ہم ایسے شہر میں رہتے تھے ، جہاں کالج میں لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ اس تھوڑی سی آبادی والے شہر میں صرف یہی ایک کالج تھا، لہٰذا مجھے مجبوراً کو ایجو کیشن میں داخلہ لینا پڑا۔ اس کالج میں حبیب بھی زیر تعلیم تھا۔ یہ لڑکا مجھ سے ایک سال بڑا ہو گا، گرچہ ہم پڑوسی تھے لیکن میں اس سے بات نہیں کرتی تھی۔ جب سے یہ لوگ ہمارے پڑوسی ہوئے تھے، میں نے کبھی اس سے بات نہ کی تھی، لہٰذا یہ حجاب کالج میں بھی برقرار تھا۔ یہ چھٹی کا دن تھا۔ میں نے کپڑے دھو کر چھت پر بندھی الگنی پر ڈالے ہی تھے کہ کچھ دیر میں آسمان ن پر پر گھنے بادلوں سے ڈھک گیا اور موسم سہانا ہو گیا۔ گھرے ہوئے بادل دیکھ کر مجھے دھلے ہوئے کپڑوں کی فکر ہوئی، سو دوبارہ ترنت چھت پر پہنچی اور کپڑے اتار کر ٹوکری میں رکھنے لگی، تب ہی میری نظر پڑوس کی چھت پر موجود حبیب پر پڑی۔ وہ بھی اپنے گیلے کپڑے اتارنے آیا تھا۔ شاید اس کی ماں نے اسے اوپر بھیجا تھا۔ گھٹنوں کی مریضہ ہونے کے سبب وہ زینہ چڑھنے سے قاصر تھیں، بہر حال میں نے حبیب کی طرف توجہ نہ دی۔ جب میں ٹوکری اٹھا کر اپنے زینے کی جانب مڑی تو اس نے منڈیر کے قریب آکر آواز دی۔ سنو شاہانہ ! وہ بولا۔ مجھے کچھ نوٹس درکار ہیں، اگر آپ کے پاس ہوں تو براہ کرم چھت کی منڈیر پر رکھ دیں، میں اٹھا لوں گا۔ میں نے منہ اوپر کر کے بادلوں کی طرف دیکھا اور مسکرادی۔ وہ سمجھ گیا کہ بارش ہونے کو ہے ، اگر نوٹس بھیگ گئے تو ، تب ہی اس نے کہا۔ بارش نہ ہو تو رکھ دیجئے گا۔ میں اچھا کہہ کر زینہ اتر آئی۔ سوچا کہ ممکن ہے اس کو نوٹس فوری طور پر درکار ہوں ،اس سے ایک کلاس آگے یعنی فائنل میں تھی اور کل ہی پچھلی کلاس کے نوٹس نکال کر ایک جانب رکھ دیے تھے ، کہ یہ اب میرے لیے بے کار تھے۔ میرے دل کے اندر موجود نیکی نے میرے ضمیر سے کہا۔ ان نوٹس کو ردی میں پھینکنے سے تو بہتر ہے اس کو ہی دے دوں، جس کو اس کی ضرورت ہے۔ کسی ضرورت مند طالب علم کے کام آجائیں گے ، تو اچھا ہے۔ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ اسی وقت میں نے نوٹس کا پلندہ اٹھایا اور جا کر منڈیر پر دھر دیا۔
اب دل پر بار بار یہ خیال بجلی کی طرح گزرتا تھا کہ جانے اس نے نوٹس اٹھائے یا نہیں۔ دوپہر کو چھت پر جا کر جھانکا۔ شکر ہے بارش نہ ہوئی تھی، مگر بنڈل اسی طرح موجود تھا۔ دل میں آیا کہ واپس اٹھا لوں لیکن پھر ایسا نہ کر سکی۔ ایک عجیب سی بے چینی شام تک دامن گیر رہی، تمام دن کسی کام میں دل نہ لگا۔ دھیان اسی بنڈل کی جانب ہی لگا رہا، جو پڑوسی کی منڈیر پر دھرا تھا۔ سوچ رہی تھی اگر اس نے نہ اٹھایا تو امی کو کہوں گی اسے دے دیں۔ پانچ بجے شام کام سے فارغ ہو کر پھر بنڈل دیکھنے چھت پر آ پہنچی، جہاں حبیب میرے انتظار میں موجود تھا۔ اس نے مجھے پہلے تو سلام کیا اور پھر شکریہ کہا۔ کوئی بات نہیں، میرے لیے تو یہ نوٹس اب بے کار تھے ، آپ کے کام آجائیں تو اچھی بات ہے۔ یہ کہہ کر میں جلدی سے ز ینہ اتر کر صحن میں آ گئی اور وہ کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ ان دنوں ہم آٹھ افراد اپنے گھر میں ایک پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔ میں اپنی دو بہنوں سے بڑی تھی۔ میرا ایک بھائی بڑا اور دو چھوٹے تھے۔ ہم سب بہن بھائیوں میں میں بہت محبت تھی۔ ہمارا یہ ذاتی گھر تھا، جس میں برسوں سے ره رہے تھے لیکن ہم لڑکیاں پڑوس میں کہیں آتی جاتی نہیں تھیں۔ اگر کبھی ضرورت پڑتی، خوشی غمی کے موقعوں پر امی ہی اڑوس پڑوس میں جاتی تھیں۔ تب ہی میں اب تک حبیب کے گھر بھی نہیں گئی تھی۔ اس واقعے کے پورے تین ماہ تک میں گھر میں سمٹ کر بیٹھ گئی اور کبھی حبیب سے رابطہ نہ کیا۔ اس دوران اس نے کالج میں ایک دو بار مجھ سے بات کرنی چاہی مگر میں نے موقع ہی نہ دیا۔ وہ فطرتاً شریف اور اپنی والدہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے والد کا کافی عرصہ قبل انتقال ہو چکا تھا۔ ماں نے اسے بڑی دقتوں سے پالا تھا۔ اس کے ماموں ، اپنی بیوہ بہن کی مالی مدد کیا کرتے تھے ، تب ہی حبیب امیر زادوں جیسا لاڈلا یا آوارہ مزاج نہ تھا۔ وہ لاپروا قسم کا لڑکا نہیں تھا، اسے اپنی والدہ کی بیوگی اور حالات کی سنگینی کا خوب احساس تھا۔ وہ محنت سے دل لگا کر پڑھ بھی رہا تھا۔ اس کی شرافت کو دیکھ کر ہی میرے دل میں اس کی عزت بنی تھی۔ حبیب کی والدہ کبھی کبھار ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔ ایک دن انہوں نے باتوں باتوں میں بتایا کہ حبیب کا ہاتھ جھلس گیا ہے۔ تب ہی امی نے سوچا کہ پڑوسن ہیں، جا کر ان کے لڑکے کو پوچھ آنا چاہیے۔ چونکہ میرے دل میں اس کے لیے خاص جگہ بن گئی تھی، اسی وجہ سے میں نے کہا۔ امی میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔ امی نے اعتراض نہ کیا، بولیں۔ ٹھیک ہے ، چلی چلو – امی ، حبیب سے باتیں کرنے لگیں تو مجھے بھی اس سے بات کرنے کا موقع ملا۔ پوچھا کہ تمہارا ہاتھ کیسے جھلسا ؟ وہ کہنے لگا۔ امی کے گھٹنوں میں درد رہتا ہے۔ ان کو پکانے میں دقت ہو رہی تھی۔ سوچا کہ میں ناشتہ بنا لوں، بس اس طرح ہاتھ پر شعلے کی لپک لگی ، چولہا جلاتے ہوئے مجھلس گیا۔ مجھے دکھ ہوا کہ امتحان نزدیک تھے اور اس کے سیدھے ہاتھ میں تکلیف تھی۔ سوچا، یہ کیسے لکھ پائے گا اور کیونکر پیپر دے گا۔ اب اس کی بے بسی پر میرا دل موم کی طرح پگھل گیا۔ جانے دل میں کیا آیا کہ میں نے ایک رقعہ لکھا اور آخر کار اس خاردار راستے کا انتخاب کر لیا، جس پر چل کر لوگ ہمیشہ زخمی ہی ہوتے ہیں۔ رقعے میں ، میں نے لکھا تھا۔ اگر تمہارے ہاتھ میں زیادہ تکلیف ہے ، تم چاہو تو پریکٹیکل جنرل مجھ سے لکھوا لو۔ میرے پاس اپنا موجود ہے ، مجھے تمہارا جنرل بنانے میں دقت نہ ہو گی۔ چونکہ ہمارے مضمون ایک تھے ، اس لیے میں اس کی مدد کر سکتی تھی۔ جواب میں اس نے شکریہ لکھا اور جب میں صحن میں بیٹھی تھی، اس نے اپنے گھر کی چھت سے یہ رقعہ ہمارے صحن میں پھینک دیا۔ میں نے فورا اٹھایا، کھول کر پڑھا۔ لکھا ہوا تھا، جیسے تم اب میرا ساتھ دے رہی ہو ، کیا عمر بھر اسی طرح ساتھ دے سکو گی ؟ میں نے جواب میں لکھ دیا۔ ہاں، اگر تم ساتھ دو گے تو میں بھی تمہارا ساتھ دوں گی۔ لکھنے کو تو یہ بات لکھ دی، پھر بہت پشیمان کے بھی ہوئی کہ جس راہ کو جانتی نہیں، کیوں اس پر قدم رکھ دیا۔ کسی کو ہم سے سفر بنانے سے پہلے آزمانا تو چاہیے تھا کہ یہ عمر بھر ساتھ دے بھی سکے گا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہمارے در میان با قاعدہ رقعہ بازی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں رقعہ لکھ کر اس کی چھت پر پھینک آتی ، اسی طرح جب وہ دیکھتا کہ میں اپنے صحن میں اکیلی بیٹھی ہوں تو وہ چھوٹے سے پتھر یا کنکر میں رقعہ لپیٹ کر اپنی چھت سے پھینک دیتا جو میرے سامنے آ گرتا، یوں ہمیں کسی پیامبریا ڈاکیے کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ چھت کے ساتھ چھت ملی ہوئی تھی، ہمیں بات کرنا بھی آسان تھا اور خط و کتابت کی ترسیل بھی آسان تھی۔
ہم زیادہ دیر چھت پر نہیں رکھتے تھے۔ مبادا امی کو شک ہو جائے۔ وہ بھی ایسا لڑکا نہ تھا جو کسی لڑکی کو برائی پر اکساتا۔ وہ اچھے مستقبل کے لیے محنت کرنا اور اپنی بیوہ ماں کے دکھ سمیٹنا چاہتا تھا۔ یہ بات اس نے مجھ سے کئی بار کہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ بس ایک نظر تم کو دیکھ لیتا ہوں تو محنت کرنے کی امنگ بڑھ جاتی ہے اور تم کو حاصل کرنے کا خیال مجھ کو طاقتور بنا دیتا ہے۔ اس نے بس ایک بار مجھے کہا کہ تم سے ملنا چاہتا ہوں۔ ان ہی دنوں، ایک روز امی اور بھائی کو ایک عزیز کے انتقال پر لاہور جانا پڑا ، تب میں نے حبیب سے کہا کہ تم ہمارے گھر آ جائو۔ یہ دسمبر کی ایک رات تھی ، وہ ساڑھے دس بجے ہمارے گھر آیا۔ کافی پریشان تھا۔ میں نے سبب پوچھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلا مرد کو دیکھا جو آنسو بہارہا تھا۔ دل کانپ اٹھا، پوچھا مجھے بتادو ، کیا بات ہے ؟ تم کو کیا پریشانی ہے ؟ اس نے بتایا کہ ایک نہیں دو پریشانیاں ہیں۔ ایک تو داخلہ فیس بھجوانی ہے اور پیسے پورے نہیں ہو ر ہے اور دوسرے امی میری منگنی کسی رشتہ دار کی بیٹی سے کرنا چاہتی ہیں۔ اگر ایسا ہوا میں تم کو کھو دوں گا۔ پہلا مسئلہ تو ابھی حل ہو جائے گا، فیس کے پیسوں کی فکر مت کرو، البتہ دو سر امسئلہ تو تمہارا ہے ، اس کو تم ہی نے حل کرنا ہے، میں تو نہیں حل کر سکتی۔ میں نے اس کو داخلہ فیس کے لیے رقم دی۔ اس نے اس شرط پر لی کہ جب اس کی امی کو مرحوم شوہر کی پنشن کے پیسے ملیں گے تو وہ لوٹا دے گا۔ مجھے یہ رقم واپس لینی ہو گی اور یہ وہ بطور قرض قبول کرے گا۔ ٹھیک ہے، لیکن تم ابھی داخلہ فیس تو بھرو، کیونکہ یہ تو مقررہ تاریخ تک دینا ہوتا ہے۔ یہ قرض ہے اور میں واپس لے لوں گی۔ دوسرے مسئلے کے بارے میں بھی اسے تسلی دی کہ بھئی جب وقت آئے گا، دیکھا جائے گا۔ ابھی سے تم کس فکر میں پڑ گئے ہو، پہلے پیپرز تو سکون سے ہو لینے دو۔ پہلے ہی تمہاری انگلیاں جھلسی ہوئی ہیں۔ کسی طور حبیب نے پیپرز دے دیئے۔ ایک دن اس کی خالہ اپنے گھر والوں کے ساتھ آئی، ان کے گھر کچھ گہما گہمی دکھائی دی۔ ان کے جانے کے بعد حبیب کا رقعہ مجھے ملا کہ بالآخر اس کے گھر والوں نے ہماری راہیں جدا کر دی ہیں۔ اس کی منگنی، خالہ زاد سے کر دی گئی تھی۔ یہ سن کر میری آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ کافی دن تک ، جب آنسو گرتے تھے تو پھر تھمتے نہیں تھے۔ اس نے مجھے اشارے سے چھت پر بلایا۔ ہم دونوں مل کر خوب روئے تھے۔ یہ میری اس سے دوسری اور آخری ملاقات تھی۔ اب دو ہی راستے تھے کہ ہم ہمیشہ کے لیے ایک ہو جائیں یا پھر والدین کی رضا پر راضی ہو کر سر جھکا لیں اور خاموش ہو جائیں۔ اس نے کہا تھا کہ اب تم ہی فیصلہ کرنا، تم جو فیصلہ کرو گی مجھے منظور ہوگا۔ مجھے اپنے گھر والوں سے زیادہ اس کی بیوہ ماں کی خوشی کا خیال تھا، جس نے بہت دکھوں اور تکلیفوں کو جھیل کر اسے پالا تھا اور حبیب اس کی کل کائنات تھا۔ اب ہم محتاط ہو گئے لیکن ایک دوسرے کے لیے پہلے سے زیادہ محبت بڑھ گئی۔ جدا ہونے کے خیال سے ہی دل بیٹھا جاتا تھا، تاہم یہ حقیقت تھی کہ کسی نہ کسی طرح زندگی کا یہ سفر اب اکیلے ہی طے کرنا تھا۔ میں گریجویشن کے بعد فارغ تھی۔ تب ہی میرے والدین نے بھی اپنے فرض سے سبکدوش ہونا ضروری سمجھا اور میرا رشتہ والدہ نے اپنے رشتہ داروں میں طے کر دیا۔ جب مجھ سے پوچھا گیا تو میرا جواب سوائے آنسوئوں کے اور کیا ہو سکتا تھا کیونکہ حبیب کی تو منگنی ہو چکی تھی۔
ان دنوں میں صدمے سے نیم جان تھی تو حبیب بھی غم سے نڈھال تھا۔ چند ماہ مایوسی سے دکھ جھیلتے رہنے کے بعد بالآخر میری منگنی ہو گئی اور میں نے خاموشی سے تقدیر کے فیصلے کو یہ سوچ کر تسلیم کر لیا کہ ضروری تو نہیں ہم جس کو چاہیں یا پسند کریں، اس کے ساتھ ہماری شادی بھی ہو جائے۔ حبیب نے مجھ سے زیادہ دکھ محسوس کیا اور شدید بیمار ہو گیا کہ اس کی جان کے لالے پڑ گئے۔ اس کی ماں کا رو، رو کر برا حال تھا۔ امی بھی عیادت کرنے اسپتال گئیں، تب وہاں اس کی والدہ نے بیٹے کے دکھ کی وجہ سے میری والدہ کو آگاہ کر دیا۔ حبیب کی حالت دیکھ کر امی کو احساس ہوا کہ یہ لڑکا تو میری لڑکی سے واقعی دل سے محبت کرتا ہے ، تب ہی تو اتنا بیمار پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کچھ سوچ کر اس کی امی سے کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کی خوشی کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ دونوں ہی فرماں بردار ہیں کہ جہاں ہم نے منگنی کو کہا، کر لی اور ہمار ا دل نہیں دکھایا تو ہمیں بھی ان کا دل نہیں دکھانا چاہیے۔ دعا ہے کہ تمہارا بیٹا جلد صحت یاب ہو جائے تو پھر ہم اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔ حبیب صحت یاب ہو کر ملازمت کرنے لگے گا تو منگنیاں توڑی جاسکتی ہیں، اپنے بچوں کی خوشی کی خاطر فیصلے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ جب یہ حبیب نے سنا تو گویا پھر سے جی اٹھا۔ اس بیمارمیں پھر سے جان پڑ گئی اور وہ تیزی سے صحت یاب ہونے لگا۔ ایک امید کی کرن نے اس کے بے جان وجود میں نئی روح پھونک دی تھی۔ امید انسان کی سب سے بڑی خوشی اور طاقت ہے، اگر امید نہ ہو تو انسان وقت سے پہلے جان ہار دیتا ہے۔ حبیب نے مجھے حاصل کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور بالآخر ایک اچھی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کو ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی۔ اچھی تنخواہ تھی اور الائونس وغیرہ بھی تھا۔ جب یہ خبر اس کی ماں نے امی کو سنائی تو وہ کچھ پریشان سی ہو کر سوچ میں پڑ گئیں۔ تاہم میری خوشی کی خاطر انہوں نے میری منگنی ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور بہانہ بنایا کہ میری بیٹی ایم اے کرنا چاہتی ہے اور ابھی شادی کی بجائے اعلیٰ تعلیم کے حق میں ہے، لہٰذا ہم نے اس کی شادی کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے۔ میرے منگیتر کے والدین نے بہت زور لگایا کہ ہم دو سال کی مہلت دیتے ہیں۔ یہ ایم اے کرلے، پھر شادی کر لیں گے مگر ہمیں تو رشتہ ختم کرنا تھا۔ لہذا والدہ نے ان کی ہر آرزو پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح حبیب کی والدہ نے بھی کسی بہانے سے اس کی منگنی ختم کرا دی۔ انسان چاہے جتنا زور لگا لے ہوتا وہی ہے جو خدا کو منظور ہوتا ہے۔ حبیب کی ماں نے شادی کے لیے امی سے ایک سال کی مہلت مانگی تھی ، تاکہ کچھ رقم جمع ح ہو ہونا تو شادی پر اخراجات کا انتظام کر سکیں۔ خدا کی کرنی ایک سال بعد حبیب کی ملازمت ہی جاتی رہی۔ جب اس کی والدہ نے امی جان کو یہ خبر سنائی تو والدہ کو مایوسی نے گھیر لیا۔ انہوں نے حبیب کی امی سے کہا۔ پرائیویٹ ملازمتیں تو ایسی ہی ہوتی ہیں۔ کمپنی والے کبھی رکھتے ہیں تو کبھی نکال دیتے ہیں۔ جانے پھر ایک تمہارے لڑکے کو کب ملازمت ملے۔ تمہارے مرحوم شوہر کی پنشن سے اتنے تھوڑے پیسے ملتے ہیں کہ تم دونوں ماں بیٹے کی گزر بسر بھی صحیح طرح نہیں ہو پاتی۔ بہن اللہ سے اچھی امید رکھو۔ ہم نے اپنے بچوں کو خوشیاں پوری کرنے کی خاطر ان کی منگنیاں توڑی ہیں تو اب کچھ حوصلہ کرنا ہی پڑے گا۔ اللہ نے چاہا تو جلد حبیب کی دوبارہ ملازمت ہو جائے گی۔ والدہ نے چھ ماہ تک خاموشی اختیار کیے رکھی۔ چھ ماہ بعد میرے لیے ایک اور بہت اچھا رشتہ آگیا۔ لڑکا سعودی عرب میں انجینئر تھا اور یہ خوش حال لوگ تھے۔ اتنی اچھی فیملی کہ ایسا رشتہ قسمت والوں کو ملتا ہے۔ اب والدہ پھر سے سوچ میں پڑ گئیں۔ ان لوگوں سے کہا کہ چھ ماہ کی مہلت دے سکتے ہیں تو ٹھیک ہے، ابھی بات پکی نہیں ہو سکتی۔ انہیں میں پسند آگئی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم چھ ماہ انتظار کر لیتے ہیں۔ جب تک آپ کی طرف سے جواب نہ مل جائے گا کہیں اور بات نہ چلائیں گے۔ادھر چھ ماہ بھی گزر گئے ، حبیب کو ملازمت نہ ملی۔ تب ماں، آنٹی سے حتمی بات کرنے گئیں۔ کہا کہ سال بھر انتظار کر لیا مگر تمہارے لڑکے کو ملازمت نہیں ملی۔ آخر کب تک میں اپنی لڑکی کو بٹھا رکھوں گی۔ جانے کب ملازمت ملے تمہارے پاس تو کوئی اثاثہ بھی نہیں کہ تمہار ا لڑکا دکان ہی کھول کر ذریعہ روزگار پیدا کر لے۔ امی کی نیت بدل گئی تھی۔ جب سعد کے گھر والے دوبارہ اس کا رشتہ لائے کہ ہم نے چھ ماہ انتظار کر لیا ہے ، اب ہم کو جواب چاہیے ۔ تب امی نے فوراً ان کو ہاں کر دی اور حبیب سے منگنی ختم کردی تا کہ ہم دھوکے میں رہیں اور نہ آپ ، کیونکہ وہ حبیب کے ساتھ رشتہ کر کے اب پچھتا رہی تھیں۔
جہاں پہلے میری منگنی ہوئی تھی ، وہ بھی ایک خوش حال گھرانہ تھا جبکہ حبیب ایک نادار یتیم لڑکا تھا، سوائے گریجویشن کے اس کے پاس اور تعلیم یا ہنر بھی نہیں تھا۔ امی نے سوچا کہ اتنی غربت میں بیٹی کا رشتہ دے کر غلطی کر رہی ہوں جبکہ خوشحالی، زندگی کی خوشیوں کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ میری بیٹی عمر بھر غربت میں زندگی گزارے گی۔ رہی خوشیوں کی بات تو بچوں کے شادی اور محبت کے بارے میں ان کے اپنے فیصلے جذباتی ہوتے ہیں۔ تھوڑے دنوں میں ہی جب شاہانہ امیر گھر کے سکھ دیکھے گی تو پچھلی کہانی بھول جائے گی۔ امی نے تو پھر بھی چھ ماہ مزید صبر کیا تھا۔ والد صاحب حبیب سے میری منگنی کے حق میں نہ تھے کہ وہ خوشحال لوگ نہیں تھے مگر والدہ کے کہنے سے چپ ہو رہے تھے۔ حبیب کی ماں کو جواب دے کر امی نے میری شادی کی تاریخ سعد کے والدین کو دے دی۔ جب شادی کے بعد پہلی بار میکے گئی تو پتا چلا کہ حبیب یہ صدمہ نہ سہ سکا اور پھر سے بیمار ہو کر اسپتال پہنچ گیا ہے۔ میں سوائے اس کی سلامتی کی دعا مانگنے کے اور کچھ نہ کر سکی۔ شادی کے ایک ماہ بعد ہی میں اپنے شوہر کے ساتھ سعودی عرب چلی گئی، جہاں مجھے ایک خط ملا جو میری سہیلی کے پتے پر آیا تھا۔ وہ ہمارے قریب رہتی تھی۔ اس کا شوہر میرے خاوند کے ساتھ ایک ہی کمپنی میں کام کرتا تھا۔ نائلہ نے بند لفافہ مجھے لا کر دیا۔ وہ سمجھی میرے گھر سے خط آیا ہے، کیونکہ میں نے امی والوں کو نائلہ کا پتا دیا ہوا تھا۔ لفافہ کھولا تو حبیب کی تحریر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ جانے کیسے اس نے ہمارے گھر سے یہ پتا حاصل کیا تھا۔ لکھا تھا، میرے لیے اب جینا محال ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ میں ہی اپنی والدہ کے لیے سب کچھ ہوں۔ کہتے ہیں کہ ہر کام میں بھلائی ہوئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہماری جدائی میں کون سی نیکی پوشیدہ ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے تمہاری عزت پر حرف آئے، لہٰذا اطمینان رکھو ، اب ہمارے درمیان کوئی رابطہ کوئی خط و کتابت نہیں ہو گی ، اس لیے یہ خط تحریر کیا ہے۔ تم میرا خیال بالکل بھلا دینا۔ میں تم کو قصور وار نہیں سمجھتا، لہٰذا کسی پچھتاوے میں نہ آنا، اداس نہ رہنا، اپنے والدین کی لاج رکھنا، شوہر کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرنا اور کبھی لڑ جھگڑ کر میکے نہ آنا کیونکہ اب یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ میرے دل میں تمہارے لیے جیسا احترام پہلے تھا اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ زندگی کی بعض حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جنہیں قبول کر لینا ہی بہتر ہوتا ہے ۔ اس کے بعد کبھی حبیب کا کوئی خط نہیں آیا، نہ کبھی بات چیت ہوئی اور نہ اس نے فون پر رابطے کی کوشش کی۔ کچھ عرصہ بعد پتا چلا کہ حبیب کا دل ہمارے محلے سے ایسا کھٹا ہوا کہ وہ لوگ اپنا مکان ہی بیچ کر چلے گئے۔ کہاں گئے ؟ یہ کسی کو معلوم نہ ہو سکا۔ یوں تو انسان قدم قدم پر دھو کے کھاتا ہے اور قدم قدم پر دکھ بھی اٹھاتا ہے لیکن ہمارا قصور کوئی نہ تھا، سوائے اس کے کہ حبیب کو نوکری نہ ملی۔ اسی وجہ سے اسے زندگی کی سب سے بڑی خوشی سے جدائی مل گئی –