Sunday, October 6, 2024

Zindagi Se Samjhotah

بابا جان کی زمینوں کا محافظ عاطف چاچا تھا۔ وہ ان کا منشی بھی تھا۔ اس کی بیوی بچے اکثر ہمارے گھر آتے رہتے تھے۔ اس کا سب سے بڑا لڑکا ابرار میرا ہم عمر تھا۔ بچپن میں جب وہ ہماری حویلی آتا تو میں بہت خوش ہوتی کیونکہ وہ اور لڑکوں سے بہادر تھا۔ اس کو اس چھوٹی عمر میں تیرنا بھی آتا تھا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر ندی پار کرا دیا کرتا تھا۔ آم کے درخت پر چڑھ جاتا اور میٹھی میٹھی کیریوں سے میرا دامن بھر دیتا۔ ابرار کے آتے ہی میں اس کے ساتھ چل پڑتی۔ ہم دن بھر کھیتوں میں گھومتے ، بیر ، چنتے اور درختوں کے جھنڈ میں چھپ کر گنے کھاتے ۔ وہ مزے مزے کی کہاوتیں کہانیوں کے انداز میں سناتا۔ وہ میرا ہم مزاج اور بچپن کا ساتھی تھا۔ اس کے ساتھ خبر ہی نہ ہوتی کے کہ کب صبح ہوئی اور کب شام ہوگئی۔ گھر آتے تو خوب مار پڑتی ، پھر کافی دن وہ نہ آتا اور جب آتا تو ہم پچھلی مار بھول کر گھر سے کھسک جاتے۔ خیر، یہ تو بچپن کی باتیں تھیں۔ ذرا عمر بڑھی تو خود بخو د سوجھ بوجھ آنے لگی۔ وہ بھی بڑا ہو گیا تھا مگر اس سے گھر کی خواتین کا پردہ نہیں تھا۔ میری ماں اس گھرانے کی خدمات کی وجہ سے ابرار کا خیال کرتی تھیں، جب ہمیں میٹھی روٹی بنا کر دیتیں تو اس کے لئے بھی بنا دیتی تھیں۔

اک میرے سوا، خاندان کے سبھی افراد کے ذہنوں میں یہ بات جا گزیں تھی کہ ابرار ہمارے منشی کا لڑکا ہے۔ جب میں باشعور ہوئی تو ماں میرا اس سے بات کرنا معیوب خیال کرنے لگیں۔ میں تو پہلے کی طرح سادگی سے ہنستی بولتی تھی اور وہ ہمیں آپس میں باتیں کرتے دیکھ کر ماتھے پر بل ڈال لیتی تھیں۔ کچھ دنوں بعد میری چھوٹی چچی جو میری ہونے والی ساس بھی تھیں، ہمارے گھر آکر رہنے لگیں۔ ابرار ان کی موجودگی میں گھر کے اندر نہ آتا۔ شاید اماں نے منع کروا دیا تھا۔ مجھے بہت غصہ آتا۔ دل ہی دل میں کہتی، اماں! اللہ تم کو سمجھے جو ابرار کو روکو۔ مجھ نادان کے یہ بول اللہ کی بارگاہ تک جا پہنچے کہ جلد ہی میری ماں مجھے بھرے گھر میں اکیلا کر گئیں۔ چھوٹی چچی کا اپنا گھر ہمارے گھر سے کوس بھر ہی پرے تھا۔ وہ چند دنوں کے لئے رہنے آئی تھیں مگر اماں کے اس جہان سے سدھار جانے کے باعث مزید قیام کرنا پڑ گیا۔ اب میرا بہت جی گھبراتا اور دل کسی سچے غمگسار کو تلاش کرتا ۔ ایسے میں ابرار کی بہت یاد آتی۔ وہ ڈیوڑھی میں آکر آواز لگاتا ۔ گنے لے لو یا فلاں چیز لے لو۔ ابا نے بھجوائی ہے۔ تب میں دروازے کی طرف دوڑی جاتی اور اسے اندر بلا لیتی ۔ جب اماں زندہ تھیں ، وہ بھی اسے اندر بلا لیتی تھیں مگر جب سے چچی آئی تھیں، وہ حویلی میں داخل ہونے سے جھجکتا تھا۔ دراصل دل میں میں نے ٹھان لی تھی کہ مجھے چچی کے سپوت سے شادی نہیں کرنی لہٰذا ان کی زیادہ پروا بھی نہ کرتی تھی۔ آخر کار، اصرار کر کے ایک روز میں نے ابرار کو گھر کے اندر بلا ہی لیا جب وہ ہرے چنوں کا بڑا سا گٹھر لے کر آیا تھا اور چچی کے سامنے ابرار کی خوب خاطر مدارات کی ۔ وہ خاموشی سے دیکھتی رہیں۔ اب وہ روز ہمارے گھر آنے لگا۔ اس کے آتے ہی میں سارا کا کام چھوڑ کر اس سے باتیں کرنے لگتی ۔ چچی کو بھی اندازہ ہو گیا کہ ہم ایک دوسرے میں دلچسپی رکھتے ہیں مگر انہوں نے کوئی روک ٹوک نہیں کی ، بلکہ خاموش رہیں کیونکہ ہر صورت وہ اپنے بیٹے کے لئے میرا رشتہ لینا چاہتی تھیں۔

جب میری شادی میں چھ ماہ کا عرصہ رہ گیا تو میں نے اس سے کہا۔ کہ یہ عورت تو ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ اب کیا ہوگا ؟ تمہارے والد کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ بابا جان سے میرا رشتہ مانگیں ۔ وہ رشتہ مانگیں بھی تو کیسے؟ میرا ابا تو تمہاری زمینوں کا رکھوالا ہے۔ ان کو بھلا وہ کیونکر رشتہ دینے لگے۔ کچھ تو کرنا چاہیے۔ میری شادی کے دن نزد یک آرہے ہیں ۔ یہ بات سن کر وہ سوچ میں میں پڑ گیا۔ بابا جان نے ان دنوں ایک کم عمر لڑکی سے شادی کر لی تھی اور اسے شہر میں کوٹھی لے کر دی ہوئی تھی وہ اکثر وہیں چلے جاتے تھے تبھی چاچا اور چاچی نے ان دنوں ہمارا گھر سنبھالا ہوا تھا۔ چاچی کافی دن رہنے کے بعد آخر کار اپنے گھر روانہ ہوئیں اور اپنی بیٹی کو بھیج دیا۔ کہا کہ شاہینہ اکیلی ہے، اس کا جی گھبرائے گا تم اس کے ساتھ رہو، یوں ناصرہ میرے ساتھ رہنے لگی۔ وہ بھی مجھے ابرار کے ساتھ گھل مل کر باتیں کرتے دیکھ کر حیران ہوتی، تا ہم وہ نوجوان لڑکی تھی جلد ہی ہم سے گھل مل گئی۔ اب ہم تینوں باتیں کرتے اور ہنستے بولتے۔ ابرار کی باتیں ناصرہ کو اچھی لگتیں، گرچہ وہ بہت احتیاط کرتا کہ ناصرہ کو ہم پر شک نہ ہو جائے لیکن میں پروانہ کرتی، بلکہ چاہتی تھی اسے پتا چل جائے
کہ میں ابرار کو پسند کرتی ہوں تا کہ اپنے بھائی کو منع کر دے، لیکن ناصرہ نے کسی سے کچھ نہ کہا۔ ایک دن جب میں اور ابرار کمرے میں بیٹھے تھے اور میں آئندہ زندگی کے خدشوں کا اظہار کر کے رورہی تھی کہ بابا جان آگئے ۔ ناصرہ نے اس کو چھپا دیا۔ بابا جان ہمارے کمرے میں آئے اور مجھے روتا دیکھ کر پوچھا۔ یہ کیوں رو رہی ہے؟ وہ بولی۔ اپنی امی کو یاد کر کے رورہی ہے۔ وہ چلے گئے تو میں نے اس سے پوچھا۔ ناصرہ ! تم نے بابا جان کو بتا کیوں نہ دیا کہ میں کیوں رو رہی تھی؟ کہنے لگی۔ تم میرے تایا کی بیٹی ہو اور میں نہیں چاہتی کہ وہ تمہیں یا ابرار کو مار ڈالیں۔

میری شادی میں چار ماہ رہ گئے تھے اور مسئلہ جوں کا توں برقرار تھا۔ جب وہ آتا، میں اس پر غصہ اتارتی ۔ تنگ آکر اس نے کہا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرضی کی شادی کر لیں۔ اگر تم ایسی شادی پر تیار ہو تو چلو، نکاح کر لیتے ہیں۔ میں تیار ہوں۔ میں نے جواب دیا۔ اس نے کہا کہ میں اپنے دوست سے بات کرلوں۔ وہ ساتھ والے گاؤں میں رہتا ہے۔ وہ اپنی گاڑی پر ہمیں شہر لے جائے گا۔ ہم نکاح پڑھوا کر آجائیں گے۔ اس نے دوست سے مشورہ کیا اس نے کہا کہ شاہینہ کا شناختی کارڈ ضروری ہے تبھی تم لوگ کورٹ میرج کر سکتے ہو، ورنہ گرفتار ہو جاؤ گے یا پھر میرے گھر پر مولوی صاحب تمہارا نکاح پڑھوا دیں۔ نکاح نامہ بھی بنائیں گے مگر نکاح شرعی ہوگا۔ میری عمر تب سولہ سال ہوگی۔ ان دنوں شناختی کارڈ بننے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، لہذا میں نے شرعی نکاح پر رضا مندی دے دی، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ بہرحال میں نے ناصرہ سے کہا کہ تم کسی کو مت بتانا، میں تھوڑی دیر کے لئے اپنی سہیلی کے گھر جا رہی ہوں۔ اس کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ میں کیا کرنے جا رہی ہوں۔ ہمارے گاؤں سے دوسرے گاؤں کا رستہ ایک گھنٹے کا تھا۔ ہم صبح سویرے نکلے۔ میں نے کھیتوں میں جا کر ایک جگہ درختوں کے گھنے جھنڈ میں چھپ کر برقعہ اوڑھا اور سڑک پر آگئی۔ وہاں گاڑی کھڑی تھی۔ ابرار کے دوست نے اپنے ایک اور دوست کے گھر میں نکاح کا انتظام کیا تھا۔ وہ شادی شدہ تھا۔ گھر میں اس کی بیوی کی دو تین رشتہ دار عورتیں بھی موجود تھیں۔ اس کے بھائی گواہ بنائے گئے اور نکاح ہو گیا، جیسے گڑے گڑیا کا کھیل ہو۔ واقعی یہ گڈے گڑیا کا کھیل تھا۔ نکاح خواں اسی شخص کا قریبی رشتہ دار تھا، جو سولہ سال کی لڑکی کے نکاح کو جائز سمجھتا تھا۔ میزبان نے کہا تھا کہ یہ میری چاچا زاد، یتیم لڑکی ہے۔ میں اس کا ولی ہوں۔ نکاح کے فوراً بعد ابرار کے دوست نے ہمیں گاڑی میں بٹھا کر سڑک کنارے میرے والد کے کھیتوں کے پاس پہنچادیا اور میں پیدل گھر آگئی ۔ پگڈنڈی پر چلتے ہوئے مزارعوں کی عورتیں ملیں۔ بولیں۔ بیٹی تم اکیلی اس وقت کہاں گئی تھیں؟ میں نے کہا۔ کہیں نہیں ، کل سے میری پالتو بلی گم ہے، اسے دیکھنے نکلی تھی۔ میں ناپختہ ذہن تھی۔ نکاح کا کاغذ مل گیا تو سمجھ لیا کہ اب میں ابرار کی بیوی ہوں ۔ اب جینا مرنا اس کے ساتھ ہے۔ کوئی شادی پر مجبور کرے گا، تو بتا دوں گی کہ شادی ہو چکی ہے۔ نکاح نامہ ابرار کے پاس تھا۔ وہ آئے گا تو لے کر اپنے پاس رکھ لوں گی ، پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ یہی ہوگا کہ بابا جان مجھے قتل کر دیں گے، تو کر دیں۔ مجھے اب موت کی کوئی پروا نہ تھی۔

جب میری شادی میں تھوڑے دن رہ گئے تو میرے رشتے کے بھائی ، ان کی بیویاں اور سبھی رشتہ دار آگئے ۔ گھر میں گہما گہمی ہو گئی ۔ اب میں تمام وقت یہی سوچتی کہ آگے کیا کرنا ہے۔ میں نے ابرار سے کہا کہ تم رات کو آنا ۔ جب سب سو جائیں گے تو ہم چھت پر چلے جائیں گے اور پھر طے کریں گے کہ آگے کیا کر کیا کرنا ہے۔ رات جب وہ آیا تو ڈیڑھ بجے کا وقت تھا۔ سردیاں تھیں، سب کمرے میں سوئے ہوئے تھے۔ مجھے علم نہ تھا کہ چچی جاگ رہی ہیں یا کھٹکے پر ان کی آنکھ کھلی ہوگی۔ میں نے رات کے بارہ بجے چپکے سے گھر کا عقبی دروازہ کھول دیا جو میرے کمرے سے قریب تھا۔ ساتھ ہی چ کا کمرہ تھا۔ چھت پر سردی تھی، میں جرات کر کے اسے اپنے کمرے میں لے آئی۔ ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ دبے قدموں چ آگئیں ۔ اسی وقت ابرار جانے کو اٹھ کھڑا ہوا تبھی انہوں نے غصے سے کہا۔ ابرار ! اس وقت کہاں جا رہے ہو؟ یہیں سو جاؤ ، صبح چلے جانا۔ میں نے ان کے طعنے کی کوئی پروانہ کیا۔ صبح وہ کہنے لگیں کہ جوان لڑکی کو یوں رات کے وقت کسی غیر شخص سے نہ ملنا چاہئے۔ میں تمہاری ماں کی طرح ہوں، تبھی لب سیئے ہوئے ہیں۔ میں خاموش ہوگئی۔ دل میں یہی اندیشہ تھا کہ ابرار جو بات طے کر گیا ہے ، وہ ہو پاتی ہے یا نہیں؟ اس کو میں نے راضی کیا تھا کہ وہ اپنے باپ کو نکاح سے باخبر کر دے، تا کہ وہ میرے والد کو آگاہ کر دیں کہ بچوں نے یہ قدم از خود اٹھا لیا ہے اور اب نکاح پر نکاح کسی طرح جائز نہیں ہے۔ ایک دن بعد وہ آیا اور ڈیوڑھی میں کھڑا رہا۔ اک بچے نے مجھے آکر بتایا تو میں جلدی سے گئی۔ وہ بولا۔ میرا فی الحال اس وقت اندر آجانا ٹھیک نہیں ۔ یہیں پر میری بات سن لو۔ تمہارے چچا والے شادی کی تیاری مکمل کر چکے ہیں۔ تمہاری چچی شاید جائیداد اور دولت کی لالچ کی وجہ سے رشتہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ہم نے نکاح نامہ دکھایا ، تب بھی ان کو غیرت نہیں آئے گی اور میرا باپ تو اس بات کو سن کر ہی کانوں پر ہاتھ دھرتا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ یہ ناممکن بات ہے۔ اس کو کوئی تسلیم نہ کرے گا۔ وہ تمہارے بابا جان سے بات کرنے پر راضی نہیں، بلکہ اس نے سامان باندھ لیا ہے تا کہ ہم فورا اس بستی کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ یہ دیکھو، میرے باپ نے میری کمر اور پیٹھ پر ڈنڈے مارے ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی پشت دکھائی ، جس پر ڈنڈوں کے نشان تھے۔ کہنے لگا۔ میں تو سہ گیا تم نہ سہ سکوگی ۔ تو پھرگھر سے بھاگ چلتے میں نے کہا۔ گھر سے بھاگ کر کہاں جائیں گے؟ تمہارے والد ہمیں ڈھونڈ لیں گے ۔ میرا بوڑھا باپ ماں بہن بھائی سب جیل میں بند کر دیئے جائیں گے۔ ہم اپنی مرضی سے نہیں جی سکتے ، اپنی خوشی سے شادی نہیں کر سکتے ، ہم مجبور لوگ ہیں ۔ تم یہ حقیقت مان لو۔ ابا نے مجھے بڑی کراری مار مار کر سب کچھ اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔ تو تم ابا کی مار سے ڈر گئے ہو؟ نہیں، میں تمہارے انجام سے ڈرتا ہوں۔ تمہاری زندگی مجھے عزیز ہے، میں تمہاری خیر چاہتا ہوں۔ میں ایسی مجبور زندگی جی کر کیا کروں گی؟ مجھے دو نکاح نامہ، میں خود اپنے بابا جان سے بات کروں گی۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ میں ان کو منا لوں گی ۔ تمہارا خیال غلط ہے۔ میرے ابا نے کہا کہ شاہینہ سے کہو اپنے باپ کی عزت سے نہ کھیلے، پھر اس نے نکاح کے کاغذات جیب سے نکالے اور مجھے دینے کی بجائے پھاڑ ڈالے اور کہا۔ یہ ٹکڑے بھی جلا دو۔ ہم اب اس بستی سے ہی جا رہے ہیں ، ہمیشہ کے لئے ۔ یہی میرے ابا کا فیصلہ ہے۔ یہ کہ کر وہ چلا گیا۔ وہ چلتے ہوئے لنگڑارہا تھا۔

وہ تو چلا گیا لیکن میری دنیا لٹ گئی۔ میں اس کی بزدلی پر آنسو بہا کر رہ گئی۔ اس نے جاتے ہوئے کہا تھا کہ جو دکھ ملے ، برداشت کر لینا کیونکہ میں تمہاری زندگی سے ہمیشہ کے لئے جا رہا ہوں ، لوٹ کر ٹ کر نہیں آؤں گا۔ ہم ان کے نوکر ہیں، ان کے غضب کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد میں نے اپنے خوابوں کا گلا گھونٹ لیا۔ اور کیا کر سکتی تھی ؟ میری شادی چچا زاد سے ہوگئی ۔ ساس ، شاید مجھ پر بہت ظلم ڈھاتی ، مگر میں ایک بڑی جائیداد کی اکلوتی وارث تھی ، اس وجہ سے اس نے اپنی زبان سی لی، بلکہ مجھ سے پیار سے پیش آتی تھی۔ سمجھاتی تھی کہ بیٹی! شادی گڈے گی ے گڑیا کا کھیل نہیں۔ جس مرتبے والے گھرانے سے لڑکی ہو، اس کا جیون ساتھی بھی اسی کے ہم پلہ ہونا چاہیے۔ چچی کا شروع میں سمجھانا مجھے زہر لگتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ جب جدائی کے درد سے گزری، پختگی آنے لگی اور میں نے سمجھنا شروع کر دیا۔ واقعی وہ ٹھیک کہتی تھیں ۔ ہم ان دنوں نا پختہ ذہن بچے تھے اور وہ عقل مند عورت تھیں ۔ ہمارے معاملے کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھ رہی تھیں۔ ان کی خاموشی نے ہمیں بھیانک سانحہ سے بچا لیا تھا۔ ابرار بہادر نہ تھا۔ اگر وہ بہادر ہوتا، تو میں اس کے ساتھ موت بھی قبول کر لیتی، مگر میں نے سمجھوتہ کیا، جو دکھ ملا برداشت کیا۔ شاید زندگی اسی کا نام ہے۔

Latest Posts

Related POSTS