Saturday, May 4, 2024

Behn Bani Dushman

نعیم ہمارے ابا کے پرانے ملازم کا بیٹا تھا۔ جب یہ گیارہ سال کا تھا ، اس کے ماں باپ زلزلے میں مکان کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو گئے۔ اللہ کی قدرت کہ یہ لڑکا زندہ بچ گیا۔ والد صاحب اسے گھر لے آئے اور اس کی پرورش کرنے لگے ، وہ صرف آٹھویں تک پڑھ سکا۔ گھر کے برابر والد صاحب کا گودام تھا جہاں وہ دکان کا مال اسٹاک کرتے تھے۔ نعیم کو گودام میں رہنے کے لئے جگہ دے دی گئی۔ کھانا وہ ہمارے گھر سے کھاتا۔ گودام کی صفائی اور رکھوالی کے علاوہ گھر کا سوداسلف بھی اس کے ذمے تھا۔ وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ نعیم گبرو جوان ہو گیا۔ اس نے قد کاٹھ شکل و صورت خوب نکال لی تھی۔ والد صاحب کو ایک معاون کی ضرورت تھی اور اس لڑکے کا بھی کوئی نہ تھا تبھی یہ اب ہمارے کنبے کیلئے لازمی ہو گیا تھا۔ پائوں کی جوتی کو کوئی سر پر نہیں رکھتا۔ یہ میری اماں جان کے الفاظ تھے ، وہ خدمت گار کا بیٹا تھا اور اسے خدمت گار ہی رہنا تھا، لہذا والدہ نعیم سے فاصلہ رکھتی تھیں۔ کہتی تھیں میرے گھر میں بچیاں ہیں اور غیر لڑکے کو دہلیز سے باہر ہی کھڑا رکھوں گی، اسے گھر کے اندر آنے کی اجازت دینا غلط ہو گا۔ والد صاحب کو تاکید کردی کہ اب اندر نہیں آئے گا جوان ہو گیا ہے۔ جو کام ہو گا اس کو باہر سے ہی بتادیں گے اور کھانا بھی ڈیوڑھی میں رکھ دیں گے ، اٹھا لے گا اور برتن واپس ڈیوڑھی میں دھر کر دستک دے گا تو ہم خود بعد میں اٹھا لیں گے۔

والد صاحب نعیم سے پیار کرتے تھے لیکن والدہ کی منشاورضا کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری تھا۔ پس جیسا اماں نے کہا ویسا ہی کیا۔ تاہم کبھی کبھار ہم کو اس لڑکے کی ضرورت پڑھی جاتی تھی۔ جب کبھی بھاری سامان ادھر سے ادھر کرنا ہوتا۔ چھت کے جالے صاف کرانے ہوتے یا پھر کوئی سوئیچ وغیرہ درست کرانا پڑتا، امی نعیم کو گھر کے اندر بلا تیں لیکن باجی کو منع کرتیں کہ تم نے اس لڑکے کے ساتھ زیادہ بات نہیں کرنی۔ باجی بھی ایک کایاں تھیں۔ امی کی نظر چوکتی تو نعیم سے باتیں کرنے لگتیں۔ وہ ماں کی بات نہ مانتیں ، ماں کو غصہ آجاتا اور اکیلے میں سمجھاتیں غیر لڑکوں سے زیادہ بات نہیں کرتے ۔ تم اس سے پردہ کیا کرو۔ باجی ثمینہ ان دنوں ایف اے میں تھیں۔ امی جان بیمار ہو گئیں اور یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ بلڈ پریشر کے باعث والدہ کے گردے خراب ہو گئے اور کچھ دن بیمار رہ کر وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ ہمارے لئے یہ صدمہ جانکاہ تھا۔ میں تب ساتویں میں پڑھ رہی تھی۔ امی کی کمی باجی کی بانہوں میں خود کو چھپا کر پوری کرنے کی کوشش کرتی ۔ وہ بھی سمجھدار تھیں، مجھ کو بہت پیار کرتیں۔ یوں بڑی بہن کے شانے سے لگ کر غم آدھا رہ جاتا تھا۔

ایف اے کے پیپرز دینے کے بعد میری یہ بہن گھر بیٹھ گئی۔ چھوٹے بہن بھائی سنبھالنے کی خاطر قربانی دی تو ہم بھی اپنی بہن پر انحصار کرنے لگے اور ان کو بڑا سمجھنے لگے ۔ وہ کھانا پکاتیں، ہمارے کپڑے دھو کر استری کرتیں اور ہم کو تیار کر کے اسکول بھیجتیں ، اپنے والد کی بھی خدمت کرتیں۔ لگتا تھا کہ ماں کا خلاء باجی کے پیار نے پر کر دیا ہے ورنہ تو شاید ہم کو والدہ کی محرومی ختم کر دیتی۔ آٹھویں میں ہوش سنبھال لیا تو اپنی اس محسن بہن کو کسی اور کھیل میں الجھا ہوا پایا۔ والد صبح کام پر نکل جاتے اور رات گئے لوٹتے، میں اور آسیہ اسکول چلی جاتیں، ہمارا بھائی بھی پڑھنے چلا جاتا۔ گھر پر باجی اکیلی ہو تیں تو وہ چھت سےگودام میں جھانک کر نعیم کو آواز لگا کر گھر کے اندر بلا لیتیں ۔ کسی کام کے بہانے سے اور پھر تنہائی کی ان ملاقاتوں نے ایک نئے ناٹک کا روپ دھار لیا۔ اتفاقاً کبھی میں اور آسیہ اسکول سے جلد آ جاتے اور کبھی رفیع بھائی تو نعیم کو ہم گھر کے اندر بیٹھا پاتے۔ شروع میں دھیان نہ گیا۔ رفتہ رفتہ میرے دل میں عجب وسوسے سر اٹھانے لگے کہ یہ روز کیوں گھر میں ہوتا ہے جبکہ امی ہمیشہ باجی کو منع کرتی تھیں کہ اس کے سامنے نہ جایا کرو۔ اس کے ساتھ زیادہ بات نہ کیا کرو۔ نعیم کا اس طرح ہر وقت موجود رہنا ہم کو ناگوار گزرنے لگا۔ جب ہم نا سمجھ تھے کسی بات کو خیال میں نہ لاتے تھے، جوں جوں عقل آئی گئی، نعیم کو باجی کے ساتھ بے تکلفی سے گفتگو کرتا پا کر دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ ہم جانتے تھے کہ وہ رشتہ دار نہیں ہے ہمارا ملازم ہے ۔ کبھی امی ابو نے اسے ہم لوگوں کے درمیان گھلنے ملنے نہ دیا تھا، اس کی حیثیت ہمیشہ نوکر کی سی رہی تھی۔

بھائی ہم دونوں بہنوں سے چھوٹا تھا۔ میں ہی بڑی تھی تبھی زیادہ تفکر مجھی کو ہوا۔ ابا کی وجہ سے چپ تھی کہ ان کو دکھ نہ پہنچ جائے لیکن باجی کے لچھن دیکھ کر دل جل کے خاک ہوا جاتا تھا۔ پہلے باجی ہمارا بہت خیال رکھتی تھیں لیکن اب نعیم کی خاطر ہم کو بری طرح نظر انداز کرنے لگی تھیں۔ جب وہ ہوتا خوب اس کی خاطر تواضع کرتیں، اچھا کھانے کو دیتیں اور ہم کو ڈانتی ڈپٹتی تھیں … کہ ٹھہر جائو بھوک سے مرے تو نہیں جا رہے۔ وہ نعیم کو ترنوالے کھانے کو دیتیں اور ہم بیٹھے منہ تکا کرتے۔ باجی کے اسی رویہ نے ہم تینوں کو ان کے خلاف کر دیا۔جب میں نویں میں تھی زیادہ الجھائو میں رہنے لگی اور ایک روز جرات کر کے بہن کو جتلا بھی دیا کہ باجی دیکھو تم جو کر رہی ہو ٹھیک نہیں ہے، باز آجائو ورنہ ابا سے کہہ دوں گی۔ اس نوکر ذات کو تم گھر میں مت بٹھایا کرو اور عمدہ کھانے بھی پیش نہ کیا کرو۔ ورنہ یہ اپنی اوقات سے باہر آجائے گا تو ہم سب کے لئے مصیبت بن جائے گا۔ باجی نے اس دن مجھے بہت لعن طعن کی کہ افسوس ہے تمہاری سوچ پر ۔ پڑھ لکھ کر جاہل رہ گئی ہو۔ کیا ہمارا مذہب اس بات کا درس نہیں دیتا کہ امیر ، غریب سب ہی انسان برابر ہوتے ہیں اور تم مجھے غرور سکھا رہی ہو۔ نعیم نوکر ہے تو کیا ہوا، ہے تو ہماری طرح کا انسان اتنی حقارت اچھی نہیں۔ میں حقارت نہیں کر رہی باجی بلکہ آپ کو احتیاط سے کام لینے کا کہہ رہی ہوں۔ ابا کی لاعلمی میں کیوں اس غیر آدمی کو گھر کے اندر بٹھاتی ہو جبکہ اماں بھی فاصلہ رکھتی تھیں اور اس کو گھر میں نہیں گھساتی تھیں، اپنا نہیں تو اپنی بہنوں کا خیال کر لو۔ یقیناً جب ابا کو اس بات کا علم ہو گا وہ بہت ناراض ہوں گے اور کبھی نہ کبھی تو ان کو علم ہو ہی جائے گا۔ باجی پر میری تنبیہ کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ہم تو یوں بھی مجبور تھے کہ چھوٹے تھے ہم کو اور گھر کو وہی سنبھالتی تھیں۔ لیکن اب جبکہ میں اچھا برا سمجھنے لگی تھی تو کیسے چپ رہتی۔ میں نے بھی کہہ دیا گر باز نہ آئیں تو سب کچھ ابا سے کہہ دوں گی۔ پھر تم کو ماریں یا گھر سے نکال دیں میں نہیں ذمہ دار… لیکن اب مجھ سے اور زیادہ کچھ برداشت نہ ہو گا۔ جب دیکھا کہ میرے تیور کڑے ہیں آپے سے باہر ہو گئیں، جوتا اٹھا کر مارنے لگیں۔ اس پر میرے دل میں تو جیسے آگ کی بھڑک اٹھی۔ پہلے تو میں ان کو محض ڈرا رہی تھی اب قسم کھائی کہ جو ہو سو ہو، ابا سے ضروران کی شکایت کروں گی۔ شام کو ابا آئے تو میرا منہ سوجا ہوا تھا۔ آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ انہوں نے پیار سے پوچھا۔ ہماری بیٹی کو کیا ہوا ہے کیوں آنکھیں سوجی ہیں ؟ میں تو بس پھٹ پڑی اور جذبات میں آ کرابا کو بتا دیا کہ باجی روز نعیم کو بلا کر بٹھا لیتی ہیں ، اسے کچن میں بٹھا کر گرم گرم کھانے پیش کرتی ہیں۔ ہم تو اسکول ہوتے ہیں جب آتے ہیں یہ موجود ہوتا ہے ۔ یہی بات مجھے اچھی نہیں لگتی، اب نعیم جائے گا یا پھر میں اس گھر میں نہیں رہوں گی۔

کہنے کو تو یہ سب کہہ گئی لیکن ابا کی طرف نہ دیکھا کہ وہ تو بس تیورا کر رہ گئے تھے۔ اسی وقت گھر سے نکل کر گودام کی طرف گئے اور نعیم سے کہا کہ ایک منٹ میں یہاں سے دفع ہو جائو اور پھر کبھی اپنی شکل مجھے مت دکھانا۔ جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں چھید کرتے ہو۔ نجانے کیونکر انہوں نے خود پر قابو پایا جو نعیم کو جانے دیا ورنہ اتنے غصے میں تھے کہ خود میں ڈر گئی تھی کہیں اس کا خون نہ کر دیں۔ نعیم اس وقت چلا گیا ، خدا جانے کہاں۔ میں اب پچھتائی کہ جلد بازی میں ابا کو بتا کر باجی کی بے قدری کرادی تھی۔ جیسی بھی تھیں ہم کو تو محبت دے رہی تھیں، دیکھ بھال اور ہمارے سارے کام کرتی تھیں۔ تعلیم ہماری خاطرچھوڑی۔ اتنی قربانی دی تا کہ ابا کہیں دوسری شادی کر کے سوتیلی ماں نہ لا بٹھائیں۔ اب برے دنوں نے مجھے گھیرا۔ ابا کا بس نہ چلتا تھا کہ باجی کو کنویں میں دھکا دے دیتے اور وہ اٹھتے بیٹھتے مجھے کوستیں کہ کم بخت بہن ہے کہ ڈائن مجھ سے میرے باپ کی شفقت اور محبت چھین لی ہے۔ ناگن میں تو ہر وقت تجھ پر نچھاور ہوا کرتی تھی اور تو نے یہ صلہ دیا ہے کہ مجھے باپ کی نظروں سے گرادیا۔ نعیم سے باتیں ہی کرتی تھی نا، کبھی کوئی غلط حرکت کرتے تو نہیں دیکھا تھا پھر اتنی سی بات کو بڑھا چڑھا کر کیوں ابا سے جڑ دیا۔ میں بھی انسان ہوں۔ کہیں آتی جاتی نہیں۔ ہر وقت تم لوگوں کی سیوا کرتی رہتی ہوں۔ تنہائی سے اکتا کر نعیم سے دو باتیں کرنا کیا اتنا بڑا گناہ تھا کہ تو نے اس بیچارے یتیم سے رہنے کا ٹھکانہ بھی چھین لیا ، اب نجانے وہ کہاں مارا مارا پھرتا ہو گا۔ بہت گناہ ہو گا صبیحہ دیکھ لینا تجھے تیرا بھی حال برا ہو گا اور تو بھی ایسے در بدر ہو گی کہ اس کی بد دعا عمر بھر تیرا پیچھا کرے گی۔ یہ ظلم بہت مہنگا پڑے گا جو تو نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ جوں جوں وہ مجھے کوستیں میں پریشان و پشیمان ہوتی ۔ نعیم تو پھر پلٹ کر نہ آیا اور نہ اس کا کچھ اتا پتا رہا۔ میں نے روتے پیٹتے بی اے کر لیا، سبھی ایک اچھا رشتہ آگیا، ابا نے جھٹ پیٹ میری شادی کر دی۔ باجی بیچاری ابھی تک قربانی کا بکرا بنی ہوئی تھیں کہ ایک چھوٹی بہن اور بھائی باقی تھے جن کی دیکھ بھال انہیں کرنی تھی۔ کچھ رشتہ داروں نے میرے والد کو صلاح دی اب تم دوسری شادی کر لو تا کہ گھر سنبھالنے والی آجائے اور پھر تم ثمینہ کی شادی کر دینا۔ والد بھی چاہتے تھے کہ باجی ثمینہ کی شادی کر دیں لیکن کوئی اچھار شتہ نہیں مل رہا تھا اور وہ اسی کوشش میں تھے کہ ادھر بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہوں تو پھر اپنی شادی کے بارے میں سوچیں۔ انسان سوچتا کیا ہے اور ہوتا کیا ہے ۔ ابا کو کسی نے باجی کے لئے رشتہ بتایا اور جس روز وہ لڑکا دیکھنے لاہور جارہے تھے، پتوکی کے قریب ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ وہ جانبر نہ ہو سکے اور ہم کو تقدیر نے ایک اور زخم لگادیا۔ میں تو اپنے گھر میں خوش اور آباد تھی لیکن اب بڑا مسئلہ میری باجی ثمینہ ، چھوٹی بہن اور بھائی کا تھا جو اکیلے نہ رہ سکتےتھے۔ عدنان بہت انسان دوست تھے اور وہ مجھے بے حد چاہتے تھے ، جب ان سے اپنے بھائی بہنوں کی مجبوری بتائی، بولے کہ ان سب کو یہاں لے آئو اور اپنے پاس رکھ لو۔ میں نے کہا کہ ایسا درست نہ ہو گا، میرے والد صاحب کا ذاتی مکان ہے وہ اسی میں رہتے بھلے لگتے ہیں، مکان کو تالا لگ جائے گا اور لوگ بھی آپ کو یہی کہیں گے کہ بیوی کے رشتہ دار پال رہے ہو۔ بہتر یہ ہے کہ ہم ہی کچھ عرصہ ان کے پاس جاکر رہ لیتے ہیں جب تک کوئی ایسا رشتہ باجی کے لئے نہیں مل جاتا کہ جس کو گھر داماد بننے کی شرط قبول ہو۔

عدنان نے میری بات مان لی اور ہم اپنے گھر سے والد صاحب کے گھر منتقل ہو گئے۔ والد صاحب نے کافی رقم باجی اور رفیع کے نام کرائی ہوئی تھی لہٰذا انہیں خرچے کی تنگی تو نہ تھی لیکن تحفظ ضرور چاہئے تھے۔ باجی میرے اور عدنان کے ساتھ رہنے پر خوش تھیں کہ اب ان کو ڈر نہ لگتا تھا اور بہت سے مسائل سے بچ گئے تھے۔ عدنان ہر طرح سے میرے بھائی اور بہنوں کا خیال رکھ رہے تھے۔ میں البتہ والد کے گھر آ کر کچھ بے آرام ضرور ہوئی تھی کیونکہ میرا اپنا گھر آرام و راحت کا گہوارہ تھا، جہاں نوکر چاکر سبھی سہولیات میسر تھیں، عدنان کی مجھ سے محبت دیکھ کر ہر کوئی مجھ پر رشک کرتا تھا۔ واه ری قسمت باجی کے لئے ابھی تک کوئی موزوں رشتہ نہ ملا لیکن چھوٹی بہن نے ایف اے کر لیا تو اس کی شادی عدنان نے اپنی بہن کے بیٹے سے کرا دی۔ رفیع نے بھی آٹھویں پاس کر لی اور اس کا سلیکشن آرمی کی اکیڈمی میں ہو گیا وہ جہلم چلا گیا۔ اب گھر میں باجی میں اور عدنان رہ گئے۔ میں نے باجی سے اصرار کیا کہ اب آپ ہمارے گھر چل کر رہو ، ہم بہت دن آپ کے پاس رہ لئے ۔ میرا ایک یہ بھی مقصد تھا کہ وہ میرے محل نما گھر میں رہیں گی تو میرے خاوند کے اسٹیٹس کے مطابق ان کے لئے کوئی اچھا رشتہ آ جائے گا۔ والد صاحب کا گھر تو ایک متوسط طبقے کے رہائشی علاقے میں بنا ہوا تھا اور ان کی وفات کے بعد ان کا حوالہ بھی نہ رہا تھا۔ رشتوں میں لوگ ایسی باتوں کو بھی تو مد نظر رکھتے ہیں۔ باجی میرے گھر ہمارے ساتھ رہنے لگیں۔ ہمارے ساتھ رہتے ہوئے یہاں ان کو احساس ہوا کہ مجھے تو دنیا کی دولت مل گئی ہے ، شوہر کے پیار کا خزانہ ۔ عدنان کی محبت میرے لئے بڑا سرمایہ تھا جس سے میرا گھر رشک جنت تھا۔ وہ دل ہی دل میں کڑھنے اور مجھ سے حسد کرنے لگیں۔ کاریں، بنگلہ ، زر، زیور سبھی کچھ تو میرے پاس تھا۔ میں شہزادیوں کی طرح رہنے لگی۔ نوکر چاکر میرے آگے پیچھے ہاتھ جوڑے رہتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے دو بیٹیوں سے بھی نواز دیا لیکن میری بہن کے نصیب کے پھول نہ کھلے کئی بار رشتے کی کوشش ہوئی لیکن بات بنتی اور پھر ٹوٹ جاتی۔ اللہ جانے کیا وجہ تھی، حالانکہ میں اور عدنان خلوص دل سے چاہتے تھے کہ باجی ثمینہ اب اپنے گھر کی ہو جائیں۔ ان کی شادی کی عمر نکلی جاتی تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا، بہت کوششوں کے باوجود ان کارشتہ نہ ہو سکا اور ان کی شادی کی عمر نکل گئی۔ میں تو خوش اور مطمئن اپنے بچوں کی چہکاروں میں گم تھی لیکن مجھ سے کئی برس بڑی بہن تنہائی کی آگ میں جھلس رہی تھی۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ جب میں عدنان کے قریب ہوتی ہوں اور ہم پیار و محبت سے بات کرتے ہیں باجی کھو سی جاتی ہیں۔ اب تو اکثر وہ ہم کو ہنستے بولتے دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھرتی تھیں اور ان کے چہرے کا رنگ ہی بدل جاتا تھا۔ تبھی مجھے باجی کی اور زیادہ فکر لگی اور میں نے ان کو خوش دیکھنے کی خاطر عدنان سے کہا کہ آپ بچوں اور باجی کو لے کر سیر کو چلے جایا کریں۔ تیسرے بچے کی آمد آمد تھی اس وجہ سے میری طبیعت خراب رہتی تھی اور گھر سے باہر نکلنا میرے لئے دو بھر ہو رہا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ میں نے عدنان کو مجبور کیا کہ بچوں کو مری کی سیر کرالائیں، میں نہیں جاسکتی باجی کو لے جائیں ۔ انہوں نے بہت کہا کہ بغیر تمہارے سیر کا کیا لطف آئے گا۔ میں نہ مانی، دراصل تو میں باجی کو خوش دیکھنا چاہتی تھی کیونکہ ان دنوں وہ بہت بجھی اور اداس رہتی تھیں۔ بس اسی دن سے میری خوشیوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا اور میری بربادی کا آغاز ہوا۔ سیر سے واپسی پر میری بہن کا موڈ، مزاج کچھ اور تھا اور عدنان کی نظریں بھی بدلی بدلی تھیں۔ وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ اس رشتے کو میں شک و شبہ سے بالاتر سمجھتی تھی جو میری بہن اور میرے شوہر کے درمیان تھا۔ عدنان ایسے پیار کرنے والے شوہر جس پر ایک بیوی پورا پورا بھروسہ کر سکتی تھی جبکہ باجی نے تو مجھے بہت پیار دیا تھا۔ ماں کے گزر جانے کے بعد ان کی یاد کو اسی بہن کی محبت نے بھر اتھا لیکن آج یہ کیا کہ دونوں ہی مجھ سے نگاہیں ملاتے ہوئے شرمارہے تھے۔ میں حیران اور خاموش تھی۔ تحمل سے کام لیا خود کو سمجھا لیا کہ سگی بہن پر شک و شبہ نا قابل معافی جرم ہے۔ معمول کے کاموں میں لگ گئی لیکن باجی کے رنگ ڈھنگ بنائو سنگھار سے دل کو دھڑکا سا لگ گیا خدا جانے کیوں جی کو بےسکونی کھارہی ہے۔

تیسرے بچے کے جنم دن میں اسپتال میں تھی۔ جب گھر لوٹی تو یہ گھر میرا نہ رہا تھا۔ عدنان نے معافی مانگی اور کہا تمہاری بہن کا قصور ہے میں نے تو کبھی ایسا سوچا نہ تھا لیکن اب جو ہو چکا ہے اس کو بتائے بغیر میرے ضمیر کا بوجھ ہلکا نہ ہو گا اور بڑھتا جائے گا۔ انہوں نے جو کہا سن کر سناٹے میں رہ گئی۔ جس قدر ماتم کرتی کم تھا۔ کبھی بہن کی جانب دیکھتی تھی تو کبھی شوہر کی طرف دیکھتی تھی۔ دکھ تو یہ تھا کہ باجی کو اپنے اس قبیح فعل پر کوئی دکھ ، کوئی شرمندگی نہ تھی۔ دل عدنان کو دھتکارتا تھا، پھر بھی انہیں چھوڑنا نہ چاہتی تھی کہ تین بچوں کی زندگی کا سوال تھا۔ لیکن اخلاقی اعتبار سے اب مجھے ان کے نکاح میں نہیں رہنا تھا کیونکہ اب میرا اپنے شوہر سے کوئی ناتا نہ رہا تھا۔ مجھے ان کا گھر چھوڑنا ہی پڑا۔ انہوں نے مجھے طلاق دی اور میں اپنے والد کے گھر آگئی کہ جہاں عرصہ سے تالا پڑا ہوا تھا اور باجی نے عدنان سے نکاح کر کے میرا گھر سنبھال لیا. میری جنت پر حقدار بن گئیں۔ انہیں میرے لئے ذرا بھی ملال نہ تھا اور نہ میرے بچوں پر ان کو رحم آیا۔ میں دن رات یہی سوچ سوچ کر حیران ہوتی اور گھلتی رہتی ہوں کہ اس قدر قریبی رشتوں کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔

Latest Posts

Related POSTS