Kambukht Ramju

کیوں ری میری چڑیا پھر کیسا چل رہا ہے کھیل, بالکل اے ون استاد – کاجل بھری سیاہ آنکھوں کو مٹکاتی سونی نے فون ایک کان سے ہٹا کر دوسرے کان پر لگاتے ہوئے خالص اسی انداز میں جواب دیا۔ شاباش تو پھر شیشے میں اتار رہی ہے نا ان لوگوں کو؟ اوئے کیا مطلب ہے تیرا- تجھے خبر ہے کہ میں انہیں اپنے بس میں کر چکی ہوں- اب تو آخری آخری داؤ چل رہے ہیں ۔ واہ میری سونی بلبل تجھ سے یہی امید تھی ۔ دیکھ غازی! اب تو بھی مجھے دلا دے ناں وہ ناک کی کیل خالص سونے کی چمکنے والی ۔ اس کا موڈ خوشگوار ہوتا دیکھ کر سونی نے بھی فرمائش کر ڈالی۔ ایک کیل کیا چیز ہے تجھے میں سونے میں تول دوں گا، تو بس اپنا کام جاری رکھ۔ ایک مکار سی مسکراہٹ نے مستقل اس کے چہرے کا احاطہ کر رکھا تھا- میری طرف سے تو بےفکر ہو جا۔ بیگم صاحبہ تو میرے علاوہ کسی اور کے ہاتھ کی بنی چائے ہی نہیں پیتی ۔ کل پتا ہے کیا ہوا ؟” ہاں جلدی بتا۔ وہ بے صبری سے بیچ میں ہی بول اٹھا تھا۔ بیگم صاحبہ اور بڑے صاحب میرے بنائے پھلکوں پہ فدا ہیں۔ کل بیگم صاحبہ نے پھلکوں کے فوٹو لے لے کر اپنی سہیلیوں کو دکھائے تھے- کیا بات ہے تیری غازی خوش ہوا۔ تجھے تو اب مری کے پہاڑوں کی سیر پہ بھی لے جانا پڑے گا۔ ہائے سچ کتنا مزا آئے گا تیرے ساتھ برف پر بھاگنے کا- اس وعدے پر سونی کھل ہی گئی ، غازی نے کھل کر ہنستے ہوئے فون بند کیا تھا۔

رمجو ادھر آ، لے پکڑ سو روپے اور دوڑ کے اسٹور سے ایک پاؤ ماش کی دھلی دال تو لے آ۔” بیگم صاحبہ کیا وہ دال دھو کے دیں گے؟” ان سے نوٹ پکڑ کر رمجو نے جو یہ احمقانہ سوال کیا وہ بیگم رعنا صدیقی کو تاؤ دلانے کے لیے کافی تھا۔ ہائے میں تیرے صدقے جاؤں نہیں دھو کے ہی کیوں بلکہ پکا کر بھگار بھی لگا کے دیں گے وہ دکان والے- رمجو کے چہرے پہ حماقت تو برس ہی رہی تھی اب ساتھ حیرت بھی شامل ہو گئی ، وہ ان کی بات کو سچ سمجھ بیٹھا تھا- یوں کھڑا میرا منہ کیا دیکھتا ہے جا لے بھی آ جلدی مگر یاد رکھ دھلی ماش کی دال- شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے بڑے رعب سے انہوں نے حکم صادر کیا تو وہ بے چارہ سہم کر پیچھے کو ہٹا اور تیزی سے باہر کو بھاگ گیا۔ ایک تمہارے ابا اور دوسرا یہ نامراد ہر وقت مجھے جلانے پہ تلے رہتے ہیں۔ وہ بڑبڑاتی رمشا اور زینب کے پاس چلی آئیں- دونوں اپنے ٹیسٹ کی تیاری میں مگن تھیں۔ امی آخر ہوا کیا ہے؟ رمشا نے کتاب سے نظر ہٹا کر ماں کو دیکھا جو اس وقت جھنجھلائی ہوئی تھیں- ایک آنکھ نہیں بھاتا یہ لڑکا مجھے۔ امی وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس میں میرے ابا کا کیا قصور ہے؟ زینب کی ہمدردیاں ہمہ وقت ابا کے ساتھ ہوتی تھیں- نہیں تو اور کس کا قصور ہے، انہوں نے زینب کو دیکھا,  جو تمہارے ابا کا نہیں میں نے بہتیرا کہا، منت کی کہ یہاں سے ہی کوئی دیکھ بھال کے اچھا سا ملازم رکھ لیتے ہیں مگر نہیں مانے اور اگلے ہی روز مجھے بتائے بغیر گاؤں جا کے یہ نمونہ اٹھا لائے میرے لیے۔ نرا درد سر اور بدھو، نکما الگ- رمشا نے انہیں الجھن میں دیکھ کر سمجھانا چاہا- امی اب آہی گیا ہے تو چھوڑیں ، ٹینشن نہ لیں۔ مگر وہ آج ہی سارا غبار نکالنے کے ارادے سے بیٹھی تھی- کیسے نہ لوں ٹینشن، ہماری کالونی کے سب گھروں میں ملازم ہیں ادھر رضا صاحب کا نوکر ہے کیسا چست اور ہوشیار سا، پھر ساتھ ہمسائے میں ہی دیکھ لو لڑکی ہو کر بھی کام کی پھرتیلی، مردوں کی طرح گھر کے کام کرتی ہے اور باہر کے بھی۔ سامنے چوہدری صاحب کے نوکر کی بھی سنو تنخواہ وہ ڈرائیور کی لے رہا ہے مگر ہر فن مولا۔ کیا کیا گن نہیں اس لڑکے میں ۔ بھئی الیکٹریشن کے کام میں وہ طاق، پلمبری میں اسے مہارت، پھر مالی کا کام الگ اسی نے سنبھال رکھا ہے۔ وہ دونوں ماں کے اس دکھ سے بخوبی واقف تھیں اس لیے اب خاموشی سے سن رہی تھیں۔ کل فری سے بات ہوئی ، بڑی تعریفیں کر رہی تھی اپنے نئے نوکر کی۔ اس کی خوش نصیبی دیکھو کیا شاندار کھانا بناتا ہے وہ کہ بندہ انگلیاں چاٹ بیٹھے، ہریسہ ، شب دیگ تک تو وہ بنالیتا ہے ساتھ پورے گھر کو بھی سنبھالتا ہے۔ فری کو کوئی ٹینشن ہی نہیں، دو بار سہیل کے باس کے گھر جا کر بھی کھانا پکا کے آیا ہے۔ اچھا، میں تبھی سوچ رہی تھی کہ سہیل خالو کی پروموشن کیوں اتنی جلدی ہو گئی۔ خیر اب ایسی بھی کوئی بات نہیں بڑا محنتی ہے فری کا میاں۔ رمشا کے مذاق کا بُرا مانتے ہوئے انہوں نے جلدی سے کہا۔ امی! آپ آرام سے ابا کو سمجھا ئیں وہ مان جائیں گے ۔ زینب نے انہیں سنجیدگی سے مشورہ دیا۔  یہی تو رونا ہے کہ وہ بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں کچھ خود سیکھ جائے گا باقی کا بیگم آپ ہی اسے سکھا سمجھا دیں۔ یہ واپس نہیں جائے گا۔ جیسے میں نے یہاں ٹریننگ اسکول کھول رکھا ہو۔ یہ گاؤں سے اجڈ گنوار لڑکے لاتے جائیں اور میں انہیں سدھارتی رہوں، دماغ کھپاؤں، اس سے پہلے والے شیدو کو سکھا کر کیا ملا، جب کام لینے کا وقت آیا تو یہ اسے لے جا کر فیکٹری میں بھرتی کرا آئے۔ باہر گیٹ دھڑا دھر بج رہا تھا۔ لو آ گیا تمہارے ابا کا چہیتا ۔ اب پتا نہیں کیا اٹھالایا ہے ۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میں کہے دیتی ہوں لڑکیو! اگر وہ دھلی دال نہ لایا تو میں نے بھی اسے دھو کے رکھ دینا ہے۔ ان کی بات سن کر رمشا اور زینب دونوں ہی کھلکھلا کے ہنس دیں۔

بیگم صاحبہ یہ کیسے ڈالتے ہیں اس میں, صاحب نہانے گئے ہیں۔ وہ صبح کچن میں ناشتہ بنانے میں لگی ہوئی تھیں کہ رمجو شلوار اور کمر بند اٹھائے ان کے سر پہ کھڑا دانتوں کی نمائش کر رہا تھا۔ کیوں تمہیں نہیں ڈالنا آتا، اس میں کون سی سائنس چلتی ہے۔ اتنا بڑا ہو گیا تو مگر کچھ نہ سیکھا۔ طنز سے ان کی بھنویں سکڑ گئیں۔ شلوار اس کے ہاتھ سے جھپٹ کر انہوں نے اسے ناگواری سے دیکھا تو وہ خجل سا ہو گیا۔ وہ جی گاؤں میں تو اماں کے بعد میری بہنیں ہی سب کام کر دیتی تھیں میرے۔ مجھے تو اٹھ کر پانی بھی نہ پینے دیتی تھیں۔ رمجو کی آواز شاید بھرا گئی ادھر کوئی لاڈ نہیں چلنے والے تیرے, اب سیکھ لے یہ سارے کام- کس قدرسرد مہری تھی ان کے لہجے میں، جلدی جلدی ہاتھ چلا کر انہوں نے کمر بند ڈال کے شلوار اس کی طرف اچھال دی اور پھر سے چولہے کے آگے جا کھڑی ہوئیں۔ بندہ ملازم اپنے آرام کے لیے رکھتا ہے نہ کہ دردسر بنانے کے لیے ۔  رمجو کے جاتے ہی انہوں نے خود کلامی کی۔

ایک روز تو صدیقی صاحب بھی اس کے اناڑی پن کا شکار ہو گئے ۔ بیگم رعنا چند گھنٹوں کے لیے میکے گئیں۔ پیچھے سے رمجو صاحب کے لیے چاہئے بنا لایا کپ سے گھونٹ بھرتے ہی وہ بلبلا اٹھے- یار یہ شکر کی جگہ تم نے اس میں نمک کیوں ملایا ہے، چائے نہ ہوئی تیزاب ہو گیا۔ گھبراہٹ میں اس سے کوئی جواب ہی نہیں بن پا رہا تھا۔ ابا! کیا بات ہو گئی۔ رمشا اور زینب دونوں کمرے سے باہر چلی آئیں۔ رمجو ایک طرف کھڑا نگاہیں جھکائے کھسیانی سی ہنسی ہنسے جارہا تھا ۔  بیٹا ان کو چکھ کر کم از کم بندہ فرق ہی سمجھ لیتا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہہ رہے تھے۔ اس پر خفا ہونے کے بجائے ان کا انداز ناصحانہ تھا۔ تھا۔ جی صاحب آگے سے دھیان رکھوں گا، آپ کو اور بنا دوں ۔ وہ بڑے ادب سے پوچھ رہا اچھا ٹھیک ہے، بنا لاؤ۔ ان کے دھیمے سے لہجے میں پیار چھپا تھا وہ کسی تابعدار بچے کی طرح سر ہلاتا کچن میں چلا گیا۔ بابا ابھی تو شکر کریں کہ امی گھر پہ نہیں ہیں ورنہ اس کی تو جو شامت آنی تھی ساتھ میں آپ کو بھی باتیں سننی پڑتیں۔ ہاں جی میں اس کو گھر لانے کا جو خطا وار ہوں، کیا کریں اب یہ سب سہنا تو پڑے گا اس کی خاطر رمشا کے مذاق پہ انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ اس کے اچھے خاصے نام کو تمھاری ماں نے بگاڑ رکھا ہے۔ پتا نہیں کیا ملتا ہے انہیں نام بگاڑ کر… امی کو اسے کام سمجھانے کے لیے بڑا دماغ کھپانا پڑتا ہے ابا تو وہ بھی چڑ کر بولے جاتی ہیں۔ اللہ ان کے دل میں رحم ڈال دے اس کے لیے۔ رمشا کی بات پر صدیقی صاحب نے فکرمندی سے کہا۔

اے لڑکے ادھر دیکھ نیا آیا ہے کیا۔ وہ چھت پہ کھڑا کپڑے پھیلا رہا تھا کہ برابر والی چھت پہ جھاڑو لگاتی سونی نے اسے مخاطب کیا۔ انداز خاصا بے باک تھا۔ جی مختصر سا جواب دے کر وہ اپنا کام کرتا رہا۔ بھدو کہیں کا وہ ہنس دی۔ یہ بتا کتنی تنخواہ پہ آیا ہے، گھر کی مالکن زیادہ کام وغیرہ تو نہیں لیتی ۔ کڑوے مزاج کی تو نہیں کہیں ۔ سونی نے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے تھے۔ نہیں جی ، ایسا کچھ نہیں ہے۔ صاحب لوگ میرے ساتھ بہت اچھے ہیں۔ وہ اسے مکمل نظر انداز کیے بدستور کپڑے پھیلاتا رہا ، جس پر سونی کو غصہ آگیا۔ ہوں آیا بڑا نیک پارسا، آج کل کے نوکر بھی ممی ڈیڈی ہوتے ہیں۔ وہ بڑبڑائی۔ کمر پہ ہاتھ جمائے وہ اسے دیکھے گئی- مجال ہے جو رمجو نے ایک بار بھی اسے نظر اٹھا کے دیکھا ہو اور وہ سکون سے کپڑے پھیلا کر خالی ٹوکری اٹھا کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔

کچن سے کام وغیرہ نبٹا کر بیگم رعنا اندر آ ئیں تو صدیقی صاحب ٹی وی کے آگے بیٹھے تھے رمجو بھی نیچے کارپٹ پر پاؤں پسارے ان کے ساتھ ٹی وی پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ آپ بٹھائے رکھیں اسے اپنے گھٹنوں سےلگا کے ۔ وہ صدیقی صاحب پر برس پڑیں۔ کیا ہے جو سامنے چوہدری صاحب کے نوکر کے ساتھ ذرا دیر کو بیٹھ جایا کرے، کوئی کام کی بات کچھ عقل مت ہی سیکھ لے گا، اس کا اپنا ہی فائدہ ہے۔ ان کی آواز خاصی بلند ہو چکی تھی ۔ ساری ذمے داری میری ہی نہیں آپ بھی کچھ سوچیں کہ یہ تھوڑا بہت نل مرمت کرنا، کوئی سوئچ ٹھیک کرنا یا بلب لگانا سیکھ لے گا، اس سے تو کوئی شان میں فرق نہیں آ جائے گا اس کی ، آپ بات تو کریں اس لڑکے سے۔ نہیں بیگم صاحبہ میں اس کے پاس بالکل نہیں بیٹھوں گا وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔ رمجو کا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا تھا۔ لوجی کل کا بچہ جسے چار دن نہیں ہوئے آئے اور لگا اس کالونی میں شرافت کے سرٹیفکیٹ بانٹنے- وہ طنزیہ ہنس دیں تو رمجو اٹھ کر تیزی سے لاؤنج سے باہر نکل گیا۔ بس مفت کی روٹیاں توڑتا رہے تو ٹھیک، کام سیکھنے میں موت پڑ جاتی ہے اس کو۔ وہ کسی لگی لپٹی کی قائل نہ تھیں۔ آپ بھی کسی کسی وقت بہت زیادتی کر جاتی ہیں اس غریب کے ساتھ ۔ صدیقی صاحب بالآخر بول ہی پڑے۔ بن ماں کا بچہ ہے کام بھی سیکھ لے گا۔ ابھی اسے آئے پندرہ دن بھی نہیں ہوئے ۔ ہائے میں نے ایسا کیا کہہ دیا بھلا جو اسے برا لگ گیا۔ جس کی جو صفت ہے وہ تو میں ضرور بیان کروں گی- اپنی غلطی وہ کم ہی مانتی تھیں اس لیے بولتی ہی گئیں- حتیٰ کہ صدیقی صاحب نے بھی ٹی وی بند کر کے آنکھیں موند لیں۔

اکتوبر کا اختتام ہوتے ہی گلابی جاڑے کا آغاز ہو چکا تھا۔ فضا میں ہلکی ہلکی خنکی خزاں کی آمد کا پتا دے رہی تھی۔ صبح ناشتے کے بعد وہ مجھ کو ساتھ لگائے اسٹور کی صفائی میں جتی تھیں ۔ لحاف، بستر اور تکیے سب کو دھوپ لگوانے کے لیے صحن میں چارپائیوں پر بچھا رکھا تھا۔ یکایک گلی سے بہت ساری آوازیں ابھرنے لگیں۔
رمجو جا دیکھ تو باہر کیسا شور ہے۔ ان کے حکم کی تعمیل میں وہ فورا ہی باہر کو بھگا مگر ساتھ ہی گھبرایا ہوا انہیں پکارتا واپس آ گیا۔ ماں جی ماں جی، وہ رکا۔ میرا مطلب ہے بیگم صاحبہ! باہر بہت ساری پولیس کھڑی ہے۔ صدیقی صاحب ناشتے کے بعد ابھی بستر پر ہی محو استراحت تھے۔ بیگم کے بلاوے پر باہر دوڑے، وہ بھی دوپٹہ سنبھالتی پیچھے ہولیں۔

 واردات یہ ہوئی کہ ان کے ہمسائیوں کی ملازمہ سونی اور سامنے چوہدری صاحب کے ڈرائیور نے مل کر دونوں گھروں کے مکینوں کو رات چائے میں نشہ آور چیز پلا کر بے ہوش کر ڈالا اور ان کے گھروں کا سارا قیمتی سامان اور نقدی سمیٹ کر چلتے بنے تھے۔ تشویش اس وقت اور بڑھ گئی کہ دونوں گھروں کے بچوں کو ملا کے تقریباً گیارہ افراد کو تاحال ہوش نہیں آیا تھا۔ اے میرے خدا! یہ میں کیا سن رہی ہوں، ہمسائے میں اتنی بڑی واردات ہو گئی اور ہمیں خبر تک نہ ہوئی ۔ بیگم رعنا نے دہل کر سینہ پیٹ لیا ۔ اور پھر شاہ تاج ٹاؤن کی گلی نمبر سات ایمبولینسوں کی آوازوں سے گونج اٹھی۔ بے ہوش افراد کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے آنے والی ان گاڑیوں سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ گھروں کے اندرعورتوں کے دل ہول ہول جاتے ، چھوٹے بچے مارے ڈر کے ماؤں سے لپٹے جا رہے تھے۔ چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے دور و نزدیک کی گلیوں سے مجمع بھی خوب امڈ آیا تھا۔ آن کی آن میں مختلف ٹی وی چینلز کی گاڑیاں بھی آپہنچیں بلکہ دو ایک چینل والوں نے تو صدیقی صاحب کو بھی پوچھ گچھ کے لیے دھر لیا۔ پولیس نے تفتیش الگ کی۔ آخر کو ہمسائے جو تھے۔ گیٹ کی اوٹ سے اس تمام منظر کو دیکھتی بیگم رعنا دھڑکتے دل کے ساتھ اندر آ بیٹھیں۔ پیچھے پیچھے صدیقی صاحب بھی اندر داخل ہوئے۔ بیگم صاحبہ! اب ہمارے صاحب بھی ٹی وی پہ آئیں گے ۔ رمجو بھولے پن سے انہیں بتا رہا تھا۔ ہم تو بھئی اس ملازمہ کی چائے سے ہی محروم رہ گئے جس کی پوری گلی میں دھوم تھی۔ کیا تھا جاتے جاتے آپ کو بھی اس کی ترکیب بتا جاتی ۔ کن اکھیوں سے انہیں دیکھتے ہوئے صدیقی صاحب نے ذرا قریب ہو کے جملہ کسا۔ سوچ رہا ہوں کہ رمجو کوٹوٹیاں، بلب لگانا اور دنیا داری اب کون سکھائے گا۔ میرا خیال ہے اسے اب چند روز کے لیے فری کے ملازم کی شاگردی میں دے آتے ہیں، کیا خیال ہے آپ کا، آپ کو اس وقت بھی مذاق سوجھ رہا ہے۔ یہ سب کیا ہو گیا ہے۔ وہ ششدرسی بیٹھی تھیں ۔ ہاں بھئی جب گھر کی عورتیں سارا گھر نوکروں پہ چھوڑ کر ہر چیز سے لا پروا، اپنی ہی دلچسپیوں میں گم رہیں گی تو پھر ایسے نتائج کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ وہ یک تک انہیں دیکھتے گئیں- آپ ٹھیک ہی کہتی تھیں آج مان بھی لیا چوہدری صاحب کے ڈرائیور کو، واقعی ہر فن مولا تھا۔ ڈکیتی میں بھی ماہر وارداتیا نکلا۔ صدیقی صاحب بھی بھگو بھگو کر ان پر طنز کے تیر اچھال رہے تھے۔ اب آرام دہ کرسی پر براجمان ہو کر سکون سے اخبار کا مطالعہ کرنے لگے مگر وہ ہنوز اسی حال میں بیٹھی تھیں۔

رمیض بچے۔ وہ صحن میں چوکڑی مارے بیٹھا بڑے جوش و خروش سے صدیقی صاحب کے جوتے پالش کرنے میں مگن تھا جب اس نام پر چونکا۔ جی اماں ۔ بے ساختہ ہی وہ بول اٹھا۔ آج مدت بعد کسی نے اسے پیار سے پکارا تھا۔ بالکل اماں کی طرح، نرم سے لہجے میں گھلی وہی حلاوت ۔ اس نے سر اٹھا کے دیکھا تو سامنے بیگم رعنا صدیقی کھڑی تھیں ممتا کا روپ لیے سراپا شفقت، وہ ادب سے اٹھ کھڑا ہوا۔ رمیض بیٹا! تم بے شک مجھے ماں جی کہہ لیا کرو، مجھے برا نہیں لگے گا ۔ اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر وہ اپنائیت سے کہہ رہی تھیں۔ میں تو جی آپ کو اپنی ماں ہی سمجھتا ہوں۔ اس کی آواز کانپ گئی اور آنکھوں سے بہت سارے آنسو ایک ساتھ لڑھک کر نیچے زمین پر موتیوں کی مانند بکھر گئے۔ ایسے میں ان کی اپنی آنکھیں بھی بھیگ گئیں، جنہیں دوپٹے سے پوچھتی وہ بہن کو فون کرنے چل دی تھیں۔

Latest Posts

Related POSTS