Monday, April 29, 2024

Roh Ko Qarar

گل بہار اس بازار کی زینت تھی اور اس کے حسن کے چرچے دور دور تک تھے۔ چاند سا مکھڑا، صندل سا بدن، گلاب کی رنگت اور بگلے کے پروں سے گرم و نازک ہاتھ ۔ جب وہ سچ سنور کر بیٹھتی تو پائوں سفید کبوتروں کی جوڑی جیسے لگتے تھے۔ ہمارے محلے کے ایک دولتمند شخص نواب سبحانی اکثر گل بہار کے حسن کی بہار سے پیار کا دامن بھرنے اس کے کوٹھے پر جایا کرتے تھے۔ انہی پیار بھری شب باشیوں کے نتیجے میں گلزار نے گل بہار کے کوٹھے پر جنم دیا تو نواب صاحب کے اوسان خطا ہو گئے۔ اپنی بیٹی کو کو ٹھے کی زینت بننے سے بچانے کی خاطر خاندان بھر کی مخالفت کے باوجود انہوں نے اس کوٹھے والی سے نکاح کر لیا اور اسے کوٹھے سے اتار کر اپنی نئی کو ٹھی میں لے آئے۔ یہاں بھی اس کے حسن کے چرچے سارے خاندان میں پھیل گئے۔ نواب صاحب ساٹھ کے سن میں تھے اور یہ نو خیز کلی سترہ اٹھارہ برس کی تھی۔ کچھ دن تو دولت اور عیش و عشرت اس کے من کو بھائی۔ پھر ان چیزوں سے جی ابنے لگا۔ نواب صاحب پہلے سے شادی شدہ اور دو بیویوں کے شوہر تھے جن سے سات جوان اولادیں تھیں۔ وہ اپنے فرائض کی عہدہ بر آئی میں گل بہار کو زیادہ وقت نہ دے پاتے تھے اور تنہائی اس گل لالہ کو زہریلے سانپ کی طرح ڈستی تھی۔ بطور ایک پڑوسن اور رشتے دار گلبہار کو دیکھنے گئی تھی۔ چاند چہرے والی حسن پری پھولوں کی لڑیوں سے ڈھکی مسہری پر ایسے سمٹی بیٹھی تھی کہ جیسے تازہ گلابوں کی گٹھری کو اطلس و کمخواب کے ملبوس میں باندھ دیا گیا ہو۔ یہ گلبدن میرے من کو بھائی مگر جلد ہی اس کے حسن کے چرچوں میں اس کی آوارہ مزاجی کے رنگ بھی بھرے جانے لگے ۔ یہ بات نواب صاحب کو کب گوارہ تھی مگر وہ گلزار کی خاطر صبر کا کڑوا گھونٹ بھرے چپ تھے۔

زندگی بھی تو ایک بے وفا شے ہے۔ حسن تو بے وفا کہلاتا ہے لیکن زندگی اس سے بھی زیادہ بے وفا ہوتی ہے ۔ ایک روز جبکہ نواب صاحب اپنے ذاتی گرائونڈ میں پولو کھیل رہے تھے۔ گھوڑے سے گر کر زخمی ہو گئے اور یہ حادثہ پھر ان کیلئے سفر آخرت کا باعث بن گیا۔ حادثے سے ان کی ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ آئی تھی۔ آپریشن ہوا تو شفا یابی کے بجائے جان چلی گئی۔ اب گل بہار بیگم آزاد تھی۔ وہ نواب صاحب کے ایک دوست فتح یاب کے ساتھ گھر سے چلی گئی۔ گلزار کو بھی ہمراہ لے گئی۔ نواب صاحب کے خاندان والے تو پہلے ہی اس کے خلاف تھے انہوں نے ان کے جانے کی پروانہ کی اور بڑے بیٹے نے کوٹھی کو اپنی تحویل میں لے کر تالا لگا دیا۔ فتح یاب کے ساتھ بھی گلبہار کا زیادہ دنوں نباہ نہ ہو سکا کہ وہ خاتون خانہ بن کر رہ نہ سکتی تھی۔ اسے کسی مرد کی طرف سے معاشرتی پابندیاں قبول نہ تھیں لہٰذا بہت جلد بھاری حق مہر دے کر انہوں نے گلبہار سے نجات پالی۔ علیحدہ گھر لے کر وہ ایک آزاد اور خود مختار زندگی گزارنے لگی۔ گلزار سیماب صفت ماں کی بیٹی تھی۔ ہوش سنبھالتے ہی ایسار نگ روپ نکالا کہ گلی محلے کے لڑکے پروانوں کی طرح گھر کے چکر لگانے لگے تاہم ماں نے یہ تہیہ کر لیا کہ وہ بیٹی کو زیور تعلیم سے آراستہ کرے گی، کیونکہ یہ ایک نواب کی نشانی تھی اس قیمتی نشانی کو سرعام وہ دلدل کا پھول نہ بنانا چاہتی تھی تا کہ اس کا اپنا بڑھاپا بھی محفوظ ہو جائے ، اسی کارن تو اس نے شرفا کے محلے میں گھر خریدا تھا۔ جہاں اس کے ایک دو چاہنے والوں کو ہی ملاقات کیلئے رسائی ملتی تھی۔ اس نے گلزار کو ایک اچھے سکول میں پڑھایا اور جب اس نے شاندار نمبروں سے میٹرک پاس کر لیا تو کالج داخل کرا دیا۔ گلبہار نے گلزار کے ایک چچا سے رابطہ رکھا ہوا تھا تا کہ نواب صاحب کے رشتہ داروں کو باور کرا سکے کہ اس نے ان کے خاندان کے ناموس کو مٹی میں نہیں ملایا ہے بلکہ نواب صاحب کی بیٹی کو پڑھا لکھا دیا ہے تا کہ اس کی شادی کسی اچھے اور عزت دار گھرانے میں ہو سکے۔ دراصل وہ یہ بھی چاہتی تھی کہ نواب کی جاگیر و جائیداد سے گلزار کو بھی اس کا شرعی حق مل جائے اور ددھیال میں اگر خاندان والے کوئی اچھا رشتہ لائیں تو بیٹی کو بیاہ کر اس کے باپ کے خاندان میں واپس بھیج دے۔

عقل تو عمر کے ساتھ آتی ہے۔ پہلے عقل سے کام نہ لیا نو عمری تھی باقی عمر سنبھالی نہ گئی۔ نواب صاحب کے مرحوم ہوتے ہی اس کے گھر سے نکل بھاگی تھی ، اب بڑھاپے کی چاپ سنائی دے رہی تھی اور بچی جوان ہو گئی تھی اپنی اس غلطی کا ازالہ بھی کرنا چاہتی تھی۔ تب ہی بیٹی کی عزت کو بہت سنبھالتی تھی یہ کانچ کی گڑیا غلط ہاتھوں میں جا کر ٹوٹ نہ جائے۔ گلزار لاکھ نگرانی میں پلی تھی لیکن جوانی دیوانی ہوتی ہے، ایک روز یونیورسٹی جاتے ہوئے اس کی نگاہیں ایک نوجوان سے چار ہو گئیں اور دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کر لیا۔ اس نوجوان کا نام بخت یار تھا اور وہ ایک زمیندار گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ دونوں ایم اے کے طالب علم تھے اور روز ملاقات ہوتی تھی تو محبت بھی گہری ہوتی گئی۔ گلزار نے بخت یار کو اپنے خوابوں کا مرکز بنا لیا لیکن اسے یہ علم نہ تھا کہ وہ شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ ہے۔ بخت یار کا تعلق ایک گائوں سے تھا اور نو عمری میں رواج کے مطابق وٹے سٹے میں شادی ہو گئی تھی۔ وہ تعلیم مکمل کرنے کی خاطر شہر آیا ہوا تھا۔ یہاں اس کے والد نے ایک دوست کی کوٹھی جو خالی پڑی تھی اسے رہائش کیلئے مہیا کرادی تھی اور گاڑی بھی لے دی تھی۔ وہ صرف چھٹیوں میں ہی گائوں جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ محبت میں مزید رنگ بھرتا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں کو زمانے کا ڈر نہ رہا آزادانہ ملنے لگے۔ بے اختیار بخت یار کو اس گل تر سے عشق ہوتا جاتا تھا۔ یہ نہ سوچا کہ ان کی باگیں تو باپ کے ہاتھوں میں ہیں جب کھینچ لیں تب کیا ہو گا۔

وہ اسے اب ہمیشہ کیلئے اپنانا چاہتا تھا مگر مجبور تھا خاندانی بندشیں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ بہت سوچتا تھا تو دماغ چکرانے لگتا تھا۔ اس کشمکش میں بھی یہ بہت دور نکل گئے۔ تمام فاصلے مٹ گئے ۔ تن من کی دنیا ایک ہو گئی مگر وہ فاصلے نہ مٹ سکے جو سماج نے حائل کئے تھے ۔ گلزار اب پریشان رہنے لگی، وہ بار بار کہتی بخت یار تم روز کل پر بات کو ٹالے جاتے ہو اور میری جان پر بنی ہے۔ وہ بھی پریشان تھا مگر اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کیا کرے اور اس مسئلے کا کیا حل نکالے ۔ عام حالات میں ایک دولتمند گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ گل بہار کو اسے اپنا داماد بنانے پر کوئی اعتراض بھی نہ تھا۔ آج نہیں تو کل اس کی حالت ماں پر کھلنے والی تھی۔ گلزار ایک بہت بڑی مصیبت میں گرفتار تھی جس کا حل سوائے شادی اور کوئی نہ تھا۔ بات ہی ایسی تھی کہ اب بخت یار بھی شادی کے معاملے کو آج کل پر نہیں ٹال سکتا تھا۔ بہت سوچ بچار سے اس کے سر میں درد رہنے لگا وہ اپنے ایک دوست ڈاکٹر کے پاس گیا اور سر درد کی شکایت کی پھر باتوں باتوں میں اس کو سارے مسئلے سے آگاہ کر دیا۔ دوست ڈاکٹر کی بہن بھی ڈاکٹر تھی اس نے اپنی بہن سے کہا کہ اس کے دوست کی بیوی امید سے ہے الٹرا سائونڈ، مشین سے چیک کر کے بتائو کہ ہونے والے بچے کی جنس کیا ہے۔ خاتون ڈاکٹر نے گلزار کو چیک کرنے کے بعد رپورٹ دی کہ وہ ایک بیٹی کو جنم دے گی … اس انکشاف پر بخت یار اور زیادہ پریشان ہو گیا۔ اس کے ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ گئے۔ گلزار تو پہلے ہی زندہ دیوار میں چنی جاچکی تھی۔ مسئلہ کا حل نکالنا تھا وہ جانتی تھی کہ جہاں کی مشکوک نظروں سے بچنے کا ایک ہی حل ہے کہ بخت یار اس کا ہاتھ اس کی ماں سے مانگ لے۔ ایم اے کے سالانہ امتحان ہو چکے تھے اور اب دونوں کی راہیں جدا جدا ہونے کو تھیں۔ گلزار کا اصرار شدت اختیار کرنے لگا تو بخت یار کو لگا کہ کسی دن اس کے دماغ کی کوئی نس پھٹ جائے گی اور وہ کوئی فیصلہ پھر بھی نہ کر سکے گا۔ یہ ان کا یونیورسٹی میں آخری دن تھا، آج گلزار اسے اپنے گھر چلنے پر اصرار کر رہی تھی، بخت یار نے کہا اچھا گاڑی میں بیٹھو چلتے ہیں۔ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے اور بخت یار نے ایک انجانی منزل کی سمت کار چلادی۔ گلزار نے آنسو پونچھ ڈالے اور خوشی سے مسکرادی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میں تم سے شادی کروں گا۔ ضرور کروں گا۔ مجھے اپنی بہن کے گھر اجڑنے کا غم نہیں اپنے سسر اور بہنوئی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ بس ہم آج ہی شادی کر لیں گے ۔ وہ خوشی سے کھل اٹھی، جو یہ سمجھتی تھی کہ بخت یار اس سے شادی کرنے سے کتراتا ہے کیونکہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا۔ اب اسے یقین ہو گیا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ آج بخت یار اس سے ایک عجب سی سرمستی میں باتیں کرتا جارہا تھا اور گاڑی کو بہت سبک رفتاری سے چلا رہا تھا۔ گلزار نے کہا کہ کدھر جا رہے ہو؟ میرے گھر چلونا۔ وہ بولا چلتے ہیں۔ دو چار منٹ ذرا دریا کی سیر تو کرتے چلیں۔ تازہ ہوا لے لیں۔ کیا خبر تمہاری والدہ ہی رشتہ دینے سے انکار کر دیں اور یہ ہماری ملاقات آخری ہو۔ کیسی باتیں کر رہے ہو بخت یار تم ہوش میں تو ہو … اگر انہوں نے انکار بھی کیا تو میں کب پیچھے پلٹنے والی ہوں تمہارے ساتھ نکل بھاگوں گی۔ تم تو خواہ مخواہ پریشان ہو گئی ہو۔ ارے بھئی۔ میں کب پیچھے ہٹنے والا ہوں۔ اب تو جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے۔ ہم مرنے کی باتیں کیوں کریں جبکہ ایک خوبصورت زندگی ہماری منتظر ہے۔

وہ اسے حسین خواب دکھانے لگا۔ مگر ایک بے یقینی کے لہجے میں جیسے کہ اسے خود بھی ان خوابوں پر یقین نہ ہو جیسے وہ خود سے جھوٹ بول رہا ہو… اسے اور خود کو بہلا رہا ہو۔ ایک دم سے رفتار تیز کر دی۔ خدا کیلئے بخت یار ہوش میں رہو دریا کے پل پر اتنی تیز گاڑی کیوں چلا رہے ہو ؟ مرنے مارنے کا ارادہ ہے کیا ؟ جب جان دینی ہی ٹھہری تو پھر ڈرنا کیسا ؟ اگر تمہاری زندگی میری ہے تو پھر وہ میری ہی تو ہے۔ اگر میرے ہاتھوں سے یہ زندگی چلی جائے گی تو ہماری محبت بھی امر ہو جائے گی۔ فضول باتیں نہ کرو اور گاڑی روکو ورنہ ہم دریا میں جا پڑیں گے۔ پل پر تیز گاڑی چلانا منع ہے۔ تم کو اعتبار نہیں ہے مجھ پر … یہ لو۔ اس نے عین پل کے کنارے گاڑی اور تیز کر دی یہاں تک کہ ہاتھ اسٹیئرنگ پر بے قابو ہو گئے اور اس مذاق میں ان کی کار سامنے سے آتی بس سے جا ٹکرائی گاڑی پل کی ریکنگ کو توڑتی دریا میں جا گری۔ اس حادثے کے چشم دید بہت سے لوگ تھے ، وہ بھاگ کر موقع پر آگئے لیکن … کوئی بھی ڈوبتی لڑکی کو نہ بچا سکا۔ وہ فضا میں ہاتھ بلند کرتی رہی مگر دریا کی تند موجیں اسے موت کی وادی میں کھینچ لے گئیں۔ بخت یار۔ البتہ تیرتا ہوا کنارے تک آگیا لیکن پھر وہ تھک گیا اور ڈوبنے لگا تب ہی ایک ملاح نے کشتی سے چھلانگ لگا کر اسے ڈوبنے سے بچالیا۔ لڑکی کی تلاش کی گئی۔ جلد ہی اس کی لاش کو ایک تنکے کی مانند لہروں نے سطح پر اچھال دیا۔ پوسٹ مارٹم میں انکشاف ہوا کہ وہ امید سے تھی۔ کچھ دن تفتیش کا سلسلہ چلا پھر یہ داستان ماضی کا حصہ بن گئی۔ گل بہار کے گھر ذرا سی دیر کو بھی اس کی بیٹی کا مردہ بدن نہیں لایا گیا تھا۔ اسپتال سے اسے قبرستان لے گئے تھے۔ وہ ساتھ گئی اور بین کرتی جاتی تھی اس کے بین عرش تک جارہے تھے کہ یہی اکلوتی بیٹی اس کی زندگی کا واحد سہارا تھی۔ اس حادثے کے بعد گل بہار کو چپ لگ گئی۔ وہ جب تک زندہ رہی اس نے کسی سے بھی کلام نہ کیا جیسے اس کی قوت گویائی اس کی بیٹی کے ساتھ فرشتہ اجل لے گیا تھا۔ بیٹی کے بعد وہ صرف پانچ برس جی سکی اور ایک روز اپنے گھر میں مردہ پائی گئی۔ شاید کہ اسے دل کا کوئی مرض تھا تب ہی تنہائی میں ایک رات اس کا ہارٹ فیل ہو گیا ہو گا۔ اور وہ اس بے رحم دنیا سے منہ موڑ کر چلی گئی۔ گل بہار نے اپنی زندگی میں ہی اپنی بیٹی کی قبر کے ساتھ اپنی قبر بھی بنوالی تھی جس میں اناج بھر کر قبر کو بند کرادیا تھا۔ پڑوسیوں کو وصیت کر دی تھی کہ جب میں مروں مجھے میری بیٹی کے برابر بنی ہوئی قبر میں دفن کیا جائے۔

جب پڑوسیوں نے اسے اس کی بیٹی کی قبر کے برابر دفن کیا تو شاید گل بہار کی بے چین روح کو قرار آ گیا ہو گا مگر پڑوسیوں کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ سنا ہے آج بھی جب سال میں ایک بار بخت یار گلزار کی قبر پر فاتحہ کیلئے جاتا ہے تو وہ گل بہار کی قبر پر فاتحہ خوانی کا اہتمام ضرور کراتا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ کہ شاید اس طرح اس کی محبوبہ کی روح کو قرار مل جائے۔

Latest Posts

Related POSTS