لائبہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کا باپ کلرک تھا اور یہ آٹھ بہن بھائی تھے۔ اتنے بڑے کنبے کے لئے ایک کلرک کی تنخواہ ناکافی تھی۔ اس کے گھر مالی پریشانی رہتی تھی، جس کا اثر سب بچوں پر پڑتا تھا لیکن لائبہ پر سب سے زیاد ہ تھا کیونکہ وہ سمجھ دار اور حساس زیادہ تھی۔ زیبا، لائبہ اور میں بچپن کی سہیلیاں تھیں، میں اور زیبا خو شحال گھرانے سے تھیں۔ ہم نے کالج جوائن کیا تو والدین کو ہماری شادی کی فکر لاحق ہو گئی۔ سب سے پہلے زیبا کی شادی ہوئی۔ میں نے گریجویشن مکمل کیا تب میری شادی ہوئی۔ میری شادی اپنے کزن سے ہوئی۔ شوہر ڈاکٹر تھے، لہذا زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔ لائبہ کی باری سب سے آخر میں آئی۔ چونکہ وہ ایک معمولی کلرک کی بیٹی تھی لہذا کسی اونچے گھرانے میں اس کی شادی ہونا ایک خواب جیسی بات تھی۔ اس کی شادی ایک مسئلہ ہی بنی رہی کیونکہ یہ آٹھ بہنیں تھیں اور دو سب سے بڑی تھی۔ اس کے والدین جہیز بھی نہیں دے سکتے تھے لیکن لائبہ چاہتی تھی کہ اس کی شادی ہماری طرح امیر گھرانے میں ہو۔ اس کی ماں، بیٹی کے ہر رشتے کو رد کر دینے کی وجہ سے بہت پریشان رہتی وہ اسے سمجھاتی کہ بیٹی ، زیادہ کی ہوس اچھی نہیں، ان باتوں کا مگر لائبہ پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ خدا کی کرنی کہ بالآخر لائبہ کے لئے ایک امیر گھرانے کا رشتہ آہی گیا لیکن اس شخص کی عمر پچپن سال تھی۔ دوجوان بیٹے تھے جو بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ باپ سے بھی بڑی عمر کے آدمی سے لائبہ شادی پر راضی نہ ہوئی اور یہ رشتہ بھی لوٹادیا گیا۔ اسی طرح چار سال مزید بیت گئے۔ بالآخر سمجھا بجھا کر والدین نے اسے اس کے ہم عمر کزن کے ساتھ شادی کرنے پر راضی کر ہی لیا۔ یہ ان کا کا اپنا سگا بھتیجا صفدر تھا، گریجویٹ تھا، اچھی شکل وصورت کے ساتھ محنتی تھا اور لائبہ کے والد کے محکمے میں ان کے ساتھ کلرک تھا۔ اس شادی کی لائبہ کو ذرا بھی خوشی نہیں تھی، کار تھی اور نہ نوکر چاکر ، بس صفدر کی مختصر سی تنخواہ میں گزر بسر کرنا تھی۔ اس نے ہم سہیلیوں کو بھی شادی میں نہ بلایا۔ بہر حال محبت کی قدر اس کے دل میں تھی۔ جلد ہی اس نے صفدر کو معمولی تنخواہ اور تمام کم مائیگیوں سمیت قبول کر لیا اور خوش رہنے لگی، البتہ شوہر کو یہ ضرور کہتی تھی کہ صفدر تم کو اتنا تو کمانا پڑے گا کہ ہم اپنا ایک اچھا ساگھر بنا سکیں۔ صفدر تو تھاہی محنتی نوجوان ، لہذا اور ٹائم کرنے لگا۔ وہ غلط کام کرنے سے بہت گھبرانا تھا اور قناعت پسند تھا، سب کچھ بیوی کے لئے بنانا چاہتا تھا، اپنے لئے کچھ نہیں خریدتا تھا۔ بہر حال پانچ سال سکون سے گزر گئے۔ اس دوران انہوں نے بچت کر کے ایک پلاٹ خرید لیا کہ جب خدا استطاعت دے گا تو اس پر اپنا گھر بنا لیں گے۔ ایک روز صفدر کے آفیسر نے اس کو بلا کر کہا کہ میرے اکلوتے بیٹے کی شادی ہے، میں نے سارے اسٹاف کو مد عو کیا ہے، تمہیں بھی مع اہل و عیال میری خوشی میں شریک ہونا ہے۔ اس نے کارڈگھر آکر بیوی کے ہاتھ میں تھما یا اور کہا۔ باس نے مجھے بہت اصرار سے شادی میں بلایا ہے۔ ہم نے اس تقریب میں ضرور شریک ہونا ہے۔ لائبہ نے خوشی خوشی کا رڈلے لیا۔ لفافے سے نکال کر پڑھا اور پھر منہ بنا کر ایک طرف ڈال دیا۔ اس کی شکل پر بارہ بج رہے تھے۔ بیوی کی رونی صورت دیکھ اس نے پوچھا۔ کیا بات ہے ؟ تم کارڈ دیکھ کر خوش نہیں ہو ئیں۔ جب میرے پاس اچھا لباس اور محفل کے مطابق پہننے کے لئے زیورات ہی نہیں، تو میں ایسی شاندار تقریب میں کیسے شرکت کر سکتی ہوں۔ صفدر کے دل کو چوٹ پہنچی۔ بولا۔ تمہارے پاس اتنے اچھے اچھے جوڑے ہیں، تم ان کو پہن کر بے حد۔
خوبصورت ملتی ہو۔ ابھی پچھلے دنوں ہی تم نے جو جوڑا بنوایا تھا، پلیز اسی کو پہن لو۔ وہ بہت اچھا اور قیمتی جوڑا ہے ، تائی نے گلگت سے لا کر دیا تھا تم کو ۔ رہنے دو اپنی تائی کا تحفہ ایسے کپڑے لوگوں کے عام لباس ہوتے ہیں جس کو تم قیمتی کہہ رہے ہو۔ تم نے میری سہیلی زیبا کا وارڈروب نہیں دیکھا، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ یہ مجھے نیچا دکھانے کا کون سا وقت ہے ، اس کا شوہر کروڑپتی ہے اور میں ایک کلرک ہوں۔ میرا اس کا کیا مقابلہ؟ تو کارڈ بھی اپنے جیسے لوگوں کی شادی کے قبول کیا کرو۔ بڑے لوگوں کے دعوت نامے کیوں لے آتے ہو۔ جو تائی والا جوڑا تم پہننے کو کہہ رہے ہو ، میرے پاس اس کی میچنگ کا زیور نہیں ہے۔ صفدر تم سمجھتے کیوں نہیں۔ کچھ دیر تو صفدر سوچتا رہا کہ کیا کرے؟ شادی میں جانا بھی لازم تھا۔ باس نے فون کر کے کہا تھا کہ اپنی فیملی کو بھی ضرور لانا، لہذا اب باس کی خوشی میں شریک نہ ہو نا بُری بات تھی۔ اتفاق کہ اسی وقت زیبا کا فون آگیا اور لائبہ اس سے باتیں کرنے لگی۔ باتوں باتوں میں اس نے شوہر کے باس کے گھر شادی میں جانے کا مسئلہ بھی بتادیا۔ تبھی زیبا نے کہا کہ میرے گھر آجائو اور جو جوڑا پسند آئے ، لے جائو۔ تھوڑی دیر ہی کی تو بات ہوتی ہے شادی میں کپڑے زیور پہننے کی۔ بھلا یہ بھی کوئی مسئلہ ہے۔ زیبا کی بات صفدر نے سنی، اس نے کہا۔ زیبا سے تمہاری بچپن کی دوستی ہے۔ تم اس کے پاس چلی جائو اور اپنی پسند کا ایک جوڑا اور زیور مانگ لو۔ کیا تم اس سے نہیں مانگ سکتیں ؟ بے شک مانگ سکتی ہوں اور وہ تو خود دینے کو کہہ رہی ہے۔ اگرچہ میں نے آج تک اس سے کچھ نہیں مانگا لیکن آج مانگ لیتی ہوں کیونکہ یہ تمہارے باس کے گھر کی شادی ہے اور بقول تمہارے اس نے اصرار کر کے اپنی خوشی میں بلایا ہے تو جانا ہی ہو گا۔ اسی وقت لائبہ اپنے شوہر کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر زیبا کے گھر چلی گئی۔ زیبا سے اپنے وار ڈروب کے پاس لے گئی اور جوڑے دکھانے لگی۔ کہنے لگی۔ یہ سب نئے فیشن کے ہیں ، انہی دنوں سلوائے ہیں ، جو تم کو پسند آئے لے لو۔ لائبہ نے ایک جوڑا نکال لیا، شوخ رنگ، نفیس کپڑے کا، جس پر نہایت حسین کام بنا ہوا تھا۔ زیبا نے اس کے ساتھ کا پرس اور سینڈل بھی نکال کر دیئے ، پھر سیف کھول کر سونے کے کئی سیٹ نکال کر لائبہ کے سامنے رکھ دیئے۔ بولی۔ میچ کر لو اور پسند کر لو۔ اس میں سے کون سا سیٹ اس جوڑے کے ساتھ پہنو گی۔ پھر اس نے خود ہی ایک سیٹ منتخب کر کے اسے دیا۔ کہنے لگی۔ یہ والا ٹھیک رہے گا، سارا کمرہ زیورات کی چمک سے روشن ہو گیا۔ ایساز یور لائبہ نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ دنگ رہ گئی۔ کیا یہ سیٹ لے جائوں ؟ اس نے مجھجکتے ہوئے پوچھا۔ ہاں ماں، لے جائو۔ ذرا احتیاط سے یہ کافی قیمتی ہے۔ یہ کہہ کر زیبا نے ساری چیزیں پیک کر کے ایک چھوٹے سے بریف کیس میں رکھ کر لائبہ کے حوالے کر دیں۔ بس پھر لائبہ کی خوشی کا کیا ٹھکانہ تھا، جیسے اک جہان کی خوشی اسے مل گئی ہو۔ اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ لوگ کیا سوچیں گے ایک معمولی کلرک کی بیوی کے پاس اتنا قیمتی لباس اور بیش قیمت زیورات کہاں سے آئے ہیں۔ اگلے دن، رات کو تیار ہو کر وہ شادی میں پہنچی۔ وہ واقعی اتنا حسین لباس اور زیورات پہنے ہوئے تھی کہ بڑے بڑے امیر گھرانوں کی بیگمات کی نظریں اس پر ٹھہر جاتی تھیں۔ تقریب کے اختتام پر تقریبا رات کے دو بجے وہ گھر کو روانہ ہوئے۔ صفدر خوفنر دہ تھا کہ گھر کا فاصلہ موٹر سائیکل پر طے کرنا ہے اور بیوی نے پرائے زیورات پہن رکھے ہیں، آدھی رات کا وقت ہے۔ خدا خیریت سے گھر تک پہنچادے۔ تمام راستہ اس نے دعا کرتے ہوئے طے کیا۔ بہر حال وہ خیریت سے گھر پہنچ گئے۔ اس وقت رات کے تین بج چکے تھے۔ مگر خیریت کہاں ؟ گھر پہنچ کر لائبہ نے آئینے کے سامنے وہ چادر اتاری جو تمام راستہ لپیٹے ہوئے آئی تھی۔ جو نہی اس نے چادر کو کاندھوں سے ہٹایا، ایک چیخ ماری۔ ہار اس کی گردن میں نہیں تھا، وہ نجانے کہاں گر گیا تھا۔ شادی ہال میں راستے میں اس نے خوف اور مایوسی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ شوہر کی طرف مڑ کر دیکھا اور بولی۔ میرے گلے سے ہار کسی جگہ گر گیا ہے ، اب میں زیبا کو کیا جواب دوں گی۔ وہ رورہی تھی اور شوہر بھی سر پکڑے بیٹھا تھا۔ اگلے روز انہوں نے زیورات کا ڈ بالیا اور اسی جوہری کے پاس گئے جس کا پتاڈبے کی پشت پر لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے ڈبے میں رکھے جھمکے اور انگوٹھی دکھا کر کہا کہ ایسا ہی سیٹ چاہئے۔ وہ دراصل اس کی قیمت معلوم کرنا چاہتے تھے۔ جوہری نے جو قیمت بتائی وہ اتنی زیادہ تھی کہ وہ خود کو بیچ کر بھی یہ قیمت ادا نہیں کر سکتے تھے۔ اس سیٹ میں اصل نگینے جڑے ہوئے تھے۔ وہ واپس آگئے۔ اسی وقت صفدر ایک پراپرٹی ڈیلر کے پاس گیا اور فورا ہی اپنے پلاٹ کا سودا کر نا چاہا۔ ڈیلر بولا۔ ابھی کے ابھی پلاٹ بیچو گے تو اصل قیمت سے کم پیسے ملیں گے۔ آپ کے پلاٹ کی قیمت بڑھ چکی ہے، صبر کر کے بیچو تو زیادہ قیمت ملے گی۔ یہ سن کر لائبہ اپنے والد کے پاس گئی اور ان کو تمام احوال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بھی ریٹائر منٹ کے بعد جو رقم ملی تھی، اس کے پیسوں سے ایک پلاٹ لے کر ڈال دیا تھا۔ کہنے لگے۔ میرا ایک دوست پراپرٹی ڈیلر ہے ، اس سے بات کرتاہوں۔ دو چار دن میں اپنا اور تمہاراپلاٹ بہتر داموں بیکوادیتا ہوں۔ رقم تم اس خاتون کو دے دو کیونکہ اس نے دوستی پر اعتبار کیا۔ عزت اور دوستی سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ اتنی جلدی پلاٹ نہ بک پائے لیکن لائبہ کے تایا جو خاصے پیسے والے تھے ، جب بھائی کی مشکل کا ان کو علم ہوا، انہوں نے ہار کی قیمت کی رقم ان کو دے کر کہا۔ یہ ادھار سمجھ کر لے لو اور جب تک ادا نہ کروگے ، پلاٹ میرا رہے گا۔ جب قرضہ ادا کر دو گے تو اپنے پلاٹ کے حق دار ہو جائو گے ، یہ سمجھو لائبہ کہ میں نے تمہارا اور تمہارے والد کا پلاٹ اپنے پاس گروی رکھ لئے ہیں۔ لائبہ کی تو جان پر بنی تھی۔ اس نے تایا سے رقم پکڑی اور جوہری کے پاس جا کر دونوں میاں بیوی ہار خرید لائے، انگوٹھی اور جھمکے تو موجود تھے۔ اس دوران زیبا میکے چلی گئی تھی۔ جب وہ ہفتے بعد گھر لوٹی تو لائبہ نے فون کر کے کہا۔ کیا میں اب تمہاری امانت دینے آ جائوں ؟ وہ بولی۔ ہاں آجائو ، امی کی طبیعت ٹھیک نہ تھی اسی لئے میں میکے چلی گئی تھی۔ تم نے فون کیا تو ہو گا، میں اٹھانہ پائی ، گھر پر جو نہیں تھی۔ یہ سُن کر لائبہ کی جان میں جان آئی کہ ادھر سے بھی عزت رہ گئی تھی۔ صفدر بیچارا بہت خوفنر دہ تھا۔ وہ ان تکالیف کے بارے میں پریشان تھا جو بیوی کی وجہ سے اب زندگی میں پیش آنے والی تھیں۔ اچھی بھلی پر سکون زندگی لائبہ کی جھوٹی نمود و نمائش کی خواہش کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اب گھر میں وہ پہلے جیسا سکون اور محبت بھی نہ رہی۔ اس کے بعد کی زندگی میں دُکھ ہی دکھ بھر گئے تھے۔ بد قسمتی سے اس کا مستقبل کانٹوں بھرا ہو گیا۔ پہلے جو صفدر کی تنخواہ تھی، وہ خود پر خرچ کرتے تھے ، اب قرضہ ادا کرنا تھا اور قرضہ تو پھر قرضہ ہوتا ہے۔ اب لائبہ کو احساس ہوا کہ اس نے اپنے خاوند کو کس طرح مصیبتوں کے پہاڑ تلے دبادیا ہے۔ صفدر کے والد نے اپنا گھر کرایے پر اُٹھادیا اور خود یہ سب ایک کچی آبادی کے چھوٹے سے مکان میں کرایے پر رہنے لگے جہاں نہ گیس کی سہولت تھی اور نہ پانی کی۔ پانی کے کین مول لینے پڑتے تھے اور برادے کی انگیٹھی پر کھانا بنانا پڑتا تھا۔ کچی آبادی میں گندے پانی کے جو ہڑ اور مچھروں کی بہتات تھی۔ تمام رات سبھی سکون کی نیند کو ترستے تھے لیکن قرض کی لعنت سے نجات پانے کے لئے یہ سب تو سہنا تھا۔ اب لائبہ روز ٹوکری اٹھا کر سبزی اور قصاب کی دکان پر جاتی اور ایک ایک پائی کے لئے جھک جھک کرتی۔ شوہر رات گئے تک کام کرتا اور باپ بچوں کے اسکول کے سامنے کھو کھا لگا کر بسکٹ ٹافیاں بیچنے لگا۔ بہر حال انہوں نے بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا اور زندگی میں سخت کاموں کے ساتھ جینا سیکھ لیا۔ وہ سات سال تک غربت کے غلام بنے رہے۔ بالآخر انہوں نے تایا جی کا قرض اتار دیا۔ اس وقت تک پلاٹوں کی قیمت بھی دگنی چوگنی ہو گئی اور یہ ان پر مکان تعمیر کرنے لائق ہو گئے۔ بھلا ہو تا یا جی کا کہ پلاٹ اپنے پاس گروی رکھ کر ان کو اس وقت کو ڑیوں کے مول بکنے سے انہوں نے بچا لیا تھا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ بُرے وقت میں اپنے ہی کام آتے ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ نمود و نمائش میں مبتلا عورتیں نہ صرف اپنی زندگی کی خوشیاں دائو پر لگاتی ہیں بلکہ شوہروں کے لئے بھی نت نئی پریشانیاں پیدا کر دیتی ہیں