؟ میری ماں وفات پاگئیں، والد مجھے نہیں پال نہیں سکتے تھے۔انہوں نے یتیم خانے جمع کرادیا۔ تب میں چار سال کا تھا۔ وہ ملنے آتے تھے اور کبھی کچھ رقم اور کپڑوں کا جوڑا دے جاتے تھے۔ وہ مزدوری کرتے تھے ، بعد میں انہوں نے شادی کر لی مگر مجھے واپس نہ لے کر گئے۔ ان کا کہنا تھا یہاں تم ٹھیک ہو نظام صاحب تمہار اخیال رکھتے ہیں۔ سوتیلی ماں اوپر کے کام کاج پر لگادے گی تو سکوں سے پڑھائی نہ کر سکو گئے۔ میٹرک کے بعد نظام صاحب کی اجازت سے میں والد کے پاس آگیا۔ محنت مزدوری میں ان ہاتھ بٹاتا اور ساتھ میں پڑھتا۔اس طرح گریجویشن کرلی اور چھوٹی موٹی نوکریاں کرتا رہا۔ کبھی ملازمت ہوتی کہ کبھی چھوٹ جاتی بس ایسے دن گزرتے رہے، والد وفات پاگئے تو سوتیلی ماں اپنے میکے چلی گئی۔ اب اکیلا رہتا ہوں۔ بس اتنی سی ہے میری داستان میری عادت ہے کہ اپنے بارے کسی کو کچھ نہیں بتاتا آج تم نے پوچھا ہے تو بتا دیا ہے ۔ میں نہ کہا پھر اپ کا نام یقیناً یتیم نہیں ہو گا۔ آپ کے والد نے کوئی اور نام رکھا ہو گا۔ انہوں نے میرا نام وارث رکھا تھا مگر اپنے جیتے جی لاورث کر دیا تو میں نے یتیم نام رکھ لیا۔ مجھے یہی پسند ہے اور ناموں سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے۔ کیوں نہیں ناموں کا بھی ایک اثر ہوتا ہے اس دوران میری سہیلی کا گھر آگیا اور میں اتر کر اس کے گھر چلی گئی وہ گھر پہنچا تو امی نے اس کو روک لیا، بولیں۔ بینا بیٹی کو واپس بھی تم ہی نے لانا ہے۔ اس کےبعد گھر چلے جانا۔ جب میں نے امی کو فون کیا کہ گاڑی بھیج دیں تو آدھ گھنٹے بعد یتیم گاڑی لے کر آگیا۔ واپسی پر اس نے اس قدر سنجیدہ شکل بنی ہوئی تھی کہ میری اس سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ شاید اسے مجھے لانے لے جانے والی یہ ڈیوٹی پسند نہ آئی تھی بہر حال، انسان کب تک چپ رہ سکتا ہے ؟ تبھی میں نے وہ سوال کر دیا، جو عرصے سے میرے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا۔ وارث ! سچ بتائیے۔ کیا آپ وہی ہیں جو ایک روز تین لڑکوں سے ہماری خاطر بس میں بھڑ گئے تھے۔ وہ کہنے لگا۔ یہ جو قصہ آپ بتاتی ہیں، وہ میں نہیں تھا۔ وہ کوئی دوسرا ہو گا ، شاید میرا ہم شکل …
ایک دن شازیہ ہمارے گھر آئی۔ اتفاق سے وارث بھی آیا ہوا تھا۔ شازیہ نے اسے سلام کیا اور بولی۔ یتیم صاحب ! کیا حال ہے آپ کا؟ اتنے میں امی آگئیں اور حیرت سے پوچھنے لگیں۔ ارے تم کب ہے اسے جانتی ہو ؟ تب اس نے بات بنائی کہ آنٹی ، بینا سے ذکر سنا تھا یتیم صاحب کا ، جب انہوں نے نادر بھائی کو زخمی حالت ہیں، سپتال پہنچایا تھا۔ وارث نے یہ باتیں سنی ان سنی کر دیں اور فائل لے کر چلا گیا۔ شازیہ اپنی سالگرہ کا کار ڈ دینے آئی تھی۔ کہنے لگی کہ میں اسے بھی مدعو کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا کہ کیا تمہارے گھر والے تم کو اس بات کی اجازت دے دیں گے ؟ وہ تو اجازت دے دیں گے لیکن، یہ میری دعوت قبول بھی کرے گا؟ کرے نہ کرے، تم دعوت نامہ دے دو۔ قبول کرلے گا تو مجھے تمہارے گھر لانے کے بہانے آجائے گا۔ ٹھیک ہے۔ اس نے ایک دعوت نامہ اس کے نام کا لکھ کر اگلے دن شام چار بجے مجھے جانا تھا۔ پاپا اور نادر آذر بائیجان گئے ہوئے تھے۔ اب مجھے شازیہ کے گھر لے جانے کی ڈیوٹی اس کی تھی۔ اس نے بہت کم لوگوں کو مدعو کیا تھا۔ وارث کو دیکھ کر وہ خوش ہو گئی اور میرے ساتھ اندر بلا لیا۔ پارٹی ختم ہو گئی تو گاڑی تک چھوڑ نے آئی اور اسی وقت وارث کو میرے حوالے سے کوئی ذو معنی بات کہہ دی۔ واپسی میں وارث نے مجھ سے کہا۔ کیا تم نے کوئی ایسی ویسی بات سہیلی سے کہی ہے ، جو وہ اس قسم کی بات کہہ رہی تھی ؟ اگر تم نے کچھ کہنا ہے، تو مجھ سے کہہ دو۔ اپنے اور میرے حوالے سے ، کسی اور سے کوئی ایسی ویسی بات نہ کرنا۔ اس سے تمہارے والد صاحب کی عزت خراب ہو گی۔ یہ موقعہ اچھا تھا۔ سو میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ وارث، میں تم کو تم پسند کرتی ہوں اور تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ یہ بات میں نے ایک سانس میں کہہ دی۔ اس نے جواب دیا کہ اگر نے یہ بات مجھے پہلے کہہ دی ہوتی تو میں تمہارے گھر تک ، تمہارے والد کی ملازمت تک ، تمہارے بھائی کی دوستی تک، غرض اتنی دور تک نہ آتا اور شاید پہلے دن ہی چلا جاتا۔ میں تم سے شادی نہیں کر سکتا۔ کیوں نہیں کر سکتے ؟ کیونکہ میں ایک بہت غریب آدمی ہوں۔ اب بھی ایک دوست کے دیئے ہوئے کوارٹر میں رہتا ہوں۔ بینابی بی ! تم میری بات سمجھو۔ میں جب بیروز گار ہو جاتا ہوں تو قرض لے کر گزارہ کرتا ہوں۔ مکان کا کرایہ قرض لے کر ادا کرتا ہوں۔ ایسے آدمی کو کیا شادی کرنا چاہئے؟ وہ کیسے بیوی سے انصاف کرے گا، اولاد ہو جائے تو کیونکر اسے پالے گا ؟ ایک یتیم کے سامنے یہ حقیقتیں بہت بڑی ہیں کیونکہ اس کی کسمپرسی اس کے لئے ایک مثال ہے۔ میں نے کہا۔ سب سے پہلے تو تم خود پر سے یہ یتیم کا لیبل ہٹاؤ۔ تمہارا نام وارث ہے، یتیم نہیں۔ نام کا انسان پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے، دوسری بات … اگر تم قرض دار ہو اور تمہارے حالات ابھی قرض ادا کرنے جیسے نہیں ہیں، تو یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ میں چیک سائن کر دیتی ہوں۔ اس سے، تمہارا قرضہ ادا ہو جائے گا، مگر اس بات کا ذکر ہم کسی سے نہیں کریں گے۔ دیکھو بینا ! تم مجھے اور میری مجبوریوں کو مت آزماؤ۔ ان کو میرے پاس ہی رہنے دو۔ میں شادی اس لئے بھی نہیں کروں گا کہ مجھے قرض ادا کرنا ہے ، لیکن تمہارے اکاؤنٹ سے نہیں اپنے محنت سے کمائے ہوئے پیسوں سے ، اور دیکھو ! میں غریب ہی نہیں ایک شریف آدمی بھی ہوں۔ میں تمہارے والد کا ملازم ہوں، لوٹ مار کرنے نہیں آیا۔
اس کی باتیں سن کر میرے آنسو نکل آئے کہ اتنا ایماندار آدمی، جس کے ہاتھوں میں میرے والد کا کروڑوں کا کاروبار ہے ، اس نے کبھی اپنے حالات کا ذکر تک نہیں کیا۔ اتنے میں گھر آگیا۔ وارث نے گاڑی گیراج میں کھڑی کی اور چلا گیا۔ میں نے ہمت کر کے امی کو اس کے بارے میں بتا دیا ۔ امی بولیں ۔ تمہارے پاپا واپس آجائیں تو میں ان کو سب بتا دوں گی۔ وہ اس کا قرض ادا کر دیں تو وہ پریشانیوں سے آزاد ہو جائے گا۔ پاپالندن سے آگئے تو موقعہ دیکھ کر امی نے تذکرہ چھیٹر دیا کہ بین اب شادی کے لائق ہے ، اس کی فکر کرنا چاہئے۔ پاپا نے جواب دیا۔ کوئی ایماندار، پڑھا لکھا، اچھا لڑکا ملے تو شادی کا سوچیں۔ لڑکا تو موجود ہے۔ یتیم ہو کر پلا بڑھا ضرور ہے مگر نیک، ایماندار اور پڑھا لکھا ہے۔ اچھی شکل و صورت ہے اور اس کی ایمانداری، فرض شناسی کو بھی آپ نے آزما لیا ہے۔ کوئی آگے پیچھے نہیں ہے۔ اس کو گھر داماد بنا لیجئے ، ہماری بیٹی ہمارے پاس رہے گی الله نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے ، بس ایک نیک داماد چاہئے۔ تم ٹھیک کہتی ہو۔ سچ کہوں تو میرے دل میں بھی یہی بات ہے۔ وہ ایک ایماندار نوجوان ہے۔ ویسے تم پہلے بیٹی سے پوچھ لو۔ کیا وہ اس کے ساتھ شادی پر راضی ہو جائے گی ؟ اگلے دن وارث آیا تو میں نے اسے بتایا کہ امی پاپا تمہارے ساتھ ، میری شادی کا سوچ رہے ہیں۔ اس نے جواب دیا۔ بینا ! انسان جو سوچتا ہے ، وہ ہوتا نہیں۔ شاید اگلے لمحے ہم ایک دوسرے سے دُور ہو جائیں۔ اس بات سے میں ڈر گئی۔ اصرار کر کے میں نے اسے کافی رقم کا چیک دیا کہ وہ قرض کے بوجھ سے نجات پالے اور تاکید کی کہ اس چیک کا کسی سے تذکرہ مت کرنا۔ بالآخر میرے اصرار سے ہار مان کر اس نے چیک لے لیا اور کہا۔ یہ قرض ہے تمہارا، وعدہ کرو کہ جب لوٹانے کے قابل ہو جاؤں تو تم یہ رقم واپس لے لو گی۔ میں نے وعدہ کیا کہ ہاں واپس لے لوں گی۔ دو ماہ بعد میرے والد نے پھر سے شادی کا ذکر چھیڑا میں نہ وارث کو آگاہ کیا کہ وہ تم سے ، تمہاری اور میری شادی کی بات کرنے والے ہیں۔ بتاؤ، کیا جواب دو گے ؟ وہ پریشان ہو گیا اور جب والد صاحب نے فیکٹری کے منیجر سے ذکر کیا کہ و ہ وارث کو داماد بنانے کا اراد در کھتے ہیں ، تب اس کو میری بات کا یقین ہو گیا۔ تبھی اس نے منیجر کے ہاتھ استعفیٰ دیا اور غائب ہو گیا۔ والد صاحب نے والدہ سے کہا کہ جو بھی معاملہ تھا، یتیم ملازمت چھوڑنے کی کوئی وجہ تو بتانی چاہئے تھی اور ہم سے مل کر جانا چاہئے تھا۔ اچانک غائب ہو جانے کی کیا تک ہے ؟ ضرور معاملہ کچھ اور ہے۔ یہ لڑکا اتنا بھی سیدھا نہیں ، جیسا نظر آتا تھا۔ خیر ، اللہ تعالی انسان کے حق میں بہتر ہی کرتا ہے۔ اب تم یتیم یا وارث ، جو بھی ہے ، اس کو بھول جاؤ۔ اس کے بعد ان کے ایک دوست کے توسط سے اچھا رشتہ مل گیا اور انہوں نے میری شادی ظفر سے کر دی۔ ظفر پڑھے لکھے اور خوشحال تھے ، اس سے بھی بڑھ کر وہ ایک اچھے انسان تھے۔ انہوں نے مجھے بہت سکھ دیا، تاہم دل میں ایک خلش تھی کہ اے کاش وارث نہ ملتا۔ گرچہ ہمارے درمیان نہ تو غلط مراسم تھے اور نہ پیار محبت کا کوئی کھیل کھیلا گیا تھا مگر وہ میرے دل کو بھایا تھا۔ دعا کرتی تھی کہ کاش ایک بار وہ کہیں نظر آجائے۔ پتا تو چلے کس حال میں ہے۔ خدا نے میری دعائن لی۔ شاید ، میرے دل سے اس کی یاد کا کانٹا نکالنا تھا، ورنہ یہ عمر بھر مجھے تکلیف دیتارہتا۔ ایک دن میں اپنے خاوند کے ساتھ بازار گئی۔ یہ چاند رات تھی۔ اچانک میری نظر ایک شخص پر پڑی۔ وہ ایک اسٹال پر کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ ، ایک عورت جو غالباً اس کی بیوی تھی اور پانچ بچے تھے۔ وہ بچوں کو خریداری کرار ہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا تو نگاہیں نیچی کر لیں۔ میں نے ظفر کا بازو پکڑ لیا اور کہا کہ گھر چلئے ، میری طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ شکر کرتی ہوں کہ وراث نے زیادہ دام نہیں پھیلا یا، ورنہ میں تو گرفتار ہونے کو بے قرار تھی۔