عید خوشی کے رنگوں میں سب سے منفرد اور یکتا رنگ ہے، مگر اس رنگ میں بھنگ ایک خاتون کی تصویر انٹرنیٹ پر وائرل ہونے سے پڑ گیا تھا۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس سے کئی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ سوشل میڈیا نے جس طرح سے اخلاقیات اور انسانی روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آج سے ڈیڑھ دو دہائیاں پیچھے چلے جائیں تو اخلاقیات، روایات اور احساسات میں گندھے خالص رشتے ملتے تھے۔ رابطے کم، مگر مضبوط تھے۔ نیکی بھی یوں کی جاتی تھی جیسے چوری چھپے گناہ کیا جاتا ہے، کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ عزت نفس، بھرم اور خودداری سلامت رہتی تھی۔ یہاں تک کہ کسی کے مر جانے کی خبر بھی کئی کئی دنوں بعد پہنچ پاتی تھی۔ پھر سائنس نے ترقی کی اور اخلاقی قدروں کو جیسے موت ہی پڑ گئی۔ پردے اور چاردیواریاں ختم ہوتی چلی گئیں۔ عزت نفس کا قتل عام ہونے لگا۔ لوگ کسی بھکاری کو دس روپے دے کر بھی یہی سوچتے ہیں کہ کاش یہ خبر بھی سوشل میڈیا پر بم کی طرح پھٹے اور بارود کی طرح پھیلتی چلی جائے۔ یہ بھی ایک ایسی بات تھی جو ہم کی طرح بلاسٹ ہو کر بارود کی طرح پھیلتی چلی گئی تھی۔ یہ ماہ صیام کی چوتھی شب تھی۔ نماز تراویح کے بعد لوگ اپنے بستروں میں گھسے، اگلے روزے کے منتظر تھے۔ بالآخر وہ رات بھی تمام ہونے کی نوید لے کر آگئی۔ اٹھو، جاگو! اللہ کی رحمتوں کا میلہ لوٹ لو۔ یہ شرف الدین کی آواز تھی جو گاؤں بھر کی گلیوں میں منادی کرکے سب کو سحری کے لیے جگاتا اور خود عین سحری کے وقت سوجاتا تھا۔ وہ خود روزے نہیں رکھتا تھا، نہ ہی مسجد میں اس کے بچے نظر آتے تھے۔ شرفو! تم سب کو روزے کے لیے جگاتے ہو، مگر خود نہیں رکھتے؟ ایک دن ایک شخص نے اس سے استفسار کر ہی لیا۔ جناب! آپ کے صرف انتیس یا تیس روزے ہوتے ہیں اور ہمارے روزے تو سال بھر ہی چلتے رہتے ہیں، اس نے آزردگی سے کہا۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی…؟ یہی تو بات ہے جناب، وہ بولا۔ جب ہمارے پاس کھانے کو ہی نہیں ہوتا تو ہم روزہ کیا رکھیں گے؟ میں نماز عشاء سے نماز تراویح کے اختتام تک مسجد کے باہر پہرہ دیتا ہوں پھر جاکر بستر پر لیٹ جاتا ہوں۔ سوتے جاگتے میں دو بج جاتے ہیں، پھر میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لیے نکل پڑتا ہوں۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو شرفو، اس نے کہا۔ مگر یہ تو نیکی کا کام ہے۔ روزہ رکھنا اور روزے کے لیے لوگوں کو جگانا تو عظیم عبادت ہے۔ جی جناب، اور میں ان دو عظیم عبادتوں میں سے صرف ایک کا ہی متحمل ہوسکتا ہوں، اس نے کہا۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ میں خود روزہ نہیں رکھتا۔ بلاشبہ یہ گناہ ہے مگر دوسروں کو جگاتا ہوں، یہ کارِ ثواب ہے۔ چنانچہ میں ایک نیکی اور ایک گناہ سے پلڑا برابر کرلیتا ہوں۔ استغفراللہ! تم کون ہوتے ہو، یہ طے کرنے اور نیکی گناہ کی جمع تفریق سے پلڑا برابر کرنے والے؟ نیکی کی ترغیب دینے والے صاحب بری طرح برہم ہوئے اور توبہ توبہ کا ورد کرتے ہوئے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ یہ تھا شرف الدین، غربت و افلاس کی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ میں پستا ہوا ایک مجبور اور غریب مزدور۔ دن بھر محنت مزدوری کرتا اور رات کو سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے میں لگ جاتا، مگر اس بار محنت مزدوری بھی ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ کورونا وائرس خود تو رخصت ہوگیا تھا مگر اپنے پیچھے بے روزگاری کا عفریت چھوڑ گیا تھا۔ اس رات بھی وہ اپنی جھلنگا سی چارپائی پر پڑا، سوچوں کی یلغار سے نبرد آزما تھا۔ اس کے دونوں بیٹے ماں کے پہلو میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ وہ انہیں دیکھ کر بے ساختہ مسکرا دیا۔ یہی تو دن ہوتے ہیں بے فکری کے، کھیلنے کودنے اور کھانے پینے کے، وہ سوچنے لگا۔ اسی طرح نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ دونوں بچے جن کی عمریں بالترتیب آٹھ اور دس سال تھیں، یوں سوئے ہوئے تھے جیسے منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہوں، مگر ظاہری بات ہے کہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ سونے کا چمچ تو نہیں، آج وہ چاولوں کے دو دو چمچ کھا کر سوئے تھے۔ اسی لمحے شرفو کو کھانسی کا دورہ پڑا اور وہ اپنی چارپائی پر دہرا ہوگیا۔ یہ سلسلہ کئی لمحوں تک جاری رہا۔ کچھ دیر میں طبیعت بحال ہوئی اور اس کی نظریں چھت کی جانب کسی غیر مرئی نکتے پر مرکوز ہوگئیں۔ تم جاگ گئے ہو، شرف الدین؟ معاً اس کی بیوی کی آواز آئی اور وہ خیالات کی فوجوں سمیت پسپا ہوگیا۔ سویا ہی کب تھا میں…؟ وہ کھانستے ہوئے بولا۔ عید میں کتنے دن رہ گئے ہیں؟ وہ مستفسر ہوئی۔ تم کیوں پوچھ رہی ہو؟ میں نہیں، بچے پوچھ رہے تھے، اس نے آہستگی سے کہا کہ مبادا کوئی سن نہ لے۔ آج کے بعد سترہ دن باقی ہیں، اس نے بتایا۔ بچوں کے کپڑوں کا کیا کریں گے؟ وہ بولی، جوتے تو پرانے ہی چل جائیں گے۔ تو کپڑے بھی پرانے ہی چلا لینا، اس نے حسرت ناک سرگوشی کی۔ کب تک چلاؤں یہ کپڑے؟ وہ بڑبڑائی۔اسماء، تم دیکھ تو رہی ہو۔ میں بیماری اور دن بہ دن گرتی صحت کی وجہ سے کام پر نہیں جا پاتا۔ سچ پوچھو تو اب مشقت والا کام نہیں ہوتا۔ کاش! میری پرانی ملازمت بحال ہوجائے، وہاں تو لکھنے پڑھنے کا ہی کام ہے، وہ بولا۔ ٹھیکیدار سے پچھلی مزدوری لینے گیا تھا، اس نے دروازہ ہی نہیں کھولا۔ کیوں؟ اسماء اٹھ کر بیٹھ گئی۔ فون پر کہہ رہا تھا کہ حالات خراب ہیں، پیمنٹس رکی ہوئی ہیں، صبر کرو۔ تو اسے کہنا تھا نا کہ کب تک صبر کریں؟ یہ اس کا نہیں، ہمارا مسئلہ ہے اسماء، وہ سنجیدگی سے بولا۔ اس کا کیا ہے… اس نے تو کافی کچھ جوڑ جمع کر رکھا ہے۔ مہینہ ختم ہونے والا ہے، وہ پھر سے بولی۔ مالک مکان بھی دھمکی دے گیا ہے۔ ٹھیکیدار سے کہنا تھا کہ مزدور کی اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے دیتے ہیں۔ تم پڑھی لکھی باتیں کرتی ہو، مگر اب ایسی باتوں پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ یہاں پر پسینہ تو کیا، خون خشک ہو جاتا ہے اور اجرت نہیں ملتی، اسے دوبارہ کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔
کہہ تو تم ٹھیک ہی رہے ہو، اس نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔ میں تمہیں پانی دیتی ہوں، تم دوا تو لو گے نہیں، وہ چارپائی سے اترتے ہوئے بولی۔ دوا کہاں سے آئے گی اسماء؟ گھر چل جائے، یہی بڑی بات ہے، وہ پھر کھانسنے لگا تھا۔ یہ لو پانی پیو، شاید آرام آ جائے، وہ اس کی طرف گلاس بڑھاتے ہوئے بولی۔ تھوڑی سی چینی دے دو، مجھے اس سے آرام آجاتا ہے، اس نے گلاس پکڑتے ہوئے کہا۔ چینی سے آرام تو آ جائے گا مگر شوگر تیز ہو جائے گی۔ ویسے بھی چینی ختم ہوگئی ہے، وہ اس کی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔ اچھا، کیا کہہ رہا تھا مالک مکان؟ وہی جو ہر بار کہتا ہے، وہ خفگی سے بولی۔ بڑا ہی کوئی واہیات آدمی ہے۔ تم سے کتنی بار کہا ہے دروازہ نہ کھولا کرو، اندر سے ہی پوچھ لیا کرو۔ ہاں! جیسے تم تو اسے جانتے ہی نہیں… وہ اس کی ٹانگیں دبانے لگی۔میں جانتا ہوں، اسماء، وہ افسردگی سے بولا۔ اس کی نظر خراب اور نیت میں فتور ہے۔ چھوڑو، تم بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے، وہ بات بدلتے ہوئے بولی۔ کہہ رہا تھا کہ عید سے تین دن پہلے کرایہ دے دینا ورنہ مکان خالی کر دینا۔شرفو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کیوں دبا رہی ہو میری ٹانگیں… تم بھی تو تھک جاتی ہو۔ تم ساری رات لوگوں کو جگاتے ہو، دن بھر مزدوری کرتے ہو، میں کیا کرتی ہوں؟ وہ دوبارہ اس کی ٹانگیں دبانے لگی۔وقاص نے آج مجھ سے بات نہیں کی…اس نے اپنے چھوٹے بیٹے کا نام لیا۔ کہہ رہا تھا، بابا سے ناراض ہوں، وہ بتانے لگی۔ اس کے دوستوں نے عید کے کپڑے لے لیے ہیں نا، اس لیے۔اور شہباز…؟وہ کچھ نہیں کہتا مگر اس کی آنکھیں بہت بولتی ہیں، وہ بڑے بیٹے سے متعلق بتانے لگی۔اچھا چلو، اللہ کوئی راستہ نکالے گا،وہ کروٹ بدلتے ہوئے بولا۔ جاؤ تم بھی اب سو جاؤ۔ وہ… میں ایک بات کرنا چاہتی ہوں، اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔ہاں بولو، سن رہا ہوں، وہ کروٹ بدلے بغیر بولا۔ وہ… میں سوچ رہی تھی کہ حاجی صاحب کے گھر کام کرنے چلی جایا کروں… اسماء نے کہا اور وہ یوں تڑپ کر اٹھا جیسے کسی زہریلے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔کیا… کیا کہہ رہی ہو اسماء؟ وہ بے یقینی سے بولا۔ تم جانتی بھی ہو، تم نے کیا بات کی ہے؟میں جانتی ہوں، مگر…بس اب چپ ہو جاؤ۔ گھر سے باہر قدم رکھنے کا سوچنا بھی مت، وہ برہمی سے بولا۔ لوگ کام سے زیادہ کام کرنے والیوں کو گھورتے ہیں۔شرف الدین، انسان خود ٹھیک ہو تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ویسے بھی عید تک ہی کی تو بات ہے۔ اسماء! یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ جو ٹھیک ہوتا ہے، اسے ہی سب غلط کہتے ہیں، وہ تلخی سے بولا۔ اوپر سے مہنگائی عفریت کی طرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ عید تک حاجی صاحب… میں اچھی طرح جانتا ہوں اسے، وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ مجھے بھی کہہ رہا تھا، مگر میں جانتا ہوں، وہ کیوں کہتا ہے۔ تم بہتر سمجھتے ہو، شرفو، میں نے تو سوچا تھا کہ چلو کچھ آسرا ہو جائے گا، وہ اس کی چارپائی سے اٹھتے ہوئے کہنے لگی۔ چلو! اللہ مالک ہے۔ وہ کچھ نہیں بولا، مگر وہ اس سے خفا بھی نہیں تھا۔ اسے گہری سوچوں نے گھیر لیا تھا۔ اسماء سے اس کی شادی کو دس سال ہو چکے تھے۔ اسے وہ دن یاد آنے لگے، جب وہ اس سے پہلی بار ملا تھا۔
☆☆☆
اسماء سے اس کی ملاقات رملہ کی شادی پر ہوئی تھی۔ رملہ، اسماء کی کزن تھی اور شرف الدین ان دونوں کے دور پار کے رشتہ دار کا اکلوتا بیٹا تھا۔ کسی بھی شادی پر عمومی طور پر کئی شادیوں کے راستے کھل جاتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، لڑکیاں، لڑکے بھی ساتھ آئے ہوتے ہیں۔ تعارف اور تجدیدِ مراسم بھی ہوجاتی ہے۔ نئے تعلقات استوار اور پرانے رشتے بحال ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ یہ اسماء اور شرف الدین کی پہلی ملاقات تھی۔ وہ ایک دراز قد اور انتہائی خوبصورت لڑکی تھی، اتنی کہ پوری شادی میں ہر نگاہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے شرف الدین بھی کچھ کم نہیں تھا۔ وہ بھی ایک وجیہہ و شکیل اور صحت مند نوجوان تھا، اور ایک پرائیویٹ فرم میں اچھی ملازمت کر رہا تھا۔ سچ کہتے ہیں، رشتے اور تعلقات اس وقت مضبوط ہوتے ہیں جب آپ مالی طور پر مضبوط ہوں۔ خیر، یہ مہندی کی رات تھی اور لڑکیاں پوری طرح سے سج دھج کر تتلیوں کی طرح اُڑتی پھر رہی تھیں۔ رملہ کا گھر بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ مہندی کے گیت، لڑکیوں کا شور و غل اور ڈھول کی تھاپ کے ساتھ تالیوں کا تال میل سماں باندھ رہا تھا، مگر شرف الدین کو سوائے اسماء کے کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ اس کی نگاہیں اسی پر جمی ہوئی تھیں اور یہ بات اسماء نے بھی نوٹ کرلی تھی۔ اسی لمحے شرف الدین کے سیل فون نے سگنل دیا اور وہ بلا ارادہ چھت پر چلا گیا۔ یہ سردیوں کی ایک یخ بستہ رات تھی۔ وہ کافی دیر تک کسی سے فون پر بات کرتا رہا، پھر وہیں ایک پرانی سی کرسی پر بیٹھ گیا۔ تم نے دیکھا، کیسے تمہیں گھور رہا تھا؟ معاً اسے ایک کھنکتی ہوئی آواز سنائی دی۔ یہ دو لڑکیاں تھیں جو سیڑھیاں چڑھتی ہوئی چھت پر آ رہی تھیں، جن میں سے ایک بلاشبہ اسماء تھی۔ دیکھنے دو، اس سے کیا ہوتا ہے؟ اسماء نے جواب دیا۔ مگر یار لڑکا برا نہیں ہے۔ خوبرو ہے۔ میں نے سنا ہے جاب بھی کر رہا ہے، اس کی سہیلی نے کہا۔ تو پھر کرتے ہیں تمہاری بات – اسماء اسے چھیڑنے لگی۔ بڑی خبر رکھ رہی ہو اس کی… اسماء، میں یہ سب تمہارے لیے کر رہی ہوں۔ اچھا جی! تو تمہیں اتنی جلدی کیوں ہے مجھے پیا گھر بھیجنے کی؟ وہ مصنوعی ناراضی سے بولی۔ اس لیے کہ شاید تمہاری شادی پر میری بھی کسی سے ملاقات ہوجائے، وہ کھکھلا کر ہنسنے لگی۔ ویسے نام کیا ہے؟ اسماء نے پوچھا۔ نرگس، وہ شوخی سے بولی۔ میں تمہارا نہیں، اس کا پوچھ رہی ہوں۔ اس کا… کس کا؟ نرگس! میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گی، وہ جھنجھلا کر بولی۔ شرف الدین… نرگس بولی۔ دقیانوسی سا نام ہے، مگر وہ خود دقیانوسی نہیں ہے۔ شرف الدین، وہ بڑبڑائی۔ ہاں ہاں یاد کر لو، کہیں بھول نہ جاؤ، اس نے کہا اور ہنسنے لگی۔ جہنم میں جاؤ، میں جا رہی ہوں، وہ واپس مڑتے ہوئے بولی۔ اچھا اچھا ٹھہرو، میں سیریس ہوں، اس نے کہا اور یوں صورت بنالی جیسے ابھی رو دے گی۔ اچھا! اتنا سیریس ہونے کو نہیں کہا تھا۔ تم تو کسی مریض کی طرح سیریس ہوگئی ہو، وہ بولی اور نرگس کے قہقہے پھر سے گونجنے لگے۔ پھر ایک دم دونوں خاموش ہو کر گویا ساکت ہوگئیں۔ ان دونوں کی مترنم ہنسی میں مردانہ قہقہہ بھی شامل ہوگیا تھا جو بلاشبہ شرف الدین کا تھا۔ وہ کب سے ان کی باتیں سن رہا تھا مگر سیریس مریض والی بات پر وہ بھی اپنی ہنسی نہیں روک پایا تھا۔” تو آپ ہمارا پیچھا کر رہے ہیں؟نرگس نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا، جبکہ اسماء کو چھپنے کے لیے جگہ نہیں مل رہی تھی۔محترمہ، پیچھا میں نہیں، بلکہ آپ کر رہی ہیں اور ایک شریف النفس انسان کی غیبت بھی، اس نے اسماء پر نظریں جماتے ہوئے بولا۔نہیں۔ ہم تو آپ کے نام کی ٹرانسلیشن کر رہے تھے، اسماء کانپتی ہوئی آواز میں بولی۔کیوں! میرا نام سلیبس میں آگیا ہے؟ وہ اسے چھیڑنے پر تل گیا تھا۔ نن… نہیں تو۔ نہیں تو کیا؟ کچھ نہیں۔ وہ بولی اور نرگس کے قہقہے گونجنے لگے۔ تمہیں تو میں نیچے جاکر پوچھتی ہوں، اس نے دانت پیستے ہوئے سرگوشی کی۔ تمہیں بہت شوق تھا، چھت پر آئے گا۔ میں جا رہی ہوں،وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی۔ آپ جائیں گی تو میں شور مچادوں گا، وہ اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔ شور مچادیں گے؟ اسماء خود کو سنبھالتے ہوئے حیرت سے بولی تو اور کیا … عزت صرف خواتین کی ہی نہیں، ہماری بھی ہوتی ہے اور آپ نے میرا پیچھا کیا ہے، اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ استغفراللہ، وہ بولی۔کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟ اس نے ایک دم سوال کا گولہ داغ دیا۔ کک… کیا؟ شادی، وہ سنجیدہ ہوگیا۔ نرگس کا ہنسی کے مارے بُرا حال ہورہا تھا، پھر وہ بھاگتی ہوئی سیڑھیاں اتر گئی۔ آپ نے جواب نہیں دیا، وہ بولا۔ ایسے تھوڑی ہوتا ہے، اس نے کہا۔ تو پھر کیسے ہوتا ہے؟ کیا میں آپ کو پسند نہیں یا میرا نام دقیانوسی ہے؟ میں نے ایسا تو نہیں کہا … یعنی آپ یہ رشتہ قبول کرتی ہیں؟ جی! نن… نہیں۔ اسی لمحے نرگس اور اس کی سہیلیوں نے دھاوا بول دیا۔ مبارک ہو تم کو یہ شادی تمہاری! وہ سب مل کر گیت گانے لگیں۔ چھت پر ایک سماں بندھ گیا تھا۔ تو یہ سب آپ اور نرگس کی ملی بھگت تھی، وہ شرف الدین سے مخاطب ہوئی۔ہاں، اور کوئی طریقہ واردات سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، وہ بولا۔ چنانچہ نرگس سے ہی کہنا پڑا۔ دوسری لڑکیاں مسکراتی نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ یہ سب نرگس اور اسماء کی مشترکہ سہیلیاں تھیں۔ آپ مجھے بھی اچھے لگے، مگر میں ابھی پڑھ رہی ہوں، وہ پُراعتماد لہجے میں بولی۔ تاہم شادی کے لیے آپ کو میرے والدین سے بات کرنی ہوگی۔ وہ مارا! لڑکیوں نے بیک زبان ایک نعرہ مستانہ بلند کیا۔ چلو! رملہ کو بھی بتاتے ہیں، وہ سب کہتی ہوئی چلی گئیں۔ ان کے ساتھ اسماء بھی جا چکی تھی۔ المختصر، اس خوشگوار واقعے کے نتیجے میں اسماء کی شادی شرف الدین سے ہوگئی۔ ان دنوں وہ سیکنڈ ایئر کے امتحانات دے رہی تھی۔ چنانچہ شادی تک تعلیم بھی مکمل ہوگئی اور وہ شرف الدین کی دلہن بن کر اس کے گھر آ گئی۔
☆☆☆
شادی کے ابتدائی چند سال بہت اچھے اور خوشگوار تھے۔ کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ چنانچہ دوست، عزیز و اقارب، اور رشتہ دار بھی شمار سے باہر تھے۔ ایسا ہی ہوتا ہے، اچھے وقت میں سب اچھے ہوتے ہیں اور برے وقت میں کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ ایسا ہی کچھ حادثہ شرف الدین کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ اگلے مہینے جب وہ چھٹی پر آیا تو بجھا بجھا اور پریشان لگ رہا تھا۔ عمومی طور پر وہ دو تین دن ہی گھر پر رہتا تھا، مگر اس بار جب اسے ایک ہفتہ ہوگیا تو اسماء کو فکر لاحق ہونے لگی۔ شرف الدین کیا بات ہے، تم جب سے آئے ہو، پریشان اور کھوئے کھوئے سے ہو۔ تم نے واپس نوکری پر جانے کی بات بھی نہیں کی۔ اسماء کے استفسار پر اس نے ایک گہری سانس لی اور افسردہ نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا: اسما! ہماری کمپنی بند ہوگئی ہے، اب میں نوکری پر نہیں جاؤں گا۔ ایسے کیسے اچانک …؟ قسمت اچانک خراب ہوتی ہے۔ وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ اور مصیبت کسی سے اجازت لے کر نہیں آتی۔ مگر اب کیا ہوگا؟ وہ افسردگی سے بولی۔ ہونا تو وہی ہے، جو ازل سے ہمارے نصیب کی تختی پر لکھ دیا گیا ہے۔ وہ اس کا ہاتھ سہلاتے ہوئے بولا۔ انسان تقدیر کے آگے بے بس اور مجبور ہے۔ بچے اسکول جاتے ہیں، پھر کرایے کا مکان اور دیگر اخراجات… وہ بڑبڑاتے ہوئے بولی۔ ابھی تو جو کچھ پس انداز کرکے رکھا ہوا ہے، اس سے کچھ دن گزر جائیں گے۔ وہ بولا۔ آگے جو اللہ کو منظور۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو، مگر کب تک… کہتے ہیں، کنویں بھی خالی ہوجاتے ہیں۔ اسماء کی یہ بات درست ثابت ہوئی۔ آخر کار کنواں بھی خالی ہوگیا۔ بچے پرائیویٹ اسکول سے سرکاری اسکول میں آ گئے، اور وہ شہر سے کرایے کا مکان چھوڑ کر گاؤں میں آ گئے۔ یہاں بھی کرایے کا مکان تھا۔ جیسے تیسے زندگی گزرتی رہی، برا وقت تو جیسے آکر ٹھہر ہی گیا تھا۔ اسماء تعلیم یافتہ اور ذہین عورت تھی۔ اس نے کسی نہ کسی طرح شرف الدین کو قائل کر لیا اور ایک پرائیویٹ اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت کرنے لگی۔ اسماء! یہ ملازمت تمہارا اپنا فیصلہ ہے۔ پہلے دن شرف الدین نے کہا تھا۔ بس خیال رکھنا، چاروں اطراف گدھ بیٹھے ہوئے ہیں اور میرے پاس اب تمہارے سوا کچھ بھی نہیں رہا۔ شرف، تمہیں مجھ پر بھروسا نہیں ہے؟ وہ مستفسر ہوئی۔ تم پر تو بہت زیادہ بھروسا ہے، مگر اب اپنی قسمت پر بھروسا نہیں رہا۔ اس نے آزردگی سے کہا۔ یہ کیا؟ مجھے مایوس نہ ہونے کی نصیحت کرتے ہو اور خود… اب حقیقت سے نگاہیں چرانا ممکن نہیں رہا۔ وہ بولا۔ ہم خود کو جھوٹی تسلی دے کر بہلا تو سکتے ہیں مگر …. چلو اب بس کرو۔ وہ نرمی سے بولی۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔ ویسے بھی آج پہلا دن ہے۔ وہ اسے مطمئن کر کے چلی گئی۔ پہلے ہی دن اسے اندازہ ہوگیا کہ شرف ٹھیک کہہ رہا تھا۔ یہ معاشرہ مردوں کا ہے۔ یہاں کوئی مجبور اور بے بس عورت احساس تحفظ اور عزت سے نہیں رہ سکتی۔ دنیا اچھے بُرے لوگوں کی آماجگاہ ہے، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ بُرے وقت میں ہمیشہ برے لوگ ہی ملتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا اور مشہور اسکول تھا، جس کا اندازہ اس کی پرشکوہ عمارت سے ہی ہوجاتا تھا۔ گیٹ پر باوردی گارڈ مستعد اور الرث کھڑے تھے۔ وہ آٹو سے اتری اور سست روی سے چلتی ہوئی اسکول میں داخل ہوگئی۔ خوبصورت تو وہ تھی ہی، مگر آج چونکہ اسکول میں اس کا پہلا دن تھا، چنانچہ اس نے تھوڑا سا اہتمام بھی کرلیا تھا۔ اس کی شادی کو کئی سال ہوگئے تھے، مگر کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ وہ شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہے۔وہ پرنسپل کے آفس میں داخل ہوئی۔ آپ اسماء شرف الدین ہیں؟ پرنسپل فاروقی نے استفسار کیا۔ وہ ایک جوان اور خوش شکل آدمی تھا۔ اسماء نے اس کی عمر کا اندازہ پینتیس کے قریب لگایا تھا۔ نہ جانے کیوں، پہلی ہی نظر میں وہ اسے اچھا نہیں لگا تھا۔ بیٹھیے۔ وہ اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے بولا۔ اس کی چبھتی ہوئی آنکھیں اس کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں جیسے اس کا ایکسرے کر رہا ہو۔ مجھے شیخ صاحب نے آپ کے سلسلے میں خصوصی طور پر کہا ہے، پتہ نہیں کیوں… وہ بولا۔ ویسے تو ہمیں ٹیچر کی ضرورت نہیں ہے، مگر چونکہ آپ کو ضرورت ہے تو ہم نے بھی انکار نہیں کیا Thank you, sir! وہ یہ کہتے ہوئے اس کے پتہ نہیں کیوں کہنے پر غور کر رہی تھی۔ ساتھ وہ شیخ صاحب سے متعلق سوچنے لگی جو شرف الدین کے اچھے وقت کے اچھے دوست تھے۔ اب تو صرف واقفیت ہی رہ گئی تھی۔ کیا پڑھائیں گی آپ؟ وہ مستفسر ہوا۔ اردو۔ اس نے فوراً کہا۔ کیوں؟ کیونکہ مجھے اردو ہی آتی ہے۔ دیکھیے، اسماء، اردو کی ٹیچرز تو موجود ہیں اور پڑھا بھی رہی ہیں۔ دراصل ہمیں میتھ ٹیچر کی ضرورت ہے وہ سوچ میں پڑگئی۔ ابھی تو یہ کہہ رہا تھا کہ کسی ٹیچر کی ضرورت نہیں… Any problem? وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔”ہاں، سر، مجھے میتھ سے الجھن ہوتی ہے۔ الجھن ہوتی ہے، یا آپ کو ریاضی آتی ہی نہیں؟ ایسا ہی سمجھ لیں، سر۔ چائے پئیں گی؟ نہیں، سر۔ ٹھیک ہے، میں اردو ٹیچر رمشا سے بات کرتا ہوں۔ اگر وہ مان جائیں تو آپ ان کی جگہ اردو پڑھائیں گی اور وہ میتھ۔ وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔”Thank you, سر! میں ممنون رہوں گی، مجھے اس ملازمت کی ضرورت ہے۔””It’s okay۔ دیے سے ہی دیا جلتا ہے۔ وہ اسے معنی خیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے باہر نکل گیا، اور وہ سوچ میں پڑگئی۔ “دیے سے دیا جلتا ہے۔ معاً اس کے ذہن میں کوندا سا لپکا اور جھر جھری سی آ گئی۔ اس شخص سے بچ کر رہنا، اسماء! اس نے خود سے کہا، اور گہری سانس لیتے ہوئے تاسف سے سر بلانے لگی۔ رمشا نے تو صاف انکار کردیا ہے – وہ آفس میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔ میں اس سے یہاں آفس میں بھی بات کرسکتا تھا مگر آپ کی وجہ سے میں نے اس سے علیحدگی میں بات کی ہے۔ پتا نہیں کیوں… اب اسے اندازہ ہوگیا کہ پتا نہیں کیوں شاید اس کا تکیہ کلام ہے۔ پھر سر…؟ وہ پریشان ہوگئی۔ ارے پلیز! پریشان مت ہوں، آپ کے اتنے خوبصورت چہرے پر پریشانی اچھی نہیں لگتی۔ وہ جلدی سے بولا۔ آپ چاہیں گی تو میں رمشا کی نوکری ہی ختم کر دوں گا۔ نہیں، سر، میں کیوں چاہوں گی؟ ویسے آپ کو چاہنا چاہیے۔ اس کا جملہ ذو معنی تھا۔ میں سمجھی نہیں، سر… کچھ نہیں، چائے لیجیے۔ وہ اس کے سامنے کپ رکھتے ہوئے بولا، جو ابھی ابھی لڑکے نے رکھا تھا۔ وہ اس کی باتوں کے ہیر پھیر کو سمجھ رہی تھی۔ اسے اپنی بے بسی پر رونا آرہا تھا مگر وہ اپنی مجبوری سے کمپرومائز نہیں کرسکتی تھی۔ دیکھیے، میم! میرے اسکول کے اصول کافی سخت ہیں۔ وہ دوبارہ بولا، ایک تو ماسک کی پابندی ضروری ہے کیونکہ کورونا چل رہا ہے، دوسرا بھلے آپ پر میک اپ بہت جچتا ہے، مگر اس سے بچوں پر اثر پڑتا ہے اور… بڑوں پر بھی۔ بڑوں پر بھی…؟ میرا مطلب ہے، سب دیکھتے ہیں نا!” وہ فوراً بات بدلتے ہوئے بولا۔ جہاں تک میرا خیال ہے، تم ایک انتہائی گھٹیا اور کمینے انسان ہو۔ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔ میں ایسی نوکری پر لعنت بھیجتی ہوں۔ یوں یہ اس کی نوکری کا پہلا اور آخری دن ثابت ہوا۔ اس کے بعد اس نے کہیں پر بھی نوکری کرنے کی کوشش نہیں کی۔ شرف الدین نے بہت جگہوں پر کام کیا مگر اس کا مقدر تو جیسے کہیں سو ہی گیا تھا۔ بیروزگاری اور مسلسل پریشانی نے اسے کئی امراض میں مبتلا کردیا تھا۔ اب وہ شرف الدین نہیں بلکہ ایک مزدور تھا جسے لوگ شرفو کے نام سے جانتے تھے۔ اگر جیب میں پیسہ نہ ہو تو کوئی سیدھا نام لے کر آواز بھی نہیں دیتا۔ دوست اور رشتے دار قسم پارینہ بن گئے، دوست احباب اور خون کے رشتوں نے اسے یکسر فراموش کردیا تھا۔ وہ جب بھی اسماء کو پریشان دیکھتا، اس کے پاس جا کر بیٹھ جاتا۔ اسماء، میں تم سے شرمندہ ہوں کہ تم جس زندگی کی لائق تھیں، میں وہ تمہیں نہیں دے پایا۔ وہ کہتا۔وہ اسے ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہتی، مجھے اپنی فکر نہیں ہے شرف الدین، میں تمہارے بارے میں سوچ کر کڑھتی رہتی ہوں۔ جس شخص نے عروج دیکھا ہو، اس کے لیے زوال بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ وہ بولا۔ اسی لیے تو وقت سے پہلے بوڑھا ہو گیا ہوں۔ وہ اسے حسرت ناک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی، شرف، یہ عارضی پڑاؤ ہے، مختصر زندگی ہے۔ ہمارا رب ان تکلیفوں کا اجر ہمیں یہاں نہیں، تو وہاں ضرور دے گا۔ اسماء کی باتیں اس کے متزلزل حوصلے کو مہمیز دیتی تھیں، مگر وہ اندر سے ٹوٹ چکا تھا۔ بچوں کے مرجھائے چہرے اور شکایت آمیز آنکھوں کا سامنا اس کے بس کی بات نہیں تھا۔ جوں جوں عید کا دن قریب آرہا تھا، اس کا خون سوکھتا چلا جارہا تھا۔ اس بار عین عید کے ایک دو دن آگے پیچھے مکان کا کرایہ اور بجلی کا بل بھی ادا کرنا تھا۔ طرح طرح کے وسوسوں میں گھرا شرفو خواب خرگوش کے مزے لیتے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لیے نکل پڑا۔ جاگو! اللہ رحمتیں لٹا رہا ہے، لوٹ لو! اس نے با آواز بلند کہا۔ کچھ ہی دیر بعد مختلف گھروں میں روشنیاں ہونے لگیں، لوگ جاگنے لگے تھے۔ جاگو… جاگو! وہ یہی صدائیں لگاتا ہوا بازاروں میں گھومتا رہا۔معاً ایک دروازہ کھلا اور کسی نے اسے آہستگی سے پکارا۔ او بھائی، ادھر آؤ! یہ ایک نسوانی آواز تھی۔ کچھ ہی دیر میں وہ اس دروازے پر پہنچ گیا۔ وہ ایک عورت تھی۔ اس کے چہرے پر نقاب اور ہاتھ میں ایک کافی بڑا شاپر تھا۔ یہ رکھ لو، اس میں کچھ سودا سلف اور کپڑے ہیں، اور یہ بھی۔ وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہزار ہزار کے چند نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔ خیال رکھنا، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔وہ دھیمے لہجے میں بولی اور دروازہ بند کر کے غائب ہوگئی۔ وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔ پرسوں عید تھی اور پورے رمضان میں کسی نے اسے پوچھا تک نہیں تھا۔ وہ کسی کے احسان کا بوجھ اٹھائے اذان فجر سے پہلے گھر پہنچ گیا۔ اسماء اور بچے سو رہے تھے۔ وہ بھی بستر میں گھس گیا۔ سودا سلف اس نے اپنی چارپائی کے نیچے رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد اسے اسماء کے جاگنے اور وضو کرنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اس دوران وہ گہری نیند سو گیا تھا۔ دوسرے دن بھی اسے بھاگ دوڑ میں خیال نہیں رہا تھا کہ اسماء کو سودا سلف اور پیسوں کی بابت آگاہ کردے۔ تاہم وہ اس خیال سے مطمئن تھا کہ اس نے سودا سلف دیکھ لیا ہوگا۔ اس رات بھی وہ فجر سے پہلے آیا اور بستر میں گھس گیا۔ صبح ہوئی تو لوگ عید کی تیاریوں میں مشغول ہوگئے۔ خلاف توقع، اسماء بھی شیر خورمہ بنانے کے بعد اب گوشت بنا رہی تھی۔ بچے نہا دھو کر تیار تھے۔ انہوں نے کپڑے اور جوتے پرانے ہی پہن لیے تھے، تاہم ان کے ہاتھوں میں سو سو کے نوٹ دیکھ کر اسے قدرے طمانیت ہوئی۔ اسے یاد آیا کہ اس نے نقدی بھی سودا سلف کے شاپر میں رکھ دی تھی۔ کچھ دیر پہلے بڑا بیٹا شہباز اسے چائے کا کپ دے کر چلا گیا تھا۔ وہ بہت خوش اور پرجوش نظر آرہا تھا۔ اسماء اور دوسرا بیٹا وقاص بھی قدرے مطمئن تھے۔ اس نے خود بھی نہا دھو کر کپڑے تبدیل کیے اور باہر نکل گیا۔ لوگ ایک دوسرے سے عید مل رہے تھے، ایک دوسرے کو عید مبارک کہہ رہے تھے۔اسے بھی چند لوگوں نے عید کی مبارک باد دی مگر ان کے چہروں پر ناگواری کے تاثرات تھے۔ انہیں کیا ہوا …؟ وہ سوچنے لگا مگر اس وقت اس کے پاس اپنے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ مسجد میں گیا مگر تب تک نماز ادا ہوچکی تھی۔ اس نے اکیلے نماز پڑھی اور دعا مانگ کر باہر نکل آیا۔
ارے، ادھر آو، چاچا شرفو! اچانک اسے اختر نامی ایک بچے نے صدا دی۔ وہ اسی کے محلے میں رہتا تھا اور اس کے بڑے بیٹے سے کھیلنے اس کے گھر بھی آتا رہتا تھا۔ ہاں بیٹا! کہو، کیا بات ہے؟ وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔ چاچا، آج میں نے نا آنٹی اسماء کی تصویر دیکھی ہے، بہت پیاری لگ رہی تھیں! بچہ خوش ہوتے ہوئے بولا۔ کہاں دیکھی ہے؟ فوٹو …؟ وہ جلدی سے مستفسر ہوا۔ رومی موبائل والے کی دکان پر! وہ بولا۔ وہ نہیں جانتے تھے آنٹی کو، وہ تو میں نے بتایا کہ چاچا شرفو کی بیوی ہیں۔ کیا بکواس کر رہے ہو تم؟ وہ غصے سے بولا۔ چاچا تو غصہ کیوں ہو رہا ہے؟ جا! تو بھی دیکھ لے۔ اس نے کہا۔ لے، وہ سونی آرہا ہے، اس سے پوچھ لے۔ اس نے دور سے آتے ہوئے ایک لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ اوئے سونی، ادھر! لڑکے نے اسے خود ہی آواز دے دی۔ اختر پتر! تجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہمارے پاس تو موبائل ہی نہیں ہے۔ بھلا تیری چاچی فوٹو کیوں بنوائے گی؟ وہ پریشان ہوتے ہوئے بولا۔ سونی، چاچے شرفو کو ذرا تصویر تو دکھا چاچی اسماء کی، جو انٹرنیٹ پر آئی ہے۔ وہ اسے دیکھتے ہی بولا۔ اور پھر کچھ دیر میں شرفو کے چودہ طبق روشن ہوگئے تھے۔ وہ موبائل فون کی اسکرین پر اسماء کی تصویر دیکھ رہا تھا۔ وہ سو فیصد اسماء تھی اور اس کی نگاہیں سامنے کیمرے پر مرکوز تھیں۔ چاچا شرفو! ویسے تصویر بڑی پیاری آئی ہے چاچی کی۔ دیکھ لو، صائمہ ہی لگ رہی ہے! سونی نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔ اسی لمحے شرفو نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے چہرے پر جڑ دیا۔ وہ تیورا کر نیچے گرا اور شور مچانے لگا۔ اس کا سیل فون ٹوٹ گیا تھا۔ بکواس کرتا ہے، کمینے! شرفو دبا کر بولا۔ لوگوں کا مجمع لگنا شروع ہوگیا۔ ابے او بے غیرت انسان، اپنی بیوی کی تصویریں انٹرنیٹ پر وائرل کرتا ہے اور ہاتھ ہمارے بچوں پر اٹھاتا ہے! یہ سونی کا باپ تھا۔ خبیث نے موبائل بھی توڑ دیا ہے بچے کا، ابھی پرسوں ہی لیا ہے اس نے چالیس ہزار کا۔ اچھا تو یہ شرفو ہے، بھئی کمال کی فوٹو لگائی ہے تم نے، بالکل کترینہ کیف ہی لگ رہی ہے تمہاری بیوی! یہ کوئی اور تہذیب سے عاری نوجوان تھا۔ نا پر، تجھے شرم نہیں آئی ایسی نیچ حرکت کرتے ہوئے۔ نکالو اسے گاؤں سے باہر، یہ شریفوں کا گاؤں ہے۔ ہاں ہاں، یہ تو ہمارے بچے خراب کریں گے، دونوں میاں بیوی! جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوگیا تھا۔ سب قہقہے لگاتے ہوئے شرفو کو چھیڑ رہے تھے، طنز و مذاق کر رہے تھے۔ پر ایک بات ہے، جو بھی ہے نا، کمال کی چیز! یہ گاؤں کے اوباش آدمی نے تبصرہ کیا تھا۔ بکواس کر رہے ہو تم لوگ! شرفو چیخ کر بولا، اور تم بے غیرت، میں تمہارے دانت توڑ دوں گا! وہ اسی اوباش آدمی کی طرف بڑھا، اور پھر بپھرا بوا مشتعل ہجوم شرفو پر ٹوٹ پڑا۔ کچھ ہی لمحوں میں انہوں نے اسے روئی کی طرح دھنگ کے رکھ دیا تھا۔ تصویریں خود انٹرنیٹ پر دیتا ہے اور ہمیں بے غیرت کہتا ہے۔ زخموں سے چور شرفو یہ سن پایا اور بے ہوش ہو گیا۔یہ عید سے ایک دن پہلے کی بات ہے۔ صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ اسماء کی پڑوسن ذکیہ ان کے گھر وارد ہوئی۔ اس وقت شرفو سو رہا تھا اور بچے حسرت ناک نگاہوں سے ماں کو دیکھ رہے تھے۔ کوئی بندوبست ہوا؟ ذکیہ نے استفسار کیا۔ نہیں، ابھی تو شرف سویا ہوا ہے۔ وہ مایوسی سے بولی۔ “اٹھے گا تو کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ وہ رات بھر جاگا ہوا ہے، دیر سے اٹھے گا۔ چل، اٹھ، میرے ساتھ چل۔ کہاں؟ وہ ماسٹر صاحب راشن دے رہے ہیں، بڑے ہی نیک اور خداترس انسان ہیں۔ ذکیہ بتانے لگی۔ذکیہ بہن! تم جانتی ہو، میں تو ہرگز نہیں جاسکتی، شرف میری جان لے لے گا۔ اسے پتا چلے گا، تب نہ۔ وہ اصرار کرتے ہوئے بولی۔ وہ ایک خرانٹ اور تیز طرار عورت تھی۔ جانتی تھی کہ شرف الدین ایک انتہائی خوددار اور شریف النفس انسان ہے۔ وہ یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت کر رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ جونہی اسماء کے گھر سے باہر نکلنے کی خبر شرف الدین کو ملے گی، ان کے مابین اختلافات کی ایک خلیج پیدا ہوجائے گی۔ وہ یہ سب اسی پرنسپل کے کہنے پر کر رہی تھی، جسے اسماء نے اپنے اسکول میں ملازمت سے انکار کرکے گویا اس کے منہ پر تھوک دیا تھا۔ کیوں نہیں پتا چلے گا … سب ہوں گے وہاں، کوئی دیکھ لے گا! اس نے خدشہ ظاہر کیا۔ ارے اسماء! بچوں کو دیکھ، رونے والی شکلیں ہوگئی ہیں ان کی… اس نے کہا۔ کچھ ان کا ہی سوچ، چل میرے ساتھ، وہ نقد پیسے بھی دے رہے ہیں۔ ہم دس منٹ میں آجائیں گے۔ آخر وہ آمادہ ہوگئی۔ بچوں کی اُتری صورت اور عید کا دن… اس نے چادر اوڑھی اور اس کے ساتھ چل دی۔ بھلا عین عید کے دن بھی کوئی راشن دیتا ہے؟ راستے میں اس نے کہا۔ ان کو کسی بڑے آدمی نے امداد بھیجی ہے۔ سنا ہے گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے لیٹ ہوگئی۔ ذکیہ نے بتایا۔ وہ بازاروں سے گزرتی ہوئی ماسٹر صاحب کے گھر جارہی تھیں۔ مذکورہ گھر گاؤں کے آخری کونے پر تھا۔ متعدد نگاہیں اسماء اور ذکیہ پر جمی ہوئی تھیں۔ اسماء نے چہرے پر حجاب کر رکھا تھا کہ مبادا اسے پہچان کر کوئی شرفو کو آگاہ نہ کردے۔
کافی دیر بعد وہ ماسٹر صاحب کے کوٹھی نما گھر میں پہنچ گئیں۔ بیٹھک کے باہر خواتین کی قطار لگی ہوئی تھی۔ عید کے دن بھی غربت ان کی بے بسی کا مذاق اڑا رہی تھی۔ یہاں تو بہت رش ہے، ذکیہ بہن۔ وہ گھبرائے ہوئے انداز میں بولی۔ میں تو واپس جارہی ہوں۔ اس کی فکر نہ کرو۔ ماسٹرنی میری واقف ہے۔ ہم سیدھی اندر جائیں گی۔ اس نے کہا اور اسے لے کر سیدھی بیٹھک میں داخل ہوگئی۔ آجائیں، آجائیں۔ ایک نوجوان لڑکا نرمی سے بولا۔ وہ بیٹھک سے گزر کر اس سے ملحق کمرے میں داخل ہوگئیں۔ یہاں پر چند نوجوان آٹا، چاول، گھی، چینی اور نقد رقم دے رہے تھے۔ یہ شرفو کی بیوی ہے۔ ذکیہ نے ایک نوجوان کے کان میں سرگوشی کی۔ ارے ہاں، اس نے تو پورا رمضان ہمیں سحری کے لیے جگایا ہے، آگے آجاؤ بہن! وہ اسماء سے مخاطب ہوا۔ اس نے اسے کافی مقدار میں سودا سلف اور آٹے کا تھیلا دیتے ہوئے کہا۔ میں ایک لڑکا تمہارے ساتھ بھیجتا ہوں۔ سامان چونکہ زیادہ ہے، یہ گھر پہنچا آتا ہے۔ وہ کچھ نہیں بولی، تاہم اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اور یہ بھی رکھ لیں۔ اس نے ہزار ہزار کے تین نوٹ اس کی طرف بڑھا دیے۔ راستے سے دودھ اور گوشت لے لینا۔ وہ ممنون انداز میں سر ہلاتے ہوئے واپس پلٹنے لگی۔ اسی لمحے اسی لڑکے نے آہستگی سے کہا، ذرا نقاب بتائیے! تصویر بنائی ہے، دراصل ہم نے آگے دکھانی ہوتی ہے نا! مم… مگر… آپ پریشان مت ہوں۔ یہ فوٹو امانت ہے اور آگے بھی ایک مخیر خاتون نے بھی دیکھنی ہے۔ وہ بولا۔ ہاں اسماء، جلدی کرو، دیر ہورہی ہے۔ ذکیہ نے کہا۔ اور بھی بہت ساری عورتیں ہیں، اور سب نے تصویریں بنوائی ہیں۔ اس کے اصرار پر وہ چہرے سے نقاب ہٹانے پر مجبور ہوگئی تھی۔ چنانچہ کچھ ہی دیر بعد اس لڑکے کے سیل فون میں اس کی تصویر سیو ہوچکی تھی۔ اسپتال میں بیڈ پر نیم دراز زخمی شرفو نے یہ ساری کہانی اسماء کی زبانی سنی اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اسماء! جو بھی ہے، مگر اب ہماری بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا، یہ سب معاشرے کے نام نہاد معزز معتبر اور بزعم خود شریف لوگ ہیں۔ اس کی آواز بھرانے لگی تھی۔ تمہیں ذکیہ کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ مگر شرف، میں کیا کرتی… بچے بھوکے تھے اور عید کا روز تھا! وہ نادم لہجے میں بولی۔ میں سارا بندوبست کر کے سویا تھا، اسماء! وہ کراہتے ہوئے بولا۔ ہاں! وہ سب میں نے بعد میں دیکھا، جب ماسٹر کے گھر سے راشن لے کر آئی تھی۔ تم جانتی ہو، یہ ماسٹر کون ہے؟ یہ وہی پرنسپل فاروقی ہے جس کی تم نے بے عزتی کی تھی۔ وہ ایک دم چونک کر اسے دیکھتے ہوئے بولی۔ اور ذکیہ …. وہ ان کی ملازمہ ہے۔ تو یہ سب طے شدہ منصوبہ تھا! وہ تاسف سے بولی۔ کس قدر منتقم مزاج نکلا یہ پرنسپل فاروقی، صرف ایک انتقام لینے کے لیے اس نے اتنے سالوں تک انتظار کیا۔ یہی تو کینہ ہے، جو انسان کو وحشی بنا دیتا ہے۔ وہ تاسف سے بولا۔ میں بات کی تہہ تک پہنچ گیا ہوں۔ انہوں نے وہ فوٹو ایڈٹ کر کے لگائی تھی۔ اس کا مقصد تمہارا گھر برباد کر کے تم سے انتقام لینا تھا۔ شرفو کافی دن تک اسپتال میں زیر علاج رہا۔ مشتعل ہجوم نے اسے بہت زیادہ زخمی کردیا تھا۔ اس دوران وہ لوگ گاؤں سے شہر شفٹ ہوگئے۔ اس سلسلے میں نرگس نے بہت تعاون کیا اور انہیں اپنے قریب ہی مکان لے کر دیا۔ سنا تھا کہ ذکیہ کو اپنے جرم کا احساس ہوگیا تھا۔ چنانچہ اس نے گاؤں بھر کے سامنے سارا قصہ بیان کردیا۔ اسماء کی تصویر، کسی ماڈل گرل کے ساتھ ایڈٹ کر کے فاروقی نے وائرل کی تھی۔ جب گاؤں والوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے اس سے دعاسلام ہی چھوڑ دی۔ چنانچہ وہ بھی اپنا مکان اور اسکول فروخت کرکے وہاں سے چلا گیا۔ پورا گاؤں شرفو سے عیادت اور معافی مانگنے آیا تھا۔ وہ ایک نرم خو اور نیک دل انسان تھا۔ اس نے سب کو معاف کردیا۔ گاؤں والے اسے واپس لے کر جانا چاہتے تھے مگر اس نے انہیں خوشخبری سناتے ہوئے بتایا، دراصل میری پرانی ملازمت بحال ہوگئی ہے۔ یہ خبر مجھے بھی کل ہی ملی ہے، ورنہ میں آپ کو انکار نہیں کرتا۔ سب لوگ اسے مبارکباد دیتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ ساتھ ہی شرفو کی آزمائش کے دن بھی رخصت ہوچکے تھے۔