Monday, January 13, 2025

Zuban Band Rukhna | Teen Auratien Teen Kahaniyan

کہتے ہیں کہ شوہر کے بغیر عورت کی زندگی کاغذ کے پھول کی مانند ہوتی ہے۔ وہ جتنی بھی آسودہ حال ہو، خود کو لاوارث اور بے بس ہی محسوس کرتی ہے تبھی ڈاکوئوں اور قاتلوں کی بیویاں بھی اپنے سہاگ کی خیر مانگتی ہیں لیکن میں نہ جانے کیسی عورت ہوں جو سہاگ کے بغیر ہی خود کو بہتر سمجھتی ہوں۔
میری کہانی بھی عجب کہانی ہے۔ بچپن تو ہوتا ہی سہانا ہے لیکن ہوش سنبھالتے میرے والد نے میری شادی جلدی کرنے کی آرزو میں ایک ایسے انسان کے پلے باندھ دیا جو نہ صرف عمر میں مجھ سے بڑا تھا بلکہ ان پڑھ بھی تھا۔
اس کا نام زردار خان تھا اور وہ میرے والد صاحب کا دور کا رشتہ دار تھا۔ والد نیک اور شریف انسان تھے تبھی وہ شریف خاندان میں رشتہ کرنا چاہتے تھے۔ بے شک میرے سسر اور جیٹھ وغیرہ نیک اور اچھے کردار کے لوگ تھے، گائوں میں ان کی ساکھ اور نیک نامی بہت تھی اسی باعث بابا جان نے میرا رشتہ ان لوگوں میں کیا تھا۔ وہ مالی لحاظ سے بھی مضبوط تھے۔ ان کا اپنا کاروبار تھا اور جس گائوں میں رہتے تھے، وہاں خشک میوہ جات کی منڈی تھی اس کے علاوہ پھلوں کے باغات تھے۔ یہ گائوں سرحد کے آخری سرے پر واقع تھا۔
شادی کے بعد ان کے گائوں گئی، مجھے وہاں کی زندگی بھلی لگی کیونکہ ساس، سسر، جیٹھ، جٹھانی سبھی نے پیار بھرا سلوک کیا۔ شوہر بھی نیک اطوار نظر آئے۔ شادی کے شروع دنوں میں مجھے زردار میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی، انہوں نے شکایت کا موقع نہ دیا۔ سسرال والوں کا مشترکہ خاندانی نظام تھا اور کاروبار بھی اکٹھے کرتے تھے۔ شادی سے پہلے زردار کوئی کام نہ کرتے تھے لیکن جب ذمہ داری پڑی تو ان کو بھی سسر صاحب نے کاروبار میں شریک کرلیا اور آمدنی میں سے جو منافع ہوتا، ان کا حصہ نکال کر ان کے نام پر بینک میں جمع کرا دیتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بعد زردار کے پاس اتنا روپیہ ہو کہ جب چاہیں یہ اپنا کاروبار الگ کرسکیں۔ وہ زردار کے منافع سے گھر کا خرچا نہیں کاٹتے تھے بلکہ خود ہمارے اخراجات برداشت کرتے تھے۔ میرے جیٹھ صاحب بہت اعلیٰ ظرف تھے اور اپنے چھوٹے بھائی سے اولاد کی طرح محبت کرتے تھے۔ جب تک میرے سسر اور جیٹھ صاحب بقیدحیات تھے، زردار درست راستے پر رہے لیکن اللہ کی مرضی کہ یہ دونوں ایک حادثے میں ایک ساتھ جاںبحق ہوگئے اور زردار خاندان کو سنبھالنے والے واحد فرد رہ گئے۔
ایک برس تو زردار نے اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے نباہے اور کاروبار کو بھی صحیح خطوط پر چلایا لیکن پھر رفتہ رفتہ ان کے طور طریقے بدلنے لگے اور وہ اپنے ٹرک اسمگلنگ کی تجارت کیلئے استعمال کرنے لگے۔ چونکہ جیٹھ صاحب کے سرمائے کو بھی انہوں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا لہٰذا وہ ان کے اہل خانہ اور اولاد کے سرپرست بن گئے۔ ان دنوں ہم سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ زردار میری جٹھانی اور ان کے بچوں کو خرچہ دیتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس خرچے میں کمی کرنے لگے، جٹھانی صاحبہ جان کچھ پریشان رہنے لگیں مگر میں ان کیلئے تسلی کا باعث تھی۔ ان کی خفیہ امداد کرتی تھی اور دکھ سکھ بانٹ لیتی تھی جس سے ان کو ڈھارس بندھ جاتی تھی کیونکہ وہ ہمیشہ مجھ سے ایک بڑی بہن جیسا شفقت بھرا سلوک رکھتی تھیں۔
انہی دنوں میرے شوہر کا کسی شخص سے جھگڑا ہوگیا۔ دونوں ہی اسمگلنگ کے کاروبار میں ملوث تھے، اس شخص کا نام عبدالرحمن سمجھ لیں۔ عبدالرحمن کے پاس ان کے کچھ راز بھی تھے جن کے طشت ازبام ہونے کا زردار کو خوف تھا۔ انہوں نے اپنے پاس تھوڑی مقدار میں منشیات رکھ کر چیک پوسٹ پر خود کو گرفتار کرا لیا اور جیل چلے گئے۔
یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ درحقیقت جیل میں پابند رہ کر عبدالرحمن کا قصہ تمام کرانا چاہتے تھے۔ زردار نے اپنے بھائی کے لڑکے محب کو کسی طرح آمادہ کیا کہ وہ عبدالرحمن کو گولی مار کر بھاگ آئے اور اپنے دوست کے گائوں کا پتا بتایا کہ وہاں پناہ لے لینا۔ محب خان تو ابھی سولہ سترہ سال کا نوعمر لڑکا تھا اور کچا ذہن تھا۔ جانے اس کے ذہن میں کیا بات ڈالی کہ وہ چچا کی بات ماننے پر راضی ہوگیا۔ اس نے موقع پا کر ایک روز رات کو جبکہ عبدالرحمن اپنے ڈیرے سے گھر کی طرف آرہا تھا، اسے گولی کا نشانہ بنایا اور خود زردار کے کسی ساتھی کے پاس پناہ لے لی۔ کسی کو میرے سوا علم نہ تھا کہ زردار نے خود کو کیوں پکڑوایا ہے۔ درحقیقت مقتول کے ورثاء کو دشمنی اور جھگڑے کا علم تھا۔ انہوں نے قتل کا الزام زردار پر لگایا لیکن انہوں نے ثابت کیا کہ یہ تو جیل میں ہیں لہٰذا ان کو ضمانت مل گئی اور بعد میں بری ہوگئے۔ محب پر کسی کو شک نہ گزرا کیونکہ وہ دوسرے روز گھر پر موجود تھا۔ پولیس آئی محب اپنے حجرے میں سو رہا تھا۔ کون گمان کرسکتا تھا کہ یہ لڑکا کسی کو گولی مار سکتا ہے۔ اس وقت تک مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ یہ کس چیز کی اسمگلنگ کرتے ہیں۔ دراصل یہ اشیاء کی نہیں انسانوں کی اسمگلنگ کرتے تھے۔ یہ اور ان کے کارندے ایک گروہ سے ملے ہوئے تھے جو بچے، عورتیں، لڑکیاں اور لڑکے اغوا کرکے ان کے حوالے کرتے تھے اور یہ آگے خرکاروں کے ہاتھ فروخت کردیتے تھے۔ یہ بردہ فروش ظالم اغوا ہونے والے لڑکوں، لڑکیوں اور عورتوں کو کسی اور ملک فروخت کرتے تھے۔ ایسے ملکوں میں جہاں ان کو بطور لونڈیاں اور غلام بنا لیا جاتا تھا۔
ایک دن زردار گھر آیا تو آتے ہی کہا کہ مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ اس وقت میں اپنے بیٹے کو سلا رہی تھی تبھی میری جٹھانی نے اپنی بڑی بیٹی روبینہ کو کہا کہ تم اپنے چچا کو روٹی پکا کر دے دو، تمہاری چچی بچے کو سلا رہی ہے۔ روبینہ سولہ برس کی نوخیز کلی تھی۔ وہ جب چولہے کے سامنے روٹیاں پکا رہی تھی تو اس کے چہرے پر آگ کی لپٹوں کا عکس پڑ رہا تھا جس سے اس کا سرخ و سفید چہرہ دمکنے لگا اور بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں ہیرے کی مانند جگمگانے لگیں۔ زردارگل کی نظر بھتیجی کے چاند جیسے چہرے پر پڑی تو وہ ٹھٹھک کر رہ گیا اور منہ میں نوالہ ڈالنا ہی بھول گیا۔ میں حیران رہ گئی کہ وہ ایسی محویت سے کیوں روبینہ کو دیکھ رہا ہے۔ دراصل وہ اس معصوم لڑکی کو فروخت کرکے دولت سمیٹنے کے تصور میں گم ہوگیا تھا۔ ظاہر تھا ایسی نوخیز مہ وش کی قیمت بھی اس کے حسن کے حساب سے ملنے والی تھی لیکن اس دن میں اپنے شوہر کے اس مکروہ ارادے کو نہ بھانپ سکی۔ ایک روز ہمارے گھر میری جٹھانی کے بھائی کا بیٹا آدم خان آیا۔ یہ ٹرک پر سامان لوڈ کراتا تھا پھر حساب کتاب کی کاپیاں ہمارے حوالے کرکے چلا جاتا تھا۔
آدم خان خوبصورت نوجوان تھا مگر وہ صاحب کردار بھی تھا۔ اس نے میرے شوہر کے کافی کام جو کاروبار سے متعلق تھے، سنبھالے ہوئے تھا۔ ایک دیانتدار، خدمت گزار کے طور پر سبھی اس کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتے تھے۔ لیکن زردار خان تو اس قسم کا انسان بن چکا تھا کہ کسی کی وفا اور دیانتداری کا ثمر دینے کی بجائے اس کی عزت اور وقار کو ایک لمحے میں خاک آلود کرسکتا تھا کیونکہ اس کے پاس ضمیر کی گرمی اور دمک تو عنقا ہوچکی تھی۔ جس وقت آدم خان آیا شام کے چار بجے تھے، اسے زردار نے بلوایا تھا۔ اس نے آتے ہی ادب سے سلام کیا تبھی میرے شوہر نے کہا کہ تم وہ حساب کتاب کا رجسٹر لا کر مجھے دو جو تم نے اپنی پھوپی کے پاس رکھوایا تھا۔ زردار جانتا تھا کہ کمرے میں اس کی بھاوج موجود نہیں ہے وہ دیگر بچوں کے ساتھ قریبی گھر میں گئی ہوئی تھی جو کہ اس کی خالہ کا مکان تھا، ہمارے گھر میں صرف روبینہ ہی کمرے میں لیٹی ہوئی تھی۔ آدم خان نے اسے کہا کہ اپنے چچا کے حساب کتاب کا رجسٹر دے دو۔ تبھی زردار خان وہاں گیا اور اس نے پھر خود یہ بات ہر کسی سے کہنی شروع کردی کہ آدم خان اور روبینہ کا آپس میں پیار ومحبت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ وہ قریبی رشتہ داروں سے اپنی پریشانی کا اظہار کرتا کہ میری یتیم بھتیجی ہے اور یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے مرحوم بڑے بھائی کے گھرانے کی عزت کا تحفظ کروں لیکن یہ دونوں چوری چھپے ملتے اور بات چیت کرتے ہیں۔ آدم خان بھاوج کا بھتیجا ہے وہی اس کو گھر آنے سے روکے۔ زردار کی ایسی گفتگو پر رشتے دار حیرت زدہ تھے کیونکہ روبینہ نیک اور پابند صوم وصلوۃ تھی۔ اس کو کبھی کسی نے گھر سے باہر قدم رکھتے بھی نہیں دیکھا تھا اور نہ وہ کبھی اکیلے گھر سے باہر گئی تھی پھر وہ کیسے آدم خان سے گھر سے باہر جاکر ملاقات کرسکتی تھی۔
یہ عجیب بات تھی کہ آدم خان جو صرف اپنی پھوپی سے بات کرتا تھا، کبھی اس کی بچیوں سے ہم کلام نہیں ہوتا تھا۔ اسے روبینہ کے ساتھ خود زردار بدنام کررہا تھا۔ روبینہ کا رشتہ اپنے دوسرے ماموں کے بیٹے سے طے ہوچکا تھا اور ان باتوں کا پھیلانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ بات ان لوگوں تک پہنچ جائے اور وہ یہ رشتہ لینے سے انکار کردیں تاکہ پھر زرداد خان لڑکی کو خراب قرار دے کر کسی بھی شخص کے ہاتھ فروخت کرکے اس کی قیمت وصول کرسکے۔ آدم خان کو اس کا چھوٹا چچا خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ نہایت پاک باز، نیک چلن ہے لہٰذا روبینہ کے چھوٹے ماموں یعنی اس کے ہونے والے سسر نے رشتہ داروں کی سرگوشیوں اور چہ میگوئیوں کا کوئی اثر نہ لیا بلکہ زردار ہی کی نیک نیتی کو مشکوک جان کر بہن کے پاس آیا اور جٹھانی سے روبینہ کی جلد ازجلد رخصتی طلب کی اور مشورہ میرے شوہر سے کیا۔ وہ کیا کہتا کھلم کھلا تو رخصتی کی مخالفت نہیں کرسکتا تھا۔ ماموں جلد بارات لے کر آگیا اور زردار منہ دیکھتا رہ گیا۔ وہ اپنی بھانجی کو بہو بنا وداع کرکے لے گیا، سرگوشیاں کرنے والے بھی ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔ اب زردار کھل کر برادری میں الٹی سیدھی بات نہ کرسکتا تھا۔
زردار خان نے بہت کوشش کی تھی کسی طرح یہ رشتہ ٹوٹ جائے اور یہ شادی نہ ہو مگر وہ تو اپنے تھے اور شریف لوگ تھے۔ روبینہ پر خدا کی رحمت ہوگئی اور وہ عزت سے اپنے سسرال چلی گئی۔ اس کے ساس، سسر کو چونکہ زردار کی نیت کا اندازہ ہوچکا تھا۔ انہوں نے رخصتی کے بعد کبھی روبینہ کو ہمارے گھر نہیں آنے دیا۔ میری جٹھانی صاحبہ جان اور اس کی بچیاں جاکر اس سے مل آتی تھیں۔ روبینہ کی شادی سے پہلے ہی الزام لگا کر زردار نے آدم خان کو ملازمت سے نکال دیا تھا۔ خود آدم نے بھی آنا جانا ترک کردیا کہ کہیں بات بڑھ نہ جائے۔ بڑی لڑکی تو رخصت ہوگئی اور اپنے گھر خوش آباد بھی ہوگئی تبھی زردار نے اس کے بعد والی کے بارے سوچا۔ کسی طرح اسی کو فروخت کرکے رقم حاصل کرلوں۔ اس بچی کا حسن بھی قابل دید تھا اور نام اس کا حسنہ جان تھا۔ حسنہ چندے آفتاب چندے ماہتاب مگر اپنی بہن کی مانند باحیا اور شرمیلی تھی۔ اس نے بھی کبھی قدم نہیں نکالا تھا، سارا دن گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی تھی۔ ہماری خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھتی۔ اتنی خدمت گزاری پر بھی ظالم کے دل میں اپنی یتیم بھتیجی کیلئے یہی ارادے پل رہے تھے کہ کسی غیرشخص سے رشتہ ہو تاکہ بدلے میں روپیہ ہاتھ آئے۔
ابھی اس کے ذہن میں یہ منصوبہ بن رہا تھا کہ صاحبہ خاتون کا دوسرا بھائی گل ریز خان اس کے پاس سوالی بن کر آگیا اور اپنے بیٹے سلیم خان کیلئے حسنہ کا ہاتھ مانگ لیا۔ صاحبہ نے اس کو چپکے سے آگاہ کردیا کہ میرے دیور کا ارادہ کسی اور جگہ رشتہ دینے کا ہے تاکہ رقم حاصل ہو۔ تم جلد ازجلد بارات کا انتظام کرو اور زردار کسی قسم کی غلط بات پھیلائے، اس سے پہلے ہی حسنہ کو بہو بنا کر لے جائو۔ زردار کا ایک خالہ زاد حسیب خان بھی اس کا ملازم تھا۔ میرے شوہر نے اس کو گھر کے اندر لانا شروع کردیا کسی نہ کسی کام کے بہانے… جب گھر ایک ہو اور گھر میں لڑکیاں جواں سال ہوں تو پھر رشتے دار نوجوان کو خود بلا کر گھر میں بٹھانا چہ معنی…!
اس بار بھی جب سگے چچا نے بے ہودہ الزامات لگا کر باتیں پھیلانے کی کوشش کی تو صاحبہ جان گھبرا گئی۔ وہ مجھ سے پوچھتی تھی۔ خانم! تم بتائو یہ سب کیا ہے اور زردار کا ایسی باتیں کرنے سے کیا مقصد ہے؟ میں تو اپنے شوہر کی نیت جان چکی تھی، کھلے الفاظ میں اس بیچاری کو کیا کہتی۔ ظاہر ہے کہ رواج کی آڑ لے کر وہ اس کی لڑکیوں کو بری لڑکیاں ثابت کرکے ہی فروخت کرسکتا تھا جبکہ وہ نیک اطوار اور نیک طینت تھیں۔ معاشرے اور رشتے داروں کا خوف اسے کھلی چھٹی بھی نہ دیتا تھا کہ اپنے لالچ کو کیش کرلے۔ میں بس اسی قدر کرسکی کہ حسنہ کی ہونے والی ساس کے کان میں قسم دے کر یہ بات ڈال دی کہ جلدی سے اسے رخصت کرکے گھر لے جائے اور زردار کی باتوں پر ہرگز کان نہ دھرے کیونکہ وہ لالچی انسان روپیہ حاصل کرنے کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کے درپے ہے۔ وہ سمجھدار عورت میری مجبوری جانتی تھی کہ میں زردار کی بیوی ہوں۔ اگر کھل کر بات کردی تو یقیناً بے موت ماری جائوں گی اور میرا شوہر مجھے کبھی نہ بخشے گا۔ گل ریز خان کی بیوی نے بات سمجھ لی اور جلد ازجلد وہ بھی حسنہ کو بیاہنے آگئی۔ ماموں اور ممانی کا رشتہ تھا۔ زردار نے کئی بہانے لگا کر بھتیجی کا رشتہ خراب کرنے کی کوشش کی مگر وہ لوگ میری زبانی بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرچکے تھے لہٰذا انہوں نے برادری بٹھا کر زردار کو فیصلہ کرانے کی دھمکی دی تو وہ سہم گیا اور یوں حسنہ میری خفیہ کوشش سے اپنے سگے ماموں کے محفوظ گھر میں چلی گئی۔
حسنہ کی رخصتی کے اگلے روز بھابی، صاحبہ جان اور میں نے مل کر نفل شکرانہ ادا کئے کہ بچیاں عزت و آبرو سے اپنے ماموئوں کے گھر بیاہی گئی تھیں۔ خدا جو چاہے وہی ہوتا ہے، اللہ نے ان یتیم بچیوں پر اپنی رحمت کی تھی۔ یہ اس کی سگی بھتیجیاں تھیں اور وہ کچھ نہیں کرسکا تھا کیونکہ بھابی، صاحبہ جان کی برادری بہت مضبوط تھی لیکن بردہ فروشوں سے مل کر دوسروں کی اولادوں کو فروخت کرتے ہوئے اس کو ذرا سا بھی خوف خدا نہیں ہوتا تھا۔ سہراب نامی ایک شخص زردار کا ڈرائیور تھا اور دور پرے کا رشتہ دار ہوتا تھا۔ اس کی تھوڑی سی زمین ہماری زمین کے ساتھ لگتی تھی یعنی کہ وہ کھاتہ شریک تھا۔ زردار نے اپنی گائے، بھینسیں اور بھیڑیں اس کے حوالے کی ہوئی تھیں۔ وہ ان کی بھی رکھوالی کرتا تھا اور اس مال کی فروخت سے جو منافع ہوتا، وہ آدھا آدھا تقسیم کرتے تھے۔ سہراب گھر پر شام کو دودھ پہنچانے بھی آتا تھا۔ ایک دن وہ آیا اور کہا کہ بی بی خانم! مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ اس نے یہ پیغام ایک چھوٹے لڑکے کے ہاتھ بھجوایا جو اس کے ہمراہ دودھ دینے گھر کے اندر آتا تھا۔ لڑکے حبیب گل نے جب پیغام دیا تو میرے کان کھڑے ہوگئے اور میں نے سوچا ضرور یہ کوئی غیر معمولی بات ہوگی ورنہ سہراب کبھی مجھ کو یوں پیغام بھجوانے کی جرات نہ کرتا۔ میں ڈیوڑھی میں آگئی اور پوچھا۔ کہو سہراب خان! کیا بات ہے؟
وہ بولا۔ بی بی خانم…! بہت غضب ہورہا ہے، زردار ٹرک پر پانچ کمسن بچے لایا ہے جو اغوا شدہ ہیں اور یہ ان کو جانی خیل لے جارہا ہے۔ آپ کسی طور اس کو روکیئے۔ بی بی خانم! میں خود بال بچے دار ہوں، یہ ظلم برداشت نہیں کرسکتا، اس ظلم کو روکنے کیلئے آپ ہی کچھ کریں، آپ بھی تو بچوں والی ہیں۔ سہراب کی بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں نے اس سے سوال کیا، سہراب خان! وہ بچے کہاں ہیں؟ کہنے لگا۔ وہ بچے اس وقت میری تحویل میں ہیں۔ زردار خان نے کہا ہے کہ ان کو تالا لگا کر رکھو کہیں بھاگ نہ جائیں۔ بچے آٹھ سے نو سال کے تھے اور میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ میرا شوہر اس حد تک ظالم ہوسکتا ہے۔ مجھے اس روز زردار سے سخت نفرت محسوس ہوئی کہ یہ شقی القلب نہ جانے اب تک کتنے معصوم بچوں کو خرکاروں کے سپرد کرچکا تھا۔ خوف خدا سے میرا بدن لرزاں تھا اور آنکھوں سے اشک جاری تھے۔ میں نے خاطرخواہ رقم سہراب کو دے کر کہا۔ تم فوراً میرے والد اور بھائی کے پاس جائو اور جاکر ان کو سارا ماجرا بتائو، زردار سے مت ڈرو، میں اس سے خود نمٹ لوں گی۔ اگر زردار تم سے پوچھے تو میرے والد اور بھائی کا کہنا کہ وہ آئے تھے اور تمہارے حجرے کا تالا توڑ کر بچے لے گئے ہیں کیونکہ بچے بہت رو رہے تھے، ان کی آوازیں باہر آرہی تھیں۔
میرے والد صاحب کا بھی کچھ مال مویشی اور بھیڑ، بکریاں سہراب خان کی نگرانی میں رہتی تھیں اور وہ کبھی کبھار اس کے پاس جاتے تھے۔ سہراب کی زمین پر حجرے میں ہی بچے موجود تھے پس اس نے جاکر میرے بھائی اور والد کو ماجرا کہا اور وہ ان بچوں کو حجرے سے نکال کر لے گئے۔ اگلے دن جب زردار بچے سہراب خان سے لینے پہنچا تو اس نے بتایا کہ سردار خان اور ہاشم خان بچوں کو آزاد کرا کر لے گئے ہیں کیونکہ ہوش میں آتے ہی وہ چیخنے چلانے لگے تھے، آواز انہوں نے سن لی۔ وہ میرے پاس کچھ مال مویشی کا حساب کرنے آگئے تھے اور آپ نے شام تک آنا تھا اور آپ رات بھر بھی نہیں آئے۔ بچے بھوک سے یا خوف سے چلا رہے تھے۔ زردار نے سہراب کو کافی برا بھلا کہا پھر میرے پاس آیا اور دھمکایا کہ تمہارے باپ اور بھائی نے کیوں میرے معاملات میں دخل دیا ہے، اب میں تم کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔ میں نے کہا، خدا کا خوف کرو تمہارے اپنے بھی بچے ہیں پھر تم ایسا ظالمانہ کام کیوں کرتے ہو۔ میں بچے خود تو اغوا نہیں کرتا مجھے تو وہ لا کر دیتے ہیں جو اغوا کرکے لاتے ہیں۔ میں ان کا پیسہ دیتا ہوں اور بدلے میں پھر پیسہ لیتا ہوں، یہ میرا کاروبار ہے۔
لعنت ہے ایسے پیسے اور ایسے کاروبار پر… کیا تم یہ ظلم کا پیسہ ہم کو کھلاتے ہو؟ اس سے تو بھوکوں مرجانا اچھا ہے۔
چپ رہو بے وقوف عورت اور اپنی بکواس بند کرو، کیا پیسے کمانا اس دنیا میں آسان کام ہے؟ میں پوچھتی ہوں اگر تمہارے بچوں کے ساتھ ایسا ظلم ہو تو تمہارا کیا حال ہوگا؟ اس سے آگے اس نے کچھ نہ سنا اور زور کا تھپڑ میرے منہ پر مارا پھر تو تھپڑوں اور مکوں کی ایسی برسات اس نے کردی کہ میرے سامنے کے دو دانت ہی ٹوٹ گئے۔ بولا۔ تم سے تو پھر نمٹوں گا، میں سہراب سے تو نمٹ لوں۔ سہراب تو سمجھا تھا کہ زردار نے اسے معاف کردیا ہوگا مگر یہ شخص کب کسی کو معاف کرنے والا تھا کہ جو مائوں سے ان کے معصوم بچے جدا کرکے بھی خدا سے شرمندہ نہیں ہوتا تھا۔ جلد ہی اس کا انتقام سامنے آگیا۔
اس واقعہ کے ایک ماہ بعد ہی ایک روز جبکہ سہراب رات کے وقت جانوروں کے باڑے کے باہر چارپائی ڈال کر سو رہا تھا کسی نے اس کو گولی مار دی۔ تمام رات اس کی لاش وہاں پڑی رہی اور کسی کو پتا نہ چلا کہ وہ مرچکا ہے۔ صبح جب اس کا باپ اسے جگانے آیا تو وہ ہمیشہ کی نیند سو چکا تھا۔ چارپائی کے نیچے خون جمع تھا اور سہراب اوندھے منہ پڑا تھا۔ بوڑھے ضعیف باپ کی ہمت نہ ہوئی کہ اس کو سیدھا کرتا۔ وہ بین کرتا ہوا زردار کے پاس آیا کہ کسی نے میرے بیٹے کو مار دیا ہے۔ زردار اس کے ساتھ گیا پھر اسے تھانے لے آیا۔ اس سے یہی بیان دلوایا کہ عبدالرحمن کے لڑکوں نے سہراب کو مارا ہے کیونکہ ان کی زردار سے دشمنی تھی اسی لئے اس کے مال مویشی رات کو کھولنے آئے تھے۔ جب سہراب نے مزاحمت کی تو اس کو مار کر چلے گئے۔ بوڑھے بیچارے کی سمجھ تو الٹ گئی تھی جو زردار نے کہا، اس نے وہی بیان دے دیا کیونکہ کیس کی پیروی کیلئے وکیل بھی زردار نے رکھنا تھا اور مقدمے کا خرچہ بھی اسی نے کرنا تھا۔ گائوں کے لوگ اکٹھے ہوگئے مگر کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ سہراب کو کس نے مارا ہوگا۔ عبدالرحمن کے بیٹوں کو پولیس تھانے لے آ ئی اور بعد میں ان سے روپیہ لے کر سہراب کے باپ سے راضی نامہ بھی زردار نے کرا دیا۔ یوں سہراب کے پانچ یتیم بچوں اور بیوہ کو تھوڑے سے پیسے مل گئے مگر اصل قاتل صاف بچ گیا۔ انسان خواہ کتنا شاطر بنے لیکن قدرت کے انصاف کا اپنا ترازو ہے اور انصاف ہوکر رہتا ہے۔ مظلوموں کی آہیں بالآخر رنگ لے آئیں اور ایک روز ایک بم دھماکے میں زردار کے بھی پرخچے اڑ گئے۔ وہ وہاں بازار میں کچھ خرید وفروخت کیلئے گیا ہوا تھا کہ اچانک دھماکا ہوگیا۔ عورتیں اپنے سہاگ کے اجڑنے پر دھاڑیں مار مار کر روتی ہیں، سر میں خاک ڈالتی ہیں اور چوڑیاں توڑ لیتی ہیں مگر میں نے اپنے شوہر کے مر جانے پر خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ اس دنیا کو ایک شقی القلب ظالم اور جابر انسان سے نجات مل گئی تھی۔ مجھ کو اس انسان کے چلے جانے کا کوئی افسوس نہ تھا کیونکہ میں اس سے اور اس کے گھنائونے کاروبار سے نفرت کرنے لگی تھی۔ پہلے تو میں اسے سمجھاتی تھی کہ زردار دیکھو تمہاری بھی تین بیٹیاں ہیں، ان کا ہی خیال کرو لیکن جب وہ نہ سدھرا تو میں مایوس ہوگئی۔ دل خون کے آنسو روتا تھا اور میں جو رزق کھاتی تھی، اس میں مجھے مائوں کے جگر گوشوں کا لہو نظر آتا تھا۔ بھلا کون ایسے رزق کو حلق سے اتار سکتا ہے اور کسی بردہ فروش سے پیار کرسکتا ہے کہ جو معصوموں کو فروخت کرتا ہو۔ زردار کے مرنے سے بے شک میں بیوہ اور میرے بچے یتیم ہوگئے لیکن یہ یتیمی اور یہ بیوگی بہتر تھی کہ جو ہمارا وارث تھا، وہی کہتا تھا کہ اگر میرے راز کسی کو بتائو گی تو تم کو قتل کردوں گا اور سب کو کہوں گا کہ تو بدچلن تھی اس لئے اپنی زبان بند رکھنا۔ میں بھی جانتی تھی کہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے، اگر میں نے اپنے شوہر سے بغاوت کی بھی تو لوگ مجھے ہی سزا دیں گے اور زردار صاف بچ جائے گا۔ مجھے مار کر یہی کہے گا کہ بدچلن تھی اسی لئے مار دیا۔ اسے تو معمولی سزا ہوگی اور پھر سے مائوں کے دل اجاڑے گا۔
آج ہم زردار کے بغیر بہت سکون سے ہیں اور شکر کرتے ہیں کہ ایک برا انسان اس دنیا سے کم ہوگیا ہے کیونکہ عورت پر بدچلنی کا الزام لگا کر اسے زندگی سے محروم کردینا مرد کیلئے بہت آسان ہے مگر عورت کیلئے خود کو بے گناہ، بے قصور اور باکردار ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔

Latest Posts

Related POSTS