میں ایک لیڈی ڈاکٹر ہوں۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میں ایک سرکاری اسپتال میں جاب کررہی تھی۔ جس وارڈ میں میری ڈیوٹی تھی، وہاں ایک دبلی پتلی اور تیکھے نقوش والی مریضہ موجود تھی جو بہت کمزور ہوچکی تھی۔ جب میں اس کا چارٹ تیار کرنے صبح دم جاتی تو وہ کہتی۔ ڈاکٹر صاحبہ! میرا ایسا علاج کریں کہ میں اس دنیا سے چلی جائوں۔ میں مزید جینا نہیں چاہتی۔ مجھے کوئی ایسا انجکشن لگا دیں کہ ہمیشہ کے لئے دکھوں سے نجات مل جائے۔ اس مریضہ کا نام زبیدہ تھا اور ایک رحم دل خاتون اسے اسپتال میں داخل کروا گئی تھی۔ وہ ہفتہ میں ایک دو بار دیکھنے آتی تھی۔ مجھے زبیدہ میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ میں اس کے ساتھ ہمدردی اور محبت سے پیش آتی اور کچھ دیر بیٹھ کر اپنائیت سے بات کرتی۔ اس نے بتایا کہ اس دنیا میں اس کے عزیز، رشتے دار، بھائی، والد سبھی موجود ہیں پھر بھی وہ تنہا ہے، لاوارث ہے۔
مجھے یہ عجیب بات لگتی۔ میں نے اسے اعتماد میں لیا۔ کہا۔ مجھے اپنا سمجھو۔ اگر کوئی تمہارا نہیں ہے تو میں تمہاری ہوں، میرے ہوتے تم دنیا میں اکیلی نہیں ہو۔ اعتماد دلانے پر اس نے ایک دن اپنی بپتا سنائی۔ میں نے ایک گائوں میں جنم لیا تھا، والد صاحب تھوڑی سی زرعی اراضی کے مالک تھے۔ تاہم ہمارا شمار کھاتے پیتے لوگوں میں ہوتا تھا۔ والدین نے اپنے بچوں کو کبھی کسی شے کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ بچپن کا عرصہ خوشیوں بھرا مگر بہت مختصر تھا کیونکہ گیارہ برس کی عمر میں جبکہ ابھی میری عمر کھیلنے کی تھی، میری شادی کردی گئی۔ میری چھ بہنیں تھیں۔ وہ جلدی جلدی ان کا بوجھ اتارنا چاہتے تھے۔ گائوں میں یوں بھی ان دنوں چھوٹی عمر میں بچیوں کی شادیاں کردینے کا رواج عام تھا۔
میری شادی دور کے عزیزوں میں ہوگئی۔ میرے شوہر کی اور میری عمر میں بہت فرق تھا۔ ریاض کی پہلی بیوی مر چکی تھی۔ وہ مجھ سے عمر میں لگ بھگ بیس برس بڑے تھے۔ بہت رکھ رکھائو والے اور سنجیدہ مزاج انسان تھے۔ ان دنوں میں اتنی ناسمجھ تھی کہ شادی کے تقاضے اور فرائض نہیں سمجھتی تھی، تاہم ساس ایک سمجھدار عورت تھی۔ میں اسے خالہ کہتی تھی۔ مجھے ساس اچھی ملی۔ وہ بہت پیار سے زندگی کے رموز سمجھاتی۔ مجھے شوہر کے قریب کرنے میں خالہ جی نے بہت اہم کردار ادا کیا، میرے دل میں شوہر کی محبت پیدا کی۔ میں ناسمجھ تھی مگر زندگی ایک خوشگوار ڈگر پر چل نکلی۔ ان دنوں کام کاج بالکل نہیں آتا تھا، ساس ہی گھر کا تمام کام کرتی اور بیٹے کو بھی سمجھاتی کہ ریاض! ابھی یہ کم عمر ہے، اسے ذمہ داریوں کا کچھ نہیں پتا۔ بیٹا! اس پر سختی ہرگز نہ کرنا۔ اپنے کام خود کرلیا کرو۔
ریاض ماں کے فرمانبردار تھے۔ وہ ان کا ہر حکم مانتے۔ اپنے کپڑے تک خود دھو لیا کرتے اور مجھے کبھی نالائقی کا طعنہ نہ دیتے۔ نہ ہی سختی کرتے تھے۔ میرا رنگ کافی سانولا تھا، مگر جیون ساتھی نے کبھی اس کا احساس نہ ہونے دیا۔ ریاض میں بہت خوبیاں تھیں، تاہم ایک کمی تھی کہ وہ بات بہت کم کرتے تھے، زیادہ تر چپ رہتے۔ بلا کے محنتی تھے، تمام دن کام کی خاطر گھر سے باہر رہتے۔ رات کو تھکے ہارے آتے تو کھانا کھاتے ہی لیٹ جاتے۔ جب تک جاگتے رہتے، خاموش رہتے۔ کوئی بات کرتا تو ایک دو لفظوں میں مختصر جواب دے دیا کرتے، جبکہ میں ریاض کے برعکس بے حد باتونی اور چلبلی واقع ہوتی تھی۔ باتیں کرنا میرا مشغلہ تھا۔ لگتا تھا کہ باتیں نہیں کروں گی تو کھانا ہضم نہیں ہوگا۔ میں چپ نہیں رہ سکتی تھی۔
میں چاہتی تھی کہ میرا شوہر ریاض مجھ سے باتیں کرے، مگر وہ چپ سادھے رکھتا، میں خود بات شروع کرتی، وہ سنتا رہتا۔ کبھی ہوں ہاں، کردیتا، جس پر مجھے غصہ آتا۔ میں کبھی لڑ بھی پڑتی تو لب نہ کھولتا، تب مجھے لگتا کہ کسی بت سے بات کر رہی ہوں۔ رفتہ رفتہ اپنے شوہر میں میری دلچسپی کم ہونے لگی۔ باتیں کرنے کی خاطر میں ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ ساس بھی ایک حد تک بات کرتیں، پھر اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتی تھیں۔ تب میں شدید بور ہونے لگتی۔ مجھے گھر سے باہر نکلنے یا پاس پڑوس گھروں میں جانے کی اجازت نہ تھی۔ اس بات کو سسرال میں معیوب سمجھا جاتا تھا۔ نندیں شادی شدہ تھیں، پھر کیسے گھر میں دل لگتا۔
ریاض کا ایک گہرا دوست تھا، جو ایک عرصے تک اس کے ساتھ دبئی میں کام کرتا رہا تھا۔ وہ میری ساس کا بھی منہ بولا بیٹا بن گیا۔ اسی وجہ سے وسیم کو گھر آنے سے منع نہ کرتی تھیں۔ اس پر ریاض اور ساس کو بے حد اعتماد تھا۔ ریاض کی شادی سے پہلے وہ خالہ جی کے پاس آتا تھا۔ کوئی کام ہوتا، خالہ بھی اسے کہتیں۔ ریاض مصروف ہوتا یا گھر پرموجود نہ ہوتا، وسیم وہ کام بلاتامل کردیتا۔ ریاض کی شادی کے بعد بھی وہ ہمارے گھر آتا رہا۔ خالہ جی اس کو پہلے کی طرح اپنے قریب بٹھا کر کھانا کھلاتیں۔ گرم روٹیاں توے سے اتارتی جاتیں اور ان پر مکھن، چٹنی رکھ کر وسیم کے آگے چنگیری میں ڈھیر کرتی جاتیں۔ وسیم کو روٹی کے اوپر مکھن اور پودینے کی چٹنی رکھ کر کھانا بہت پسند تھا۔
شروع میں، میں نے وسیم کی طرف توجہ نہ دی لیکن شادی کے بعد جب میں زیادہ بیزاری کا شکار ہوئی تو وسیم سے بات چیت شروع کردی۔ ساس نے بھی نہ ٹوکا کیونکہ وہ اسے غیر نہیں بیٹا کہتی تھی۔ گرچہ وسیم ان کا بہت دور پرے کا رشتے دار تھا۔ گائوں میں عورتیں پردہ نہیں کرتیں لہٰذا وسیم سے میرا پردے کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
انہی دنوں ریاض کا ایک ساتھی اختر جو اس کے ساتھ دبئی میں کام کرتا تھا، بیمار ہوگیا۔ وہ شہر کی ایک کمپنی میں کام کررہا تھا۔ بیماری کی وجہ سے وہ گھر بیٹھ کر کام کرنے لگا تو ریاض کو بھی بلوا لیتا اور وہ کام کی تکمیل میں اس کی مدد کرتے تاکہ اس کی نوکری برقرار رہے۔ اس طرح اکثر ریاض کو دوچار راتیں شہر میں رہنا پڑتا تھا۔ دن میں وہ اپنا کام کرتے اور رات کو اپنے بیمار دوست کی مدد کرنے چلے جاتے۔ رات زیادہ ہوجاتی تو اس کے گھر ہی سو جاتے۔ جب ریاض دن کے علاوہ رات کو بھی گھر سے غیر موجود رہنے لگے تو مجھے کوفت ہونے لگی۔ کوئی بھی عورت اپنے شوہر کی گھر سے زیادہ غیر حاضری کو برداشت نہیں کرسکتی۔ ریاض گھر اور مجھے بہت کم توجہ دینے لگے تھے۔ تنہائی سے اکتا کر میں وسیم سے باتیں کرنے لگی۔ جب ساس اپنی بیٹی کے گھر چلی جاتی اور وہ آجاتا تو میں اسے باتوں میں الجھا کر روکنے کی کوشش کرتی۔ اس کے لئے چائے بنانے لگتی۔ مجھے ٹھیک سے روٹی پکانی نہیں آتی تھی پھر بھی اصرار کرتی کہ بیٹھو روٹی کھا کر جائو تو وہ ٹھہر جاتا۔
شروع میں ہم دونوں کے درمیان ایسی کوئی بات نہ تھی جسے غلط معنی دیئے جاتے۔ کافی دنوں تک جب ریاض سے توجہ نہ ملی تو میں بیزار رہنے لگی۔ میری اس کیفیت کو وسیم نے بھانپ لیا۔ اب وہ جب آتا اور ساس موجود نہ ہوتی تو مجھ سے باتیں شروع کردیتا۔ وہ پوچھتا کہ ریاض اتنی دیر سے کیوں آتا ہے، اسے کیوں خیال نہیں آتا کہ اس کی بیوی ہے، گھربار ہے۔ تم اس کا انتظار کرتی رہتی ہو مگر اسے ذرا بھی تمہارا خیال نہیں۔ نجانے کیسا بے پروا آدمی ہے۔ تمہارے جیسی اچھی اگر میری بیوی ہوتی تو کبھی ایسا ظلم اس پر نہ کرتا۔ غرض ہر روز اس طرح کی باتیں کرکے اس نے مجھ ناسمجھ کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیا۔ اب میں اپنے شوہر کے خلاف سوچنے لگی تھی۔
وسیم ایک گھاگ نوجوان تھا۔ جب میں نے اپنے شوہر کا شکوہ کیا تو اس نے میری بوریت اور بیزاری کے احساس کو اور ہوا دی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ ریاض کو میری پروا نہیں رہی ہے۔ اس کی بے توجہی سے نالاں تو تھی ہی، وسیم کو اپنا سچا ہمدرد سمجھنے لگی۔ اس نے بھی میرا دل بہلانے کی کوشش شروع کردی اور دلچسپ باتوں سے من موہنے لگا۔ جب ساس گھر میں نہ ہوتی تو وہ آجاتا اور کہتا۔ تمہارے ہاتھ کی پکی روٹی اور چٹنی کا مزہ مرغی اور روغنی نان سے بھی بڑھ کر ہے۔ ایسا ذائقہ ہوتا ہے کہ بھوک دوچند ہوجاتی ہے۔ میں اپنی تعریف پر پھولی نہ سماتی، فوراً اس کے لئے کھانا بنانے لگتی حالانکہ مجھے کھانا پکانا بالکل نہیں آتا تھا۔
اب میں روز ہی وسیم کے انتظار میں رہنے لگی۔ وہ نہ آتا تو بے چین ہوجاتی۔ ریاض ناشتہ کرکے گھر سے نکل جاتا اور ساس چولہا چوکا سمیٹ کر بیٹی کے گھر کی راہ لیتی۔ میری نند ایک اسکول میں نوکری کرتی تھی اور اس کے تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ ماں کی غیر موجودگی میں خالہ جی چند گھنٹوں کے لئے ان کو سنبھالتی تھیں تاکہ بیٹی نوکری کرسکے۔ یہ ایسا وقت ہوتا جب وسیم ہمارے گھر آ بیٹھتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس وقت گھر پر صرف میں اکیلی ہوتی ہوں۔ انہی دنوں ریاض کو دبئی میں ایک اچھی نوکری کے لئے ویزا مل گیا اور وہ زیادہ کمانے کی خاطر وہاں چلا گیا۔ کوئی دوسرا وقت ہوتا تو میں رو پڑتی مگر اب وسیم کا آنا جانا روز کا معمول تھا۔ اس نے مجھے تنہا نہ ہونے دیا۔ وہ آکر بیٹھ جاتا، خوب باتیں کرتا، میرا جی بہلاتا۔ وسیم خالہ جی کے گھر لوٹ آنے سے پہلے چلا جاتا۔ یوں میں بھی نہ بتاتی کہ کوئی آیا تھا۔ یوں عرصے تک انہیں معلوم نہ ہوسکا کہ وسیم ان کی غیر موجودگی میں آتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں اب وسیم سے ملے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ چھٹی کے دن ساس گھر میں ہوتی، تب وہ نہ آتا تو مجھے اس کی ایک دن کی غیر حاضری بھی شاق گزرتی۔ شدت سے اس کا انتظار رہتا۔ ایک پل بھی اس کے بغیر کٹنا مشکل ہوتا۔ وہ میری کمزوری بنتا جارہا تھا۔ میں اس کے بغیر اداس ہوجاتی۔ وہ نہ آتا تو سارا دن گھر میں ادھر سے ادھر ماری ماری پھرنے لگتی۔
ریاض کو دبئی گئے سال بیت گیا تھا۔ اس دوران وسیم نے میرے ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔ اس نے ریاض کے بارے میں جھوٹی باتیں شروع کردیں۔ میں اپنے شوہر سے بیزار تھی مگر اس چالاک انسان نے مجھے کلی طور پر شریک زندگی سے بدظن کردیا۔ میں اس کی ہر بات پر یقین کرنے لگی۔ اب میں بہانے بہانے سے ساس سے لڑتی اور کسی وجہ کے بغیر اس کا ناک میں دم کردیتی۔ وہ یہی سمجھتی کہ خاوند کی جدائی نے مجھے چڑچڑا کردیا ہے لیکن میں ان لوگوں سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ وسیم ہمارے گھر اب دوسرے تیسرے دن آتا تھا۔ ساس کو علم ہوگیا کہ وہ اس کی غیر موجودگی میں بھی آتا ہے تو اس نے وسیم کو ٹوکا کہ جب میں گھر موجود نہیں ہوتی، اس وقت تم مت آیا کرو۔ اس بات کا اس نے ہی نہیں، میں نے بھی سخت برا منایا اور واویلا مچایا کہ ساس مجھ پر شک کرتی ہے اور الزام لگاتی ہے، جبکہ میرا شوہر گھر پر نہیں ہے۔ شاید یہ مجھ پر تہمت لگانا چاہتی ہے، اب میں اس کے گھر میں نہ رہوں گی۔ اس پر اس بچاری کو لینے کے دینے پڑ گئے اور میں روٹھ کر میکے آگئی کیونکہ اس الزام کو میں سچ کرکے دکھانا چاہتی تھی۔
ایک ماہ بعد خالہ جی لینے آئی مگر میں اس کے ساتھ گھر واپس نہ گئی اور کہا کہ اب ریاض آئے گا تو ہی فیصلہ ہوگا۔ اس دھمکی سے خالہ جی ڈر گئی۔ معافی مانگی، منت سماجت کی مگر میں نہ مانی۔ اس پر خالہ جی نے فون پر ریاض کو حالات سے آگاہ کیا تو وہ گھبرا کر دبئی سے واپس آگیا۔ ادھر میرے والدین شش و پنج میں تھے۔ انہیں کوئی بات سمجھ میں نہ آرہی تھی۔ بظاہر میری ساس اور شوہر میں انہیں کوئی غلطی نظر نہ آئی تھی مگر میرا واویلا شدید تھا۔ رو رو کر فریاد کرنے لگتی تھی کہ میں غلط نہیں ہوں، یہی لوگ غلط ہیں۔ کچھ دنوں بعد میں نے طلاق کا مطالبہ کردیا۔ وسیم کی بہن میری سہیلی بن گئی تھی، وہ اپنے بھائی سے ملواتی جو مجھےنت نئی پٹیاں پڑھاتا۔ اسے بہت جلدی تھی کہ میری طلاق واقع ہو، جبکہ ریاض کسی صورت طلاق نہ دینا چاہتا تھا۔ بالآخر میں وسیم کے ساتھ ایک روز شہر چلی آئی اور کورٹ میں طلاق کا کیس داخل کرا دیا۔
ریاض تو بے حد شریف انسان تھا۔ بات کورٹ تک پہنچی تو صورتحال کو سمجھ لیا اور مجھے مزید خواری سے بچانے کی خاطر طلاق دے دی۔ یوں میں خلع کا پروانہ لے کر کچہری کے احاطے سے اپنی دانست میں سرخرو ہوکر نکلی۔ تمام خاندان والے مجھ سے ناراض تھے۔ والدین نے بھی مجھے مرا ہوا سمجھ لیا اور چپ سادھ لی۔ اب ہم آزاد تھے۔ جس نے میرا گلشن اجاڑا، میری جنت تباہ کی، میں نے اسی وسیم کے ساتھ کورٹ میں نکاح کرلیا۔ عورت تو طلاق پر اپنے گھر کے اجڑنے پر روتی ہے مگر میں دیوانی خوشی سے نہال تھی کہ میری مشکل آسان ہوگئی ہے۔ والدین کو ناراض کرکے خود وسیم کے ساتھ جاکر نکاح کیا تھا۔ نہیں جانتی تھی کہ وہ شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ ہے۔ اس نے پہلی شادی بھی اپنی مرضی سے کی تھی، بیوی کو دوسرے گائوں میں رکھا تھا اور یہ بات کسی کو نہ بتائی تھی۔
میرا فیصلہ بہت غلط تھا۔ اس فیصلے پر جہاں سارے گائوں والوں نے مجھ سے منہ پھیر لیا، وہاں میرے والد کو بھی ایسا غم لگا کہ وہ ایک سال کے اندر اندر اس دنیا سے چلے گئے۔ اپنی مرضی سے کورٹ میرج کرلینا ہمارے خاندان میں یہ پہلا دھماکا تھا۔ جب تک ابا زندہ رہے، وسیم کا رویہ مجھ سے درست رہا۔ ان کی وفات کے بعد وہ بدلنے لگا۔ پہلی بیوی جو روٹھ کر چلی گئی تھی، وہ اسے منا کر گھر لے آیا اور زیادہ تر اسی کے ساتھ وقت گزارنے لگا۔ میں ایک دوسرے گھر میں اکیلی رہنے پر مجبور تھی۔ وہ جاتے ہوئے باہر سے تالا لگا جاتا۔ اس دوران میں تنہا ہوتی۔ رات، دن تنہائی کے ان سانپوں نے مجھے ڈس ڈس کر بے حال کردیا۔
میرا کہیں آنا جانا اور گھر سے نکلنا بند تھا۔ پاس پڑوس بھی نہ تھا کہ دو گھڑی وہاں جاکر دل کا بوجھ ہلکا کرلیتی، جس قدر ساس اور ریاض مجھ پر اعتماد کرتے تھے، وسیم اتنا ہی شک کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا جب تم میری خاطر ریاض جیسے شوہر کو دھوکا دے سکتی ہو تو پھر کسی اور کی خاطر مجھے بھی دے سکتی ہو۔ مجھے تم پر اعتبار نہیں ہے۔ ان سختیوں سے تنگ آکر کسی طرح اپنے بھائیوں کو کہلوایا کہ مجھے معاف کردو اور آکر خبر لو۔ وہ آگئے اور کہا کہ ہمارے ساتھ اس شرط پر چلو کہ دوبارہ وسیم کے پاس لوٹ کر نہیں آئو گی، تبھی ہم تمہیں لے جائیں گے کیونکہ یہ ہمارا دشمن ہے۔ اس پر میں شش و پنج میں پڑ گئی۔ اگر نہ جاتی تو سختیاں سہ نہیں سکتی تھی۔ بھائیوں کے ساتھ جاتی تو گھربار سے جاتی مگر یوں قیدیوں کی طرح بھی عمر بھر نہیں جی سکتی تھی۔
وسیم میرے بھائیوں کے پیر پڑ گیا۔ اس نے میرے بھی پائوں پکڑ لئے کہ مت جائو، میں اب تمہیں اکیلا نہیں بلکہ اپنے ساتھ رکھوں گا۔ میں پھر سے اس کی باتوں میں آگئی۔ بھائی خفا ہوکر چلے گئے اور وسیم مجھے اس گھر میں لے آیا، جہاں اس کی بیوی اور بچے رہتے تھے۔ مجھے اس گھر میں سوکن نے اسٹور خالی کرکے رہنے کے لئے دیا۔ کہا کہ میرے بچے ہیں، ہمیں کمروں کی ضرورت ہے اور گھر چھوٹا ہے اس لئے تمہیں یہاں رہنا ہے، اسٹور میں بستر لگا لو۔ یہ اسٹور اتنا تنگ تھا کہ بس ایک چارپائی کی جگہ تھی۔ مرتا کیا نہ کرتا، میں اس میں رہنے لگی کہ تنہا گھر میں قید رہنے سے تو بہتر تھا، انسانوں کے بیچ رہوں۔ سوتن ہی سہی، بچوں کی آوازیں تو آتی رہیں گی۔ اب پتا چلا کہ سوتن کے گھر میں رہنا کتنا مشکل ہے۔ اس سے تو تنہائی کا وہ جہنم ہی بہتر تھا۔
یہ جاہل عورت تھی۔ ایسی ایسی گالیاں دیتی کہ میرا دل پھٹنے لگتا۔ سارے محلے والوں کو کہہ دیا کہ اپنا شوہر چھوڑ کر میرے شوہر کے ساتھ بھاگ کر آگئی ہے، یہ بدچلن تھی، میرا گھر خراب کیا ہے۔ وہ لوگوں کے سامنے رورو کر باتیں کرتی تو وہ اس کو مظلوم اور مجھے ناگن سمجھتے، مجھ سے نفرت کا اظہار کرتے۔ ایسے دن خدا دشمن کو نہ دکھائے جو میں نے دیکھے۔ پہلے صبر نہ تھا، اب صبر کرنا بھی آگیا تھا۔ اپنی ساری کشتیاں جلا کر آگئی تھی۔ جاتی بھی تو کہاں جاتی؟ جنت چھوڑ کر خود ہی جہنم میں آگری تھی۔ اپنا کیا بھگت رہی تھی، جل جل کر خاک ہوتی رہی۔ آخرکار بستر سے لگ گئی۔ اللہ نے اولاد کی خوشی سے بھی محروم رکھا۔ سوکن بچوں والی تھی، گھر پر راج اسی کا تھا۔ مجھے دو وقت کی روٹی کے بدلے وہ جوتیاں دکھاتی تھی۔ غم کھاتے کھاتے بستر سے لگ گئی۔ اب گھر کا کام نہ کرسکتی تھی، اس پر وسیم اور اس کی بیوی دونوں لعنت ملامت کرتے تھے کہ مفت کی روٹیاں توڑنے کے لئے بستر پر بیماری کا بہانہ کرکے پڑ گئی ہے۔ ایک روز وسیم کا چھوٹا بیٹا میرے کمرے میں آگیا۔ میں غنودگی میں پڑی تھی کہ کھانا پینا چھوٹ گیا تھا۔ مجھے خبر نہ ہوئی۔ وہ کونے پر رکھی میز پر چڑھنے لگا تو میز اس پر الٹ گئی۔ سر پر چوٹ آئی، خون بہنے لگا۔ اس کے رونے پرمیری سوتن دوڑی آئی۔ بچے کو خون میں لت پت دیکھ کر آئو دیکھا نہ تائو، مجھے بازو سے پکڑ کر گھر سے باہر کردیا کہ نکل جا میرے گھر سے، میرے بچوں کی دشمن ہے، کسی دن ان کی جان لے لے گی۔ وسیم گھر پر نہ تھا۔ میں تھوڑی دور پیدل چلی۔ سوچتی جاتی تھی کدھر جائوں، کس کا در کھٹکھٹائوں کہ راستے میں پڑے ایک پتھر سے ٹھوکر کھا کر گری اور بے ہوش ہوگئی، تبھی ادھر سے ایک خدا ترس عورت کا گزر ہوا جو اپنے بیٹے کی مدد سے گاڑی میں ڈال کر مجھے اسپتال لے آئی اور اب میں یہاں ہوں۔ زبیدہ نے بات جاری رکھی۔ مجھے ہوش نہیں آرہا تھا۔ ڈاکٹروں نے چیک اَپ کیا، بڑی مشکل سے ہوش آیا تو پتا چلا کہ میرے دماغ میں رسولی ہے۔ دعا کرتی ہوں اللہ جلد اس دنیا سے اٹھا لے۔ اب کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، اسپتال سے نکل کر کہاں جائوں گی۔
مجھے زبیدہ کی کہانی سن کر بہت دکھ ہوا۔ میری ہمدردیاں بڑھ گئیں، اس کی مدد کی ٹھان لی۔ دوران علاج اس کے ساتھ خصوصی توجہ سے پیش آتی۔ ڈاکٹروں کو بھی اس کی زندگی کے بارے میں بتایا تو وہ بھی مدد پر تیار ہوگئے۔ ایک روز جب میں صبح ڈیوٹی پر آئی، اس کا جسد خاکی بیڈ پر موجود نہ تھا۔ نرس نے بتایا کہ آپ کی ڈیوٹی شام کو آف ہوگئی تو آپ گھر چلی گئی تھیں، رات کو اس عورت کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور یہ زندگی کی بازی ہار گئی۔ اس کا کوئی وارث نہ تھا لہٰذا سردخانے منتقل کردیا گیا ہے تاکہ کسی فلاحی ادارے کی مدد سے اس کی تدفین ہوسکے۔ یہ خبر ایک دھماکے کی طرح دل کو لگی۔ زبیدہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگئی تھی۔ اسی سبب لگتا تھا کہ زندگی نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور اس کی یہ دعا قبول ہوگئی کہ اللہ مجھے اب ہمیشہ کے لئے دکھوں سے نجات دے دے، مزید جینا نہیں چاہتی۔ (ڈاکٹر ف … کراچی)