کیسی ہو سہانا ڈینم کی پتلون پر سفید و سیاہ دھاری دار شرٹ میں ملبوس عباد نے نفیس سے لائٹر کی مدد سے اپنے ہونٹوں میں دبا سگریٹ سلگاتے ہوئے میز کی دوسری جانب قدر سنجیدہ سی بیٹھی سہانہ کو بغیر دیکھتے ہوئے گفتگو کا اغاز کرنے کی غرض سے ایک ایسا بے معنی سوال پوچھا جس کا جواب عباد کو پہلے ہی سے معلوم تھا- تمہیں میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں میں الحمدللہ بالکل فٹ فاٹ اور بہت اچھی ہو دھانی جوڑے میں ملبوس نازک اندام سہانا کی جانب سے جواب تو حسب توقع ہی مصول ہوا تھا مگر پھر بھی عباد قدر برا مان کر گھمبیرتا سے بولا اچھی ہو تب ہی تو تمہیں چاہتے ہیں- یعنی اگر جو میں کبھی اچھی نہ رہی تو میرے لیے تمہاری محبت بھی ختم ہو جائے گی٠ ہے نہ وہ سخت ناراض نظروں سے اسے پھوگھورتے ہوئے بولی تو عباد سگرٹ کا ایک گہرا کش لگانے کے بعد کثیر دھواں فضا میں بکھیرتے ہوئے مخصوص انداز سے مسکرایا- تم تو بات پکڑتی ہو میں نے ایسا تو نہیں کہا- وہ متبسم نگاہوں سے اسے دیکھ کر بولا کہا نہیں لیکن الفاظ کا مفہوم تو تمہاری بات کا یہی تھا- اس پر اپنی ناراضی اور اچھی طرح جتانے کی خاطر چڑھی ہوئی تیوری مزید چڑھا کر بولی تو اس بار وہ حقیقتا جھلا اٹھا- سہانا کیا اج تم مجھ سے لڑنے کے لیے ائی ہو یہاں- ہاں خفا خفا سی سہانا نے انکار نہیں کیا اور اس کی یہی معصومیت امیز صاف گوئی عباد جیسے کھرے انسان کو چت کر رہی تھی- ابھی بھی وہ اس کے اس انداز پر انتہائی جھنجھلاہٹ کے باوجود ہنس پڑا- لڑنے ائی ہو اس نے دلچسپی سے پوچھا مگر کیوں بھائی بندہ پرتقصیر سے اب کیا خطا سرزد ہو گئی- میری اچھی خاصی جاب بلاوجہ چھڑوا دی اور اب بہت معصوم بن کر پوچھتے ہو کہ کیا خطا سرزد ہو گئی- وہ سلگ کر بولی تو عباد نے ایک گہری سانس یوں بھری گویا کہہ رہا ہو کہ اچھا تو گویا تمہاری ناراضگی کی یہ وجہ ہے- پھر اپنے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں میں دبا ہوا ڈھائی انچ کا خاموش قاتل اپنے لبوں سے لگا کر پھیپھڑوں کو مزید الودہ کرنے کے بعد سنبھل کر کہنا شروع ہوا- دیکھو سہانا میں تمہیں پہلے بھی کئی بار یہ بتا چکا ہوں کہ میں نے تمہاری وہ جاب بلا وجہ ہرگز بھی نہیں چھڑوائی، دراصل اس دفتر کا ماحول مجھے تمہارے لیے سخت ناموزوں محسوس ہوا تھا- مجھے گھر بٹھا کر تم خود اب تک وہی جاب کر رہے ہو وہ نہ ماننے والے لہجے میں بحث کرنے لگی- جو ماحول میرے لیے ناموزوں ہے وہ تمہارے لیے درست کیسے ہو گیا- وہ اپنی حسین انکھوں سے چنگاریاں نکالنے لگی- میں مرد ہوں میری بات اور ہے اس نے اپنی دانست میں اسے لاجواب کر دیا مگر وہ ہوئی نہیں- یہ مرد عورت کی منطق بھی خوب ہے وہ کھٹ سے طنزیہ مسکرا کر بولی- بری شے بلا تخصیص دونوں ہی کے لیے بری ہوتی ہے- ابھی جو تم یہ سگریٹ پھونک رہے ہو اگرچہ میں پینے لگوں تو کیا یہ میرے لیے اچھی ہو جائے گی- یہ تم گفتگو کو کہاں سے کہاں لے جا رہی ہو سہانا- وہ ایک دم بہت زیادہ ناگواری سے بول اٹھا تم کیوں پینے لگی سگریٹ- کیوں سہانہ نے چتون تیکھے کر لیے- تمہیں سگریٹ پر اعتراض ہے یا میرے پینے پر- سگریٹ پر وہ ترنت بولا- سگرٹ پر، مطلب کیوں بھائی کیا اتنی بری چیز ہے وہ مصنوعی تعجب سے انکھیں پھیلا کر متنفر ہوئی تو اس کی کمال چالاکی پر عباد دل ہی دل میں سٹپٹا کر رہ گیا- مگر اب کیا کیا جائے کہ وہ پھنس چکا تھا- اس لیے تحمل سے بولا ہاں سہانا یہ بہت بری چیز ہے- اگر اتنی ہی بری چیز ہے تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے- یہ سہانا کا اگلا سوال تھا چھوڑ دوں گا تم سے کہا تو ہے کہ چھوڑ دوں گا تمہیں میری بات کا یقین کیوں نہیں آ جاتا- عباد کی برداشت کی حد تمام ہوئی- دوسری سگرٹ سلگاتے ہوئے درشتی سے بولا- تو سہانا کی انکھیں بھرآئیں- میں تمہاری ہر بات مانتی ہوں کیا تم میری اتنی سے بات نہیں من سکتے؟ اس بار اس نے جذباتی وار کیا تو عباد ڈھیلا پڑ گیا- ارے یار جب کہہ رہا ہو کہ چھوڑ دوں گا تو چھوڑ دوں گا نا- تم تو ایک بات کے پیچھے ہی پڑ جاتی ہو- ایک تو اتنے دن بعد ملنے ائی ہو اس پر یہ بیکار کا موضوع نکال کر بیٹھ گئی ہو- تو اسے بہلانے کی خاطر نرمی سے بولا- یہ تمہارے لیے بیکار کا موضوع ہوگا- سہانا کی انکھ کے کونے سے ایک جلد باز انسو نکل کر اس کے دامن میں جا گرا- مگر مجھے جب بھی اس بات کا خیال اتا ہے نا کہ تم کہیں نہ کہیں بیھٹے بڑے مزے سے یہ زہر اپنے حلق میں اتار کر اپنی صحت کی خرابی کا سامان کر رہے ہو- تب یقین مانوں میرے دل میں ایک عجیبب سی بےچینی بھر جاتی ہے- ارے یار ایک بار تمہیں کہہ تو دیا کو چھوڑ دوں گا تو چھوڑ دوں گا نا- لڑکپن سے پی رہا ہوں- مجھے ذرا کچھ وقت تو دو- وہ عاجز آ کر بولا- اور سہانا کا جواب سنے بغیر سگریٹ کے ایک دو لمبے کش جلدی جلدی لگا کر گویا خود کو پرسکون کرنے کی سعی کی- پچھلے ڈیڑھ سال سے تو تم مجھے یہی کہتے چلے آ رہے ہو- سہانہ نے بڑی بے بسی سے اسے کش پہ کش لگاتے دیکھ کر مایوس لہجے میں کہا- اور تمہیں کتنا وقت درکار ہے عباد- یہ میری تنہائی کی ساتھی ہے سہانہ اس نے ایک عجیب منطق بیان کی- جب تم آ جاؤ گی نہ میرے گھر میری تنہائی بانٹنے تب تم دیکھنا میں اسے کان سے پکڑ کر تمہاری انکھوں کے سامنے اپنے گھر سے باہر نکال دوں گا پھر بولو کب آ رہی ہو میرے گھر- ہوشیار اگر سہانا تھی تو وہ بھی اپنے نام کا ایک ہوش مند تھا- سہانا کی لرزتی پلکیں، گلال جھلکانے پر تیار عارض اس امر کے غماز تھے کہ عباد اس کی توجہ اس سلگتے موضوع سے ہٹانے میں کامیاب ہو گیا ہے- اپنی بھابی سے بات کر لی ہے میں نے وہ اپنی شرم کو اعتماد کے پردے میں چھپا کر ہموار لہجے میں بولی- وہ چاہتی ہیں کہ اس اتوار تم بھائی جان سے ملنے ہمارے گھر چلے اؤ-
کہیں یہ کوئی خواب تو نہیں اپنی شادی کی اگلی صبح جب وہ انگڑائی لے کر ابھی پوری طرح بیدار نہ ہوئی تھی کہ اس کے برابر میں نیم درازعباد، جو خمارآلود نگاہوں سے مسلسل اسے ہی دیکھ رہا تھا، خواب ناک سے لہجے میں بولا اور وہ بری طرح چونک پڑی- اوہ، تم وہ قدرے محجوب سی ہو کر بولی- اب میں تمہارا مجازی خدا ہوں سہانا وہ مصنوعی ناراضی سے بولا تھوڑی سی عزت کر لو میری اب مجھے یہ تم ،وم چھوڑ کر اپ کہاں کرو- اچھا جی وہ اپنے کھلے چمکدار بال جوڑے میں لپیٹ کر شوخی سے بولی- تو پھر بتائیے اپ ناشتے میں کیا لینا پسند کریں گے٠ اج تو تمہاری اس گھر میں پہلی صبح ہے امی اگر حیات ہوتی تو مجھے یقین ہے اپنے لاڈلے کی من چاہی کے خوب لاڈ اٹھاتی- مگر خیر اتنے لاڈ تو تمہارے میں بھی اٹھا ہی سکتا ہوں کہ تمہیں نئی نویلی دلہن ہونے کے ناطے اج کے دن ناشتہ بنانے سے مستشنی قرار دے کر کچھ باہر سے لے اؤں- تو بتاؤ کیا کھاؤ گی وہ اداس مسکراہٹ لبوں پر سجا کر بولا تو اس کے قلبی کیفیت کا اندازہ کر کے سہانا نی اس کے بستر پر رکھے مضبوط ہاتھ پر اپنا نازک حنائی ہاتھ رکھ دیا پھر حلاوت سے بولی پہلا دن ہے تو کیا ہوا گھر تو بہرحال میرا ہے ہی ہے نا اپ بتائیں کیا کھائیں گے میں بنا کر لے اتی ہوں- فرج میں انڈے رکھے ہیں میں بریڈ لے اتا ہوں وہی کھا لیں گے- عباد نے اس کے ہاتھ کے نیچے سے اپنا ہاتھ نکالا اور اٹھ کھڑا ہوا پھر اپنے کرتے کی جیب تھپتھپا کر گویا کسی شے کی موجودگی کو محسوس کرنا چاہا پھر قدر پریشانی سے اپنے متلاشی نظر ادھر ادھر دوڑائی اور سہانا جو اسی کی جانب متوجہ تھی بے اختیار پوچھ بیٹھی کیا ڈھونڈ رہے ہیں- سگریٹ کا پیکٹ رات تو یہیں رکھا تھا اب نہ جانے کدھر گیا- وہ پیکٹ کی تلاش میں اب سنگار میز پر دھری اشیاء پر ہاتھ مار رہا تھا- پھینک دیا تھا وہ میں نے ڈسٹ بن میں- بستر پر بیٹھی سہانا کو یہ جواب سن کر غصہ بہت آیا تاہم اواز اس کی مدھم رہی- یہ اور بات کہ اس کی وہ مدھم اواز بھی عباد کو کافی ہو گئی اس لیے وہ بڑی تیزی سے اس کی جانب گھوما، پھینک دیا مگر کیوں پھینک دیا یار وہ جھنجھلا کر گویا ہوا- تو سہانہ کھٹ سے بولی کیونکہ کل رات ہی تو اپ نے مجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اپ ائندہ سگریٹ نہیں پئیں گے- ہاں عباد نے کھسیا کر اسے یقین دلانے والے انداز میں تیزی سے اثبات میں سر ہلایا- جب وعدہ کر لیا ہے تو نہیں پیوں گا ہاں تو بس مت پیے- اب جلدی سے جا کر بریڈ لے ائیں اتنی دیر میں، میں انڈے وغیرہ بنا لیتی ہوں- ٹھیک ہے وہ بڑی معصومیت سے کہتی ہوئی بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی- ہاں ہاں چلو ٹھیک ہے عباد بھی مزید اس بحث میں پڑے بغیر موڑ کر عجلت میں کمرہ عبور کر گیا- سہانا کے لبوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ چمکی تھی-
اپنا ہاتھ اگے کیجئے گا ذرا، سہانا لاؤنج کے صوفے پر اطمینان سے بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ تب ہی باہر سے آ کرعباد بڑے مزے سے اس کے برابر میں آ بیٹھا- اور یہ عباد کہ وجود سے اٹھتی مخصوص بو ہی تھی جسے محسوس کر کے پہلے تو سہانا بری طرح چونکی پھر اگلے ہی لمحے یہ فرمائش کر بیٹھی- یہ لو، عباد نے مسکرا کر زوجہ محترمہ کی فرمائش پوری کرتے ہوئے جھٹ سے اپنا دایاں ہاتھ پہلو سے اٹھا کر اس کے سامنے کر دیا- کیوں یار کیا ہاتھ دیکھنے کا ارادہ ہے- دیکھنے کا نہیں سونگنے کا -سہانا پوری طرح چوکس بیٹھی تھی، اپنے سامنے پھیلا عباد کا ہاتھ جھپٹ کر اپنی ناک سے لگاتے ہوئے سخت لہجے میں کہا- تو عباد کا جی چاہا اپنی حماقت پر اپنا سر پیٹ ڈالے- تم سگریٹ پی کر ائے ہو نا عباد کا ہاتھ سونگھنے کے بعد اپنے بدترین اندازے کے درست ثابت ہو جانے پر یہ سہانا کا عین فطری ردعمل تھا- ہاں سہانا کے بے یقین وصدماتی تاثرات دیکھ کر عباد کو شرمندگی تو ہوئی مگر اب جب بھانڈا پھوٹ چکا تو جھوٹ بولنے کا فائدہ ہی کیا تھا- یعنی تم اتنے دن میرے سامنے سگریٹ نہ پینے کا ڈھونگ کرتے رہے- وہ صدمے سے باہر آ کر تاسف سے بولی، کوئی ڈھونگ نہیں، وہ چڑ گیا- میں سگریٹ واقعی بہت کم کر چکا ہوں- کم یا زیادہ مگر پی تو بہرحال رہے ہو نا- میرا احساس تو رکھو ایک طرف، تمہیں اپنے وعدے کا خیال بھی نہیں ہے عباد- تاسف، طیش یا ناراضی اتنی شدید تھی کہ سہانا سارا اپ جناب فراموش کر چکی تھی اس لمحے، کیا مصیبت ہے یار جب اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو وہ بیشتر مردوں کی فطرت کے عین مطابق ہتھے سے اکھڑ گیا- جب دیکھو تب تم یہی موضوع نکال کر مجھ سے لڑنا شروع کر دیتی ہو- ہاں پیتا ہوں سگریٹ کوئی نشہ تو نہیں کرتا نا، جو تمہیں اتنی فکر ہو رہی ہے- بعض علماء اسے باقاعدہ نشے کی کیٹگری میں شامل کر چکے ہیں- عباد کے اونچے اور کھردرے لہجے نے اس کا دل تو بہت دکھایا مگر وہ پھر بھی خود کو کہنے سے باز نہ رکھ سکی- ڈاکٹرز کے مطابق یہ سلو پوائزن ہے اسے پینا خود کشی کرنے کے مترادف ہے- جب کہا ہے اسے مکمل چھوڑ دوں گا تو چھوڑ دوں گا نہ یار وہ بھنا کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا- تم اسی ایک بات کے پیچھے کیوں پڑ جاتی ہو- کیونکہ مجھے تکلیف ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ تم نے مجھ سے جو چاہا منوا لیا مگر میری صرف ایک یہ بات نہ مان سکے بولتے بولتے اس کی اواز بھرا گئی تو عباد جو تب طیش میں اکھڑا کھڑا تھا سخت بے بسی محسوس کرتا ہوا اس کے برابر میں واپس بیٹھ گیا- ایسا مت سوچو سہانا، عباد نے اس کی دل جوئی کی خاطر اس کا ہاتھ تھام کر نسبتا نرم لہجے میں کہا- میں بھی تمہاری بات کا مان رکھتا ہوں مگر اس ایک معاملے میں تم یہ سمجھ لو کہ میں کسی حد تک بے بس ہوں یہ لت، سہانا جو اسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتی- اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو عباد کا موقف اپنی جگہ درست تھا مگر سہانا کو اب ان وضاحتوں سے کوئی سروکار نہ تھا کہ اس وقت اپنے بے وقوف بن جانے کے احساس نے غصے کا روپ دھار کر کہ اس کے دماغ کو پوری طرح اپنی شکنجے میں لے لیا تھا، اور اب وہ اس نہج پر سوچ رہی تھی کہ ایسی کیا صورت ہے جو وہ عباد کو اذیت کا مزہ چکھا سکے- جو وہ خود اس ڈھائی انچ کے قاتل کو لبوں سے لگا دیکھ کر محسوس کیا کرتی ہے- چلو نا یار اب اپنا موڈ ٹھیک کر لو چلو ڈنر پر چلتے ہیں اچھا یہ بتاؤ حسین اباد کا پان کھاؤ گی- حسین اباد کا پان، سہانا جو عباد کے مستقل منانے کے باوجود گم سم بیٹھی تھی- عباد کی اس افر پر چونک کر اس کی جانب کھوئی کھوئی سی نظروں سے دیکھا- ہاں یاد کرو تم اپنے بھائی سے کتنے شوق سے وہاں کا پان منگوایا کرتی تھی، یہ بات ظاہر ہے کہ سہانا ہی نے عباد کو بتا رکھی تھی اور عباد نے بھی فورا سے بیشتر اسے جتا دیا تھا کہ اسے پان چباتی لڑکیاں سخت زہر لگا کرتی ہیں- بس تب ہی سے سہانا نے اپنے اس بے ضرر سے شوق سے منہ موڑ لیا تھا مگر ابھی چونکہ عباد ہر قیمت پر سہانا کو منا لینا چاہتا تھا اسی لیے یہ افر کر گیا- پان، ہاں کھاؤں گی سہانا گمبھیر لہجے میں ایک دم بولی اب میں پان ہی کھاؤں گی- بس تو پھر ٹھیک ہے عباد بیچارہ سہانا کے جملے کی معنی خیزی پر غور کیے بنا خاموشی سے چہک کر بولا، فٹا فٹ تیار ہو جاؤ پھر نکلتے ہیں-
یہ کیا کھا رہی ہو عباد نے بستر پر بیٹھی سہانا کو کوئی پڑیا کھولتے دیکھا تو تعجب سے استفسار کر بیٹھا- خود وہ دفتر سے لوٹنے کے بعد ابھی ابھی تازہ دم ہو کر غسل خانے سے باہر نکلا تھا- اسے پان کہتے ہیں وہ بڑے مزے سے بولی اور سفید کاغذ میں سلیقے سے باندھے گئے پان کو کھول کر باقاعدہ عباد کو دکھاتے ہوئے پورا منہ کھول کر پان اندر ڈال لیا اور چٹخارے لے لے کر چبانے لگی- تولیے سے سر رگڑتے عباد نے برا سا منہ بنا کر خاصی ناگواری سے اسے دیکھا- کھانا تھا تو صبح ہی کھا لیا ہوتا تم جانتی ہو نہ کہ مجھے پان کس قدر برا لگتا ہے- وہ ناپسندیدگی سے بولا- پان برا لگتا ہے تو اس روز مجھے کیسے کھلا دیا، وہ پان چباتے ہوئے بولی- وہ تو بس تمہیں منانے کی خاطر دلوا دیا تھا مگر اب اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اب تم ہر وقت کسی بھینس کی طرح سبز پتوں کی جگالی کرتی رہو- وہ بستر پر گیلا تولیا پھینک کر متنبہ کرنے والے لہجے میں بولا- پان تو میں اب کھایا کروں گی عباد وہ کتھے سے سرخ پڑتے اپنے غلابی گداز لب دل جلانے والے انداز سے پھیلا کر اس کی تنبیہ کی پرواہ کیے بغیر بولی- تو وہ ٹھٹک کر اسے دیکھتے ہوئے بولا، پان کھایا کرو گی مگر کیوں کھایا کرو گی یار- کیونکہ مجھے اس کی سوندھی سوندھی مہک اور میٹھا میٹھا ذائقہ بہت اچھا لگتا ہے- عباد کو یہ بات چڑانے کی خاطر ہی صحیح مگر اس نے درست کہی تھی- ذائقہ اچھا لگتا ہے تو زہر کھانا شروع کر دو گی حسب توقع وہ چڑ گیا، اپ زہر پی سکتے ہیں تو کیا میں زہر کھا نہیں سکتی- وہ دو بدو بولی تو عباد کی سمجھ میں جیسے ساری بات آ گئی- اس وقت تو مصلحتا خاموش ہو گیا مگر دو چار روز بعد جب سہانا کے دانت میں درد اٹھا تو وہ تلملا اٹھا، اتنے حسین موتیوں جیسے دانت ہیں تمہارے خواہ مخواہ میری ضد میں آ کر انہیں برباد کر لو گی- پان کھانے سے کچھ نہیں ہوا میرے اس دانت میں تو اکثر درد رہتا ہے- وہ درد کش دوائی پانی سے نگلتی ہوئی عباد کی بات کو مکمل رد کرتے ہوئے بولی- مت مانو میری بات عباد غصے سے بولا جب کتھے چونے سے دانت سڑ جائیں گے تمہارے تمہیں تب پتہ چلے گا- میں دانت اچھی طرح صاف کرتی ہوں ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا- وہ پر یقین تھی اور پھر یہ بھی تھا نہ کہ وہ کوئی پان کھانے کی عادی تو تھی نہیں یہ تو بس عباد کے سامنے اسے چڑانے کی خاطر وہ ذرا سی دل لگی کر رہی تھی- ہاں بس عباد کے سامنے اسے چڑانے کی خاطر پر اس روز ایک عجیب ہی واقعہ رونما ہوا، ہوا کچھ یوں کہ اس دوپہر جب وہ کھانے سے فارغ ہوئی تو اس کے اندر سے طلب جاگی حالانکہ اس وقت تو سامنے اب عباد بھی نہیں تھا اور پھر یہ بھی تھا کہ اسے پان کھانے کی کوئی عادت تو نہیں تھی پھر بھی، ہاں پھر بھی وہ اپنے اندر کی طلب پر لبیک کہتی ہوئی تیزی سے لاؤنج میں رکھے سرمئی فرج کی جانب بڑھتی چلی گئی- جہاں اس نے گزشتہ رات ہی اپنے بھائی جان سے نصف درجن پان منگوا کر بڑے اہتمام سے رکھے تھے- وہ فریج کے سامنے کھڑے ہو کر یک لہذا کسی سوچ میں ڈوبی مجھے پان کھانے کی کوئی عادت تو نہیں میں تو بس یوں ہی شغل میں ویسے ہی، اس کے لبوں پر کھسیاہٹ امیز مسکراہٹ آ ٹھہری اور اس نے دوسرے ہی لمحے تمام سوچوں سے دامن چھڑانے کی خاطر سر جھٹکا اور فرج کھول لیا-