یہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے۔ ابا کے ملنے والے ایک انکل ہمارے گھر آئے، تب میں بمشکل سات برس کی تھی۔ میرے والد نے اُن کو رہنے کے لئے گھر میں جگہ دے دی، حالانکہ ہمارا گھر دو ہی کمرے پر مشتمل تھا۔ اس شخص کا نام وزیر علی تھا لیکن والد اس کو ویره بلاتے تھے ۔ امی نے ویرو کے بارے میں پوچھا تو ابا نے بتایا کہ یہ میرا بچپن کا دوست ہے، ان دنوں مشکل میں ہے ۔ اس کے پاس رہنے کی جگہ نہیں ہے، تبھی میں نے کچھ عرصہ کے لئے اپنے گھر میں ٹھہرا لیا ہے۔ ہماری دوستی بھائیوں جیسی ہے۔ اس نے اپنی مشکل بیان کی تو انکار نہیں کر سکا۔ آپ نے اچھا کیا لیکن اس کو رات میں سلائیے گا کہاں؟ بچوں والے کمرے میں یہ بھی پڑ کر سو رہے گا۔ ابھی تو سردیاں ہیں ورنہ رات کو چھت پر سونے کا انتظام کر دیتا۔ والدہ خاموش ہو رہیں ۔وہ ابو سے زیادہ بحث و تکرار نہیں کرتی تھیں۔ وزير علی عرف ویره دن کو ایک کارپینٹر کے پاس کام پر چلا جاتا اور شام کو لوٹ آتا وہ کبھی خالی ہاتھ نہ آتا تھا۔ ہمیشہ ہم بچوں کے لئے پھل فروٹ اور کبھی صبح کے ناشتے کا سامان انڈے ڈبل روٹی وغیرہ لے آتا۔ وہ صرف ناشتہ ہمارے گھر سے کرتا، دوپہر کا کھانا اپنے کارپینٹر دین محمد کے پاس دکان پر اور رات کو بھی کہیں باہر سے کھا لیتا تھا۔ کبھی کبھی جب وہ آجاتا تو والد اصرار کرکے اسے رات کے کھانے پر ساتھ بٹھا لیتے ۔ ہم سب بچے اس کو چچا کہتے تھے کیونکہ والد کہتے کہ یہ مجھے سگے بھائیوں جیسا عزیز ہے۔ برے دنوں میں اس نے بھی ساتھ دیا تھا۔ والد کی تنخواہ زیادہ نہ تھی۔ گھر کا گزارہ بڑی مشکل سے ہو رہا تھا، تاہم ویره چچا کے آجانے سے اب کچھ آسودگی آ گئی تھی۔ خرچہ ختم ہو جاتا تو وہ اپنے پیسوں سے راشن لے آتا۔ کبھی تیل دال چاول ختم ہو جاتے اور اسے پتا چل جاتا ، تب وہ یہ چیزیں خرید کر لا دیتا اور رقم نہ لیتا وہ کہتا کہ میں اس گھر میں رہتا ہوں ۔ اتنا تو میرا حق بھی بنتا ہے کہ اس گھر کی خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالوں۔ امی سے کہتا، اگر آپ مجھے ان بچوں کا سگا چچا سمجھ لیں تو میرے لئے اس سے بڑھ کر اور خوش نصیبی کیا ہو گی کہ میں آپ لوگوں کے کام آ سکوں ۔ ان باتوں سے امی متاثر ہو گئیں کہ ویرہ واقعی ایک نیک دل اور اچھا انسان ہے ۔ اگر ہم نے اس کو رہنے کے لئے جگہ دی ہے تووہ بھی ہمارے احسان کا بدلہ چکانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ کوئی اگر کسی تنگ دست کی تنگ دستی کو آسودگی میں بدل دے تو ایسا آدمی کس کو برا لگتا ہے۔ دراصل ویرہ کا کسی بات پر اپنے بڑے بھائی بھاوج سے جھگڑا ہو گیا تھا تبھی وہ سامان لے کر ابا کے پاس چلا آیا ۔ اب بھائی کے گھر جا رہنے پر تیار نہ تھا۔ ویرہ اپنی کمائی میں سے آدھی رقم ہمارے گھریلو اخراجات میں ملانے لگا، تبھی مل جل کر اچھی گزر بسر ہونے لگی ۔ مالی لحاظ سے میرے والدین کو بھی سہولت ہوگئی بم کل چار بہن بھائی تھے، سبھی مجھ سے چھوٹے تھے۔ یہ نادانی کا وقت تھا۔ مجھے ویرہ چچا اچھے لگتے تھے۔ وہ پانی لانے کو کہتے یا کوئی کام کہتے تو میں دوڑ کر کر دیتی کیونکہ بچے کھانے پینے کے شوقین ہوتے ہیں اور ہم ویرہ کی دریا دلی سے بہت خوش رہتے تھے، جو ہمارے لئے تقریباً روز بی بسکٹ، ٹافیاں یا کچھ ایسی چیزیں لاتے جن کو بچے پسند کرتے ہیں۔ اماں بھی اعتراض نہ کرتیں کہ وہ ان کو اپنے گھر کا ایک فرد گردان چکی تھیں۔ ایک کمرے میں ہمارے والدین سوتے تھے ، دوسرے میں ہم سب بچے زمین پر سو جاتے تھے۔ کمرے میں ایک چارپائی تھی، جو ویرہ چچا کو مل جاتی تھی۔آ پ تو اس شخص کو چچا کہتے بھی شرم آتی ہے لیکن یہ روداد اس وجہ سے لکھ رہی ہوں کہ وہ والدین جو غیروں پر بھروسہ کر لیتے ہیں، میری زندگی سے سبق حاصل کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کوئی مانے یا نہ مانے، دنیا میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ اپنے غیر تو بن سکتے ہیں لیکن غیر اپنے نہیں بن سکتے – بچے دن بھر کھیل کود سے تھک ہار کر رات کو گہری نیند سوتے ہیں۔ ہم بھی فرش پر لائن سے گدا بچھا کر برابر برابر سو جاتے تھے۔ میں اسکول جانے کے علاوہ امی کے کام بھی کرتی تھی، لہذا تھک جاتی۔ رات کو پھر ایسی گہری نیند آتی کہ کسی بات کا ہوش نہ رہتا۔ تیسری جماعت کی بچی کو بھلا کس بات کا ہوش ہوتا ہے۔ تبھی جب میرے بہن بھائی سو جاتے ،رات کو یہ شخص مجھے اٹھا کر اپنے ساتھ چارپائی پر لٹا لیتا۔ مجھے کسی بات کا مطلب سمجھ میں نہ آتا۔ میں تو نیند میں ڈوبی ہوتی یا گہری غنوندگی میں ۔ کبھی سو جاتی، کبھی جاگ جاتی، پھر وہ مجھے پیسے ، میٹھی گولیاں اور بسکٹ وغیرہ دے دیا کرتا اور کہتا۔ کسی کو یہ بات نہ بتانا ۔ وہ نہ بھی کہتا تب بھی میں کسی کو کیا بتاتی، جبکہ میں خود بھی یہ بات اچھی طرح نہیں جانتی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وقت گزرتا گیا۔ یہاں تک کہ میں نے ہوش سنبھالا تب بھی اس کو وہی حرکتیں کرتا پایا۔ اب فرق یہ تھا کہ ساتھ میں واہیات باتیں بھی شامل ہو گئی تھیں۔ کبھی یہ باتیں میری سمجھ میں نہ آئیں۔ جس چارپائی پر ویرہ سوتا تھا، اس کے آنے سے قبل یہ چارپائی میری تھی اور میں اس پر سویا کرتی تھی جبکہ میرے چھوٹے بہن بھائی فرش پر بچھے گدے پر سویا کرتے تھے۔ ایک دو دن تو میں نے زمین پر سونے میں بہت بے چینی محسوس کی تھی۔ دل میں غصہ بھی کرتی کہ کم بدبخت کہاں سے آ گیا جو مجھے اپنی چارپائی سے محروم ہونا پڑا۔ ویرہ روزانہ بہت صبح بیدار بو جاتا اور اٹھ کر باہر چلا جاتا تب اپنی چارپائی پر پڑے رہنا مجھے بہت سکون دیتا۔ مجھ کو یہ کبھی خیال نہ آیا کہ یہ سب کچھ میرے حق میں برا ہے اور میں خسارے میں پڑی ہوں۔ ہم بچوں کے کمرے کے ساتھ تھوڑی سی زمین تھی ۔ ویرہ نے ابا کو صلح دی کہ اگر تم برا نہ مانو تو اس پر چاردیواری بنوا کر کڑیوں کی چھت ڈلوا دوں۔ کارپینٹر تو اپنا استاد ہے ، چھت، کھڑکیاں دروازے سب بہت کم پیسوں میں بن جائیں گے مزدوری میں خود کرلوں گا۔ ابا اس تجویز پر خوش ہو گئے ۔ یوں بھی گھر میں ایک کمرے کی اشد ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا سر میں کڑوے تیل کی جگہ گھی پڑ جائے کیا برا ہے۔ بسم اللہ کرتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے، چند دنوں میں ایک چھوٹا سا کمرہ تیار ہو گیا۔ ویرہ نے ہمارے کمرے کے درمیان دروازه بنوا دیا تا کہ نیا کمرے دوسرے کمرے سے جڑا رہے ۔ والد نے نئے کمرے میں نئی چارپائی ڈلوا کر یہ کمرہ ویرہ کے حوالے کردیا تا کہ وہ سکون سے علیحدہ رہ سکے اور بچے اپنے کمرے میں آرام سے پڑھائی کرسکیں۔ اب ہم بہنیں اگرچہ اپنے کمرے میں سوتی تھیں اور ویرہ نئے میں مگر درمیانی دروازہ آسانی سے کھل جاتا تھا، تبھی جب میرے والدین اور بہن بھائی سو جاتے تو یہ شخص چپکے سے ہمارے کمرے میں آجاتا۔ اب مجھ کو کچھ سمجھ آ گئی تھی۔ میں اسے کہتی چاچا ہمارے کمرے میں رات کو نہ آیا کرو ورنہ میں ابا کو بتا دوں گی۔ تبھی وہ مجھے یہ کہنا کہ تیرا ابا تمہاری بات کا یقین نہ کرے گا بلکہ میری بات کا یقین کرے گا، کیونکہ میں اس کو اپنی آدھی تنخواہ دیتا ہوں ۔ میں کہہ دوں گا کہ تم خود آتی ہو کیونکہ تم لوگ بر روز مجھ سے چیزیں لینے کی فرمائش کرتے ہو اور میں لاتا بھی ہوں۔ کبھی فرمائش پوری نہیں کر سکتا تو تم اسی غصے میں میری شکایت کرتی ہو۔ یہ ایک بودی سی تاویل تھی لیکن میں دبک جاتی کیونکہ اس نے مجھے بہت نا سمجھی کی عمر سے دبکا لیا تھا تو میں اس سے ڈرتی بھی بہت تھی اور پھر میری ایک نہ چلتی آٹھ برس یہ شخص ہمارے ساتھ رہا اور اپنے معمول سے نہ ہٹا ۔
ادھر میرے والدین اس کی خیر خواہی میں فکر مند رہتے تھے کہ کب تک ویرہ کنوارا رہے گا۔ اب اس کی شادی کروادینی چاہئے تاکہ اس کا گھر بس جائے ۔ ابا کے کہنے پر والدہ نے اس کے لئے شریک حیات کی تلاش شروع کردی تھی۔ بالآخر ایک جان پہچان کے متوسط گھرانے میں رشتہ ڈھونڈ لیا اور وہاں ویرہ کا نکاح ہو گیا۔شادی کے بعد کچھ دن تو وہ اپنی بیوی میں کھویا رہا ، پھر وہی پرانی روش دوہرائی جانے لگی۔ جب اس کی بیوی میکے جاتی ، وہ ہمارے گمرے میں گھس آتا۔ میں کسی کو بتا بھی نہ سکتی تھی دل ہی دل میں جلتی کڑھتی رہتی تھی۔ والدین نے تربیت ایسی کی تھی کہ کسی بات پر زبان کھولنا گردن زنی والی بات تھی۔ ابا سے بھی ڈرتی تھی کہ جانے کیا کر گزریں۔ نہ ہی تب مجھ میں اتنی ہمت تھی کہ امی کوہی بتا دیتی۔ ویرہ سے میرا جھگڑا ہو جاتا تو وہ کئی قسم کی ڈرائونی دھمکیاں دے کر مجھے چپ رہنے پر مجبور کر دیتا۔ وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑا تھا تبھی مجھ پر کا بہت رُعب تھا۔ میں پوری طرح اس کے دبائو میں تھی۔ اس ایک دن اس نے کہا کہ میرا استاد کام بہت لیتا ہے اور معاوضہ کم دیتا ہے۔ میں الگ سے دکان کرنا چاہتا ہوں تاکہ کچھ رقم اکٹھی ہو تو اپنا گھر لے سکوں۔ والد نے اپنے دوستوں سے قرض لے اور کچھ اپنی جمع پونجی اس کو دے کر دکان کھول دی۔ وہ چند ماہ میں ہی سارا مال ختم کرکے چلتا بنا وہ تو چلا گیا لیکن اس کی وجہ سے میرا ضمیر مجھ کو ملامت کرتا رہا اور میں گوناگوں الجھنوں کا شکار رہی۔ میرا خیال کہیں ہوتا تھا ، کام کہیں، عجیب خبطی ہو گئی تھی۔ سہیلیاں میری حالت دیکھ کر کڑھتیں۔ وہ سمجھتیں کہ مجھ کو کسی سے محبت ہے اور میں اسی کے خیالوں میں کھوئی رہتی ہوں۔ انہیں کیا معلوم کہ مجھ کو اپنی اس داغدار ردا کا غم ہے جس کو ایک ظالم تارتار کر گیا ہے ۔ میں امتحان میں بھی اس وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی۔ وہ شخص جا چکا تها میری سنہری عمر بھی میلی بو کر نکل چکی تھی مگر دل کی خلش ہے کہ ختم نہیں ہوتی۔ اس کے بعد جتنے بھی حادثے میری زندگی میں ہوئے ، اسی شخص کو ہی ان کا ذمہ دار سمجھتی ہوں۔ اس کے چلے جانے کے بعد احساس زیاں میں اس بری طرح گرفتار ہوئی کہ ہر وقت کھوئی کھوئی رہنے لگی۔ سوچ سوچ کر دماغ مائوف ہو گیا تھا کہ اس گندے انسان کو کیسے موت کے گھاٹ اتاروں، حالانکہ یہ کام میرے بس کا تھا نہیں۔ دعا کرتی، خدا کرے یہ کہیں چلا جائے اس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے یا یہ ڈوب کر مر جائے۔ جب وہ چلا گیا تو کچھ دن تک میں نے سکھ کا سانس لیا ، قدرے سکون بھی ملا۔
میں اپنے کزن نعمان کو بہت چاہتی تھی۔ اس کے ساتھ مجھ کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ میں اس کے قابل نہیں ہوں۔ عرصے تک بس چپکے چپکے اس کی پرستش کرتی رہی۔ اور میری بدنصیبی دیکھئے کہ جب وہ خود میرا بن جانے پر راضی ہوا تو میں نے خود ہی انکار کردیا۔یہ انکار کرتے وقت میرے دل پر قیامت گزر گئی لیکن اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ انہوں نے میرا رشتہ میرے والدین سے مانگا تھا ہمارے درمیان محبت کا کوئی چکر نہ تھا، مگر نعمان مجھے پسند کرتا تھا اور اس کی دلہن بننا تو میرا سب سے خوبصورت خواب تھا۔ جب والدین نے ہاں کہہ دی تو ایک روز نعمان نے مجھ سے بات کی بلکہ میری رضا مندی کے بارے پوچھا۔ اس نے میری رائے لیتے وقت کہا تھا کہ دیکھو بینا اگر مجھ کو پسند کرتی ہو تو ہاں کہنا۔ میں تم کو بر قیمت پر حاصل کروں گا مگر ایک بات تم نے مجھ کو بتا نی ہوگی کہ تمہارا ماضی میں کسی سے تعلق تو نہیں رہا ہے اور میں جھوٹ کبھی برداشت نہ کروں گا۔ یہ سنتے ہی میرے سارے خواب پل بھر میں ٹوٹ گئے۔ بھلا میں نعمان کو یہ کیسے بتا دیتی کہ میں اپنی زندگی کی سب سے قیمتی متاع لٹا چکی ہوں اور اب ان کے قابل نہیں رہی یا پھر میں جھوٹ بول کر ان کو کیسے دھوکا دیتی، جس کی میں کسی دیوتا کی طرح پرستش کرتی تھی۔ تب دل پر پتھر رکھ کر مجھے یہی کہنا پڑا۔ میرا خیال چھوڑ دو نعمان۔ مجھے تم اچھے لگتے ہو مگر شادی کے نقطۂ نظر سے نہیں، میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ مجھے کسی اور سے پیار ہے اور یہ ہی سچائی ہے۔ میرے انکار سے نعمان مہینوں بیمار پڑا رہا۔کاش میں اسے بتا سکتی کہ میری چادر میلی سہی مگر مجھ معصوم پر بچپن میں ظلم ہوا ہے اور میں نے تمہارے سوا کسی کو نہیں چاہا ہے۔ آج کے زمانے میں لڑکیاں جرأت مند ہیں، بول سکتی ہیں مگر ہمارے زمانے میں لڑکیاں گونگی رکھی جاتی تھیں اور وه حق بات کہنے کا بھی حوصلہ نہیں ر کھتی تھیں۔ میں نے اپنی جنت خود ہی ٹھکرا دی مانا کہ میں پیدائشی بزدل تھی، جس نے کبھی اپنے حق کے لئے آواز نہ اٹھائی۔ میں نے تبھی اپنے دامن میں آئے پھولوں کو خود ہی گرا دیا۔ مجھے اقرار ہے کہ میں نے غلط کیا مگر میں اور کیا کرتی؟ نعمان کا مزاج سمجھ لیا تھا۔ اپنی مجبوری کی داستان اپنے اوپر ظلم کی آپ بیتی سنا بھی دیتی تو یقین نہ تھا کہ مجھے معافی مل جاتی۔ عارضی معافی تو ہر مرد دے دیتا ہے اور اعلی ظرف بھی بن جاتا ہے مگر دل میں ان کے جو کانٹا اتر جاتا ہے اسے نکالنا مرد کے اپنے بس کی بات بھی نہیں ہوتی۔