Wednesday, May 1, 2024

Lalach ne Barbad Kiya

آج بھی ہر سرد رات کو جب تیز ہوائیں چلتی ہیں، مجھے نیند نہیں آتی۔ وہ رات بھی بڑی سرد اور وحشت ناک تھی۔ وادی کی یخ بستہ ہوائیں گھر کے بند دروازوں سے سر پھوڑ رہی تھیں۔ کمرے میں آتش دان سلگ رہا تھا اور نرم گرم بستر پر میرے بھائی شہاب کے دونوں بچے اپنی ماں کے ساتھ لیٹے ہوئے سور ہے تھے۔ رات کے دو بج چکے تھے لیکن بھائی جاگ رہے تھے۔ مجھے برابر والے کمرے سے ان کے ٹہلنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اتفاق ہے مجھے نیند نہیں آرہی تھی اور بھائی کے قدموں کی آہٹ میرے دل میں گھبراہٹ پیدا کر رہی تھی۔ یہ آج رات کی بات نہ تھی۔ عرصہ دراز سے بھائی کا یہی معمول تھا، جب ساری مخلوق سوے ہوتی ، وہ جاگ رہے ہوتے اور اپنے کمرے میں ٹہل ٹہل کر ماضی کی یادوں سے کشت وخون میں مصروف رہتے۔ میں جانتی تھی کہ ایسا کس وجہ سے ہے اور کسی کی یادیں ان کو شب بھر سونے نہیں دیتی۔ وہی جو مر کر بھی ان کی یادوں میں زندہ تھی، مہکتے گلابوں کی مانند تروتازہ تھی۔ اس ستم گر کی روح نے ہم دونوں بہن بھائی کے اندر بسیرا کرلیا تھا اور وادی کی تیز ہوائوں کے ساتھ وہ ہم کو جگانے آجاتی تھی۔ ان دنوں ہم نے بی اے کا امتحان دیا تھا۔ کوئی مصروفیت نہ ہونے کے سبب ہم بہن بھائی بور ہو رہے تھے تبھی والدہ نے کہا کہ ماموں کے پاس چلے جاؤ۔ ہمارے ماموں سوات میں کئی باغوں کے مالک تھے۔ ان کے پاس کئی ٹرک بھی تھے جس پر وہ اپنا مال لوڈ کر شہر لے جایا کرتے تھے۔ بس سے اتر کر ہم گائوں کے ٹیڑھے میڑھے مگر سرسبز و شاداب راستوں پر تیزی سے دوڑتے رہتے تھے۔ مدت بعد ہم دوبارہ ان خوبصورت راستوں کو دیکھ رہے تھے۔ سیب، خوبانی اور آلوچے کے درخت مہک رہے تھے۔ چاروں طرف رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے تھے۔ فطرت اپنے پورےعروج پرتھی اور میں سوچ رہی تھی کہ گائوں کتنا خوبصورت ہے۔ ہمارے شہرمیں کیا رکھا ہے ؟ گاڑیوں کا شور وغل، کار خانوں کا زہریلا دھواں جہاں زندگی مشین جیسی تھی اور اس جنت جیسی وادی میں نہ ٹریفک کا شورنہ دھواں اورنہ مشینوں کی گڑگڑاہٹ۔ جب ہم باغوں سے گھرے ہوئے ماموں کے خوبصورت گھر کے سامنے پہنچے ، اس وقت دن کے گیارہ بج رہے تھے۔ میں تو دوڑتی ہوئی نانی اماں کے پاس چلی گئی جو برآمدے میں بیٹھی تھیں جبکہ بھائی شہاب ممانی کو سلام کرنے کچن پہنچے۔ ممانی نے بچپن میں شہاب بھائی کو گود لیا تھا اور تین سال بعد جب وہ ایک بیٹی کی ماں بن گئیں تو والدہ شہاب کو واپس لے آئی تھیں تاہم شہاب اب بھی ممانی کو اپنی ماں کے جیسا چاہتا تھا۔ کچن سے کھانے کی اشتہا انگیز خوشبوئیں آرہی تھیں اور جو کھانا بنارہی تھی، بھائی شہاب کے خیال میں وہ بھلا ممانی جان کے سوا اور کون ہو سکتا تھا۔ ان کی پشت دروازے کی طرف تھی، سرخ شال اوڑھے ہانڈی میں چمچ چلارہی تھی۔ شہاب اسے مہمانی ہی سمجھا تھا حالانکہ وہ ان کی صاحبزادی رابعہ تھی جو قد و قامت میں اپنی ماں جیسی ہو چکی تھی لیکن ہم تو بہت سالوں بعد یہاں آئے تھے ، اس دوران رابعہ بڑی ہو چکی ہے۔ یہ خیال ہی نہ رہا تھا تبھی بھائی نے ممانی امی کہ کر پیچھے سے اپنی بانہوں میں لے لیا۔ گھبرا کر رابعہ مڑی تو بھائی کو پسینہ آ گیا جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہے۔ وہ بوکھلا کر پیچھے ہٹ گئے ، سرخ شال پھسل کر رابعہ کے کندھوں سے گر گئی۔ دھانی لباس میں اس کا بدن تھر تھر کانپ رہا تھا۔ بھائی کی اس اچانک حرکت سے وہ ڈر گئی تھی۔ ذرا سا سنبھلی تو ہوش آیا، سامنے ایک نوجوان کو کھڑا پایا، اس کی آنکھوں میں غصہ تھا۔ بھائی بھی بو کھلا کر کچن سے باہر نکل آئے تبھی سامنے سے ان کو ممانی آتی دکھائی دیں۔ شہاب ان کو کیسے بتاتے ، کیا حادثہ ہوا ہے کہ اب اندر قدم رکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ رابعہ کے ہوش سنبھالنے کے بعد اس کی ہم سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ اس کی نگاہوں میں ہر وقت غصہ رہتا تھا کیونکہ شہاب سے غلطی ہی ایسی سرزد ہوئی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ رابعہ نے اس کے بعد خود کو شہاب بھائی سے دور ہی رکھا۔ شاید وہ بھیا کو کوئی برا انسان سمجھ چکی تھی، وہ تو اب ان کے سامنے آنے سے بھی ڈرنے لگی تھی۔ انسان جب زیادہ کسی سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ دوری اس کی کشش کو اور بڑھا دیتی ہے ، بھائی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جس قدر رابعہ ان سے دور رہتی ، اتنی ہی وہ ان کو اچھی لگتی۔ وہ اس کو اکثر دور سے ہی دیکھتے رہتے کہ اپنی ماں سے ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہے ، تب اس کی مسکراہٹ اس کے حسن میں چار چاند لگا دیتی تھی اور اس کے یا قوتی ہونٹوں پر دانت موتیوں کی مانند جگمگا اٹھتے تھے۔ میرے ماموں کی یہ اکلوتی صاحبزادی اتنی پیاری تھی کہ اس کی ہنسی ہمارے دلوں میں اجالا کر جاتی تھی لیکن جتنے دن ہم سوات میں رہے، شہاب بھائی اپنی اس کزن سے بات کرنے کو ترستے رہے۔ اس کا غصہ کسی صورت کم نہ ہوتا تھا۔ گھر میں ہنسی خوشی کا ماحول نہ بن سکا۔ شہاب کے ہوتے تناؤ کی صورت رہنے لگی۔ تبھی وہ صبح سویرے اٹھ کر ماموں جان کے ساتھ ٹرکوں کے اڈے پر چلا جاتا۔ دوپہر کو اگرچہ سب ایک ہی دستر خوان پر کھانے کھاتے لیکن رابعہ اس وقت بھی پلیٹ میں کھانا ڈال کر اپنے کمرے میں چلی جاتی تھی۔ ایک دن میں یہ دیکھ کرحیران رہ گئی کہ رابعہ کے کمرے میں بہترین شعری ادب موجود ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ گائوں کی ان پڑھ لڑکی ہے ، اس کو بھلا علم وادب سے کیا سروکار لیکن ہمارا خیال غلط تھا۔ ممانی دن بھر گھر یلو بکھیڑوں میں مصروف رہتی تھیں ، ماموں دن رات کاروبار میں مگن ہوتے ، میں نانی اماں کے پاس گھسی رہتی ، نہیں تو رابعہ سے باتیں کرتی۔ یوں شہاب بھائی یہاں آکر تنہائی کا شکار ہو گئے۔ وہ سارا دن وادی میں آوارہ گھومتے اور پچھتاتے کہ اندھا دھند رابعہ کو ممانی سمجھ کر گلے مل گئے اور اب یہ لڑکی ان کو صفائی کا موقع بھی نہ دے رہی تھی مگر ناراض رہ کر مسلسل سزا دیئے جارہی تھی۔ مگر پھر خدا نے انہیں صفائی کا موقع فراہم کر ہی دیا۔ ایک روز جب آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، شہاب بھائی باغ میں گئے ، وہاں رابعہ کرسی ڈالے بیٹھی تھی، ہاتھ میں کتاب تھی، دفعتاً بوندا باندی شروع ہو گئی۔ یکدم بادل زور سے گرجا، وہ چونک کر اٹھ کھڑی ہوئی ، تبھی بھائی نے کہا۔ ڈریں مت ! بجلی یہاں نہیں گرنے والی۔ بجلی کا کیا بھروسہ ! رابعہ نے جواب دیا تو میرے بھائی کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع مل گیا۔ معافی چاہتا ہوں، اس روز میں آپ کو پشت سے ممانی سمجھا اور آپ تو جانتی ہیں کہ میں ، ان کو ماں کا درجہ دیتا ہوں اس لئے اس روز غلطی میں آپ کو تھام لیا۔ وہ بولی۔ چھوڑیئے ! آئندہ چہرہ دیکھ لینے کے بعد کسی کو تھامئے گا۔ آپ نے مجھے معاف کر دیا؟ بارش شروع ہو گئی ہے ، اندر چلیں۔ اس نے معافی کی بات کو نظر انداز کر دیا لیکن بھائی کے ساتھ قدم بہ قدم چلتی ہوئی گھر کے اندر آ گئی تو محسوس ہو گیا کہ معافی کو قبول کر لیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ چائے کا کپ لے کر آگئی۔ بھائی نے کپ لے لیا۔ اس روز ان کے درمیان اجنبیت کی دیوار گر گئی۔ اب شہاب جب ماموں کے ساتھ دوپہر کو گھر لوٹتا، اس کی آنکھوں میں ان کے لئے انتظار کے چراغ روشن ہوتے۔ بھائی تو اتنے خوش تھے کہ عالم بیداری میں ہی نجانے کتنے خواب دیکھ ڈالے۔ ہم دوماہ سے زائد ماموں کے گھر ٹھہرے تھے ، تبھی امی کا خط آگیا کہ اب آ جائو ہم تمہارے لئے اداس ہیں۔ جب ہم واپس چلنے کو ہوئے، میں نے رابعہ کی طرف دیکھا۔ وہ بے حد اداسی سے شہاب بھائی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ میں اور بھائی کافی دن اداس رہے اور سوات میں گزارے ہوئے دنوں کی باتیں یاد کرتے تھے۔ تین ماہ گزرے تھے کہ ماموں کے گائوں سے کسی رشتے دار کی شادی کا کارڈ آ گیا۔ بھائی کارڈ پا کر نہال تھے کہ پھر سے گائوں جانے کا بہانہ ہاتھ آ گیا تھا۔ ہمارے گھر سے بھائی ہی جا سکتے تھے ، سو وہی شادی میں شرکت کے لئے گئے۔ یہ دوسرے ماموں کے بیٹے کی شادی تھی۔ گائوں میں شادیاں سادگی سے ہوتی ہیں لیکن اس گھر میں یہ پہلی خوشی تھی۔ شادی دھوم دھام سے ہو رہی تھی۔ شہاب بھائی اس بار چھوٹے ماموں کے مہمان تھے۔ انہی کے گھر ٹھہرے تھے۔ مہندی والی رات آ گئی۔ چھوٹے ماموں کے گھر سے لڑکیاں چلیں تو دولہا کے چھوٹے بھائی نے شہاب بھیا سے کہا کہ تم بھی چلو۔ گائوں کے رواج کے مطابق لڑکیاں اکیلی گھر سے نہیں نکلتی تھیں لہذا یہ دونوں ان کے ساتھ مگر ان سے تھوڑا سا آگے چلتے جارہے تھے۔ دو چار گھروں کے بعد لڑکیاں رابعہ کے گھر گئیں، اس کو بھی ساتھ لینا تھا۔ رات اگرچہ چاندنی تھی لیکن بادلوں کی وجہ سے کچھ اندھیری تھی۔ رابعہ کو ساتھ لے کر لڑکیاں باہر آئیں۔ رابعہ ٹھہر کر اپنی چادر درست کرنے لگی۔ جب اس نے چادر کو اچھی طرح اوڑھ لیا تو شہاب نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی۔ وہ ان کی طرف دیکھ رہی تھی تب شہاب کو لگا جیسے وہ ان ہی کی وجہ سے بہانے سے ٹھہر گئی تھی۔ وہ چند منٹ ٹھہر کر بھائی کو دیکھتی رہی، لڑکیاں آگے نکل گئیں تو عدیل کی آواز آئی۔ یار شہاب ! چلو بھی اب، کیا کر رہے ہو ؟ شاید ان کی چپل ٹوٹ گئی ہے۔ شہاب بھائی نے گھبرا کر بہانہ کیا تھا۔ رابعہ کو بھی احساس ہوا کہ وہ لاشعوری طور پر ایک دوسرے کی خاطر چند لمحوں کے لئے رک گئے تھے۔ تبھی وہ دوڑتی ہوئی جلدی سے لڑکیوں کے جھرمٹ میں داخل ہو گئی۔ لڑکیاں دلہن کو گھیرے ہوئے تھیں اور مہندی لگائی جارہی تھی۔ بے اختیار شہاب نے اپنا ہاتھ رابعہ کے سامنے کر دیا۔ مہندی کا تھال اس سامنے رکھا تھا۔ اس نے انگلی سے ان کی ہتھیلی پر مہندی لگا دی۔ وہ رات شہاب کی زندگی کی ایک یادگار رات تھی جب یہ دونوں رشتہ دار لڑکیوں کو حجرے میں پہنچا کر آئے تو رابعہ کا چہرہ بھی کی آنکھوں میں تھا کیونکہ اس نے بہت خوبصورت کپڑے پہنے ہوئے تھے اور سب لڑکیوں سے اچھی لگ رہی تھی۔ شادی کی تقریب ختم ہوئی تو اس کا بڑے ماموں کے گھر جانا ہوا جہاں رابعہ سے آلوچے کے باغ میں ملاقات ہو گئی۔ شہاب نے اسے بتا دیا کہ وہ کل واپس جارہا ہے۔ رابعہ نے اسے بتایا کہ امی جن کہتی ہیں جو گھر داماد بنے گا، میں اسی سے بیٹی کی شادی کروں گی اور اس کا پولیس انسپکٹرہونا بھی شرط ہے۔ شہاب ! تم یہ شرط اپنے والدین سے منوالینا، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس شرط کی بھینٹ چڑھ جائیں۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ انہوں نے کہا۔ میں وعدہ کرتا ہوں رابعہ ! ہر قیمت پر یہ ملازمت حاصل کروں گا۔ شہر آکر بھیا نے ابو سے کہا کہ پولیس میں نوکری کرنا چاہتے ہیں، رشوت بھریں یا سفارش، جس طرح بھی ہو اس کو پولیس انسپکٹر بنوا دیں۔ والد نے کافی کوشش کی۔ دوسرے محکمے میں تو اچھی ملازمت مل سکتی تھی لیکن پولیس کے محکمے میں نہیں مل سکی۔ امی جان، رابعہ کو بہو بنانے پر خوش تھیں۔ والد صاحب بھی راضی تھے۔ وہ ماموں کے گھر رشتے کا عندیہ لے کر دو تین بار گئے بھی لیکن ممانی کی عجیب شرائط کے سبب بات نہ بنی۔ پولیس کی ملازمت دلوانا ابو کے بس کی بات نہ تھی۔ والدہ اور نانی نے منت سماجت کر کے ممانی سے یہ شرط ہٹوائی مگر گھر داماد والی شرط پر وہ بدستور آڑی رہیں۔ کہا کہ میری ایک ہی بیٹی ہے ، اس کو خود سے جدا کر کے نہیں بھیج سکتی۔ دراصل وہ اسی بہانے ہم کو ٹالنا چاہتی تھیں۔ادھر والد صاحب کو یہ شرط منظور نہ تھی اور گھر داماد بنے پر تو بھائی بھی تیار نہ تھے۔ وہ کیونکر بڑھاپے میں اپنے والدین کو چھوڑ دیتے اور ماموں کے گھر جاتے۔ ماموں، ممانی خاموش تھے تو ہم نے یہی سمجھا کہ وہ کچھ اور منت سماجت کروا کر یہ رشتہ ہم کو ہی دیں گے۔ بھائی وہاں جاتے ، ممانی اسی طرح پیار سے ملتیں لیکن اندر ہی اندر انہوں نے بیٹی کارشتہ ایک دولت مند سردار کے ہاں طے کر لیا تھا جس کی ہوا بھی ہم کو نہ لگنے دی مگر تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اب جب بھی شہاب، ممانی کے گھر جاتے ، وہ خود تو والہانہ انداز سے ملتیں لیکن رابعہ پریشان نظر آتی، وہ کھنچی کھنچی رہتی پہلے کی طرح نہ ملتی۔ انہی دنوں شہاب نے بوا حسنہ کو ریشمی کپڑوں پر گوٹا کناری ٹانکتے دیکھا۔ ممانی بھی فرصت کے وقت کچھ ایسے ہی کام کرتی نظر آتیں۔ شہاب کو خوش گمانی کہ اس کی اور رابعہ کی شادی کی تیاریاں ہو رہی ہیں تاہم وہ حیران تھا کہ رابعہ کی گلابی رنگت کیوں ماند پڑتی جارہی ہے ، اس کی سیاہ آنکھوں کے گرد دھواں سا منڈلاتا رہتا تھا۔ ایک روز بھائی کو اس سے بات کرنے کا موقع مل گیا، اس نے کھنچے کھنچے رہنے کا سبب پوچھا۔ وہ چپ رہی۔ سوال کیا کہ تم کو کیا پریشانی ہے ، اداس رہنے لگی ہو۔ رابعہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ شہاب نے بالآخر ممانی سے ہی پوچھ لیا کہ رابعہ کیوں خفا ہے اور آپ کیوں کپڑوں پر گوٹا کناری لگاتی رہتی ہیں جبکہ وہ میرے ساتھ شادی پر خوش نہیں ہے۔ تمہارے ساتھ شادی ! انہوں نے چونک کر کہا۔ تم سے کس نے کہہ دیا۔ اس کی شادی تمہارے ساتھ تو نہیں ہو رہی بیٹے ! اس کی شادی ہم دوسری جگہ کر رہے ہیں کیونکہ تم کو تو میں نے بچپن میں گود لیا تھا اس لحاظ سے رابعہ تمہاری بہن ہے۔ یہ سن کر شہاب کو چکر آ گیا تھا اور اس کا ٹانگوں پر کھڑارہنا مشکل ہو گیا۔ وہ اسی وقت گھر چلا آیا، اس کے بعد اس پر کیا گزری، یہ ایک الگ واقعہ ہے لیکن جو رابعہ پر بیتی، وہ بھی کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ رابعہ بیاہ کر سردار صاحب کے گھر چلی گئی ان کی بہو بن کر لیکن ایک ایسے قلعے میں قید کر دی گئی جس کی دیوار میں بہت اونچی تھیں کہ وہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔ وہ سخت پابندیوں میں جکڑی گئی تھی۔ اس کو میکے آنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اس صورت حال سے گھبرا کر وہ بیمار پڑگئی۔ سردار صاحب کا گھرانہ سخت روایات کا پابند تھا۔ یہاں نہ کوئی کسی کو پیغام بھیج سکتا تھا اور نہ خط لکھ سکتا تھا، نہ ہی کوئی رشتہ دار گھر کی عورتوں سے ملنے کے لئے جاسکتا تھا۔ شادی کو سال گزر گیا، انہوں نے رابعہ کو میکے نہ بھیجا۔ اب تو ممانی کا جی بھی گھبرا گیا کہ یہ کیسے گھرانے میں بیٹی دی ہے کہ جس کو خط تک لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ ماموں جاتے ، باہر سے ہی مردوں سے مل کر اور خیر خیریت دریافت کر کے آجاتے، بیٹی سے ملاقات ہوتی بھی تو لمحہ بھر کی۔ دور سے سلام کرتی اور قلعے کے اندر کہیں گم ہو جاتی ، وہ اپنا حال احوال تک والد کو گوش گزار نہ کر سکتی تھی۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ سردار صاحب اپنے بیٹے کے ساتھ زمینوں کے معاملات دیکھنے گئے ہوئے تھے کہ وہاں تحصیلدار صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے سردار صاحب کا پوچھا۔ ملازم نے بتایا کہ وہ زمینوں پر گئے ہیں۔ ملازمہ نے رابعہ کو بتایا کہ تحصیل دار صاحب فلاں گائوں سے آئے ہیں، وہ سردار صاحب کا پوچھ رہے تھے۔ رابعہ نے گائوں کا نام سن تو اٹھ بیٹھی ، یہ تو اس کے بابا کے گائوں کا آدمی تھا۔ وہ بے قرار ہو کر حجرے سے نکلی اور مردانہ حویلی میں آگئی۔ اس وقت تحصیل دار اپنے گھوڑے پر سوار حویلی کی دیوار کے پاس سے گزر رہا تھا۔ گھوڑے کی پشت پر سوار ہونے کی وجہ سے اس کی پگڑی کا شملہ حویلی کی دیوار کے اوپر سے نظر آرہا تھا۔ رابعہ حجرے کی چھت پر چڑھ گئی اور وہاں سے کمرے کی کھڑکی سے آواز دی۔ بھائی ! ذرا ٹھہریئے۔ اس شخص نے اپنا گھوڑا ٹھہرایا اور پوچھا۔ کیا بات ہے بی بی ؟ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کو پکار کر روکنے والی اس گھر کی ملازمہ نہیں بلکہ بہو ہے۔ آپ فلاں گائوں کے ہو ؟ جی ہاں۔ اچھا تو میرا یہ پیغام نسیم خان کو پہنچا دینا۔ ان کو کہنا کہ تمہاری بیٹی کہتی ہے کہ میں نے کیا قصور کیا تھا جو آپ نے مجھ کو اس قلعے کی اونچی دیواروں میں قید کروادیا ہے ؟ مجھے یہ سونا، روپیہ نہیں چاہئے ، میں اداس ہوں، جلدی آ کر مجھے لے جائو۔ ایک لمحہ کی بات تھی جس کو سن کر تحصیلدار صاحب نے اپنا گھوڑا آگے بڑھادیا لیکن یہ بات سارے علاقے میں پھیل گئی کہ تحصیلدار صاحب سے چھوٹے سردار کی بیوی نے بات کی ہے۔ سردار اور اس کا بیٹا جب گھر آئے تو ملازمین نے یہ بات ان کے گوش گزار کر دی۔انہوں نے رابعہ سے پوچھا۔ کیا تم نے تحصیلدار کوروکا تھا جب وہ گھوڑے پر یہاں سے گزر رہا تھا ؟ جی ہاں رابعہ نے جواب دیا۔ تم نے اس کو کیا کہا تھا؟ میں نے اپنے والد کو پیغام بھجوایا کہ وہ آ کر مجھ کو لے جائیں کیونکہ میں اس قید سے دلگرفتہ اور اداس ہوں۔ سردار نے تحصیلدار کو بلوا کر پوچھا کہ تم نے میرے گھر کی خاتون سے کیا بات کی تھی؟ تحصیلدار نے بھی وہی بات دہرا دی جو رابعہ نے کہی تھی۔ سردار صاحب کو یقین آ گیا کہ ان کی بہو کا تحصیلدار سے کوئی ایسا ویسا معاملہ نہیں تھا اور اس نے محض پیغام بھجوانے کی خاطر اس شخص سے کلام کیا تھا ، تاہم یہ بھی ان کے نزدیک کم جرم نہ تھا۔ تحصیلدار چونکہ قصور وار نہ تھا لہذا اس کو سزا دینا بنتا نہ تھا، اس سے اور بدنامی ہو جاتی لیکن رابعہ کے لئے سزا تجویز ہو گئی۔ گھر کی بزرگ خواتین نے رابعہ کی سفارش میں بولنا چاہا تو سردار نے کہا۔ میں جانتا ہوں رابعہ کے تحصیلدار سے کوئی مراسم نہیں ہیں۔ پیغام دینے کا یہ طریقہ لیکن میرے لئے قابل برداشت نہیں ہے ، یہ بے عزتی کی علامت ہے ، آج اگر میں نے بہو کی اس غلطی کو در گزر کر دیا، کل اس گھر کی اورخواتین بھی غیر مردوں سے بات کرنے کی جسارت کر سکتی ہیں۔ اس واقعے کے ایک ہفتے بعد سردار نے اپنے علاقے میں معززین میں منادی کرادی کہ فلاں جگہ میرے ڈیرے پر جمع ہو جانا۔ مقررہ وقت پر جب یہ لوگ جمع ہو گئے تورابعہ کو ان کے بیچ لایا گیا اور سب کے سامنے اس کو فرد جرم سنادی گئی اور سزا پر فوراً عملد را بھی کر دیا گیا۔ بعد میں نعش کو جلا کر اس کی راکھ پہاڑی علاقے میں بہادی گئی کیونکہ لوگوں کے نزدیک ایسی عورتوں کی یہی سزا ہونا چاہئے تھی۔ ماموں جب اپنے کاروباری کاموں کو نمٹا کر سرحد سے لوٹے اور رابعہ سے ملنے گئے ، وہاں ان کی بیٹی کی بجائے اس کی دردناک داستان کی باز گشت ہی ان کو سننے کو ملی۔ وہاں رابعہ تھی کہاں جو ان کو ملتی۔ جہاں پورے علاقے کے لوگ ایک جیسی سوچ کے حامل ہوں، وہاں بچارے ماموں ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے۔ وہ روتے رہ گئے اور ممانی تو بیٹی کی موت کا سن کر غش کھا کر گر گئیں۔ اب وہ کہتی تھیں کہ میں نے دولت مند داماد کی لالچ میں بیٹی کو قربان کر دیا۔ ماموں ممانی کا غم اپنی جگہ لیکن میں اور شہاب بھی اس واقعے کے صدمے سے دہل کر رہ گئے۔ آج بھی ہم اس صدمے کو نہیں بھلا سکے۔ جب رات کے ویرانے میں یخ بستہ ہوائیں پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں تو ہم کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ رابعہ کی بے گناہی کا ماتم کر رہی ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS