نوشابہ میری دوست تھی۔ والدین کے پیار نے اس کو زندگی کی سب خوشیاں دے رکھی تھیں۔ وہ غم جیسی کیفیت سے آشنا ہی نہ تھی۔ وہ اور میں اکٹھے کالج جاتے۔ میں اکثر اس سے مستقبل کے بارے میں پوچھتی۔ میرا مستقبل بہت اچھا ہو گا۔ وہ جواب دیتی۔ ہماری کل اس میں لڑکیاں اکثر شادی کے بارے بات کر تیں لیکن نوشابہ کو ان باتوں کی پروا نہ تھی۔ اس کے نزدیک ایسی باتیں فضول اور قبل از وقت تھیں۔ اس کا یقین تھا جو قسمت میں ہو گا مل جائے گا، پہلے سے کیا سوچنا۔ حبیب اس کا تایا زاد تھا۔ گائوں میں رہتا تھا اور پڑھائی کے سلسلے میں نوشابہ کے گھر آیا ہوا تھا۔ اس نے امتحان دیتے ہی جاب ڈھونڈنی شروع کر دی۔ وہ نیک اور سمجھ دار لڑکا تھا۔ بلا ضرورت کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ اس کی شخصیت میں ٹھہراؤ تھا، تبھی سب اس کی عزت کرتے تھے۔ جلد ہی اس کو ایک محکمے میں اچھی نوکری مل گئی۔ اس نے مکان کرائے پر لینا چاہا لیکن نوشابہ کے ابو نے اس کو منع کر دیا۔ کہا۔ برخوردار جب اپنا گھر موجود ہے، پھر کرایے پر رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ یوں وہ مستقل ان کے گھر رہنے لگا۔ نوشابہ ریاضی میں کمزور تھی جبکہ حبیب ایک اکیڈمی میں ریاضی پڑھارہا تھا۔ نوشابہ کی والدہ نے کہا کہ تم کسی غیر سے ٹیوشن پڑھنے کی بجائے حبیب سے پڑھ لیا کرو۔ اس طرح ٹیوٹر کی بھاری فیس بھی نہیں دینی پڑے گی۔ وہ گھر میں رہتا ہے، تم کو ٹیوشن کے لئے گھر سے باہر کہیں جانا بھی نہ پڑے گا۔ حبیب تو ریاضی کا ماہر تھا، اس کو بھلا اپنی کزن کو پڑھانے پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ خود ان کا احسان اُتار نا چاہتا تھا۔ نوشابہ کو فارغ وقت میں گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے پڑھانے لگا۔ اس کے خیالات اپنی کزن کے لئے شفاف تھے۔ اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ نوشابہ کو وہ اپنے خاندان کی عزت سمجھتا تھا۔ایک دن میں ان کے گھر گئی دیکھا کہ آنٹی بازار سے ڈنرسیٹ لائی ہیں۔ آنٹی یہ کس کے لئے ہے۔ میں نے پوچھا۔ بولیں۔ نوشی کے جہیز کے لئے ہے۔ یہ فقرہ سن کر پہلی بار میں نے اپنی سہیلی کے چہرے پر سرخی دیکھی۔ گویاوہ اب اپنی شادی بارے سوچنے لگی تھی۔ جب ہم دونوں کمرے میں جابیٹھیں ، میں نے اس سے پوچھا۔ کیا آنٹی نے تمہارے لئے رشتہ دیکھ لیا ہے ؟ کون ہے وہ خوش نصیب جو تمہار ا سا تھی بنے جارہا ہے ؟ بولی۔ ابھی تو کوئی ظاہر نہیں ہوا۔ سامنے آئے گا تو بتادوں گی۔ ابھی ہم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اچانک سامنے سے حبیب آتا د کھائی دیا۔ نوشابہ نے اسے دیکھا تو چونک سی گئی۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ کہیں وہ خوش قسمت یہ تو نہیں ہے ؟ وہ جواب دینے کی بجائے مجھ کو حیرت سے دیکھنے لگی۔ اس دن سے پہلے میری سہیلی نے ا بھی مستقبل کے بارے نہیں سوچا تھا۔ اس روز جب وہ بستر پر لیٹی ، اس نے سوچا۔ ہمارے گھر میں ہی لڑکا رہتا ہے اور میرا بھی اس کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ اپنے تمام عزیزوں اور رشتہ دار لڑکوں کا مقابلہ حبیب سے کیا تو اس کو سب سے بہتر وہی نظر آیا، تبھی اس نے ارادہ کر لیا کہ اگر والدین نے اس کو انتخاب کا حق دیا تو وہ دوسروں پر حبیب ہی کو ترجیح دے گی۔ اس کا خیال تھا کہ والد نے اس کی شادی کے لئے حبیب ہی کا انتخاب کر رکھا ہے۔ اب وہ ہر روز سوچتی کہ کس طرح اپنے خیالات سے حبیب کو آگاہ کرے۔ ڈر تھا کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے – نوشابہ میری دوست تھی۔ والدین کے پیار نے اس کو زندگی کی سب خوشیاں دے رکھی تھیں۔ وہ غم جیسی کیفیت سے آشنا ہی نہ تھی۔ وہ اور میں اکٹھے کالج جاتے۔ میں اکثر اس سے مستقبل کے بارے میں پوچھتی۔ میرا مستقبل بہت اچھا ہو گا۔ وہ جواب دیتی۔ ہماری کل اس میں لڑکیاں اکثر شادی کے بارے بات کر تیں لیکن نوشابہ کو ان باتوں کی پروا نہ تھی۔ اس کے نزدیک ایسی باتیں فضول اور قبل از وقت تھیں۔ اس کا یقین تھا جو قسمت میں ہو گا مل جائے گا، پہلے سے کیا سوچنا۔ حبیب اس کا تایا زاد تھا۔ گائوں میں رہتا تھا اور پڑھائی کے سلسلے میں نوشابہ کے گھر آیا ہوا تھا۔ اس نے امتحان دیتے ہی جاب ڈھونڈنی شروع کر دی۔ وہ نیک اور سمجھ دار لڑکا تھا۔ بلا ضرورت کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ اس کی شخصیت میں ٹھہراؤ تھا، تبھی سب اس کی عزت کرتے تھے۔ جلد ہی اس کو ایک محکمے میں اچھی نوکری مل گئی۔ اس نے مکان کرائے پر لینا چاہا لیکن نوشابہ کے ابو نے اس کو منع کر دیا۔ کہا۔ برخوردار جب اپنا گھر موجود ہے، پھر کرایے پر رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ یوں وہ مستقل ان کے گھر رہنے لگا۔ نوشابہ ریاضی میں کمزور تھی جبکہ حبیب ایک اکیڈمی میں ریاضی پڑھارہا تھا۔ نوشابہ کی والدہ نے کہا کہ تم کسی غیر سے ٹیوشن پڑھنے کی بجائے حبیب سے پڑھ لیا کرو۔ اس طرح ٹیوٹر کی بھاری فیس بھی نہیں دینی پڑے گی۔ وہ گھر میں رہتا ہے، تم کو ٹیوشن کے لئے گھر سے باہر کہیں جانا بھی نہ پڑے گا۔ حبیب تو ریاضی کا ماہر تھا، اس کو بھلا اپنی کزن کو پڑھانے پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ خود ان کا احسان اُتار نا چاہتا تھا۔ نوشابہ کو فارغ وقت میں گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے پڑھانے لگا۔ اس کے خیالات اپنی کزن کے لئے شفاف تھے۔ اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ نوشابہ کو وہ اپنے خاندان کی عزت سمجھتا تھا۔ ایک دن میں ان کے گھر گئی دیکھا کہ آنٹی بازار سے ڈنرسیٹ لائی ہیں۔ آنٹی یہ کس کے لئے ہے۔ میں نے پوچھا۔ بولیں۔ نوشی کے جہیز کے لئے ہے۔ یہ فقرہ سن کر پہلی بار میں نے اپنی سہیلی کے چہرے پر سرخی دیکھی۔ گویاوہ اب اپنی شادی بارے سوچنے لگی تھی۔ جب ہم دونوں کمرے میں جابیٹھیں ، میں نے اس سے پوچھا۔ کیا آنٹی نے تمہارے لئے رشتہ دیکھ لیا ہے ؟ کون ہے وہ خوش نصیب جو تمہار ا سا تھی بنے جارہا ہے ؟ بولی۔ ابھی تو کوئی ظاہر نہیں ہوا۔ سامنے آئے گا تو بتادوں گی۔ ابھی ہم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اچانک سامنے سے حبیب آتا د کھائی دیا۔ نوشابہ نے اسے دیکھا تو چونک سی گئی۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ کہیں وہ خوش قسمت یہ تو نہیں ہے ؟ وہ جواب دینے کی بجائے مجھ کو حیرت سے دیکھنے لگی۔ اس دن سے پہلے میری سہیلی نے ا بھی مستقبل کے بارے نہیں سوچا تھا۔ اس روز جب وہ بستر پر لیٹی ، اس نے سوچا۔ ہمارے گھر میں ہی لڑکا رہتا ہے اور میرا بھی اس کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ اپنے تمام عزیزوں اور رشتہ دار لڑکوں کا مقابلہ حبیب سے کیا تو اس کو سب سے بہتر وہی نظر آیا، تبھی اس نے ارادہ کر لیا کہ اگر والدین نے اس کو انتخاب کا حق دیا تو وہ دوسروں پر حبیب ہی کو ترجیح دے گی۔ اس کا خیال تھا کہ والد نے اس کی شادی کے لئے حبیب ہی کا انتخاب کر رکھا ہے۔ اب وہ ہر روز سوچتی کہ کس طرح اپنے خیالات سے حبیب کو آگاہ کرے۔ ڈر تھا کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے – ایک دن حبیب اور نوشابہ اکیلے کمرے میں بیٹھے پڑھ رہے تھے کہ نوشابہ نے باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ وہ زندگی کے ایک اہم مسئلے کے بارے میں اس سے بات کرنا چاہتی ہے، جو ان دنوں اس کو بہت پریشان کر رہا ہے ، پھر اس نے ہمت کر کے کہہ دیا۔ حبیب ! عر صے سے تم یہاں رہ رہے ہو، تم کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میں کیسی لڑکی ہوں۔ ہمارے گھر اول تو کوئی رشتہ دار لڑ کا آتا نہیں۔ بھولے سے آبھی جائے تو میں کسی سے بات نہیں کرتی ، ہمارے گھر کا ماحول بہت ہی پاکیزہ ہے ، تم جانتے ہو۔ اور تم بھی بہت اچھے ہو ۔ میں چاہتی ہوں کہ تم سے وہ اہم بات شیئر کر لوں جو میرے دل میں ہے۔ میں کسی سے محبت وغیرہ کی بات نہیں کر رہی لیکن اس عمر میں ہم کو جیون ساتھی کے بارے تو سوچناہی پڑتا ہے۔ میں تم کو اپنے لائق پاتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ تم سے پوچھوں کہ تمہارا میرے بارے میں کیا خیال ہے۔ مجھے سچ سچ بتاد و اور جھجھکنا بھی نہیں۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا۔ نوشابہ تم بہت اچھی لڑکی ہو ، اس میں شک نہیں لیکن۔ یہ کہہ کر اس نے نوشی کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس لڑکی کی آنکھوں میں اس کو امید کے دیے جلتے نظر آئے اور چہرے پر ایک خوش کن جواب کا انتظار تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کی کزن نے اس سے کیا کیا تو قعات وابستہ کرلی ہیں۔ اس نے اپنی معصوم سی کزن کو نا امید کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جب نوشابہ نے خود توجہ دلائی، حبیب نے بھی اس بارے سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا۔ چچا اس سے یوں بھی بہت پیار کرتے تھے اور چچی بھی شفیق تھیں۔ ان کے گھر کا ماحول پر امن اور سکون بخش تھا اور نوشابہ کو زمانے کی ہوا چھو کر نہ گئی تھی۔ وہ عام لڑکیوں سے بہت مختلف تھی۔ سادہ دل، سادہ لوح مگر صاف گو۔ اس میں چالا کی نام کو نہ تھی۔ اس نے ٹھان لی، مناسب وقت آئے گا تو اپنے والدین کو لا کر چچا سے نوشابہ کا ہاتھ مانگ لے گا۔ فی الحال کچھ رقم اکٹھی کرنے اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ دل میں موجزن تھا تا کہ رشتے کے جواب میں انکار کی گنجائش نہ رہے ۔ وہ شہر میں گھر بنانا چاہتا تھاتا کہ اس کی چچی یہ اعتراض بھی نہ کریں کہ تم لو گائوں میں رہتے ہو، میری بیٹی گائوں میں کیو نکر گزارا کرے گی۔ ادھر اس کے من میں یہ سوچیں چل رہی تھیں کہ انہی دنوں نوشابہ کے گھر مہمان آگئے۔ یہ دولڑ کیاں اور ان کی ماں تھی۔ رشتہ میں اس کی خالہ ہوتی تھیں، یہ لوگ نواب شاہ سے آئے تھے۔ خالہ نے نوشابہ کو دیکھتے ہی تہیہ کر لیا کہ وہ اس من موہنی لڑکی کو ہی اپنی بہو بنائے گی۔ اس کا شوہر غلے کا ایک بڑا آڑھتی تھا اور بیٹا سعود اپنے والد کے ساتھ آڑھت کے کاروبار میں ہاتھ بٹاتا تھا۔ غرض کہ یہ لوگ کافی دولت مند تھے۔ خالہ زبیدہ نے وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور جانے سے قبل اپنے بیٹے کے لئے رشتہ کی بات کر دی۔ نوشابہ کی ماں نے کہا، سوچ کر جواب دوں گی، خاوند سے صلح و مشورہ کرلوں۔ وہ بولی۔ میں ابھی یہیں ہوں۔ خاوند سے آج رات مشورہ کر لوتاکہ میں فائنل جواب لے کر ہی جائوں۔ بار بار آنے جانے سے تم کو بھی زحمت ہو گی اور مجھے بھی سفر سہنا پڑے گا، اس عورت نے جیسے نوشابہ کو بہو بنانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اس کے دبائو میں آکر آنٹی نے شوہر سے بات کی۔ وہ بولے۔ ابھی تو ہماری بیٹی پڑھ رہی ہے ، ابھی سے اس کے رشتے کی کیا جلدی ہے۔ آخر کسی روز بیٹی ہوتی ہے۔ رشتہ بُرا نہیں، زبیدہ میری سگی خالہ کی بیٹی ہے اور یہ دیکھے بھالے لوگ ہیں۔ مجھے تو یہ رشتہ پسند ہے، لڑکا اکلوتا اور باپ کی ہر شے کا وہی مالک ہے۔ اگر تم کو رشتہ پسند ہے تو جیسے چاہے کر لو۔ وہ بیوی کی طبیعت سے واقف تھے۔ کہنے لگے، تم نے فیصلہ تو خود ہی کر لیا ہے ، اب مجھ سے کیا پوچھتی ہو ۔ میاں کا عندیہ لے کر آنٹی نے بہن کو ہاں کہہ دی۔ حبیب اس معاملے سے بے خبر اپنے خواب بنتا رہا۔ وہ روزانہ دفتر جاتا اور ایک ماہ بعد جب تنخواہ ملتی، وہ ایک پائی بھی خرچ نہ کرنا چاہتا۔ تمام تنخواہ چچی کے ہاتھ پر لا کر رکھ دیا کہ جمع کرتی جائے، کام آئے گی۔ دراصل وہ تمام رقم اپنی شادی کی خریداری پر خرچ کرنا چاہتا تھا۔ وہ ڈیوٹی سے لوٹتا تو نوشابہ اس کی منتظر ہوتی، جلدی سے کھانا گرم کر کے دیتی۔ کچھ دنوں بعد زبیدہ خالہ پھر آگئیں۔ کہنے لگیں۔ بہن میں تو اپنی نوشی کو انگوٹھی پہنا کر ہی جائوں گی۔ دو تین دن منتیں کیں اور اپنی بات منوالی۔ نوشابہ کو پتا چلا تو ماں سے بولی۔ مجھ سے پوچھ تو لیا ہوتا۔ چپ رہو اور منہ مت کھولنا۔ خالہ زبیدہ سُن لیں گی ، ہمارے یہاں لڑکیوں سے نہیں پوچھا جاتا۔ تم کو اچھے بُرے کی کیا سمجھ ہے، ہم جو کریں گے صحیح کریں گے ۔ اسی روز شام کو نوشابہ کی منگنی ہوئی تھی۔ گزشتہ رات ہی منگنی کی تیاریاں مکمل ہو گئیں۔ خالہ زبیدہ پیسے والی تھیں، جا کر بازار سے تمام سامان خرید لائیں۔ نوشابہ کو دلہن کی طرح سجادیا گیا محلے کی تمام سہیلیاں اس کے گرد جمع ہو گئیں۔ حبیب دفتر سے واپس آیا تو گھر کا نقشہ ہی اور تھا۔ اس نے پوچھا۔ چچی جان یہ سب کیا ہے ؟ وہ بولیں۔ بیٹے نوشابہ کی منگنی ہو رہی ہے۔ سب کچھ جلدی میں ہوا، تم کو بتانہ سکی۔ زبیدہ بہن بضد ہو گئیں کہ ابھی کے ابھی کرنی ہے کیونکہ انہوں نے کل نواب شاہ لوٹ جاتا ہے۔ حبیب نے منگنی کا لفظ سُنا اس کا جسم سن اور ذہن پارہ پارہ ہو گیا۔ اس کی تمام امیدیں خاک میں مل گئیں۔ نوشابہ کی نظر جو حبیب پر پڑی، اس نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ یہ دن دیکھنا ہو گا۔ نوشابہ کے رونے کی آواز سن کر حبیب کو اندازہ ہو گیا اس کی بے بسی کا، وہ مردہ قدموں سے اپنے کمرے میں چلا گیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ نوشابہ کو چین نہ آرہا تھا۔ وہ اسی حالت میں حبیب کے پاس پہنچی اور بولی۔ میری بات سنو ! یہ سب مجھ سے پوچھے بغیر ہو رہا ہے۔ والدین زبردستی میری منگنی سعود سے کر رہے ہیں ، اب تم ہی کچھ کرو۔ وہ کہنے لگا۔ جب تم سے کچھ نہ ہو سکا تو میں کیا کروں۔ میں تو یہاں بطور مہمان رہتا ہوں اور تمہارا اپنا گھر ہے۔ میرے دل میں اپنا خیال بھی تم ہی نے ڈالا تھا، اگر جرات نہ تھی تو اتنی باتیں نہیں کرنی تھیں۔ اب جیسا بھی ہو رہا ہے، ٹھیک سمجھ کر قبول کر لو اور خود کو سنبھالو۔ یہ کہ کر اس نے اپنا بریف کیس اٹھایا اور چلا گیا۔ نوشابہ کی امید ٹوٹ گئی ۔ اس نے رود ھو کر منگنی کی انگوٹھی پہن لی۔ اس کے بعد حبیب نے کرایے پر مکان تلاش کر لیا اور اکیلا ہی رہنے لگا۔ پاس کوئی بھی ہمدرد نہ تھا، ہر کوئی اس کو خبطی سمجھنے لگا، کیونکہ ان دنوں وہ اپنی ذات سے بالکل بیگانہ ہو گیا تھا۔ میلے کپڑوں میں دفتر چلا جاتا اور کبھی ہوائی چپل پہن کر جوتے تک پہنے کا ہوش نہ تھا۔ رفتہ رفتہ وہ کم کھانے کی وجہ سے گھلنے لگا، اسے بخار رہنے لگا۔ ایک دن تیز بخار تھا۔ جب بخار اتراتو زبان میں لکنت پیدا ہو گئی۔ اب وہ اپنا سر نہیں سنبھال سکتا تھا۔ اس کے اعصابی نظام میں کچھ گڑ بڑ واقع ہو گئی تھی۔ اس کو دوست پہلے اسپتال اور بعد اس کے والدین کے پاس لے گئے۔ اس کو گائوں کے حکیم کو دکھایا اور کچھ جڑی بوٹیوں سے دیسی علاج کروائے مگر افاقہ نہ ہوا۔ رفتہ رفتہ اس کا ایسا حال ہو گیا کہ وہ ہاتھ میں پانی سے بھرا ہوا گلاس بھی نہ پکڑ سکتا تھا۔ دوبارہ اسے شہر لائے، ایک ماہر ڈاکٹر کو دکھایا۔ اس نے کہا بہت دیر ہو چکی ہے، شروع میں لے آتے تو شاید علاج ہو پاتا۔ غرض اس نے لاعلاج قرار دیا۔ کہا کہ کمر کی سرجری سے ایک چانس ہے مگر مہروں کا یہ آپریشن اگر ناکام رہا تو مکمل معذوری کا خطرہ ہے۔ ففٹی فنی صحیح ہونے کا امکان ہے ، اس پر حبیب کے والدین نے سرجری کرانے کی ہمت نہ کی اور بیٹا ہمیشہ کے لئے وہیل چیئر پر آگیا۔ ہر ایک کو اجنبی نگاہوں سے دیکھتا تھا۔ نوشابہ کو کچھ پتانہ تھا کہ حبیب کی کیا حالت ہے۔ وہ کبھی گائوں گئی تھی اور نہ جاسکتی تھی۔ البتہ اس کے ابو جاتے تھے اور بھتیجے کو دیکھ آتے تھے مگر وہ گھر میں کسی سے اپنے بھتیجے کی بیماری کا تذکرہ نہ کرتے تھے۔ منگنی کے چار ماہ بعد شادی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ادھر نوشابہ کی شادی کی شہنائیاں بج رہی تھیں، ادھر حبیب کی بیماری میں پیچیدگیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ تاہم وہ چپ رہتا تھا جیسے کسی نے اس کے لبوں پر تالے لگا دیئے ہوں۔ شادی کا دن آگیا، نوشابہ دلہن بن گئی۔ اس کے چہرے پر خوشی نہ تھی۔ سجا ہوا چہرہ اُجاڑ لگ رہا تھا۔ وہ اتنی دکھی ہو رہی تھی کہ دُکھ سے رو بھی نہیں سکتی تھی۔ اس کے تمام سنہرے خواب چکنا چور ہو چکے تھے۔ شادی کے دن بھی وہ دعامانگ رہی تھی کہ حبیب آجائے۔ اس کو خبر نہ تھی کہ اس کا نہ آنا بہتر تھا۔ نکاح کے وقت رجسٹر پر دستخط کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ میری عزیز از جان سہیلی کسی اور کی دلہن بن کر، بیاہ کر اپنے گھر چلی گئی۔ وہ اب خاموش خاموش رہتی تھی کیونکہ اس کے ذہن میں حبیب کی تصویر جم گئی تھی۔ وہ اسے بھلا نہ سکتی تھی۔ دولہا دیکھنے میں بھلا تھا مگر اچھا آدمی نہ تھا۔ کسی اور کا تو نقصان نہ کرتا تھا مگر اپنی بری عادتوں سے خود کو نقصان ضرور دیتا تھا۔ وہ نوشابہ کے ساتھ ٹھیک رہتا تھا مگر اس کی اپنی ایک پر سنل زندگی تھی جس کی وجہ سے بیوی نظر انداز ہوتی تھی۔ دولت کافی تھی اور وہ بغیر دوستوں کے رہ نہیں سکتا تھا۔ دولت بھی بغیر محنت کے اسے مل گئی تھی۔ وہ ایسے لوگوں میں سے تھا جن کے دم سے بالا خانے آباد ہوتے ہیں۔ وہ عیش و عشرت کی محفلوں کا رسیا تھا۔ عمر میں بھی نوشابہ سے پندرہ برس بڑا تھا۔ ماں سعود کو سمجھاتی مگر وہ ان مشاغل کا اس قدر عادی ہو چکا تھا کہ اگر خود کو روکتا بھی تھا تو قدم نہیں رکھتے تھے، کسی روز نہ جانے کا عہد کر لیتا تب دوست بلانے آجاتے۔ اس کی یہ عادتیں بھی در گزر ہو جائیں کہ وہ رات کو دیر سے آنے کے سوا نوشابہ کو اور کوئی تکلیف نہیں دیتا تھا۔ اس کے ساتھ سخت لہجے میں بات نہیں کرتا تھا، بیمار ہوتی توڈاکٹر کے پاس لے جاتا، میکے جانے سے بھی منع نہ کرتا۔ کوئی بد سلو کی بھی روانہ رکھتا۔ بس یہ چاہتا تھا کہ بیوی اس کے پرائیویٹ معاملات میں دخل نہ دے اور نہ ہی اس سے پوچھا کرے کہ تم رات کو کیوں دیر سے گھر آتے ہو اور کہاں رہتے ہو۔ وہ بیوی کے دبائو کے بغیر، بالکل آزاد زندگی گزارے ، جیسے غیر شادی شدہ مرد زندگی گزارتے ہیں۔ اب اس کی طرف سے سبھی گھر والوں کو پریشانی لاحق رہنے لگی کہ وہ آئے دن پولیس کو مطلوب رہتا تھا۔ ماں باپ سوچتے آخر اس کی ایسی کیا سر گرمیاں ہیں کہ پولیس اس کا پوچھنے دروازے تک آجاتی ہے۔ وہ تھانے جا کر رقم بھر آتا اور وہ لوگ کچھ عرصہ چپ بیٹھ جاتے۔ خُدا جانے اس نے کسی قسم کے مجرمانہ روابط بڑھالئے کہ جس کی وجہ سے پولیس گھر تک آجاتی تھی۔ اس وجہ سے گھر والے پریشان رہنے لگے۔ ایک دن جب نوشابہ میکے آئی، کسی نے اس کو بتا ہی دیا کہ حبیب کا اعصابی نظام ایک بار بہت تیز بخار کے بعد متاثر ہوا تو وہ اب تک ٹھیک نہیں ہو سکا ہے ، اب وہ وہیل چیئر پر رہتا ہے۔ یہ سن کر میری دوست کو بہت صدمہ پہنچا۔ ایک طرف شوہر کی بے راہ روی کا دکھ ، دوسری جانب حبیب کی بیماری کاسن کر اس کا سکون ختم ہو گیا اور اسے چپ لگ گئی۔ دن رات سوچتے رہنا اس کا معمول ہو گیا۔ وہ کسی بات میں دلچسپی نہ لیتی تھی اور نہ کہیں آتی جاتی تھی۔ اس کی زندگی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئی، حتی کہ میکے بھی نہ آتی۔ ایک رات بارہ بجے جب وہ اپنے بستر پر دراز تھی اور اپنی زندگی کی بے کیفی ہارے غور کر رہی تھی، اس نے در پر دستک سنی۔ اس کے سسر دروازے پر گئے۔ سمجھ رہے تھے کہ بیٹا گھر آگیا ہے، مگر اس کا بیٹا آج گھر تو معمول سے جلد آ گیا تھا مگر اپنے قدموں پر نہیں آیا تھا بلکہ دوستوں کے کندھوں پر آیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کسی جگہ ایک جھگڑے میں سعود کو گولی لگ گئی ہے اور وہ زخمی ہے۔ رات کا وقت تھا، وہ اس کو اسپتال لے جانے کی بجائے شدید زخمی حالت میں گھر اٹھالائے تھے۔ خدا جانے یہ کیسے دوست تھے۔ وہ اس کے بے جان سے سراپے کو بوڑھے باپ کے ہاتھوں میں تھما کر چلے گئے۔ سعود کی نبض ڈوب رہی تھی۔ جسم سے کافی خون بہ چکا تھا۔ گھر میں کھلبلی مچ گئی۔ باپ نے مدد کے لئے پڑوسیوں کو آواز دی۔ وہ سب مل کر اس کو گاڑی میں ڈال کر اسپتال لے چلے لیکن راستے میں سعود نے دم توڑ دیا۔ اسپتال تک جانے کی نوبت نہ آئی۔ باپ تو کمر کو پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگ گیا۔ سعود اس کا اکلوتا لخت جگر تھا۔ پتا چلا کہ بالا خانے پر گانا سنتے ہوئے جھگڑا ہوا اور ایک تماش بین سے گولی چل گئی جو نشے میں تھا۔ دوست بھی ویسے ہی تھے جنہوں نے اسپتال لے جانا مشکل جانا۔ وہ اس کیس میں پھنسنے کو تیار نہ تھے۔ سوایسوں کی دوستی ایسے ہی لوگوں سے ہوتی ہے جو وفا اور لحاظ سے خالی ہوتے ہیں۔ نوشابہ پہلے ہی اپ سیٹ تھی، اب تو نیم پاگل ہو گئی۔ وہ اجڑ کر باپ کے در پر آگئی ۔ آج ماں پچھتارہی تھی کہ اس نے دو دلوں ہی کو نہیں ، تین گھروں کو اجاڑ دیا تھا۔ آنٹی اب پچھتارہی تھیں کہ ان سے کتنی بھول ہو گئی۔ زبیدہ سے رشتہ ضرور تھا لیکن ان کے لڑکے بارے میں تحقیق نہ کی۔ کم از کم سعود کے بارے کچھ معلوم کر لیا ہوتا۔ بہن کی محبت میں آنکھیں بند کر کے بیٹی کو تباہی کی آگ میں جھونک دیا۔ اب بیٹی د کھی تھی تو ان کا دل بھی خوش نہ تھا۔ نوشابہ کافی عرصے تنہارہی ۔ وہ گھر میں بیمار پڑی سلگتی رہتی۔ ماں باپ اس کو ملازمت کرنے کی اجازت بھی نہ دیتے تھے۔ میں ایک روز اس کے گھر گئی تو اس کی حالت مجھ سے دیکھی نہ گئی۔ میں نے آنٹی کو سمجھایا کہ اگر نوشابہ ملازمت کرنا چاہتی ہے تو اسے کرنے دیں۔ اس طرح اس کا دھیان بٹے گا اور دل بہل جائے گا۔ وہ معاشرے میں اپنا کچھ تعمیری کردار ادا کر سکے گی۔ یوں گھر میں ایک قیدی کی طرح بند رہ کر تو وہ اپنی آگ میں جل جل کر راکھ ہو جائے گی۔ انہوں نے میری بات کی لاج رکھ لی اور بیٹی کو ملازمت کی اجازت دے دی۔ میں نے نوشابہ کے لئے اپنے اسکول میں جاب کی گنجائش نکالی اور وہ میرے ساتھ اسکول میں پڑھانے لگی۔ جب وہ گھر سے نکلی، اس کے رویئے میں کافی تبدیلی آگئی یں کافی تبدیلی آئی اور اسکول کے بچوں میں اس کا دل لگ گیا۔ وہ اب ان کے درمیان ہنستی مسکراتی تو بہت اچھی لگتی۔ افسوس کہ ہمارے معاشرے میں کتنی ہی ایسی نیک اور اچھی لڑکیاں ہیں جو والدین کے غلط فیصلوں کے باعث اجڑ جاتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کو اگر کوئی تعمیری کردار ادا کرنے کا موقع میسر آجائے تو ان کی زندگیاں مزید تباہ حال نہ ہوں اور نہ وہ گھٹن کا شکار ہو کر خود کو بیکار سمجھنے لگیں۔ نوشابہ کے معاملے میں تو میرایہی تجربہ ہے۔