عظمیٰ میری ماموں زاد تھی۔ کون جانتا تھا کہ والدین کی وفات کے بعد مجھے اپنے ماموں کے گھر پناہ لینا پڑے گی۔ بچپن میں ہمارے درمیان اتنی محبت تھی کہ دعا کیا کرتیں۔ کاش وہ دن آئے جب ہم ایک گھر میں ہمیشہ ساتھ رہیں۔ گھر قریب تھے۔ دن بھر ساتھ رہنے کے باوجود رات کو جب میں اپنے گھر جاتی تو یہ جدائی شاق گزرتی تھی۔
عظمیٰ کے والد کے مالی حالات ہم سے بہت بہتر تھے۔ ماموں روز اکلوتی بیٹی کے لیے تحفے تحائف خریدتے اور اس کی پسندکی کھانے پینے کی چیزیں لاتے۔ وہ میرے بغیر نہ کھاتی اپنی ہر شے سے میرا حصہ نکالتی اس کے ہوتے مجھے کسی بہن یا دوست کی ضرورت نہ رہی تھی۔
عظمیٰ کی خالہ دبئی میں رہتی تھیں وہ بھی ڈھیر سارے تحائف اور چاکلیٹ کے ڈبے بھجواتی تھیں۔ اس کی ہر شے میں میرا شیئر ہوتا۔ وہ کہتی، رخسانہ تمہارے ساتھ اپنی ہر شے بانٹوں گی، بس ایک کے سوا… اور وہ ہے احمر کی محبت یعنی اپنی محبت کبھی تمہارے ساتھ نا بانٹوں گی۔ اس کے مذاق پر کبھی میں ہنستی اور کبھی منہ پھلا لیتی۔
احمر وہ لڑکا تھا جس کو میں نے ابھی تک نہ دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ عظمیٰ کی منگنی بچپن سے طے تھی۔ اور یہ منگنی اس وقت انجام پائی جب ماموں ممانی اپنے برادر نسبتی سے ملنے دبئی گئے تھے۔ اسی لئے ہم لوگ اس تقریب میں شریک نہ ہو سکے تھے۔
عظمیٰ کے علاوہ میں نے ممانی سے بھی احمر کی تعریفیں سنی تھیں کہ وہ بہت خوبصورت اور اچھی عادات کا مالک ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ میرا اشتیاق بڑھتا گیا کہ احمر کو دیکھوں اس سے ملوں۔ ایک روز ممانی کی بہن کا دبئی سے فون آیا کہ وہ لوگ پاکستان آرہے ہیں اس خبر سے ممانی کے علاوہ عظمیٰ بھی بہت خوش ہوئی بلکہ اس کی خوشی تو دیدنی تھی کہ مدت بعد اس کا محبوب پاکستان آ رہا تھا۔
فون پر اطلاع کے چار دن بعد وہ لوگ آگئے۔ میں کالج گئی ہوئی تھی اور عظمیٰ نے اس روز چھٹی کر لی تھی۔ کالج سے لوٹی تو گھر میں گہماگہمی تھی۔ ظاہرتھا کہ دبئی والی خالہ تشریف لے آئی تھیں۔ ممانی کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں اور عظمیٰ نہال تھی۔ خالہ ماموں کے ساتھ کہیں باہرگئے ہوئی تھیں اور احمر… وہ نظر نہ آیا۔ میں تجسس سے مری جاتی تھی، کہ موصوف آئے ہیں کہ دبئی میں رہ گئے ہیں۔
میں نے عظمیٰ سے کہا۔ تمہارے دل کا راجہ کہاں ہے ذرا اس کے درشن تو کرا دو۔ ہم تو اس کے دیدار کو مرے جاتے ہیں۔ ابھی کچھ اور سانس لے لو… دیکھ لیا تو مر ہی جائو گی۔ذرا دل کو سنبھال کر دیدار کرنا ایسا نہ ہو کہ ہمیں ایک ہی بندے سے شادی کرنی پڑ جائے۔ بکواس نہ کرو عظمیٰ اب وہ ایسا بھی یوسف ثانی نہیں ہے کہ دیدار میں اس کے، اپنی انگلیاںفگار کر بیٹھوں۔
یوسف ثانی تو ہے وہ… بس آزمائش شرط ہے۔ ابھی ہمارا مذاق چل رہا تھا کہ وہ یوسف ثانی بھی سامنے آ گیا۔ موصوف واش روم میں تھے اور غسل فرما رہے تھے۔ نیا جوڑا زیب تن کر کے باہر نکلے تو اچانک ہماری آنکھیںچار ہو گئیں میں نے فوراً پاس ادب سے نظریں جھکا لیں مگر وہ بس دیکھتے ہی رہ گئے۔
دوپہر کا کھانا ہم نے اکٹھے کھایا اور ڈائننگ ٹیبل پر ہمارا تعارف ہوا۔ کھانے کے بعد اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گئی اور احمر کے بارے میں سوچنے لگی ،واقعی جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔ دیر تک یہی سوچا کہ میری سہیلی کتنی خوش قسمت ہے۔
شام کو سب سیر کے لیے چلے گئے۔ لیکن میں نہ گئی۔ چاہتی تھی کہ احمر اور عظمیٰ کچھ باتیں کر لیں۔ ساتھ رہی تو ان کے بیچ حائل رہوں گی۔ کچھ ہی دیر بعد فون کی گھنٹی بجی… گھر میں صرف میں موجود تھی لہٰذا مجھے ہی فون اٹھانا تھا۔
آپ کون؟ میں نے پوچھا۔ احمر… جواب ملا۔
کس سے بات کرنی ہے؟ آپ ہی سے۔ حیران رہ گئی یہ تو عظمیٰ اور اس کے گھر والوں کے ساتھ گیا تھا۔ مجھے کیوں فون کر رہا ہے ۔
وہ سب کھانے پینے میں مصروف ہیں موقع پاکر ریسٹورنٹ کے پبلک فون بوتھ سے بات کر رہا ہوں دراصل ضروری بات کرنی تھی ۔کہیے… میں ہمہ تن گوش ہو گئی۔ اس نے بغیر تمہید بولنا شروع کر دیا۔ میں اور عظمیٰ کم سن تھے جب ہماری منگنی کر دی گئی تھی اب جبکہ یہاں آیا ہوں توعظمیٰ کو دیکھ کر میرے تصورات کو بڑا دھچکا لگا ہے یہ وہ لڑکی بالکل نہیں ہے جو مدت سے میرے خوابوں میں بھی تھی۔ یہ تو کوئی اورہی لڑکی ہے۔ میرا جو معیار ہے، اس پر تم پوری اترتی ہو۔ مجھے اپنی منگیتر ذرا بھی پسند نہیں آئی۔ میں بہت صاف گو ہوں اور زندگی کے فیصلے بر وقت بلا تردد کرنے کا قائل ہوں ۔ساتھی کے چنائو میں رشتوں کا لحاظ نہیں چاہئے یہ عمر بھر کا نباہ ہوتا ہے۔ امید ہے تم سمجھ داری سے کام لو گی اس بارے میں غور کر کے اپنے ارادے سے آگاہ کرو تاکہ میں کوئی نتیجہ خیز قدم اٹھا سکوں۔ خدا حافظ۔
اس نے فون بند کر دیا اور میرے کان شائیں شائیں کرنے لگے۔ حیران تھی ۔یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ اب کیا کروں یہ تو بیٹھے بٹھائے مصیبت نازل ہو گئی۔ عظمیٰ میری عزیز از جان سہیلی ہی نہیں کزن بھی تھی۔ قسمت نے کس امتحان میں ڈال دیا۔ اس مسئلے کا یہی حل تھا۔ اپنی پیاری کزن کو بتائے بغیر احمر سے مل کر سمجھائوں کہ اس قسم کے خیالات دل سے نکال دو۔ آئندہ فون نہ کرنا میں بھی اسی گھر میں رہتی ہوں۔ ماموں ممانی محسن ہی نہیں، عظمیٰ بھی مجھے جان سے پیاری ہے میں اس کی خوشیاں ملیامیٹ ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ہوں۔ وہ جیسی بھی ہے اب اسی سے شادی کرنا ہو گی ورنہ وہ بیچاری صدمے سے مر جائے گی۔
سوچ رہی تھی کیسے احمر کو سمجھائوں اور کہاں۔ ایک روز موقع پاتے ہی اس نے خود مجھے گھر سے باہر ملنے کی آفر کر دی اور جگہ بھی خود بتا دی۔ سوچا ،پہلی اور آخری بار اسے مل کر سمجھا دوں گی کہ ہرگز میری دوست کے دل کو دکھ مت پہنچانا ،وہ تم سے بہت محبت کرتی ہے۔ تمہارے معیار پر پوری اترتی ہے یا نہیں اب شادی اسی سے کرنا۔ اگلے روز گھر سے باہر ایک نزدیکی ریسٹورنٹ میں اس سے ملی ،سمجھایا کہ دیکھو وہ مجھ سے محبت کرتی ہے اور تم سے بھی۔ وہ ہم دونوں پر اعتماد کرتی ہے۔ میرا خیال دل سے نکال دو ہرگز میں اسے دھوکا نہیں دے سکتی… اس نے کہا۔ سوچوں گا اور اگلی بار جب تم مجھے یہاں ملوگی تو اپنے ارادے سے آگاہ کر دوں گا کہ اپنے دل کو سمجھا پایا ہوں یا نہیں … گویا دوبارہ ملاقات کیلئے اس نے مجھ سے وعدہ لے لیا۔ اب سوچتی ہوں کہ شاید ایسا میں نے لاشعوری طور پر کیا۔ دراصل میں بھی اس کی شخصیت کے سحر میں کھو گئی تھی۔ ورنہ سمجھانے کے بہانے ایسی بے معنی ملاقاتوں کی کیا ضرورت تھی۔
دوسری ملاقات میں اس نے کہا کہ شادی کروں گا تو تم سے، ورنہ عمر بھر کنوارا رہوں گا۔ رہی جہاں عظمیٰ کی بات تو اس بے وقوف لڑکی سے ہرگز نہ کروں گا… وہ پھر ایک اور ملاقات کیلئے مجھ سے وقت مانگنے اور اصرار کرنے لگا۔اس کے بعد وقتاً فوقتاً ہماری ملاقاتیں جاری رہیں جس کا عظمیٰ کو کوئی علم نہ تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ میں کیونکہ فزکس میں کمزور ہوں تو اکیڈمی جاتی ہوں۔ یہی میں نے سب سے کہہ رکھا تھا۔ ماموں اور ممانی کو تو مجھ پر بالکل شک نہ تھا۔ہر ملاقات میں اس کا یہی کہنا، شادی تم ہی سے کروں گا اور میرا ایک ہی جواب کہ نہیں احمر یہ ممکن نہیں۔ بہتر ہے کہ تم عظمیٰ کی طرف لوٹ جائو۔ جب ایک ہی سوال تھا اور ایک ہی جواب تو پھر نجانے ہم گھر والوں سے چھپ کر کیوں ملتے تھے۔ میں چاہتی تھی کہ احمر سے نہ ملوں اس سے قطع تعلق کر لوں مگر جب بھی وہ آئندہ ملاقات کا وقت مانگتا تو میں اس کے تقاضے کو رد نہ کرتی۔ مقررہ وقت پر پہنچ جاتی۔
انہی دنوں جب ہماری ڈھکی چھپی محبت چل رہی تھی، احمر کی والدہ اشد بیمار پڑ گئیں۔ اور
بیٹے کی شادی کی تیاریاں شروع کر دیں ۔وہ اپنی زندگی میں احمر کے سر پر سہرا سجا دیکھنا چاہتی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے عظمیٰ کے ساتھ اس کی شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی اور وہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ بڑوں نے اس کی کوئی بات نہ سنی۔ اس کے بعد میں نے قسم کھالی اب کبھی احمر سے نہ ملوں گی۔ درحقیقت میں اپنی پیاری سہیلی کی خوشیاں اُجاڑنا نہ چاہتی تھی حالانکہ … دل کے بہکاوے میں آ سکتی تھی۔ مگر ٹال مٹول سے کام لیا تاکہ وہ ازخود مجھے اپنانے کے خیال سے ہٹ جائے۔
عظمیٰ دلہن بن کر احمرکے گھر چلی گئی ۔میرا دل بجھا بجھا تھا مگر میںخوش تھی کہ ایک مشکل مرحلہ طے ہو گیا تھا۔ اب میں اپنے ضمیر سے شرمندہ تھی اور نہ اپنے محسنوں سے۔ ماموں ممانی کی مرضی سے احمر کے ایک رشتے دار سے کچھ عرصے بعد میری بھی شادی ہو گئی۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ دبئی آگئی۔ احمر کو بھلا دیا اور اپنے شوہر کی محبت میں گم ہو گئی ۔دو بچے ہو گئے۔ اب کبھی احمر کا خیال بھی نہ آتا تھا۔ اپنے گھر بار میں دل لگانے میں ہی سچی خوشی اور عافیت تھی۔ اچانک میرے شوہرکا رویہ بدلنے لگا۔ وہ کسی اور لڑکی میں دلچسپی لینے لگے تھے جو دبئی میں سکونت پذیر ایک رئیس کی بیٹی تھی۔اس کے حصول میںان کودولت کاحصول نظرآرہاتھا۔ کہ یہ شخص ہی اس فرم کامالک تھا جہاں عبیدملازمت کررہے تھے۔
جب ان کے ایک دوست نے مجھے یہ بات فون کر کے بتائی تو میںصدمے سے کسی کچی دیوار کی طرح بیٹھ گئی۔ پہلی بار عظمیٰ اوراحمر کا خیال آیا۔ میں نے ان کو فون کیا۔ وہ دبئی میں رہتے تھے، فوری ان سے ملنے کو کہا… سچ ہے اگر اس افسردہ کیفیت میں وہ لوگ نہ ملتے تو میںصدمے سے مر جاتی۔
میرا دل عبید سے یک دم اُچاٹ ہوگیا۔ عظمیٰ اوراحمر کے سامنے روپڑی۔ انہوں نے بہت تسلی دی،دلجوئی کی ،اخلاقی سہارا دیا۔ عبید کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ دولت کے لالچ میں اندھے ہوچکے تھے۔ میں محبت میںشراکت کو کیونکر برداشت کرتی۔ آخرکار انہوں نے اُس لڑکی سے شادی کرلی اورمیری کہانی طلاق پر ختم ہوگئی۔ اب زندگی بہت بدرنگ اوربے جان تھی۔ راتیںاُجاڑ اوردن ویران ہوچکے تھے۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کیا کروں؟ مجھ پر ان دنوں ایسی مایوسی طاری ہوئی کہ دن پہاڑ اور راتیں جہنم بن گئیں۔ وہ عبید جن کے بغیرزندگی گزارنے کا تصور ممکن نہ تھا ان سے شدید نفرت ہوگئی تھی۔میں اپنی دونوں بچیوں کے ساتھ عظمیٰ کے گھر آگئی۔ میاں بیوی دونوں میرے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے کہ انہیں ابھی تک خدا نے اولاد کی خوشی سے محروم رکھا تھا۔ یونہی کئی سال گزر گئے ۔بچیاں اسکول جانے لگیں اور میں نے دبئی میں جاب کرلی۔ اب میں احمرپر بوجھ نہ تھی جب بھی پاکستان جانے کا کہتی عظمیٰ قسمیں دینے لگتی مت جائو، تمہاری بچیوں کے بغیر میرا اوراحمر کا دل نہیں لگے گا۔ وہاں امی ابوان کی کیسے دیکھ بھال کریںگے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ تم میرے پاس رہو، پاکستان میں تمہیں اچھی جاب نہیں ملے گی۔
اس بار جب ہم پاکستان گئے احمر کی والدہ نے کہاکہ عظمیٰ سے اولاد نہیں ہوگی۔ احمر کی دوسری شادی کرائوں گی۔ ماں باپ دونوں عظمیٰ پر سوکن لانے پرتلے تھے پہلے تو وہ راضی نہ ہوا۔ پھر اس شرط پر مانا کہ اگر دوسری شادی کرانی ہے تو پھر رخسانہ سے کروں گا۔
یہ بڑا سنجیدہ مسئلہ تھا۔ بے شک مرد کے سہارے کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے لیکن وہی پرانی مجبوری آڑے تھی۔ احمر کو چاہ کر بھی نہ چاہ سکتی تھی۔ خواہش کر کے بھی جیون ساتھی نہیں بنا سکتی تھی کہ عظمیٰ میری کزن تھی میرے عظیم ماموں کی بیٹی جنہوں نے مجھے اپنی سگی اولاد کی طرح اپنے گھر رکھا تھا اوروالدین کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا تھا۔ عظمیٰ ابھی تک مجھ سے والہانہ محبت کرتی تھی مگر احمر کے دل سے میری محبت نہ مٹی تھی۔ اس نے ایک بار پھر وہی رٹ لگا دی کہ دوسری شادی کروں گا تو تم سے ورنہ نہیں۔
کوئی دوسری لڑکی اس کی بیوی ہوتی تو یقینا میںاس کی سوتن بن جانا قبول کرلیتی مگر سامنے عظمیٰ تھی اگر میں احمر کی بات مانتی تو عظمیٰ کی خوشیوں کو اُجاڑنا پڑتا تھا۔وہ بھی اس صدمے کونہ سہہ پاتی ۔ یقینا طلاق لے لیتی۔ ایسا ہی ہوا جب احمراپنے مؤقف سے نہ ہٹا تب اس کے والدین نے بھی میری منت کی میں نے سوچا میرا گھر اوردل دونوں آباد ہوسکتے ہیں۔ اگراس تعلق کو دوبارہ سنوار لوں جو احمر کے دل میں باقی تھا۔ چند دنوں کی کشمکش کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا کہ اس با ر بازی اپنے حق میں کھیلوں گی۔ عظمیٰ کی ہار کیلئے نہیں بلکہ خود اپنی جیت کیلئے۔
آہ… انسان کبھی کبھار کس قدر خود غرض بن جاتا ہے وہ اپنے فائدے کیلئے، تمام انسانی رشتوں کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔یہ بھی حقیقت تھی کہ لمبی پہاڑ جیسی زندگی تنہا کاٹنا اب میرے بس کی بات نہ رہی تھی۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ احمرکو اولاد کی خوشی چاہئے تھی اس کے مال و دولت اور جائداد کو وارث درکار تھا اورمیں بھی اولاد نرینہ سے محروم رہ گئی تھی۔ یہ وہ دن تھے جب عظمیٰ میرا دکھ اور میں اس کا دکھ دل سے محسوس کررہے تھے۔ جانتی تھی کہ احمر اُسے وہ محبت نہ دے سکا جس کی وہ مستحق اورمتمنی تھی کیونکہ اس کی نگاہوں میںاب تک میرے لئے وہ اَدھورا پیغام موجود تھا جو پہلی بار مجھے دیکھ کر اس کے دل میں جاگا تھا۔
یہ بات یہیں ختم ہوجاتی تو اچھا تھا لیکن قدرت کے ترکش میں ابھی ایک تیرباقی تھا۔ ایک روز احمر مجھ سے دوسری شادی کے لئے منتیں کررہا تھا کہ اچانک باہر سے عظمیٰ آگئی۔ اتنے دبے قدموں چلتی آئی تھی آہٹ بھی نہ سن سکے۔ اس وقت میں احمر سے کہہ رہی تھی۔ اے کاش عظمی ٰ میری کزن ہوتی یا پھروہ مجھ سے والہانہ محبت نہ کرتی تو میں شادی کے لئے ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہ کرتی۔ جانے کب سے وہ سب خاموشی سے سنا کے پھر اُلٹے قدموں اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں کچھ اور سوچ رہی تھی اس نے کچھ اور کردکھایا وہ یہ صدمہ نہ سہہ سکی ۔اپنے کمرے میں کافی دیر بند رہی تو ہم نے کھڑکی توڑی تاکہ دیکھیں وہ کیوں باہرنہیں آرہی۔ کیسے باہر آتی جبکہ وہ تو بہت سی خواب آور گولیاں کھا کر موت کی وادی میں اُتر چکی تھی۔
اُس کی موت احمر کے دل میں اس کی محبت کا پہلا پیغام بن کراُتری۔ اس حادثے کے بعد وہ ایسا ساکت اورگم صم ہوا جیسے اس کے دل میں عرصے سے موجود محبت نے آخری ہچکی لے لی ہو۔ اس کی نظروں سے بیگانگی جھلکتی اوروہ خالی خالی نگاہوں سے مجھے کچھ ایسے انداز سے دیکھتا جیسے اس المیے کی ذمہ دار میں ہوں۔ قدرت کو جو منظور تھا ہوکر رہا۔ کبھی احمر نے دل سے مجھے حاصل کرنے کی دعا کی ہوگی کہ حالات نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ خود ماموں ممانی میری منتیں کرنے لگے ۔ بیٹی ،اپنی پیاری عظمیٰ کی خاطر اور اپنے بچوں کا خیال کرو ،احمر سے شادی کے لئے ہاں کہہ دو ۔ہماری بیٹی تو اس دنیا سے چلی گئی، اب اس کے گھر میں تم نظر آئوگی تو ہمیں سکون ملے گا ورنہ ہمارے مرنے کے بعد تمہارا کون وارث ہوگا۔ ان بچاروں کو کیا خبر کہ عظمیٰ نے کیوں زندگی سے منہ موڑا۔کیوں خواب آور گولیاں پھانک کرموت کو گلے لگایا ،صرف اس وجہ سے کہ وہ جتنی احمر سے محبت کرتی تھی مجھ سے بھی اتنی ہی کرتی تھی۔ وہ خود بخود ہمارے درمیان سے ہٹ گئی، دور چلی گئی تاکہ احمر کو اولاد اور میرے بچوں کو اس کے گھر کا سائبان مل جائے۔ خدا میری اس عظیم دوست کو جنت کے اعلیٰ درجات نصیب کرے۔ (ر… کراچی)