Oulad Ki Khushi

کہتے ہیں کہ بیٹی گھر میں رحمت بن کر آتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ باپ اکثر اسں  رحمت سے منہ پھیر لیتے ہیں یاںبانہوں میں سمیٹ لیتے ہیں ۔ میرے تین بیٹے تھے، بیٹی نہ تھی۔ بڑی چاہ تھی کہ بیٹی کی ماں بنوں۔ جب کبھی بچیوں کو گڑیوں کی طرح سجا ہوا دیکھتی .. رنگ برنگی فراکوں میں ملبوس تتلیوں کی مانند اڑتا  دیکھتی جی چاہتا ، ان تتلیوں کو بانہوں میں بھر لوں اور خوب پیار کروں۔ مائیں تو بیٹیوں کی چاہ کرتی ہیں، مجھے بھی بیٹی کی چاہ تھی۔ نہیں جانتی تھی یہی بیٹی میری خوشیوں کے اختتام کا سبب بنے گی۔ میں خود بچپن میں اپنے والدین کی لاڈلی تھی وہ میرے لاڈ اٹھاتے نہیں تھکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لا پروا اور لاابالی ہو گئی۔ چاند میرے ماموں کا بیٹا تھا۔ وہ اکثر بھائی سے ملنے گھر آیا کرتا تھا۔ سجاد کا کلاس فیلو تھا لیکن میرے دل کا راجہ بن گیا۔ میٹرک میں تھی جب اسے خوابوں میں بسایا۔ وہ بھی میری نظروں کے التفات کو پہچانتا تھا۔ دل سے تو میری جانب مائل تھا مگر ظاہر نہیں کرتا تھا۔ سجاد بھائی کی دوستی اور ابو کی سخت مزاجی کی وجہ سے ابو امی کے خاندان والوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ سجاد کا ہمارے گھر آنا بھی ان کو گوارا نہ تھا لیکن بیٹے کی خاطر چپ تھے کہ سجاد کی اس سے دوستی تھی۔ جب میری شادی کا مسئلہ چھیڑا۔ امی سے کہا کہ مجھے چاند سے شادی کرنی ہے آپ ابو سے بات کریں کیونکہ چاند کی بھی یہی خواہش ہے۔ امی نے سمجھایا۔ بیٹی ! تمہارے والد اس رشتے پر ہر گز نہ مانیں گے اگر میں نے یہ بات منہ سے نکالی وہ چاند کا نہ صرف گھر میں آنا جانا بند کر دیں گے بلکہ اس کی کھلے عام بے عزتی کر دیں گے۔ یہ بات ذہن سے محو کر دو۔ تمہاری شادی وہاں ہو گی جہاں تمہارا باپ چاہے گا۔ جانتی تھی ماں سچ کہہ رہی ہے۔ یہ بھی جانتی تھی کہ والد صاحب میری شادی اپنے رشتے داروں میں کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ بالآخر وہی ہوا، روتی سسکتی رہ گئی۔ چاند کے دل پر بھی قیامت بیت گئی۔ والد صاحب نے بغیر مجھ سے پوچھے اپنے بھائی کے بیٹے ارباز سے بیاہ دیا۔میں ایک بیٹی تھی، ایک مشرقی لڑکی ، فرمانبردار دختر نیک اختر … اپنے خاندان میں میرا رول تھا کہ خاموشی سے بزرگوں کے فیصلے کے سامنے سر جھکادوں۔ مجھے اپنی زندگی کے سب سے بڑے فیصلے کے بارے میں کوئی بات کرنے کا حق نہ تھا، اعتراض کرنے کی جرات نہ تھی۔ مجھ کو کبھی بھی یہ حق نہیں دیا گیا تھا۔

سہاگ رات جب میرے تایا زاد نے گھونگٹ اٹھایا، دل رو رہا تھا اور میں ضبط کئے بیٹھی تھی۔ وہ میرے دل کی کیفیت سے قطعی لا علم تھے ، اداس چہرہ دیکھ کر پوچھا۔ زمانی بیگم کیا تم مجھ سے شادی پر خوش نہیں ہو۔ کیا جواب دیتی اس وقت سچ بولنے سے زہر کا پیالہ پی لینا بہتر تھا۔ میں نے کہا۔ میکے سے وداعی کا دکھ ہر لڑکی کو ہوتا ہے لیکن آپ سے شادی میرے لئے خوشی کی نوید ہے۔ وہ مطمئن ہو گئے۔ آنسو دل کی اتھاہ گہرائیوں میں چھپا کر میں ان کی خوشی کی خاطر مسکرادی۔ مگر یہ کوئی نہیں جان سکتا کہ جب دل رور رہا ہو آنسوئوں کو چھپا کر مسکرانا کتنی بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ والدین کو جو بیٹیاں دکھ دیں اس سے تو اچھا ہے کہ وہ پیدا ہی نہ ہوں یا پھر پیدا ہوتے مر جائیں۔ میں اب ہر ایک کو یہی کہتی تھی در حقیقت میرے اس بیان میں میرا وہ درد بولتا تھا جو روئیں روئیں میں بس گیا تھا اور اب مجھ کو اس درد کے ساتھ جینا تھا۔ زندگی کا سب سے بڑا سمجھوتا کرنا تھا۔ خود کو بھلا دینا تھا، چاند کو بھی بھلانا تھا اور چاند کو تو بھلانا ناگزیر تھا۔ وقت کی راکھ میرے جلتے ارمانوں پر گرتی رہی۔ میں نے خود فریبی میں جینا سیکھ لیا، سجاد کے ساتھ خوش رہنے لگی اور سسرال والوں سے گھل مل گئی۔ خاطر داریوں میں کوئی کسر نہ چھوڑتی تھی اور اپنے شوہر کو مجازی خدا سمجھ کر ان کے پیروں کی خاک ہو رہی تھی۔ ارباز نے بھی میری قربانیوں کی قدر کی۔ مجھ سے پیار کیا۔ سر آنکھوں پر بٹھاتے۔ وہ میری اتنی قدر کرتے تھے کہ کبھی چاند کے بارے میں سوچتی بھی تو شرم آجاتی کہ اتنے اچھے شوہر کو خیالوں میں دھوکا دینا بھی گناہ کے مترادف تھا۔ چاند نے کیسے صبر کیا ہو گا کیونکر مجھے بھلایا ہو گا۔ بھلا بھی سکایا نہیں مجھے نہیں معلوم لیکن ایک خاندان تھا۔ شادیوں میں آمنا سامنا ہو جاتا تھا۔ تب اس کی اتری صورت دیکھ کر دل میں کسک جاگ اٹھتی تھی۔چہرہ تو دل کا آئینہ ہوتا ہے۔ اس کا چہرہ میرے بچھڑ جانے کے علم میں ایسا ہو گیا تھا جیسے جما ہوا آنسو ، جیسے کسی نے زندہ لبوں سے روح کشید کرلی ہو۔ وہ زندہ کب لگتا تھا، یوں لگتا تھا جیسے کوئی مرا ہوا شخص زندہ لوگوں میں چل پھر رہا ہو۔ میں چاند کے جذبات کو اچھی طرح سمجھتی تھی۔ اس کی دلی حالت سے بخوبی واقف تھی لیکن کبھی اس کی طرف التفات نہ کیا۔ اچٹتی نگاہ سے بھی نہ دیکھا کہ کہیں وہ غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائے۔ ایسا نہ ہو اس کا سویا ہوا درد جاگ اٹھے اور خوابیدہ طوفان ہم کو کسی تباہی کے کنارے تک لے جائے۔ عورت جب ماں بن جاتی ہے تو وہ دلیر بھی ہو جاتی ہے لیکن بہت بزدل بھی، میں اب تین بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ ممتا نے مجھے میرے ماضی کی یادوں سے دور لا پھینکا تھا۔ اب میں تھی اور میرے پیارے پیارے بچے تھے۔ ان کی محبت اور پرورش میں گم ہو گئی تھی۔ چاند اور اس کی یاد  میرے حافظے کی گھٹائوں میں تحلیل ہو چکی تھی۔

تین بیٹوں کے بعد بھی میرے شوہر کی یہی آرزو تھی کہ ایک اور بیٹا ہو اور ہم چار سپوتوں کے ماں باپ بن جائیں لیکن اب بچے پالنے کے کٹھن مراحل سے گزرتے ہوئے میں گھلنے لگی تھی۔ چاہتی تھی کہ ایک بیٹی ہو جائے بس۔ چار بچے ہم کو بہت ہیں، اللہ تعالی سے یہی گزارش کرتی تھی کہ اس بار بیٹی دینا۔ مجھے حسرت نہ رہے کہ میری کوئی بہن نہیں ہے تو بیٹی بھی نہیں ہے۔ سچ ہے کہ ایک بہن ضرور ہونی چاہئے اور کوئی ماں، بیٹی کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ میں نے بھی بڑی دعائوں سے ندا کو پایا تھا۔ اپنے رب سے گڑ گڑاتی تھی کہ اس بار میری گود میں وہ رحمت ڈالنا جس کو قرۃ العین اور آنکھوں کی ٹھنڈک کہا جاتا ہے۔ مجھے اللہ تعالی نے قرۃ العین عطا کر دی، میں نے اس کا یہی نام رکھا مگر سجاد کہتے تھے کہ بلانے میں یہ ایک مشکل سانام ہے، ہم بیٹی کو ندا کہہ کر پکاریں گے۔ قرۃ العین جب بڑی ہوئی اس کا نام ندا پڑ گیا۔

اب میں بھی اسے ندا بلاتی تھی۔ وہ میرے دل کی ہی نہیں آنکھوں کی بھی ٹھنڈک تھی۔ اسے دیکھ دیکھ کر جیتی تھی۔ بیٹیوں کی محبت بھی اس کے سامنے ماند پڑ گئی تھی۔ اس گڑیا کو ہر دم سجا کر رکھتی، اس کے لئے خوبصورت فراک بناتی۔ گڑیوں کے انبار لگا دیے تا کہ وہ ان سے کھیلے اور مسرور رہے۔وقت کے ساتھ ندا بڑی ہوتی گئی، اس کارنگ روپ نکھرتا گیا۔ وہ میری ہم شکل تھی مجھے اس میں اپنا عکس دکھائی دیتا تھا لیکن وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت تھی۔ میری جوانی کی تصویر تھی وہ۔ ندا ان دنوں نویں کلاس میں تھی جب میرے ماموں کے گھر سے ان کی بیٹی کی شادی کا بلاوا آیا۔ اس بار ماموں اور ممانی خود میرے شوہر کے پاس آئے اور اصرار کیا کہ ہم ان کی بیٹی ماہ جبیں کی شادی میں ضرور شامل ہوں۔ میں نے لاکھ عذر کیا وہ نہیں مانے۔ تب سجاد نے کہا ایسی ضد ا چھی نہیں۔ آخر وہ تمہارے ماموں ہیں۔ بزرگی میں تم کو مدعو کرنے آئے ہیں، ان کی خوشی میں شریک ہونے میں کیا ہرج ہے۔ سجاد کے اصرار پر میں انکار کیسے کرتی ، ہم ماہ جبیں کی شادی میں چلے گئے حالانکہ شادی کے بعد میں کبھی ماموں کے گھر نہ گئی تھی۔ بعد مجھے شادی میں شرکت پر کوئی اعتراض نہ تھا معاملہ تو دل کا تھا۔ یہ چاند کا گھر تھا اور اس کی سب سے چھوٹی بہن کی شادی تھی۔ میں چاند کے گھر نہیں جانا چاہتی تھی ، اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میرے اندر ایک چور چھپا بیٹھا تھا اور میں دل کے چور سے ڈرتی تھی کہ چاند کے روبرو جائوں آنکھیں چار ہو جائیں اور کوئی پر اناز خم کھل جائے۔

کچھ لوگ اپنی محبت کو قصہ پارینہ سمجھ کر بھلا دیتے ہیں۔ کچھ کے دل پر ایسے نقوش بن جاتے ہیں جیسے پتھر پر لکیر پڑ جائے جس کو مٹانا بس کی بات نہیں ہوتی۔ میرا دل گرچہ پتھر کا ہو چکا تھا لیکن لکیر مٹانے کے لئے شاید بہت سے جنم درکار تھے۔ شادی والے روز چاند کے گھر میں ایسی جگہ بیٹھی تھی جہاں زیادہ بھیڑ نہ تھی۔ میرا جی گھبرانے لگا۔ دور سے کئی بار اس کی جھلک نظر آئی، وہ صحن میں ادھر ادھر آجا رہا تھا۔ اس کی نگاہیں مجھے ڈھونڈ رہی تھیں۔ اچانک وہ میرے سامنے آکر بیٹھ گیا، کہنے لگا۔ سلام کر لینے میں تو کوئی ہرج نہیں۔ سلام کا مطلب جانتی ہو ؟ یعنی تم پر سلامتی ہو ، اور تم پر بھی۔ میں جواب دیا۔ اتنے میں ندا آکر بیٹھ گئی اور پوچھنے لگی یہ کون ہیں امی۔ یہ چاند ہیں بیٹی۔ ہاں میں چاند ہوں گڑیا جو کبھی نظر آتا ہے اور کبھی بادلوں میں چھپ جاتا ہے۔ ان ذو معنی باتوں کا مطلب میری بچی نہ سمجھی اور اس نے کہا۔ یہ چاند ماموں ہیں نا ۔میں نے جواب میں گردن ہلا دی۔ وہ اٹھ کر چلی گئی مگر چاند نے جانے کا نام نہ لیا تو میں گھبرانے لگی کہا۔ چاند اب تم چلے جائو یہاں سے کیوں بیٹھے ہو۔پندرہ برس بعد تم کو دیکھا ہے۔ کتنا انتظار کیا ہے تمہاری ایک جھلک دیکھنے کا۔ ابھی سے جانے کا کہتی ہو۔ میں کانپ گئی۔ چاند خدارا ایسی باتیں نہ کرو۔ بھلا وہ سارا فسانہ جو ماضی کے اوراق میں کہیں گم ہو چکا ہے۔ وہ کم نہیں ہوا ہے۔ میں نے اس کتاب کو اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔ جانتی ہو اتنے برس کا کشٹ میں نے کیسے کاٹا۔ ہر لمحہ مر مر کر جیا ہوں اور جی جی کر مرتا رہا ہوں۔ مجھے غور سے دیکھو اب بھی کیا میں تم کو زندوں میں نظر آرہا ہوں۔ تم زندوں میں نہیں ہو اور میں زندان میں سانس لے رہی ہوں۔ اسی لئے کہتی ہوں کہ بیتی باتیں بھول جائو ، ہم جیسے ہیں جہاں ہیں خدا کی مرضی سے ہیں۔ ہم ایسے ہی ٹھیک ہیں اور یہ مزید بر باد ہونے سے اچھا ہے۔ تم ٹھیک ہو تو تم جانو مگر میں تو ٹھیک نہیں ہوں۔ دیکھو میں نے ابھی تک تمہاری یاد میں شادی نہیں کی ہے۔ اگر ٹھیک ہو جاتا تو گھر نہ بسا لیتا۔اس کی باتوں سے میر ادم گٹھنے لگا سوچا یہ نہیں اٹھنے کا میں ہی اٹھ جائوں یہاں سے۔ کسی نے باتیں سن لیں تو میری دنیا میں زلزلہ آجائے گا۔

میں وہاں سے اٹھ کر صحن میں آ گئی۔ سبھی شادی کی رونقوں میں کھوئے تھے ، کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا کدھر جا بیٹھوں تبھی زینہ پر چڑھ گئی سوچا تھوڑی دیر چھت پر جا کر سانس لیتی ہوں۔ چاند گھر سے باہر چلا جائے تو نیچے چلی جائوں گی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری بیٹی نے مجھ کو چھت پر جاتے دیکھ لیا ہے۔ وہ اپنی ہم جولیوں میں گھری ہوئی تھی، میرے پیچھے نہیں آئی لیکن چاند نے میرا تعاقب کیا۔ اس نے بھی مجھے زینہ چڑھتے دیکھ لیا تھا۔ چند منٹ بعد چھت پر آ گیا۔اس نے کہا۔ شکر ہے تم یہاں آگئی ہو۔ بے شک چند گھڑی کی ملاقات ہے مگر آئیڈیل جگہ ہے۔ وہ میرے قریب چار پائی پر بیٹھ گیا اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولا۔ ان ہاتھوں نے مجھ سے کبھی جدا نہ ہونے کا وعدہ کیا تھا اور آج یہ ہاتھ کسی اور کی ملکیت ہیں کسی اور کے ہاتھوں کو انہوں نے مضبوطی سے تھام لیا ہے مجھے بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا ہے۔ بتائو اس بےوفائی کا گلہ کس سے کروں، کیا یہ مجھ سے زیادتی نہیں کہ تمہارے بغیر جینا پڑ رہا ہے جبکہ تمہارے بغیر سانس لینا بھی محال ہے۔ ابھی میں اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑا نہ پائی تھی، اس کی باتوں کا جواب نہ دے پائی تھی کہ اچانک پشت پر کسی کے ہونے کا احساس ہوا، مڑ کر دیکھا تو ندا کھڑی تھی۔ وہ خشمگیں نگاہوں سے اپنی ماں اور اس کے ماضی کو گھور رہی تھی۔ اس نے چاند کا کہا ایک ایک لفظ سن لیا تھا اور اب مجھ سے نزدیک ہو کر بھی بہت دور جا چکی تھی۔

کاش کہ میں جو کہنا چاہتی تھی وہ بھی اپنے کانوں سے سن سکتی۔ چاند کا ہاتھ جھٹک کر یہی کہنے والی تھی کہ اب ایک شادی شدہ عورت ہوں اور یہ تیری میری اتفاقیہ آخری ملاقات ہے اب دوبارہ مجھ سے ملنا اور نہ ملنے کی امید رکھنا اور اب تم چلے جائو۔ الفاظ تو میرے منہ میں رہ گئے ندار وتی ہوئی نیچے بھاگ گئی۔ چاند ساکت تھا اور میں پتھر کا بت بن گئی تھی۔ ہم نے کوئی گناہ نہ کیا تھا اور نہ کسی گناہ کا ارادہ تھا۔ میں اسی لئے شادی میں شریک نہ ہونا چاہتی تھی۔ بیاہتا عورت کو اپنے گھر بار بھی بچوں سے جیسی محبت ہوتی ہے مجھے اس سے کئی گنا بڑھ کر تھی کیونکہ سجاد میرا خیال رکھتے تھے میری عزت کرتے تھے۔ انہوں نے بھی مجھے شکایت کا موقع نہ دیا تھا-اس لئے میں ان کو شکایت کا موقع نہ دینا چاہتی تھی۔ وہ میرے وفادار شوہر تھے تو میں بھی ان کی وفادار بیوی تھی۔ چاند سے یہ ملاقات صیغہ راز رہی، کسی کو علم نہ ہو سکا کہ اس نے چھت پر اس روز دو باتیں مجھ سے کہی تھیں لیکن ندا کے دل میں شگاف پڑ گیا۔ اس نے جو سنا اسے اور میرے رشتے کو تاراج کرنے کو کافی ہو گیا۔ وہ مجھ سے نفرت کرنے لگی۔ مجھ کو ایک بری عورت سمجھنے لگی اور اس نے مجھ سے اس کے بعد بھر پور بغاوت کر ڈالی۔ اب ندا سیدھے منہ بات کرتی اور میری بات کا جواب دینا پڑ جاتا تو حقارت سے جواب دیتی تھی۔ شروع میں اس کا  رویہ ایسا تھا کہ میں شرمندہ ہوتی اور اسے منانے کی کوشش کرتی لیکن پھر وہ دلیر ہوتی گئی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نا فرمانی پر اتر آئی۔ ذو معنی جملے کہہ کر میرادل زخمی کرتی تھی۔ ایک ایسا وقت بھی آگیا جب وہ غلط روش کی طرف چل پڑی میں ماں تھی اس کی بھلائی چاہتی تھی لیکن وہ میری ہر بات کے جواب میں کہتی تھی۔ مجھے کیا نصیحت کرنے چلی ہو پہلے خود کو تو سدھار لو۔ چار جوان بچوں کی ماں ہو کر اپنے آشنا سے چھپ چھپ کر ملاقاتیں کرنے والی عورت مجھے کس بات سے روکتی ہے۔ زیادہ رکاوٹیں ڈالیں تو ابا سے سارا کچا چٹھا کہہ دوں گی۔ بیٹی کے منہ سے اس قسم کی باتیں سن کر میرا کلیجہ شق اور دل لہو لہو ہو جاتا تھا لیکن وہ جواں سال اور منہ زور تھی۔ اس کی جوانی نے مجھے کمزور سے کمزور تر ثابت کر نا شروع کر دیا۔ اب وہ پڑوسی لڑکے ارشد سے ملنے لگی، اس کے ساتھ فون پر میرے سامنے بیہودہ باتیں کرتی اور میں اس کو روک نہ پاتی۔ روکتی تو آنکھیں نکال کر غراتی۔ جو میری مرضی ہو گی کروں گی تم مجھے نہیں روک سکتیں۔ اگر زیادہ رو کا تو ابا کو بتادوں گی تمہارا اور چاند کا تعلق کیا ہے۔ پھر پوچھوں گی کیا ہوتا ہے کسی کو مرضی سے روکنا۔میرے پاس اس کی باتوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ پیار سے سمجھانا چاہا تو اس نے مجھے دھکیل کر پرے کر دیا۔ غصہ دکھا یا تو منہ آگئی۔ غرض ایسا میرا گھیرائو کیا کہ اسے ڈرا دھمکا بھی نہ سکتی تھی۔ وہ کہتی ابا سے ہی نہیں تیرے تینوں بیٹوں سے بھی تیرے ماضی کا فسانہ کہہ دوں گی۔ ابا اور بھائی سبھی تم سے نفرت کریں گے۔

مجھ کو عزت سے پکارنے والی ، مجھ سے والہانہ محبت کرنے والی، میری کوکھ سے جنم لینے والی میری لخت جگر بیٹی نے مجھے حقارت سے دھتکار  کر بے بس کر دیا۔ خود میری نظروں میں دو کوڑی کا کر ڈالا حالانکہ میں نے شادی سے قبل صرف چاند کو پسند کیا تھا۔ میرے اس کے ساتھ کسی قسم کے غلط مراسم نہ تھے اور شادی کے بعد تو اس روز کے سوا کبھی بات بھی نہ کی تھی۔ خدا کی مرضی کہ ذلت میری بیٹی کے ہاتھوں سے لکھی تھی۔ اس نے مجھے خوب بلیک میل کیا اور میں اس ڈر سے بلیک میل ہوتی رہی کہ کہیں وہ منہ پھٹ اپنے باپ اور بھائیوں سے یہ نہ کہہ دے کہ میں چاند سے ملی اور میرا اس سے ماضی میں کوئی واسطہ تھا۔ اے کاش میں جرات کر کے اپنی بچی کو غلط روش پر چلنے سے روک پاتی۔ ایسا نہ ہو سکا وہ رات کو دیوار پھلانگ کر راشد کے گھر کود کر چلی جاتی دونوں شب بھر ساتھ رہتے۔ یوں ندا نے انتقامی کارروائی سے اپنا ایسا بڑا نقصان کر لیا کہ ہم رسوائی کے دہانے پر آکھڑے ہوئے ، ہماری عزت ناموس سبھی کچھ دائو پر لگ گیا۔ را شد تو گھر سے بھاگ گیا اور میں ندا کولے کر لیڈی ڈاکٹروں کی منتوں میں لگی رہی۔ آخر کسی ایک کو ترس آگیا اور اس نے میرے خاندان کی عزت بچالی۔ ندا کو شادی سے قبل ماں بن جانے کی ذلت سے نجات دلوادی مگر اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی کہ اس کے بعد وہ مرتے مرتے بچی۔ اتنے بڑے تجربے کے بعد اسے عقل آگئی کہ اس نے جو منہ زوری دکھائی، خود اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری۔ اس نے میرے ساتھ برا کرنے کی بجائے خود اپنے ساتھ برا کیا۔ مجھ سے بدلہ نہیں لیا تھا خود کو بدلے کی آگ میں جھونک دیا تھا۔ اس واقعے کے ایک سال بعد سجاد نے اس کی شادی اپنے ایک دوست کے بیٹے سے کر دی۔ جو راز تھا وہ تو راز ہی رہا کیونکہ اللہ تعالی کو ہماری عزت بچانی مقصود تھی۔ اس نے ندا کی خطا کا پردہ رکھ لیا تھا۔ اچھا شوہر ملا اچھی سسرال ملی مگر وہ اولاد کی خوشی نہ دیکھ سکی۔ اس میں کوئی ایسا نقص ہو گیا کہ پھر ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی۔

شوہر اور سسرال نے دس برس انتظار کیا بالآخر میرے داماد نے میرے پائوں پر ہاتھ رکھ کر دوسری شادی کی اجازت مانگی۔ میں تو خاموش تھی ندا نے کہا۔ امی جان انہیں اجازت دے دیجئے، میں آپ سے خفا نہیں ہوں گی۔ میں تو بد نصیب ہوں چاہتی ہوں کہ یہ اولاد کی خوشی دیکھ لیں۔ ان کی خوشی میں ہی اب میری خوشی ہے۔ ندا کے خاوند نے شادی کر لی اور دوسری بیوی سے اولاد ہو گئی۔ آج ندا اپنے کئے پر پچھتاتی ہے۔ اب وہ سمجھدار ہو گئی ہے کہتی ہے ماں مجھے معاف کر دو۔ اس وقت مجھ میں عقل کی  کمی تھی، آپ کا بہت دل دکھایا۔ اسی باعث بے اولاد اور نامراد ہوں۔ آپ نے بیٹی مانگی تھی کہ راحت ملے گی اور میں آپ کے لئے راحت کی بجائے کلفت کا سامان بن گئی۔ وہ جب آتی ہے رو کر گلے لگ جاتی ہے۔ ہر بار کہتی ہوں۔ میری بچی میں نے تجھے دل سے معاف کر دیا ہے۔ مگر اسے یقین نہیں آتا، اس کا ایک ہی جواب ہے اگر آپ نے دل سے معاف کر دیا ہے تو پھر مجھے ابھی تک دلی سکون کیوںنہیں ملا ہے۔ جس دن  سکون مل جائے گا یہی سمجھوں گی کہ آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے۔ میں خدا سے یہی دعا کرتی ہوں کہ اے اللہ میری بچی نے نادانی میں میرا دل دکھایا تھا، تو بڑا غفور ورحیم ہے تو بھی اس کو معاف کر دے تا کہ اس کے دل کو سکون آجائے۔ جب تک ندا بے سکون رہے گی میں بھی بے سکون رہوں گی۔ اولاد کی بے سکونی والدین کو بے چین رکھتی ہے۔ خدا کرے میری بچی کو عمر بھر کا چین اور میرا سکھ بھی مل جائے تب میں سکون سے مر سکوں گی۔

Latest Posts

Related POSTS